عظیم آباد میں ملک العلما کی آخری یادگار : مولانا محمد سلیمان قادری

31
70

محمد ولی اللہ قادری
گورنمنٹ انٹر کالج ضلع اسکول، چھپرا بہار

اللہ بس، باقی ہوس —– زندگی اور موت بس سانس کی آمد و شد کا ظاہری نام ہے۔ ماہنامہ ’’زبان و ادب‘‘ پٹنہ کے معاون مدیر اور ادیب شہیر جناب انوار محمد عظیم آبادی نے 20 جمادی الاولیٰ 1444ھ مطابق 15دسمبر 2022ء بروز جمعرات نو بجے صبح بذریعہ موبائل یہ افسوس ناک خبر دی کہ ان کے ماموں جان حضرت مولانا محمد سلیمان قادری ،پٹنہ، اب نہیں رہے۔ آج ہی فجر کے وقت ان کا انتقال ہوگیا انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ اس خبر کو راقم الحروف نے اپنے احباب کے درمیان وائرل کر دیااور احباب سے گذارش کی کہ مولانا مرحوم کے لئے دعائے مغفرت اور حضرت کے لواحقین کے لئے صبر جمیل کی دعا فرمائیں۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم۔ یہ خبر خلاف توقع نہیں تھی کہ حضرت کافی دنوں سے بستر علالت پر تھے اور عمر پنچانوے سال ہوگئی تھی اور چند دنوں قبل بھی جناب انوار محمد عظیم آبادی سے میں نے خبر لی تھی تو انھوں نے بتایا تھا کہ حضرت اب تب کے مہمان ہیں۔ بہر کیف اعلان کے مطابق جنازے کی نماز درگاہ شاہ ارزاں پٹنہ میں اسی دن بعد نماز عصر مولانا نوازش کریم فیضی پرنسپل مدرسہ شرعیہ مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ کی اقتدا میں ادا کی گئی اور استاد اور خلیفہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ حضرت ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری قادری کے مزار واقع قبرستان شاہ گنج پٹنہ میں عقیدت مندوں کی موجودگی میں سپرد خاک ہوئے۔17 دسمبر کے مقامی روزناموں میں بھی حضرت کے وصال کی خبر نظروں سے گزری۔

مولانا محمد سلیمان قادری کی شخصیت متعدد نسبتوں سے قابل رشک تھی۔ایک طرف جہاں وہ ملک العلما کے اجل شاگرد تھے، وہیں دوسری طرف خلیفہ حجتہ الاسلام حضرت مفتی حامد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اور دار القضا ادارہ شرعیہ، پٹنہ کے قاضی شریعت حضرت مفتی قاضی محمد فضل کریم علیہ الرحمہ بھی آپ کے اساتذہ میں شامل تھے علاوہ ازیں شہزادہ اعلی حضرت سرکار مفتی اعظم ہند کے مرید صادق اور عظیم آباد میں اکابرین علمائے اہل سنت کی صحبت اور فیضان کے آخری راوی کی حیثیت سے آپ کی شخصیت مسلم تھی۔ ان ساری نسبتوں کے علاوہ بلکہ سونے پر سہاگہ یہ کہ مولانا محمد سلیمان قادری ایسے باپ کے بیٹے تھے،جو مسلک اہل سنت بلکہ عہد حاضر میں مسلک اعلیٰ حضرت کے ترجمان تھے جن سے ہماری مراد ملک العلما کے معاصر حضرت شیخ الحاج علاء الدین علیہ الرحمہ ہیں جو بد عقیدوں کے لیے زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتے تھے۔شیخ الحاج علاء الدین علیہ الرحمہ مفتی اعظم ہند کے محبوب نظر بھی تھے۔ جامع مسجد بکسریا ٹولہ (موجودہ نام رضا جامع مسجد) ٹریننگ اسکول، مہندرو، پٹنہ میں انہوں نے نصف صدی تک تولیت اور اذان و امامت کی خدمات بے لوث انجام دیں جب آپ حج بیت اللہ و زیارت حرمین شرفین کے لیے تشریف لے گئے تو وہابی امام کی اقتدا سے مکمل احتراز فرمایا جیسا کہ حضرت علامہ سید شاہ محمد قائم چشتی المعروف بہ قتیلؔ داناپوری علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:

