نصراللہ نصر ” اذکارِ ادب ” کے آئینے میں از: عظیم انصاری

0
261

دنیا کا کوئی بھی ادب ہو وہ تحقیق و تنقید کے بغیر ادھورا ہے ۔ تنقید و تحقیق کا رشتہ چولی دامن کا ہے ۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور محال ہے ۔ تنقید کے بغیر تحقیق کا کام آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ ادب میں جب بھی کوئی تحقیق کے لیے قدم بڑھاتا ہے اسے تنقید کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ کوئی بھی محقق تنقیدی شعور کے بغیر تحقیق کے میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ اچھا محقق وہی ہے جو اپنی تحقیق پر تنقیدی نظر ڈالتا ہے اور اپنی کمزوریوں کو اسی کے مطابق اصلاح کرتے ہوئے اپنی متعینہ سمت کی طرف قدم بڑھاتا ہے ۔ دوسرے محققین کی کاوشوں کو مزید آگے بڑھانے کے لیے اسے تنقید کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس طرح وہ اپنی تحقیقی کام کو مستند بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کے لیے اسے کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔ ساتھ ہی اپنے بالغ ذہن ‘ مشاہدات اور تجربات کو بروئے کار لاکر اسے اپنی سمت اور منزل کو طے کرنا ہوتا ہے ۔

نصراللہ نصر ان تمام کوائف سے مکمل طور پر واقف ہیں ۔ لہذا ” اذکارِ ادب ” میں شامل نگارشات میں ان کی بالغ نظری پوری طرح سے نمایاں ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر مشتاق انجم ‘ معروف شاعر ‘ ادیب اور کامیاب مترجم ‘ نصراللہ نصر کے طرزِ سخن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

” نصر ایک خوش فکر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شگفتہ و شیریں بیان نثر نگار بھی ہیں ۔ یہ رواں دواں نثر لکھتے ہیں ۔ ادق اصلاحات سے قاری پر رعب طاری کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ مضمون لکھنے سے قبل بھرپور تیاری کرتے ہیں اور انھیں قرینے سے ترتیب دیتے ہیں۔ اپنی بات کی حمایت میں دلائل ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور انھیں چھان پھٹک کر پیش کرتے ہیں ۔ ”

پروفیسر علیم اللہ حالی کا کہنا ہے

” اگر ایک طرف ان کی شاعری جذب و کیف سے مملو ہے تو دوسری طرف یہ تنقیدی مقالات ‘علمی اطلاعات’ عالمانہ تجربات اور بھاری بھرکم سنجیدہ تحقیقی نکات کے ساتھ بھرے پڑے ہیں ۔ ”

نصراللہ نصر واقعی شاعری و نثری ادب میں مجموعی طور پر کامیاب نظر آتے ہیں ۔ شاعری میں ان کا تیور دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ آپ بھی ان کے اس تیور کو دیکھئیے

نئے مزاج کے الفاظ بھر کے دیکھتے ہیں
غزل کے لہجے کو تیزاب کرکے دیکھتے ہیں

ظاہر سی بات ہے کہ ایسا بالغ نظر شاعر جب تحقیق و تنقید کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو وہ اپنی تلاش کو ایک اچھے مقام تک پہنچانے کے لیے مصمم ارادہ کرلیتا ہے اور اپنی محنت و لگن سے خود کو اس مقام تک لے جاتا ہے کہ قاری کو کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تنقیدی و تحقیقی محاکات میں دم ہے

مذکورہ کتاب اردو ادب کا عالمی منظر نامہ ہے ۔ اس میں کل ٦١ مضامین ہیں ۔ یہ نصر اللہ نصر کی تنقیدی اور تحقیقی نگارشات کا مجموعہ ہے جس میں موصوف کی محنت و لگن کے ساتھ ساتھ ان کی تنقیدی و تحقیقی بصارت کا بھی پتا چلتا ہے ۔ ان ٦١ مضامین کو نصراللہ نصر نے چھ ابواب میں تقسیم کردیا ہے ۔ پہلا باب ” شہر مکالمہ ” ہے جس میں دو مضمون ہیں ۔ دوسرا باب ” سخن زار ” ہے جس میں ٣٣ مضامین ہیں ۔ تیسرا باب ” جہانِ افسانہ ” ہے جس میں ٨ مضامین ہیں ۔ چوتھا باب ” ناول نگر ” ہے اس میں بھی آٹھ مضامین ہیں ۔ پانچواں باب ” چوپال ( تحقیق و تنقید) ہے جس میں سات مضامین ہیں اور چھٹا باب ” کولاژ ” ہے جس میں تین مضامین شامل ہیں ۔ ان مضامین کو مختلف باب میں تقسیم کرنے کا سبب یہ ہے کہ ہر باب میں کسی نہ کسی مخصوص صنفِ ادب کے تعلق سے گفتگو موجود ہے ۔

