ظفرؔ کمالی اور بچوں کی نظمیں (’’بچوں کاباغ‘‘ اور ’’حوصلوں کی اڑان‘‘) کی روشنی میں!

0
206

(ڈاکٹر ظفر کمالی صاحب کی کتاب ’’حوصلوں کی اڑان‘‘ پر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے اطفال2022 ملنے کے خاص موقعے سے!! )

عبدالوہاب قاسمیؔ

ڈاکٹرظفرؔ کمالی تقریباًچالیس برسوں سے قرطاس و قلم کے مسافر ہیں مگراپنی طبیعت کی بے پناہی کی وجہ سے نام و نمود اور شہرت سے دور بھاگتے ہیں۔خاموشی سے کام کرنا او ر اہلِ علم کے سامنے پیش کردینا ان کا وتیرہ ہے۔ زمانۂ طا لبِ علمی سے ہی ان کے ادبی نمونے سامنے آنے لگے تھے اور گزرتے وقت کے ساتھ ان کے قلم کی جولانی بھی جوان ہوتی گئی مگر دنیاے تنقید ابھی بھی ان کے تئیں کسی کش مکش میں مبتلا ہے۔

ظفرؔ کمالی کا شمار ان فن کاروں میں ہوتا ہے جو نثر اور شاعری دونوں میں اپنے خیالات و جذبات کے اظہار پر قدرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنے آپ کو ان ادیبوں میں بھی شامل رکھا ہے جو بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بنا تے ہیں۔سرِدست ہمیں ان کی ادبی شخصیت کے اسی آخری پہلو پر روشنی ڈالنی ہے۔

باضابطہ گفتگو شروع کرنے سے پہلے ادبِ اطفال کے تئیں ظفرؔ کمالی کے نظریات اور دل چسپی کے کچھ خاکے ذہن نشیں کر لیے جائیں تو ان کے فن کی تفہیم آسان ہوجائے گی۔ ظفرؔکمالی جب خود طفلِ مکتب تھے تو اطفالی ادب کو ذوق و شوق سے پڑھتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔اس زمانے کے مشہور رسالے ’’کھلونا‘‘ کے وہ مستقل قاری اور خریدار بھی تھے۔ان کے نانا جناب شمس الدین صاحب جب بھی پرولیا(بنگال)سے رانی پور آتے تو اپنے اس نواسے کے لیے ’’ٹافی‘‘ ، ’’غنچہ‘‘ اور ’’کلیاں‘‘ جیسے بچوں کے رسائل ساتھ لاتے جن کو پڑھ ان کی ذہنی آبیاری ہوتی رہی۔ بچوں کے بہت سے رسالے جو اَب نایاب ہیں یا محض لائبریریوں کے سرد خانوں کا حصہ ہیں ، ان کے یہاں آج بھی مجلّد حالت میں محفوظ ہیں۔وہ نہ صرف بچوں کے لیے لکھتے ہیں بلکہ آج بھی بچوں کے ادب پر ممکن الحصول مواد تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔تخلیق، تحقیق، تنقید، رسالے، ماہنامے،اخبارات کے ضمیمے اور خاص نمبر کو آج بھی وہ اہتمام کے ساتھ حاصل کرتے ہیں۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ اردو کے علاوہ انگریزی اور ہندی میں ادبِ اطفال پر ہونے والے کاموں پر بھی وہ نگاہ رکھتے ہیں اور کتابیں اور انتخابات ان کے کتب خانے کی زینت ہیں۔ان حقائق کے پس منظر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ظفرکمالی لکھنے سے پہلے غوروفکر کرنے، پڑھنے، سمجھنے اورپھر چیزوں کو وقیع بناکر پیش کرنے کے قائل ہیںاسی لیے وہ بچوں کے لیے لکھنے کو بچوں کا کھیل متصور نہیں کرتے بلکہ احساسِ ذمّے داری کے ساتھ قلم اٹھانا اپنا فریضہ خیال کرتے ہیں۔