’’ اللہ تعالی نے اپنے فضل بے پایاں سے مجھے امسال (1963ء میں ) توفیق حج و زیارت حرمین شریفین عطا فرمائی ، چنانچہ یہ سیہ کار بھی سگ اصحاب کہف کی طرح نکو کاروں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ رہا۔ البتہ نمازیں اگرچہ حرمین شریفین میں ہی پڑھتا تھا، مگر اپنی خاص جماعت کرتا تھا۔ میرے رفیق سفر محترم حاجی شیخ علاء الدین صاحب امام مسجد و جوان صالح عزیز سعید حاجی عین الحق صاحب باقر گنج پٹنہ نے بھی کل نمازیں میرے ساتھ ہی پڑھیں۔ الحمد للہ نجدیوں سے میں ہمیشہ علیحدہ رہا ، اللہ نے صدقہ رسول اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کا مجھے نجدی امام اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچایا ۔‘‘ ( مسئلہ مرغوب ، صفحہ 12)

الحاج شیخ علاء الدین علیہ الرحمہ محض ملک العلما کے معاصرین میں ہی نہیں تھے بلکہ دونوں بزرگوں کے باہمی خاص مراسم گھریلو تعلقات کی حد تک تھے۔ خود مولانا محمد سلیمان قادری لکھتے ہیں:
’’ میرے والد جناب الحاج شیخ علاء الدین صاحب ہارنس مرچنٹ ، جنہوں نے بکسریا ٹولہ (ٹریننگ اسکول) کی جامع مسجد میں نصف صدی سے زیادہ مدت تک ، اذان و امامت اور مسجد کی تولیت کا فریضہ انجام دیا، ان دونوں ( ملک العلما اور قاضی فضل کریم ) کے احباب میں تھے… پرانے خاندانی کاغذات اور یاد داشتوں سے ان تینوں بزرگوں کے بہت قریبی بلکہ گھریلو تعلقات کا پتا چلتا ہے۔‘‘ (تذکرہ ملک العلما صفحہ 9)

