دُنیا ئے تحقیق میں اشاریہ سازی کی اہمیت

0
88

سلمان عابد

علمی دُنیا میں ہر محقق اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے کہ کسی بھی موضوع یا کسی بھی چیز پر تحقیق کرنے سے قبل یہ جاننا نہایت ضروری ہوتا ہے کہ اس موضوع پر آج سے قبل کیا تحقیق ہوچکی ہے۔ سابقہ تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے وہ فیصلہ کرتا ہے کہ تحقیق کہاں سے شروع ہوگی۔ مزید یہ کہ سابقہ تحقیق سے آگاہی حاصل کرنے پر اُس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر تاریخ میں کیا کیا کام ہوچکے ہیں۔ اس کے لیے کتابیات اور اشاریہ نویسی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ موجودہ تیز رفتار اور سپیشلائزیشن کے دور میں اس کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے۔

پاک و ہند کی جامعات میں بھی اس حوالے سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی مقالے بھی لکھوائے جاتے رہے اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں اب بھی جاری ہے۔ لیکن ان مقالوں (میں موجود اشاریوں) کی اشاعت نہ ہونے کے برابر ہے۔کسی بھی ایشو پر لکھنے یا تحقیق کرنے کے جہاں پر کتب کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلّم ہے لیکن ہزاروں کی تعداد میں شائع ہونے والے اخبارات، رسائل و جرائد کا کردار کہیں بڑھ کر ہے، کیونکہ رسائل اپنے اپنے عہد کے عکاس ہوتے ہیں اور اپنے دور کی تاریخ، معاشرتی مسائل، معیشت، تہذیب و ثقافت، مذہب کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں پر تحریریں پیش کرتے ہیں۔

رسائل و جرائد میں ایک ایک موضوع پر اُس کے بیسیوں پہلوؤں پر کئی اہل قلم کی نگارشات شامل ہوتی ہیں۔ان گوناگوں موضوعات پر مختلف تحریروں کو کتابوں میں ملنا محال ہوتا ہے۔ صرف رسائل و جرائد ہی ان کو شائع و محفوظ کرتے ہیں۔

ہزاروں کی تعداد میں شائع ہونے والے رسائل وجرائد میں سے کسی علمی، تحقیقی رسالے کے سیکڑوں شماروں اور اُس میں شائع ہونے والے ہزاروں مقالات و نگارشات سے استفادہ کرنا بھی ایک حد تک ’’ناممکن اَمر‘‘ لگتا تھا۔ اس ’’ناممکن‘‘ کو ممکن بنانے کے لیے اشاریے مرتب کیے جاتے ہیں جن کی مدد سے محقق کے علم میں یہ آتا ہے کہ کس رسالے میں اس کے کام کا لوازمہ موجود ہے اور یہ اشاریہ ہی ہے جس کے باعث کسی رسالے کے تمام شماروں کی ورق گر دانی کی زحمت سے نجات مل جاتی ہے۔

ماضی قریب میں پاک و ہند میں انفرادی سطح پر کام کرتے ہوئے کئی رسائل کے اشاریے سامنے آچکے ہیں۔ جن مذہبی اور اَدبی رسائل کے اشاریے مطبوعہ شکل میں سامنے آچکے ہیں اُن میں ’’ترجمان القرآن، رحیق، نقیب ختم نبوت، الحق، القاسم، عالم اسلام اور عیسائیت، مخزن، معاصر، صحیفہ، خدا بخش جرنل، الرحیم، الولی، تحقیقاتِ اسلامی، علوم القرآن، اُردو، پیغامِ آشنا، جہانِ حمد، برہان، حرمین، فقہ اسلامی، اقبالیات، اقبال ریویو، ادبِ لطیف، حق چاریارؓ، معارف، التفسیر، السیرۃ العالمی، نعت رنگ ……وغیرہ‘‘ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

پاک و ہند میں اشاریہ سازی کی روایت قدیم ہے لیکن پاکستان میں اس اہم ترین تحقیقی لوازمے پر بہت کم توجہ دی گئی تھی لیکن خوش قسمتی ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں اس پر خاص توجہ دی جاری ہے۔ اور اس اہم ترین کام میں جو قابلِ قدر نام سامنے آرہا ہے وہ شاہد حنیف صاحب کا ہے۔ جنھوں نے گذشتہ چند برسوں میں کئی رسائل و جرائد کے اشاریے مرتب کرکے دُنیائے تحقیق میں ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ وہ بیسیوں رسائل کے اشاریے مرتب کر کے اہل علم و قلم سے داد پاچکے ہیں۔ ربّ العزت کی عطاکردہ خداداد صلاحیتوں سے وہ نہ صرف اشاریہ سازی کے میدان میں تحقیقی کام کررہے ہیں بلکہ ’’اشاریہ سازی‘‘ کے حوالے سے جدید طریقہ کار اور بہترین فنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے اشاریہ سازی میں بہترین مثال پیش کررہے ہیں ان کے مرتب کردہ اشاریے جدید اُسلوب و ندرت کا اعلیٰ نمونہ ہوتے ہیں جس کی حالیہ مثال ’’ماہنامہ برہان دہلی‘‘ کا ۶۳سالہ اشاریہ ہے۔

۱۹۳۸ء میں دینی، علمی و تحقیقی کاموں کو مستقل بنیادوں پر کرنے کے لیے برصغیر کے نامور علماءِ کرام (جن میں مولانا عتیق الرحمن عثمانیؒ، مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ……وغیرہ شامل تھے)، نے دہلی میں ندوۃ المصنّفین کی بنیاد رکھی اور اس کے لیے ایک علمی، تحقیقی، دینی رسالہ کی اشاعت شروع کی، جس کا نام ماہنامہ ’’برہان‘‘ تھا۔
’’ماہنامہ برہان‘‘ پون صدی کے قریب علمی دُنیا کو اپنی دینی، علمی، اَدبی اور تحقیقی نگارشات سے فیض یاب کرتا رہا۔ نصف صدی سے زائد اس عرصۂ اشاعت میں برصغیر پاک و ہند کے علماءِ کرام، پروفیسرز، دانشور، محققین، ادیب اور شعرا کے سیکڑوں موضوعات پر مشتمل مقالات ونگارشات اس رسالے کی زینت بن کر اہل علم و قلم، محققین اور عام قارئین کو علم و تحقیق کے نئے و قدیم گوشوں سے روشناس کرواتے رہے ہیں۔

Previous articleسماجی زندگی میں خاندانی نظام اور اس کے مسائل
Next articleتقسیم،فسادات اور کرشن چندر کاتخلیقی رویہ

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here