ڈاکٹر کرامت علی کرامت کے مطابق مذکورہ کتاب میں نصراللہ نصر نے

” ہند اور بیرونِ ہند کے ایسے ایسے گنج ہائے گراں مایہ کو منظرِ عام پر لانے کی کوشش کی ہے جن پر قلم اٹھانے کو اردو کے مرکزی علاقوں میں رہنے والے ادب کے سجادہ نشیں اپے لیے کسرِ شان سمجھتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ نصر کے یہاں بہت سی ایسی نئی نئی باتیں آگئی ہیں جو اردو علاقوں کے دوسرے نقادوں اور محققوں کی تحریروں میں نظر نہیں آتیں ۔ ”

‘ شہرِ مکالمہ ‘ میں دو مضمون ہیں ایک ‘ ساحر میرے خوابوں میں’ اور دوسرا ” منٹو سے مکالمہ بعد از مرگ ” ۔

مضمون ‘ ساحر میرے خوابوں میں ” نصر نے شروعات یوں کی ہے

” ادب ساز کا ساحر نمبر کا مطالعہ کر ہی رہا تھا کہ میرے ہاتھ میں ایک اور کتاب ” میں ساحر ہوں ” آ لگی ۔ دونوں کے مطالعہ کا اثر یہ ہوا کہ ساحر میرے خوابوں میں آ گئے ۔ گفتگو کا آغاز ہوا اور پھر سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا ۔ ان سے میری کیا گفتگو ہوئی آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔”

اس مضمون میں نصر نے جہاں ساحر کی ابتدائی زندگی اور ان کے آبا و اجداد کے بارے میں ذکر کیا ہے ‘ وہیں ان کی شاعری’ عشق کی داستان اور اشتراکی نظریات کا بھی بھرپور احاطہ کیا ہے ۔ مکالمے کا انداز اور جملوں کی شگفتگی سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ نصر کی تحریر میں روانی اور برجستگی ہے ۔ سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ پورے مضمون میں ان کا خلاقانہ ذہن نمایاں ہے ۔ مکالمے کے آخر میں انھوں نے ساحر سےمتعلق اپنے افکار کو واضح کردیا جب وہ ساحر سے کہتے ہیں

” آپ نے فلمی گیتوں کو اردو زبان کا سادہ ‘ سلیس اور عام فہم ڈکشن اور ادب کا شیریں اندازِ سخن دیا اور مجروح ‘ کیفی اور شکیل بدایونی کی طرح اردو کی جڑوں کو مضبوط کیا ۔ ”

مضمون ‘ منٹو سے مکالمہ بعد از مرگ ” کے ابتدا میں نصر لکھتے ہیں کہ

” یہ مکالمہ منٹو پر لکھے گئے متعدد مضامین اور ان کی خود نوشت تحاریر اور مضامین کی روشنی میں قلمبند کرنے کی کوشش ہے ۔ اس مکالمہ کا مقصد منٹو کی زندگی اور شخصیت ‘ افسانہ نگاری کا ایک مختصر تجزیہ ہے ۔ اس میں تحقیق یا تنقید کی جلوہ گری مقصود نہیں ۔ ”

اس مضمون میں نصر نے جہاں منٹو کی ابتدائی زندگی ‘ صحافتی دنیا میں ان کی آمد اور ازدواجی زندگی کا ذکر کیا ہے وہیں انھوں نے ان کی خاکہ نگاری اور افسانہ نگاری پر بھی تفصیلی نظر ڈالی ہے’ نیز انھوں نے ادب نگاری سے متعلق ان کی آراء کا بھی ذکر کیا ہے ۔ اس مکالمے میں انھوں نے منٹو کی فحش نگاری پر کھل کر بحث کی ہے اور منٹو کے نظریات کو اس سلسلے میں واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ یہاں ہمیں نصر کی تنقیدی صلاحیت کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے ۔ انھوں نے اس مکالمے کے ذریعہ اپنی ذہانت اور فکری بصیرت کا عمدہ نقش چھوڑا ہے ۔