ادبِ اطفال کے حوالے سے ان کے نظریات بچوں کی ذہنی استعداد، فطری صلاحیت، نفسیات اور ان کی دل چسپیوں سے معمور مواد کی فراہمی سے عبارت ہیں۔اخلاقیات اور پندونصائح کے سپاٹ پن کو وہ جاذبیت اور کشش کے ساتھ پیش کرنے پر زور دیتے ہیں۔سائنسی موضوعات سے ایک حد تک گریز ان کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔ جو لوگ ادبِ اطفال میں سائنسی موضوعات کی پرزور وکالت کرتے ہیں ان کے نظریے کے مطابق وہ یہ بھو ل جاتے ہیں کہ بچوں کی اپنی دنیا ہے جس میں معصومیت ، شوخ و شنگ فطرت، البیلی ادائوں ، نزاکتوں اور معمولی چیزوں کو غیر معمولی متصور کرنے جیسے کئی رنگ و آہنگ ہیںجنھیں نظرانداز کرنا جہانِ طفل کے مرکزی خطوط سے منحرف ہونا ہے۔

ظفرؔ کمالی کافکری جھکاو اسماعیل میرٹھی کی طرف ہے۔ بچوں کے شاعروں میں افسر میرٹھی اور شفیع الدین نیر کو بھی وہ پسند کرتے ہیں لیکن جذباتی وابستگی اسماعیل میرٹھی سے ہے۔ اسماعیل میرٹھی ایسے شاعر ہیں جنھیں آج بھی پوری دل چسپی کے ساتھ پڑھاجاتا ہے اوران کا قدبھی سب سے اونچا ہے۔ باوجود اس کے کہ ان کے یہاں بڑوں کے بالمقابل بچوں کے لیے زیادہ چیزیں نہیںہیںلیکن جتنی ہیں وہ اس پایے کی ہیں کہ انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ظفرکمالی کا ایسے شاعر کو محبوب رکھنا ان کے نظریے کو سمجھنے میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسماعیل میرٹھی کے مشن کی توسیع ظفر کمالی کے یہاں توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ گو یا وہ ان کے زندہ ذہنی وارث ہیں۔

بچوں کے شاعراور ادیب کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نہ صرف خود کو اپنے بچپن کے حوالے کرے بلکہ بچوں سے قربت بھی رکھے،ان سے دوستی کرے، ان کی معصوم خواہشات اور تقاضوں کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرے۔ ظفر کمالی کے تعلق سے میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ وہ بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پورا کرتے ہیں اور باضابطہ قولاً و عملاً ان سے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھاتے ہیں۔ گھر کے ، محلے کے اور ملنے ملانے والوں کے بچے ان سے مانوس رہتے ہیں اور وہ بھی ان سے خوب محظوظ ہوتے ہیںاس لیے ان کے یہاں مشاہداتی موضوعات اور بچوں کی ذات سے جڑے پہلو ئوں کا تنوع ملتا ہے۔

ادبِ اطفال میں ظفر کمالی کی اب تک دوکتابیں’’بچوں کا باغ‘‘اور ’’چہکاریں‘‘ (رباعیاں)شائع ہوچکی ہیں اور تیسری کتاب ’’حوصلوں کی اُڑان‘‘ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ’’بچوں کا باغ‘‘ میں تیس نظمیں ہیں اور ’’حوصلوں کی اُڑان ‘‘میں نظموں کی تعداد چالیس ہے۔ اس طرح انھوں نے اب تک بچوں کے لیے ستّر نظمیں کہی ہیں جو کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان پر باضابطہ گفتگو ہونی چاہیے اور کسی بھی انتخاب اور تجزیاتی مطالعے میں انھیں شامل رکھا جانا چاہیے۔

ادبِ اطفال میں موضوعات کے انتخاب کا مرحلہ آسان نہیں ہوتا کیونکہ موضوعات کی یکسانیت ایک چیلنج کی ہوتی ہے۔ بچوں کی ذہنی مناسبت اور دل چسپیوں کو ملحوظ رکھے بغیر یہاں کامیابی نہیں ملتی۔ یوں تو ادبِ اطفال میں آزمودہ موضوعات ظفرکمالی کے یہاں بھی ہیں مگر کچھ نئے امکانات کی آہٹوں سے ان کا موضوعاتی دائرہ منفرد اور وسیع ہوجاتا ہے۔ یہاں وہ انتخابی نظر سے خاصا کام لیتے ہیں۔ تعلیم ، اسکول، کتاب ، قلم، ماحولیات، فطرت ، ہمدردی، رشتوں کی پاسداری، حب الوطنی ،بہادری، پرندے، جانور اور سیرو تفریح جیسے موضوعات ان کے یہاں بھی ملتے ہیں لیکن جہانِ طفل کی رنگا رنگ تصویروں میں بچپن ،بچوں کے کردار اور ان کی معصوم حرکتوں اور موج مستیوں کی برجستہ مصوری میں انھوں نے حیرت انگیز لطف و انبساط کا سامان مہیا کیا ہے۔ ایسی نظموں میں گویا بچپن بول رہا ہے۔ حمدیہ اور نعتیہ نظموں کے ساتھ مناجات کے ذریعے بھی انھوں نے بچوں کی اساسی فکرکو تابانی بخشنے کی کوشش کی ہے۔

