بحرِ مزاح کا شناور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پطرس بخاری

1
265

نسیم اشک

غیر افسانوی نثر میں انشائیہ نگاری ایک اہم اور معروف صنف سخن ہے۔وہ شخصی خیالات و تاثرات جو پر لطف طریقے سے پیش کیا جاتا ہے اور جس کے مطالعے سے ایک نئ بصیرت حاصل ہوتی ہے انشائیہ کہلا تا ہے۔ یہ صنف بھی انگریزی سے اردو میں آئ ہے اور انگریزی میں اسے personal essay یا light essay کہتے ہیں۔ انشائیہ میں ہلکے پھلکے مضامین ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات انشائے میں بڑی حکمت اور فلسفے کے مضامین بھی ہوتے ہیں مگر پیشکش کا انداز خوشگوار ہوتا ہے مضمون نگار ان کہے جملوں کو قاری کے اذہان تک بہ آسانی اور خوش اسلوبی سے پہنچا دیتا ہے۔اس میں مضمون کی سختی نہیں ہوتی مصنف پوری طرح آزاد ہو کر اپنے خیالات کو ،نظریات کو بغیر کسی فنی لوازمات کے، روانی سے پیش کرتا ہے۔کم عمر صنف ہونے کے باوجود انشائیہ اردو ادب میں اپنا ایک خاص مقام بنا نے میں کامیاب ہوا۔
ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق”انشائیہ نگار شئے یا خیال کو اس کے ماحول سے کاٹ کر مقصود بالذات قرار دیتا اور یوں قطرے میں دجلہ دریافت کرتا ہے”
ایسے ہی قطرے میں دجلہ دریافت کرنے والوں میں ایک مستند نام پطرس بخاری کا ہے۔

خود پر ہنسنا اور دوسرےکو ہنسانا اور ہنساتے ہوئے کچھ کہہ جانا جو ہلکے سے دل کے سوئے تاروں کو چھیڑ دے، نہ آسان ہے اور نہ سب کے مقدر کا حصہ ہے۔ذاتی زندگی میں کون پریشان نہیں ہے یہ گردش ارض آج تک کس کو چین دی ہے ؟مگر اس ارض فانی پر کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے ذمے غمزدوں کو ہنسانا ہوتا ہےاور اپنی تعمیری مزاح سے ایک صحتمند سماج کی تشکیل ان کا مقصد۔ پطرس بخاری ایسے ہی ایک تعمیری ذہن، مزاح نگار تھے جنہوں نے اپنے انشائیوں سے مزاح کا معیار اور مقام اردو ادب میں بلند کیا۔

انشائے مضمون کی طرح سنجیدہ نہیں ہوتے اس میں انشائیہ نگار کو موضوع کا نہیں اپنی طبیعت،اپنے احساسات اور جذبات کا خیال رکھنا ہوتا ہے لیکن شرط شگفتگی ،دلکشی اور شادابی کی ہوتی ہے۔ انشائیہ نگار اپنے انشائے میں کوئ عالمانہ گفتگو نہیں کرتا اور نہ کوئی فلسفہ پیش کرتا ہے وہ تو بس اپنے ان خیالات کی ترسیل کرتا ہے جو کسی طور اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اس لئے انشائیہ میں حکمت و دانائی کے رموز ڈھونڈنا مناسب نہیں مگر ہر تحریر کا کچھ نہ کچھ مقصد ہوتا ہی ہے یقیناً انشائیہ نگار بھی کسی نقطہ نظر کے مناسبت سے ہی انشائیہ رقم کرتا ہے۔ انشائیہ میں بے تکلفی،بے ساختہ پن اور غیر سنجیدہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔

مزاح نگاری کا فن بظاہر بہت آسان دکھتا ہے لیکن صحتمند اور معیاری مزاح نگاری آسان نہیں۔مزاح نگاری کے ایسے بے شمار نمونے مل جائے گیں جو کسی کا مزاق اڑا کر یا کسی پر طنز کر کے لکھے گئے ہوں۔ ادب میں ایسے انشائیوں کو کوئی قدر و منزلت حاصل نہیں ۔کوئ قصہ کہانی سنا کر ہنسانا یا لطیفہ پیش کرنا اور جملوں سے مزاح پیدا کرنا دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔اکثر و بیشتر مزاح نگاری میں پھکڑ پن یا یوں کہا جائے ہاتھ دھو کر کسی کے پیچھے پڑ کر اس کی برائیاں چن چن کر نکالنا مقصود ہوتا ہے۔خاص طور سے کسی صنف ادب کو نشانہ بنایاجائےاور کچھ نہ ملے تو کچھ دوسرے کی ذاتی زندگی پر تیکھے کڑوے زہریلے بول بولیں۔ کیا یہ مزاح نگاری کا معیار ہونا چاہئے؟ اگر دل میں کدورت بھری ہو تو کائنات کی ہر شئے بری معلوم ہو نے لگتی ہے۔

اس کا ہر گز ہرگز یہ مقصد نہیں کہ انشائیہ علمی و ادبی فنی لوازمات سے مزین ہو، نہیں بے ترتیبی اور نا مکمل ہونا تو اسکی خاصیت ہوتی ہے۔
دراصل مزاح نگاری کا مقصد تعمیری ہونا چاہئے،جذبہ ہمدردی کا دخل ہونا چاہئے۔صرف تضحیک کا مقصد رکھنا ہنر مندی نہیں۔مزاح نگار کے سینے میں ایک محبت سے بھرا دل ہوتا ہے وہ اپنی بات کو قاری کے گوش گزار کرتے استاد نہیں دکھتا بلکہ دوست دکھتا ہے جو ہنستے ہوئے قاری کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی بات کرتا ہے فرمان نہیں سناتا۔

پطرس بخاری ایک ایسے مزاح نگار کا نام ہے جنہوں نے مزاح نگاری کو نشتر نہیں پھول بنا کر پیش کیا۔ان کی مزاح نگاری میں دور دور تک تحقیر کا سایہ تک نہیں ملتا۔ پطرس بخاری شائستگی سے اپنی بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔مغربی مزاح نگاری سے متاثر پطرس اپنے مضامین میں واقعہ نگاری میں مزاح کے پہلو بہت دلچسپ انداز سے پیش کرتے ہیں اور اپنے خیالات کی ترسیل کے وقت ان کا شگفتہ ذہن ان کے ہمراہ ہوتا ہے۔

عام طور سے پطرس بخاری کے مضامین سیدھے اور سلجھے ہوتے ہیں قاری کو ذیادہ ذہنی مشقت کرنی نہیں پڑتی۔ ان کے موضوعات زندگی سے جڑے ہوتے ہیں۔عام واقعات کو پیش کرتے وقت وہ ماہر نباض معلوم ہوتے ہیں۔واقعات کے بیان میں غضب کا تسلسل ملتا ہے اور جملوں و تراکیب سے ماحول زعفران زار بنانے کا مادہ بھی۔

سید احمد شاہ بخاری جو ادب کی دنیا میں پطرس بخاری کے نام سے جانے جاتے ہیں اپنی ذات پر ہنسنے کا جگر رکھتے ہیں۔وہ واقعے کے بیان میں فطری انداز اپناتے ہیں جس سے پڑھنے والا لطف اندوز ہوتا ہے،کمال یہ بھی ہے کہ پڑھتے وقت ذرا بھی اکتاہٹ نہیں ہوتی ایک مصنف اس وقت کامیاب ہو جاتا ہے جب قاری اس کی تحریر کردہ مضامین کو یکسوئی سے پڑھتا چلا جائے شروع تا آخر اور دوبارہ پڑھنے کو پھر آمادہ ہوجائے یہی خوبی مضامین پطرس میں پانی جاتی ہے۔ موصوف نے اپنے ادبی سرمائے میں مقدار سے ذیادہ معیار کو پیش نگاہ رکھا اور ترجیح بھی دی ۔