عہد حاضر میں بڑی شخصیات سے نسبت جوڑنے میں محض مبالغہ سے ہی کام نہیں لیا جا رہا ہے بلکہ عقیدت کے نام پر حقیقت کو قربان کیا جا رہا ہے۔ یاد آتا ہے کہ عظیم آباد (پٹنہ) میں ہی سرکار مفتی اعظم ہند کے ایک مریدکو جو بہت مال دار البتہ مخیر قوم و ملت تھے، حضرت کا خلیفہ ثابت کرنے کی مہم شروع کی گئی تھی۔ اس لیے کسی بڑی شخصیت سے نسبت جوڑنے کے دلیل پیش کرنا عصر حاضر کی ضرورت ہے۔ مولانا محمد سلیمان قادری کی ملک العلما اور قاضی فضل کریم سے شرف تلمذ پر خارجی نہیں بلکہ داخلی شہادت موجود ہے۔ مولانا محمد سلیمان قادری ملک العلما اور قاضی فضل کریم کے دور کے احوال و کوائف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’اللہ اللہ! وہ کتنی سنہری اور پاکیزہ صبح و شام تھی جب شہر عظیم آباد کی دھرتی پر ان بزرگوں کے نقوش قدم جلوہ گر ہو رہے تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ شخصیتیں اپنے اپنے اساتذہ اور پیر و مرشد کی حقانیت پسند علمی و عرفانی روایتوں کی امین رہی ہیں۔ راقم الحروف اپنی خوش قسمتی پر جس قدر نازاں ہو ، کم ہے کہ اسے حضرت ظفر اور حضرت فضل علیہما الرحمہ کی باقاعدہ شاگردی اور حیات ظاہری میں ان کی خدمت کا شرف سالہا سال حاصل ہوتا رہا، فالحمد للہ علی ذالک۔ ایک زمانہ تھا کہ ان دونوں بزرگوں کے علم و عقیدے کی دھوم مچی تھی ، مگر افسوس کہ گذشتہ نصف صدی کے دوران، ان بزرگوں کی متنوع و مفید علمی خدمات اور ان کی اہم ترین ملی و مذہبی سرگرمیوں کے تعلق سے اگر کچھ تعارفی کام ہو سکا تو وہ بھی براے نام۔ یہ زمانہ شخصیت فراموشی کی عام وبا کا زمانہ ہے اور نئی نسلوں کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے پوری طرح با خبر رکھنا ، ہماری تاریخی و عصری ذمہ داری ہے۔‘‘(تذکرہ ملک العلما ، صفحہ 8 و 9)
پیش نظر اقتباس ’تذکرہ ملک العلما‘ مرتبہ ڈاکٹر واحد نظیر سے ماخوذ ہے۔ دراصل یہ کتاب الجامعتہ الرضویہ پٹنہ کے زیر اہتمام منعقدہ ملک العلما سے می نار کے مقالات کا مجموعہ ہے۔ واضح رہے کہ یہ سے می نار فروری 2010 ء میں منعقد ہوا تھا جس میں مشاہیر علمائے اہل سنت و مشائخ طریقت کی شرکت ہوئی تھی۔ اس کتاب میں مولانا محمد سلیمان قادری کی تحریر ’’پیغام‘‘ کے تحت ہے۔ اس سے می نار میں مولانا موصوف بہ نفس نفیس موجود تھے۔ وہیں حضرت کی پہلی دفعہ زیارت ہوئی تھی اور اس کے بعد بھی ایک دو بار زیارت کا شرف ملا۔ مشاہیر علمائے اہل سنت کی موجودگی اور دس بارہ سالوں کے دوران کسی بھی فرد کا مولانا محمد سلیمان قادری کی تحریر سے انکار نہ کرنا رقم الحروف کے دعوی کی روشن دلیل ہے۔
مولانا محمد سلیمان قادری نے اپنے اساتذہ کرام کی عظیم آباد میں بے قدری کا جو شکوہ کیا ہے اس سے اختلاف کی چنداں گنجائش نہیں۔ خود مولانا محمد سلیمان قادری عظیم آباد میں نا قدری کے شکار ہو گئے میری معلومات کی حد تک مولانا مرحوم کے ساتھ عظیم آباد کے علمائے اہل سنت نے جو رویہ اختیار کیا وہ کم دل خراش نہیں ہے۔ عظیم آباد میں چھے سات سالہ قیام کے دوران الجامعتہ الرضویہ پٹنہ سیٹی کے ایک پروگرام کے علاوہ میں نے کسی بھی دوسرے پروگرام یہاں تک کہ ادارہ شرعیہ پٹنہ کی بھی کسی تقریب کی زینت بنتے ہوئے مولانا محمد سلیمان قادری کی شخصیت کو نہیں دیکھا۔ یہ زندگی میں ان کی نا قدری کی مثال رہی ان کی وفات کے بعد کسی سنی اداراہ کی طرف سے دو حرف کا تعزیتی کلمہ پرنٹ میڈیا تو دور کی بات سوشل میڈیا پر بھی نظر سے نہیں گزرا ہاے افسوس! بہر کیف ہم لوگوں نے جو کیا اس سے مولانا مرحوم کی شخصیت پر کچھ آنچ نہیں آسکتی کہ ہمیں امید قوی ہے آخرت میں مفتی اعظم ہند کی ارادت اور ملک العلما اور قاضی فضل کریم سے شرف تلمذ کی نسبت سے ضرور سرخروئی حاصل ہوگی انشاء اللہ۔