ظفر کمالی نے اب تک دومناجاتیں کہی ہیں جو بارگاہِ ایزدی میں بچوں کی پُر اثر فریاد کا بیانیہ ہیں۔ ان میں بچوں نے حسبِ حال اپنی ضرورتیں خدا کے حضور پیش کی ہیں۔ علم کی دولت، وطن سے محبت، ہر سختی سے نبرد آزمائی، زندگی کا شعور، زخموں کے اندمال کے حوصلے اور ہمت کے حصول کی درخواست، نفرت، جھوٹ، ناانصافی اور بے راہ روی سے اجتناب، بزرگوں سے محبت ، اچھے برے کی تمیز اور قومی اتحاد جیسے مباحث ان مناجاتوں کا حصہ ہیں۔ کچھ نمونے ملاحظہ کریں ؎

مانگوں تجھ سے علم کی دولت دے مولا
اپنے وطن کی دل میں محبت دے مولا

ہر سختی پر تو مجھ کو آسانی دے
پیاسی ہے یہ تیری دھرتی پانی دے

علم و ہنر کا شوق جہاں میں عام کروں
اپنے وطن کا میں بھی روشن نام کروں
(بچوں کا باغ)

اس طرح رکھ ہماری امنگیں جواں
اس زمیں کو بناکر رہیں آسماں

جب ہیں انسان ہم بن کے انساں رہیں
تیرے بندے ہوئے اس پہ نازاں رہیں

اے خدا دے ہمیں ہمّت و حوصلا
مانگنے ہم کہاں جائیں تیرے سوا
(حوصلوں کی اُڑان)

مناجات میں جس اثر انگیزی ، کیفیت اور حلاوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ظفرکمالی کی مناجات میں موجود ہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں بھی انھوں نے جس طرح معنوی تہہ داری پیدا کی ہے اسے مذکورہ اشعار میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔زمین کو آسمان بناکر رہنا اور بندہ ہونے پر نازاں ہونا جیسے خیالات بچوں میں فکری بلندی کے اشاریے بن جاتے ہیں۔

حمدیہ اور نعتیہ شاعری اسلامی شعور کا روشن حوالہ ہیں۔ فضیلت و برکت کے حصول کے لیے اہلِ علم اسے اپنی کتابوں کا ابتدائیہ بناتے ہیں اس لیے زیادہ تر لوگ محض رسم کی ادائیگی تک خود کو محدود رکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فلسفۂ وحدانیت اور حبِّ نبی ﷺ کے حوالے سے ان کا کوئی ٹھوس پیغام بچوں تک نہیں پہنچ پاتا۔ حالانکہ بچوں کے ایمانی استحکام اور کردار سازی میں ان دونوں اصناف سے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں۔ظفر کمالی نے مناجات کے ساتھ ساتھ ’’یا اللہ ‘‘ اور ’’ اللہ ترا شکر ہے‘‘ کے عنوان سے جو نظمیں لکھی ہیں وہ حمدیہ ہیں۔ مناجات میں التجائیہ اور دعائیہ لہجہ اختیار کیا ہے جبکہ مذکورہ عنوانات کے تحت خدا کی تعریف و توصیف کو مطمحِ نظر بنایا ہے۔ انھیں پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوںنے رسم کی ادایگی سے اوپراٹھ کر معنیٰ خیز پیغام بچوں کو دینے کی کوشش کی ہے۔ دونوں مناجات اور حمد کو سلسلے وار پڑھیے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذاتِ باری کے ارد گرد شاعر نے ایسا روحانی ہالہ بنایا ہے جس میں بچے کہیں التجا کر رہے ہیں، کہیں تعریف و تشکّر سے زبانیں تر ہیں، کہیں بحرو بر کے جملہ نفوس میں اس کی قدرت و طاقت کے معترف ہیں ، کہیں اپنی بے بضاعتی کا اقرار کررہے ہیں اور کہیں الطاف و عنایات کے تذکرے میں مصرو ف ہیں۔ہر جگہ لَے الگ اور لب و لہجہ منفرد ہے۔’’یااللہ‘‘ سے کچھ مثالیں ملاحظہ کریں ؎