‘ ساحر میرے خوابوں میں’ اور ‘ منٹو سے مکالمہ بعد از مرگ ‘ میں نصر کا مشاہدہ اور نقد و نظر کی خصوصیات ابھر کر سامنے آئی ہیں ۔ جس طرح سے کسی غزل کے ایک اچھے شعر کو حاصلِ غزل شعر کہتے ہیں ٹھیک اسی طرح اگر میں یہ کہوں کہ ‘ شہرِ مکالمہ’ کے عنوان سے ساحر اور منٹو پر جو دو مضمون ہیں وہ اس مذکورہ کتاب کا ‘ حاصلِ غزل شعر’ ہے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔

دوسرے باب میں ” سخن زار ” کے عنوان سے نصر نے اردو غزل کا جدید عالمی منظر نامہ پیش کیا ہے ۔ اس مضمون میں انھوں نے شکیل دسنوی ‘ علقمہ شبلی ‘ شبلی نعمانی ‘ ابو اللیث صدیقی اور رابرٹ فراسٹ کی شاعری سے متعلق آرا کو سامنے رکھ کر مختلف شعراء کے کلام کے بارے میں اپنی بات کہنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ قدیم شعراء کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے آج اکیسویں صدی کی اردو دنیا کے شعراء کرام کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے اور شاعری کی اچھی صفات ‘ اچھے اشعار کی خصوصیات اور بہترین شاعری کے چھ نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ مختلف ممالک کے شعراء کے اشعار کو سامنے رکھ کر نصر نے اپنے اس مضمون میں اپنی رائے بھی دی ہے جس سے ان کی ناقدانہ صلاحیت و بصیرت کا پتا چلتا ہے ‌۔ وہ کہتے ہیں کہ

” مذکورہ اشعار کوئی انتخاب نہیں بلکہ جو دستیاب ہوسکے ہیں ان کے ورد اور مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو شاعری اور اردو زبان اب علاقائی طور پر نہیں رہی بلکہ یہ عالمی سطح پر اپنی خوشبو پھیلا چکی ہے ۔ دنیا کے کونے کونے میں اردو زبان و ادب کی پذیرائی اور پاسداری ہورہی ہے ۔ اہلیانِ اردو اس کی ترقی و بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو سبھی علاقوں میں کم و بیش ایک جیسی شاعری ہورہی ہے ‘ کہیں روایت کی پاسداری ہورہی ہے تو کہیں روایت سے بغاوت کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جدت و ندرت کے کھل کر مظاہرے ہورہے ہیں ۔ ”

‘ سخن زار ‘ میں اردو غزل کا جدید عالمی منظرنامہ کے بعد نصر نے مختلف شعراء کی شاعری کا احاطہ کیا ہے اور بہت ہی سلیقے سے ان کی شاعری پر ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے ۔ اس مضمون میں جہاں ولی دکنی اور یاس یگانہ چنگیزی جیسے قدیم شاعر شامل ہیں وہیں احمد الیاس ‘ علیم صبا نویدی ‘ سید شکیل دسنوی ‘ سہیل اختر ‘ ڈاکٹر امام اعظم ‘ ابرار نغمی ‘ شمیم قاسمی ‘ چندر بھان خیال ‘ بدر محمدی ‘ ڈاکٹر عبدالحق امام ‘ عبد المتین جامی ‘ غضنفر ‘ سعید رحمانی’ خالد رحیم ‘ سوہن راہی ‘ سید نفیس دسنوی ‘ احسان ثاقب ‘ حنیف ترین ‘ ارشد قمر ‘ رئیس الدین رئیس’ غلام مرتضی راہی ‘ تنویر اقبال’ عبدا لحئی پیام انصاری ‘ اظہر نیر ‘ آصف دسنوی ‘ پیغام آفاقی’ عظیم الدین عظیم ‘ ایلزبتھ کورین مونا ‘ مقصود انور مقصود اور عزیز نبیل جیسے آج کے شعراء بھی شامل ہیں ۔

ان مذکورہ شعراء کے بارے میں نصر نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ ان کی ناقدانہ صلاحیت اور مثبت بصارت اور بصیرت کی نہ صرف عکاس ہیں بلکہ ان کے خیالات کی جمالیاتی حس کا عمدہ نمونہ ہیں