حضرت مولانا محمد سلیمان قادری طویل عمر پاکر اپنے رب کے حضور پہونچے۔ ان کے خاندانی ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق انہوں نے ایک متمول تجارت پیشہ خاندان میں، اپنے آبائی مکان واقع بکسریا ٹولہ، سلطان گنج، پٹنہ میں آنکھیں کھولیں۔ ان کے والد محترم حضرت شیخ علاء الدین نے اپنے قریبی دوست ملک العلما حضرت مولانا ظفر الدین (علیہ الرحمہ) سے جو شاہ گنج میں رہتے تھے، اپنے صاحبزادے کا مکتب کرایا اور پھر گھر میں ابتدائی تعلیم اور ناظرہ ختم قرآن کے بعد ۳؍ نوری ۱۹۴۰ء کو مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ تحتانیہ سوم میں ان کا داخلہ ہوا۔ واضح رہے کہ حضرت ملک العلما اسی مدرسہ سے وابستہ تھے اور ۱۹۵۰ء میں وہ یہاں سے سبکدوش ہوئے۔ مولانا محمد سلیمان قادری نے ابتدا سے درجہ فضیلت تک مسلسل اسی مدرسہ میں تعلیم پائی، فارسی مضمون کے ساتھ ۱۹۴۷ء میں مدرسہ اکزامنیشن بورڈ، بہار سے فوقانیہ کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۵۳ء میں فاضل حدیث کی سند حاصل کی۔ ۱۹۶۰ء کے آس پاس آپ کی شادی ہوئی اور اسی زمانے کے قریب آپ کو حضور مفتی اعظم سے بیعت کا شرف بھی ملا۔ مولانا محمد سلیمان قادری نام و نمود اور شہرت سے کوسوں دور رہنے والے اور گھر بار کی ذمہ داریوں کے ساتھ نہایت قناعت پسندی سے زندگی گزارنے والے آدمی تھے۔ انہیں بزرگان دین سے بڑی محبت تھی اور جب تک صحت نے ساتھ دیا وہ اپنے خاص معمولات کے ساتھ بزرگان دین کے آستانے پر حاضری کی سعادت پاتے رہے۔ وہ اکثر دوران گفتگو اپنی تعلیم کے زمانے اور اپنی مادر علمی کے اساتذہ خصوصاً حضرت ملک العلما کا ذکر کیا کرتے تھے۔
قیاس اغلب ہے کہ مولانا محمد سلیمان قادری مدرسہ شمس الہدی پٹنہ کے شاگردوں میں ملک العلما کے آخری شاگرد تھے۔ مولانا مرحوم نہ محض شاگرد تھے بلکہ عظیم آباد میں ملک العلما کی روایت کے امین بھی تھے۔ مولانا محمد سلیمان قادری نے محض مدرسہ شمس الہدی پٹنہ کی درس گاہ میں ہی ملک العلما سے فیض حاصل نہیں کیا بلکہ “ظفر منزل ” ( جس کا نام و نشان موجود نہیں رہا ) میں بھی اپنے استاد سے کسب علم و فیض کے لئے حاضر ہوتے رہے۔حیات اعلی حضرت کیسے تصنیف ہوئی اور صحیح البہاری کو ملک العلما نے کیسے مرتب فرمایا ان ساری باتوں کے واحد گواہ مولانا سلیمان قادری تھے اپنی یاد داشتوں کو سپرد قرطاس کرتے ہوئے مولانا مرحوم رقم طراز ہیں:

’’گزرے ہوئے دور کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ عمر کے ساتھ حافظہ لگاتار ساتھ دینے سے لاکھ انکار کردے مگر یہ زریں یادیں تو میرے لیے باعث راحت و سعادت ہیں۔ حضرت والد گرامی ( شیخ علاء الدین علیہ الرحمہ ) نے ہی مذکورہ مسجد (موجودہ رضا جامع مسجد مہندرو ) میں خطابت کے لیے حضرت ملک العلماکو آمادہ کر لیا تھا۔ حضرت طریق سنت کے مطابق عصا شریف لے کر خطبا دیتے تھے کہ حضرت استاد کی وفات کے بعد بھی مدت دراز تک ان کاعصا تبرکاً اس مسجد میں موجود رہا۔ والد محترم ہی کی فرمائش پر، حضرت ملک العلما نے پٹنہ کے لیے بارہ مہینے کے اوقات نماز و اذان اور جمعہ و جماعت کا نقشہ تیار کیا تھا جس کی بوسیدہ کاپیاں آج بھی موجود ہیں، جو ملک العلما کی تحریر خاص میں ہیں۔ میرے پڑھنے کا دور تھا جب استاد گرامی ظفر منزل میں ’حیات اعلی حضرت ‘اور ’صحیح البہاری ‘جیسی کتاب کی تیاری فرما رہے تھے ، میں نے بارہا دیکھا کہ نصف درجن سے زیادہ قد آدم الماریوں سے کتابیں نکالی جا رہی ہیں اور مطالعہ یا ضروری نوٹس لینے کے بعد پھر وہیں رکھی جا رہی ہیں۔ یاد آتی ہے کہ ایک کتاب’ عید کا چاند‘ جو فقہی رسالہ ہے، اس کی توثیق کے لیے اس وقت متحدہ ہندوستان اور بیرون ہند علاقوں میں صدہا خطوط بھیجے گئے۔ ان خطوط کے لکھنے کی ذمہ داری استاد گرامی نے مجھے ہی سونپی…کہاں تک عرض کروں، بات تو ہے شفقت استاد کی ، مگر داخل خود ستائی بھی ہوا چاہتی ہے۔ بہر کیف تحدیث نعمت کے طور پر ذکر ہے کہ استاد گرامی نے نہ صرف اپنی قلمی قواعدی کتاب ’وافیہ‘ کی نقل لینے کی اجازت دی اور میں نے اس سے تاریخ وارنقل لیا بلکہ ’صحیح البہاری تک مختلف کتابیں اور اپنی مادر علمی مدرسہ شمس الہدی کے کلاسوں میں حسب درجات مختلف مضامین مجھے حضرت ملک العلما سے پڑھنے کا موقع ملا… اس میں شاید والد گرامی اور ملک العلما کے قریبی تعلقات کا بھی اثر تھا۔ استاد گرامی نے وفات پائی تو حضور مرشدی حضرت مفتی اعظم ہند نے جو تعزیت نامہ بھیجا تھا وہ حضرت کی اہلیہ نے جناب مختار الدین آرزو کے ذریعہ والد گرامی کو دکھایا تھا، جس کا ذکر خود جناب آرزو نے کیا ہے۔ ‘‘(تذکرہ ملک العلما، ص 9 و 10)
پیش کردہ اقتباس ہر چند طویل ہو گیا ہے لیکن ملک العلما کے مدرسہ شمس الہدی پٹنہ کے دور کے احوال و کوائف آئینہ کی طرح روشن ہو رہے ہیں۔ اللہ اکبر! ملک العلما کی ’’صحیح البہاری‘‘ خودان سے پڑھنے کا شرف ملنا، یہ بس نصیب ہی کی بات ہے۔ یہاں مولانا سلیمان قادری کا نثری اسلوب بھی قابل دید ہے۔ زبان و بیان کی پیش کش کا سلیقہ اور آنکھوں دیکھے واقعات کو تحریر کا جامہ پہنانے کا ہنر بھی ہمیں خوب متاثر کرتا ہے۔ عظیم آباد اور ملک العما کی تاریخ کا ایسا مرقع مولانا مرحوم نے تیار کیا ہے کہ قاری ایک جہاں کی سیر کرتا ہے۔ مولانا محمد سلیمان قادری کی مختصر تحریر ایک دستاویز اور اہم ماخذ کا درجہ رکھتی ہے۔
مولانا محمد سلیمان قادری علیہ الرحمہ اگرچہ باقاعدہ کسی درس گاہ کی خدمت سے وابستہ نہیں رہے، مگر اپنے گفتار و کردار سے ملک العلما کے مشن کی خوب ترویج و اشاعت کرتے رہے۔ مولانا مرحوم کے متعدد علمی مقالات اشاعت یافتہ ہیں۔ مثلاً ’’محدث بریلوی اور رباعیات بخاری‘‘ ، ’’حضرت مخدوم بہاری اور علم حدیث‘‘، ’’حضرت شاہ ارزاں: کتبے اور کتابوں میں‘‘ وغیرہ ، مگر افسوس کہ فی الوقت ان تمام تحریروں تک راقم الحروف کی رسائی ممکن نہیں، البتہ مولانا محمد سلیمان قادری کا ایک مضمون ’’صحیح البہاری: مختصر جائزہ‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے۔