تو سارے عالم کا بانی یااللہ
ہر جانب تیری سلطانی یااللہ

تیری رحمت کا صدقہ امّی ابّو
دادا دادی نانا نانی یااللہ

جو تیری خواہش وہ میری خواہش ہو
میری راہیں ہوں قرآنی یااللہ

اپنا رستہ لوگوں نے دشوار کیا
بخشی تھی تو نے آسانی یااللہ

بچوں کے لیے حمدیہ شاعری میں وحدانیت و ربوبیت کے کسی فلسفے کو چھیڑے بغیر ظفرکمالی نے بڑے سہل انداز میںذاتِ باری کے عرفان سے بچوں کو آشنا کرایا ہے اور بچوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے بنیادی سوالات کے جوابات کا فریضہ انجام دیا ہے۔جس طرح یہاں بچوں کو خدا کی بے پناہ طاقت و قوت اور اس کے احکم الحاکمین ہونے کاعرفانی سبق ملتا ہے اسی طرح انعاماتِ الٰہی پر جذباتِ تشکّر کی ان دیکھی فطرت بھی ان میں پروان چڑھتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو نظم ’’اللہ ترا شکر ہے‘‘ ناشکری اور خدا سے شکوہ سنجی کے اس دور میں بچوں کے لیے مشعلِ راہ بن جاتی ہے۔
یہ امر مسلّم ہے کہ نعتیہ شاعری اپنے تقدس و طہارت کی وجہ سے بڑی نازک ہے۔ یہ نازکی بچوں کے لیے لکھتے وقت مزید بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ ان کی استعداد اور فہم کے مطابق آئینِ حیات کے معلّمِ کامل کی زندگی کا نقشہ پیش کرنا آسان نہیں رہتا۔ ظفرؔ کمالی نے اس دشواری کو اپنی فنی اورشعوری پختگی کی وجہ سے آسان بنادیا ہے۔ انھوں نے آقاﷺ کی سیرت کو پیش کرتے ہوئے بچوں کی ذہنی مناسبت کا پورا خیال رکھا ہے اور گہرے اور اہم پہلوئوں کو ابھار کر بچوں کے ایمان و اعتقاد کو فکری صلابت بخشی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں ؎

وہی ہیں عرشِ بریں کے مہماں
وہی نبوّت کے ماہِ تاباں
ہر ایک دل کے وہی ہیں ارماں
انھیں کو پڑھ لو وہی ہیں قرآں

درود ان پر سلام ان پر
خدا کی رحمت مدام ان پر

عجیب دولت وہ لے کے آئے
عظیم نعمت وہ لے کے آئے
خدا کی دعوت وہ لے کے آئے
زمیں پہ جنّت وہ لے کے آئے

درود ان پر سلام ان پر
خدا کی رحمت مدام ان پر

محبتوں کی نظر محمدؐ
صدف صدف کے گہر محمدؐ
ہماری شام و سحر محمدؐ
ہمارے خیرالبشر محمدؐ

درود ان پر سلام ان پر
خدا کی رحمت مدام ان پر

نبی ﷺ کو عرشِ بریں کا مہمان، قرآن، جنّت کو زمین پر لانے والا اور صدف صدف کے گہر کہنایہ خیالات بچوں کے لیے ایسی ایمانی کرنیں ہیں جن سے زندگی کی راہیں منور ہوتی ہیں اور آقا ﷺ کی محبت کا چراغ ان کے باطن میں جل اٹھتا ہے۔