تیسرے باب میں نصر نے “جہانِ افسانہ” کے عنوان سے مناظر عاشق ہرگانوی’ ڈاکٹر عبیداللہ چودھری’ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر ‘ افشاں ملک ‘ ڈاکٹر شہناز رحمان’ناظمہ جبیں ‘ مجیر احمد آزاد اور سلطان آزاد کے افسانوں پر مدلل بحث کی ہے اور افسانہ نگاری کے فن کے مختلف گوشوں اور ان کے امتیازی خصوصیات کا بھی ذکر کیا ہے ۔ انھوں نے افسانے کی محدودیت ‘ اختصار’ وحدتِ زمان و مکان ‘ وحدتِ کردار’ موضوع کی عمدگی ‘ دلچسپی کا عنصر ‘ مربوط انداز ‘ مشاہدے کا عنصر ‘ نظم و ضبط ‘ کردار نگاری ‘ منظرکشی’ مقصدیت ‘ افسانے کے مراحل اور اجزاء ‘ موضوع کا انتخاب’ عنوان’ پلاٹ’ مکالمے’ کشمکش’ نقطۂ عروج اور اختتامِ افسانہ کو مدِنظر رکھ کر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور زبان و بیان کی شگفتگی سے قاری کو باندھے رکھنے میں کامیاب ہیں ‌۔

چوتھے باب ” ناول نگر ” میں نصر نے شموئل احمد’ حسین الحق ‘ خالد جاوید’ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر ‘ وکیل نجیب اور مقصود الہٰی شیخ کی ناول نگاری کا تجزیہ کیا ہے ۔’ ناول نگر ‘ کے باب میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا ایک مضمون ” ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں طنز و مزاح ” پر ہے ‌۔ اس پر نصر کا کہنا ہے کہ انھوں نے موضوع کے ساتھ انصاف کیا ہے ۔ شموئل احمد’ کی ناول ” گرداب ‘ حسین الحق کی ‘ فرات ‘ خالد جاوید کی’ نعمت خانہ’ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کی ناول ‘ کہانی کوئی سناؤ متاشا ” کا تجزیاتی مطالعہ بھی ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک دوسرے مضمون میں ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کی ناول نگاری پر بھر پور تجزیہ پیش کیا ہے ۔ وکیل نجیب اور مقصود الہٰی شیخ پر بھی ان کا مضمون بھر پور ہے اور ادب کے شائقین کے لیے ڈھیر سارے لوازمات ہیں جن کے سہارے وہ اپنی ایک رائے قائم کرسکتے ہیں
ناول کے بارے میں نصر کی رائے ہے کہ

” ناول اس منفرد نثری تخلیق کو کہتے ہیں جو نیا اور تازہ ہو ۔ جس کے مطالعہ سے قاری کو اس کی تازگی اور ندرت پن کا احساس ہو’ اس کی تحیر خیزی سے قاری متحیر اور سرشار ہو ۔ اس کے اندر جمالیات اور اخلاقیات کا پہلو نمایاں ہو ۔ ناول انسانی زندگی کو دیکھنے اور پرکھنے کا اور عمل پیرا ہونے یا نہ ہونے کا خوبصورت واسطہ ہے ۔ ”

مذکورہ کتاب کا پانچواں باب چوپال ( تحقیق و تنقید) ہے اس میں سات مضامین ہیں ۔ ان مضامین میں ڈاکٹر کرامت علی کرامت ‘ خالد محمود ‘ ڈاکٹر شکیل اختر ‘ ڈاکٹر حلیمہ فردوس اور ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور ڈاکٹر سرور کریم کی کاوشوں کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔ ان تجزیات کو پڑھنے سے نصر کے اعلیٰ تنقیدی ذوق کا پتا چلتا ہے۔
ڈاکٹر کرامت علی کرامت کا یہ کہنا بجا ہے کہ

” نصراللہ نصر کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے درمیانی بلکہ متوازن رویہ اختیار کیا ہے اور ان کا زیادہ تر جھکاؤ ” تخلیقی تنقید ” کی جانب ہے جس کی نمائندگی موجودہ دور میں حقانی القاسمی’ یحییٰ نشیط’ شاہد پٹھان وغیرہ کی تحریریں کرتی ہیں ۔ ان کو پڑھتے وقت شاعری کا لطف آنے لگتا ہے لیکن یہ تحریریں فنِ تنقید کے اصل مقاصد کو مجروح نہیں ہونے دیتیں ۔ ”