بہت کم مضامین لکھ کر پطرس بخاری نے مزاح نگاری میں بلند مقام حاصل کیا۔١١ مضامین کا مجموعہ “مضامین پطرس ” پطرس بخاری کی مزاح نگاری کی کل کائنات ہے۔ پطرس بخاری کی ظرافت نگاری “مضامین پطرس”کے دیباچے سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔

مرحوم کی یاد میں (سائیکل کی سواری) میں انکی ظرافت نگاری اور شائستگی قابل داد ہے۔موصوف کی یہی وہ خوبیاں ہیں جو انہیں دوسرے انشائیہ نگاروں سے مختلف کرتا ہے۔مرزا سے گفتگو کے دوران جب مرزا ان کی باتوں پر کان نہیں دھرے تو عام روش کی مطابق ان کو بھی غصہ آتا ہے مگر وہ اپنی شکایت کو اپنی علمیت سے ادبیت کا جامہ پہنا کر مخاطب کرتے ہیں۔ یہ سطور دیکھیں۔

“مرزا جہاں تک مجھے معلوم ہے تم نے اسکول اور کالج اور گھر پر دو تین زبانیں سیکھی ہیں اور اس کے علاوہ تمہیں کئ ایسے الفاظ بھی آتے ہیں جو کسی اسکول یا کالج یا شریف گھرانے میں نہیں بولے جاتے۔پھر بھی اس وقت تمہارا کلام”ہوں”سے آگے نہیں بڑھتا”
پھر مرزا کی زبان سے بولتے وقت بھی کتنی سنجیدگی سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔
“میاں صاحب زادے!خریدنا تو ایک فعل ہے کہ اس کے لئے روپیے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔وغیرہ کا بندوبست تو بخوبی ہو جائے گا لیکن روپئے کا بندوبست کیسے کروگے”

انسانی نفسیات کو پیش کرتے وقت وہ اتنے ماہر دکھائ دیتے ہیں جیسے وہ انسانی ذہن وفکر پر براجمان ہو اسی مضمون کے وسط میں جب مرزا سائیکل کی پیشکش کرتے ہیں تو موصوف جس کی اساس اسکا احساس ہے، مفت لینے سے گریز کرتے وقت، وہ پیسے دینے کی بات کرتا ہے اور پیسہ دیتے وقت اس کے اندر کا عام آدمی بیدار ہوکر اسکے حس کو ناس(برباد)کرنے کی سعی کر بیٹھتا ہے۔
“باکس کھولا تو معلوم ہوا کہ ہست و بود کل چھیالیس روپئے ہیں۔چھیالیس روپئے تو کچھ ٹھیک رقم نہیں۔پینتالیس یا پچاس ہوں جب بھی بات ہے۔پچاس تو ہو نہیں سکتے اور اگر پینتالیس ہی دینے ہیں تو چالیس کیوں نہ دئے جائیں۔جن رقموں کے آخر میں صفر آتا ہے وہ رقمیں کچھ ذیادہ معقول معلوم ہوتی ہیں۔”

مضمون ” سویرےجو کل میری آنکھ کھلی” میں موصوف لالہ جی کے جگانے کے طریقے سے خائف ہوکر خود کو کوستا تو ہے ہی ساتھ ہی حیران ہے کہ کیا ایسے بھی کوئی جگاتا ہے اتنی ذمہ داری سے کہ جب تک اٹھ کر دروازہ نہ کھولے مسلسل ضرب ذمہ داری لگاتا رہے۔موصوف نے جگانے کے اس انداز پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یوں کہتا ہے۔
“یہ سوتے کو جگارہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی قم کہہ دیا کرتے ہوںگے۔زندہ ہوگیا تو ہو گیا نہیں توچھوڑ دیا،کوئ مردے کے پیچھے لٹھ لے کر تھوڑی پر جاتے تھے”