ظفر کمالی کی شاعری کا اغلب حصہ رباعی اور نظمیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ ان دونوں اصناف میں شاعر سے فکری ارتقا، ذہنی ارتکاز، جزئیات بینی اور خیالات کی مصوری کا مطالبہ دیگر اصناف سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر شاعر اپنی فکری صلابت اور وجدانی قوت سے اس مطالبے کو پورا کرتا ہے توپھر اس کی شاعری خواہ بچوں کے لیے ہو یا بڑوں کے لیے ’’شئے دیگر‘‘ بن جاتی ہے۔ ظفر کمالی کی شاعری اسی قبیل کی ہے۔ انھوں نے ظریفانہ نظموں کے ساتھ ساتھ جب بچوں کے لیے نظمیں لکھیں تو فکر، اسلوب اور خیالات تینوں سطحوں پر اساسی فاصلے قائم رکھے۔ نظمیہ شاعری کے فن پر ماہرانہ دسترس سے انھوں نے بچوں کی نظموں کو بھی وقار، اعتبار، تخئیلی وفور ، جزئیات بینی اور واقعہ نگاری سے معمور کرکے خاصے کی چیز بنادیا ہے۔ زمین، بحر ، صوت و آہنگ اور ردیف و قافیے کے ذریعے شعری التزام کا بھی بھر پور اہتمام کیا ہے۔ ان کے یہاں نہ بالکل عامیانہ اور نہ ہی گنجلک اور مشکل رویہ ملتا ہے بلکہ فنی اعتبار سے شگفتگی اور شادابی دکھائی دیتی ہے جس میں جا بجا مزاح کے شبنمی چھینٹے بھی موجود ہیں۔

ظفر کمالی کے یہاں اعلا انسانی اقدار کا فروغ بنیادی ترجیحات میں شامل ہیں۔ وہ خیر کی فتح اور شر کی پسپائی دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ ادبِ اطفال کے ذریعے بھی انھوں نے تعمیری سوچ اور صحت مند تربیت کے فروغ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس سلسلے میں تعلیمی لوازمات پر مبنی ان کی نظموں کا جائزہ لیا جائے تو یہ محسوس ہوگا کہ انھوں نے نئی نسل کی ذہنی ساخت کو تعلیم کی اہمیت و افادیت سے مزیّن کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ ’’بچوں کا باغ‘‘ اور ’’حوصلوں کی اُڑان ‘‘ میں ایسی آٹھ نظمیں ہیں جن کے مباحث تعلیم اور لوازماتِ تعلیم ہیں۔ ’’قلم‘‘،’’کیاکروں‘‘، ’’کتابیں‘‘، ’’ہمیں اسکول جانا ہے‘‘، ’’آتا ہے یاد مجھ کو‘‘، ’’استاد کی چھڑی‘‘،’’قوالی‘‘،(بچوں کا باغ) ’’کتابیں پڑھیں‘‘اور ’’قلم کی عظمت‘‘(حوصلوں کی اُڑان) جیسے عنوانات کے تحت تعلیمی نظمیں لکھی گئی ہیں۔

’’قلم ‘‘ اور ’’قلم کی عظمت‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی دونوں نظمیں ایک مرکزی خیال کے پس منظر میں ضرور سامنے آتی ہیں لیکن دونوں کے مباحث اور اسلوب بہت مختلف ہیں۔ ’’قلم‘‘کی عظمت و اہمیت کوبچوں کے شعور کا حصہ بناتے ہوئے شاعر نے اس کے تاریخی پس منظر کو بڑی چابک دستی سے نمایاں کیا ہے۔انسانی عظمت و سطوت اور اس کی آبرو، دانا کی آرزو، سکونِ دل کی تازگی، تہذیب کا جامہ، شعلہ، شبنم، نشتر اور مرہم یہ سب قلم کے مختلف پیکر ہیں۔اس طرح کی مزید جزئیات اس نظم کو بامعنیٰ بناتی ہیں۔ کچھ اشعار بطورِ خاص ہماری توجہ کھینچتے ہیں ؎

قلم ہی دانا کی آرزو ہے
قلم کی فطرت میں خاکساری

قلم ہی انساں کی آبرو ہے
مگر یہ تیغ و تبر پہ بھاری

قلم کا جو بھی یہاں دھنی ہے
نہیں ہے محتاج وہ غنی ہے

قلم سے بچو دماغ روشن
ترقّیوں کے چراغ روشن

’’قلم کی عظمت‘‘ میں قلم کو واحد متکلم بناکر شاعر نے اپنے خیالات کی ترسیل کی ہے۔ یہاں زمین بھی الگ ہے اور لب ولہجہ بھی مختلف ہے۔ جز بہ جز ارتقاے خیال کے ساتھ نظم آگے بڑھتی ہے اور عبرت و حیرت کے کئی مناظر بچوں کی نگاہوں میں روشن ہوتے ہیں۔ قوم کی تقدیر، دل کی بینائی، آسماں سے پرے پرواز، غافلوں کے لیے تازیانہ، رفعت، عزت اور قوت کو قلم نے اپنی طرف جذبۂ تفاخر کے ساتھ منسوب کیا ہے۔اس نظم سے بھی چند اشعار ملاحظہ کریں ؎