یہ مضمون مولانا مرحوم نے 2005 ء میں ماہنامہ نور مصطفی، پٹنہ سیٹی کے گوشہ ملک العلما کے لئے لکھا تھا جو تذکرہ ملک العلما نامی کتاب میں شامل ہے۔یہ مضمون مختصر ہونے کے باوجود جامع ہے۔مضمون کے آغاز میں ہی ہندوستان کے حدیثی دبستاں کے حوالے سے جو گفتگو سامنے لائی گئی ہے اور دبستان بہار بالخصوص مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحی منیری علیہ الرحمہ کی انفرادیت کو جس طرح واضح کیا گیا ہے،وہ بہت خوب ہے۔ اس میں مضمون نگار نے اپنے استاد گرامی حضور ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری کی صحیح البہاری کی خصوصیات کو متعدد طریقے سے واضح کیا ہے۔ یہاں مضمون نگار کا تقابلی مطالعہ کا اسلوب قابل تقلید ہے۔ آثار السنن اور صحیح البہاری کی اہمیت و افادیت واضح کرتے ہوئے صحیح البہاری کی انفرادیت کو جس احسن اسلوب میں واضح کیا گیا ہے ، وہ ملک العلما کی تربیت کا ثبوت فراہم کر رہا ہے اور ملک العلما کے شاگرد رشید کا ہی حصہ ہو سکتا ہے۔ مولانا مرحوم رقم طراز ہیں:

’’مولانا محمد ظفر الدین بہاری کی متذکرہ تصنیف بلا شبہ شمالی ہند اور خصوصا بہار میں علم الحدیث کے ارتقا کا ایک اہم جزو قرار پاتی ہے اور اصول حدیث اور علی الخصوص ” متن حدیث” کے تعلق سے علمائے ہند کے مولفات کا ذکر کرتے ہوئے کوئی انصاف پسند اور بالغ نظر مورخ اسے بھلا نہیں سکتا ہے۔ اگر چہ یہ صحیح ہے کہ مولانا محمد ظفر الدین بہاری کی اس کتاب سے چند دہائی قبل صوبہ بہار کے ایک محدث ظہیر احسن شوق نیموی کی ’آثار السنن ‘ ترتیب پا چکی تھی…بیشک مولانا عبد الحی فرنگی محلی کے شاگرد رشید حضرت شوق نیموی کی اس کتاب کے مرتبہ سے انکار نہیں، لیکن ایک تو یہ کہ اس کتاب کا نام حدیثی اصناف کتب کے لحاظ سے براہ راست ’ مجموعہ صحیح ‘ کی طرف اشارہ نہیں کرتا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ متذکرہ کتاب اس معنی میں تکمیل کو نہیں پہنچ سکی کہ اس کے صرف دو جزو ہی مرتب ہوئے۔ ان میں پہلا جزو کتاب الطہارت سے باب فی صلوت بحضرت الطعام تک اور دوسرا جزو’ ما علی الامام‘ سے باب فی زیارت قبر النبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم تک ہے، جب کہ امام احمد رضا کے شاگرد رشید حضرت بہاری کی ” صحیح البہاری ” اس سے کہیں جامع، مفصل اور مکمل کتاب ہے۔ یہ کتاب چھ جلدوں میں ہے یعنی جلد اول عقائد، جلد دوم طہارت و صلوت اور جلد سوم زکوت اور صوم و حج سے متعلق ہے اور جلد چہارم کتاب النکاح تا وقف ، جلد پنجم کتاب البیوع تا غصب اور جلد ششم کتاب الشفعہ سے فرائض تک ہے۔ اس طرح اس کتاب میں ناشر و مشتہر مختار الدین احمد آرزو کے کہنے کے بموجب تخمیناً نو دس ہزار حدیثیں ہیں۔ ‘‘(تذکرہ ملک العلما، صفحہ123 و 124)

پانچ صفحات کے مضمون میں مولانا محمد سلیمان قادری نے صحیح البہاری کا جائزہ اس شان سے لیا ہے کہ مضمون کے بین السطور میں علم کا ایک خزانہ بھر دیا ہے۔افسوس صد افسوس کہ اس قدر اہم مضمون نگار ہم سے رخصت ہوا البتہ اس کی علمی روشنی تا قیامت رہے گی۔ مولانا کے وصال سے عظیم آباد نہ صرف حضرت ملک العلما کی آخری علمی یادگار سے محروم ہوگیا، بلکہ اس کی بھرپائی کی سبیل بھی دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے آخیر میں دعا ہے کہ مولی تعالی مولانا مرحوم کے گناہوں کو بخشتے ہوئے ان کے درجات کو بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم۔

Previous articleسحر وجادو کی حقیقت. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کامعاملہ . ایک تحقیقی مطالعہ
Next article“خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی”

31 COMMENTS

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here