نصراللہ نصر کے مذکورہ کتاب کا آخری اور چھٹا باب ” کولاژ ” ہے ۔ اس میں تین مضامین شامل ہیں ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ لفظ ” کولاژ ” (Collage) فرانسیسی زبان کے لفظ Coller سے اخذ کیا گیا جس کا مطلب ” چپکانے یا چسپاں کرنے ” تک محدود ہے ۔ اس لفظ کو قبول عام کا وہ درجہ ملا کہ دنیا کی ہر زبان اسے اپنے ہاں جگہ دینے پر مجبور ہوگئی اور اردو اس سے ماورا نہ تھی کہ یہ ایک زندہ زبان ہے ۔

پہلے مضمون میں نصر نے قاضی مشتاق احمد کی ڈراما نگاری کے امتیازی نقوش کو اجاگر کیا ہے اور تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے یہ لکھا ہے

” جب ہم قاضی مشتاق احمد کی ڈراما نگاری کا مطالعہ اور محاسبہ کرتے ہیں تو وہ سارے لوازمات ان کے ڈراموں میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں جو ڈرامے کے اجزائے ترکیبی کہلاتے ہیں ۔ ”

اس سلسلے کے دوسرے مضمون میں طنز و مزاح کے حوالے سے رؤف خوشتر کے بارے میں نصر نے لکھا ہے کہ

” رؤف خوشتر نے اپنی مزاح نگاری سے متاثر کیا ہے ۔ مذاق میں مزاح پیدا کیا ہے ۔ لفظوں کی آرائش و زیبائش سے فقروں کو آراستہ کیا ہے ۔ کہیں کہیں ایسے انداز بھی پیدا کئے ہیں جس سے ذو معنی اور رعایتِ لفظی کا خصوصی احساس ہوتا ہے ۔ ”

اس سلسلے کا تیسرا اور مذکورہ کتاب کا آخری مضمون ” احسن امام احسن – بحیثیت نثر نگار ” ہے ۔ احسن امام کی نثری نگارشات کی تجزیہ کرتے ہوئے نصر نے ان کے ادبی تراشے پیش کئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تراشے ایسے ہیں جو احسن امام احسن کی نثری و علمی نیز ادبی صلاحیت کا عکس ریزہ پیش کرتے ہیں ۔ ہاں تراش خراش اور نوک پلک سنوارنے کا کام تو عمر بھر کرنا پڑتا ہے ۔

مجموعی اعتبار سے ” اذکارِ ادب ” اردو ادب کا عالمی منظر نامہ ہماری آنکھوں کے سامنے لانے میں کامیاب ہے ۔ ساتہ ہی ساتھ ان مضامین کے سہارے ہم نصراللہ نصر کے خیالات کی بالیدگی اور تنقیدی و تحقیقی بالغ نظری سے کماحقہ واقف ہوتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور وہ اپنے مشاہدے اور تجربات کو بروئے کار لاکر اپنے مضامین کو سنوارتے اور سجاتے ہیں ۔ ان کی فکر میں وسعت و گہرائی ہے ‘ تنقید میں اعتدال ہے ۔

نصر کے لکھنے کا انداز سیدھا سادہ ہے ۔ ان کے جملوں میں کوئی پیچیدگی نہیں ۔ وہ جان بوجھ کر عبارت آرائی کی کوششیں نہیں کرتے ۔ ان کی نثری زبان سلجھی اور نکھری ہوئی ہے ۔ وہ صرف ادائے مطلب اور ادائے کیفیت سے غرض رکھتے ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی نثر میں بھی شاعرانہ لطف نمایاں ہے اور یہی وہ وصف ہے جو نثری ادب میں ان کو اپنے ہم عصروں میں امتیازی حیثیت عطا کرتا ہے۔(یہ بھی پڑھیں!ڈاکٹر شاہد اختر بحیثیت نثر نگار)

Previous articleفتنئہ ارتداد..کون ذمہ دار..؟از:مفتی محمد اجوداللہ پھولپوری
Next articleمسلم خواتین میں تعلیمی شرح کا تناسب ، مسائل اور ان کا حل از:پروفیسر صالحہ رشید

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here