پیش نظر سطور میں موصوف لفظ سے مزاح پیدا کر دیتے ہیں لفظ”واجبی” کا احساس قاری کو گدگداتا ہے۔”لٹھ لے کر پیچھے پڑنا” کیسا مزاح پیدا کر رہا ہے۔یہ مزاح نگاری کی بہترین مثال ہے۔

ایک مزاح نگار خود پر ہنسنے کا مادہ رکھتا ہے جو جگر کا کام ہے بلکہ اس سے ذیادہ انا کو کچلنے کا کام ہے،اپنی انا کو زیر کرکے مسکرانا آسان نہیں ہوتا مگر کھرا مزاح نگار دوسرے کو نہیں خود کو ہنسنے کی چیز بنا کر پیش کرتا ہے۔ جب قاری لطف لیتا ہے تو مزاح نگار اس سے ذیادہ لطف لیتا ہے کہ لوگ اس کی “ان کہی”کو سمجھ گئے۔پطرس بخاری کے مضامین کے چست جملے اور شعری ذوق دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں آپ چونکتے ہوں گے مزاح نگار کے یہاں شعری ذوق کا ہونا کیا مزاح ہے مگر اصل میں یہی مزاح ہے۔موصوف کے مضامین پڑھتے وقت یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ موصوف کا شعری شعور بہت بالیدہ ہے۔اپنے مضامین میں اشعار کا استعمال شعر گوئ سے انکی انسیت ظاہر کرتا ہے۔

موصوف کے جملے ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھنے کے برسوں بعد بھی رہ رہ کے یاد آتے ہیں یہ کسی فنکار کے لئے بہت بڑی بات ہے اس دور انتشار میں کس کو فرصت ہے جو کسی کی حکایات سنے مگر موصوف کے مضامین کے جملے اس سے بالا تر ہیں،یقین نہ آئے تو “مرید پور کا پیر “کے یہ جملے دیکھیں موصوف کے جملے کی ترتیب میں ذہانت کی آمیزش کیسی شگفتگی سے کی گئ ہے۔

“کچھ عرصے کے بعد خون کی خرابی کی وجہ سے ملک میں جا بجا جلسے نکل آئے جس کو ایک میز کرسی اور ایک گلدان میسر آیا،اسی نے جلسے کا اعلان کر دیا۔”

موصوف کا ایک مضمون”میبل اور میں”مجھے ایک بہترین افسانے کا احساس کرا گیا۔ایک ایسی یکسانیت جو دونوں جنسوں میں بلا تفریق موجود ہے اس یکسانیت پر اس مضمون کا تانا بانا بنا گیا ہے۔اس کا کہانی پن اور پلاٹ،کردار، مکالمہ، اور افسانوی اختتام بہت خوب ہے اور افسانوی ذائقہ فراہم کرتا ہے۔

موصوف کے انشائے ہمارے آس پاس کے موضوعات ہوتےہیں،لیکن ان موضوعات کو جب پطرس بخاری جیسے انشائیہ نگار اپنے لب و لہجہ میں پیش کرتے ہیں تو ہمیں ان موضوعات میں ایک نیا پن اور نئ لطافت کا احساس ہوتا ہے۔
اردو ادب کا ٹامس گرے کہے جانے والے پطرس بخاری کے انشائے اردو ادب کے وہ گوہر پارے ہیں جن کی چمک اور قدر و قیمت وقت کے ساتھ بڑھتی جائے گی اور آنے والی نسلوں کےلئے وہ اور ان کے مضامین پیش رو کی حیثیت سے رہنمائی کریں گے۔

ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398
e-mail : nasimashk78@gmail.com

Previous articleحملہ اُویسی پر نہیں ہوا ؎ زمینِ کوچۂ قاتل ہے اب زمین تمام
Next articleبدسلوکی کا الزام : بی جے پی کی انتخابی وین پر لگے ہوئے بینر کو پھاڑنے کا معاملہ !

1 COMMENT

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here