مجھ کو الفت ہے سخت کوشی سے
کام کرتا ہوں میں خموشی سے

مجھ سے قائم ہیں راج شاہوں کے
میرے قدموں میں تاج شاہوں کے

اچھے اچھوں کے بھانڈے پھوڑ دوں میں
گردنیں ظالموں کی توڑ دوں میں

میرے آگے نہیں ہے کچھ تلوار
کُند حکمت سے کردوں اس کی دھار

جس کی قسمت میں مجھ سے ہے دوری
کیسے اس کی مراد ہو پوری

ان دونوں نظموں کو پڑھنے کے بعد قلم کی چلتی، پھرتی،بولتی اور دل پر نقش ہوجانے والی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ بچوں کے لیے ایسی نظمیں اس اہتمام کے ساتھ شاید ہی لکھی گئی ہوں۔ البتہ بڑوں کے لیے’’قلم‘‘کے عنوان سے شورش کاشمیری اور مجروحؔ سلطان پوری کی نظمیں ضرور موجود ہیں۔
’’کتابیں‘‘ اور ’’کتابیں پڑھیں‘‘ یہ دونوں نظمیں بھی فنی اور فکری اعتبار سے دومختلف اسالیب میں سرچشمۂ علم یعنی کتاب سے محبت ، اس کی اہمیت اور افادیت کا حسین مرقع پیش کرتی ہیں جن کا پس منظر بہت وسیع ہے۔ کتابوں کی اہمیت کو ہر دور میں تسلیم کیا گیا ہے۔ آج کتابوں سے بیزاری حیران کن حد تک بڑھی ہوئی ہے۔ انٹر نیٹ اور گوگل سماج کا اس رویّے کو بڑھاوا دینے میںبڑاہاتھ ہے۔ آج بچے نصابی اور درسی کتابوں میںبھی خود کو مصروف رکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ایسی صورتِ حال میں ظفر کمالی نے پوری حسّاسیت کے ساتھ اس موضوع کا خاکہ مذکورہ نظموں میں پیش کیا ہے۔’’کتابیں‘‘ سے چند اشعار دیکھیں ؎

دلوں کا نور ہیں اچھّی کتابیں
چراغِ طور ہیں اچھّی کتابیں

کتابیں کامیابی کا ہیں زینہ
رکھیں آباد یہ دل کا مدینہ

کتابوں کی رفاقت بھی عجب ہے
تعلق توڑنا ان سے غضب ہے

کتابوں سے اگر خالی مکاں ہے
وہ ہے بھوتوں کا مسکن گھر کہاں ہے

’’کتابیں پڑھیں‘‘ یہ نظم بھی مذکورہ خیالات کو سلسلے وار آگے بڑھاتی ہے۔ اس کے مندرجات اور مآل ومراجع ،کتاب اور انسانی زندگی کے مابین مستحکم رشتے کے آئینہ دار ہیں۔ کتاب کو مرکز میں رکھ کر شاعر نے ایسے ایسے حوالے پیش کیے ہیں جو اس کی تمجیدِ ذات کا اشاریہ بن گئے ہیں۔ اس نظم سے بھی کچھ حوالے ملاحظہ کریں ؎

فسانوں میں دل کش فسانہ کتاب
خزانوں میں نادر خزانہ کتاب
نہ ہو کیوں ہمارا ترانہ کتاب
کتابیں زمانہ ، زمانہ کتاب
کتابیں پڑھیں ہم کتابیں پڑھیں

یہی ہیں یہی نرم گفتار دوست
کتابیں ہیں سب کی وفادار دوست
ملے گا کہاں ایسا غم خوار دوست
کہاں ان سے بہتر مددگار دوست
کتابیں پڑھیں ہم کتابیں پڑھیں

کتابیں دماغوں کی تنویر ہیں
ہماری یہ دولت ہیں، جاگیر ہیں
کتابیں ہی خوابوں کی تعبیر ہیں
کتابیں ہی قوموں کی تقدیر ہیں
کتابیں پڑھیں ہم کتابیں پڑھیں

دونوں نظموں میںکتابوں کے تئیں جس قدر جزئیات ہیں ان سے مکمل سرور پوری نظم کو پڑھ کر ہی حاصل کیا جاسکتاہے۔جتنے اشعار بطورِ نمونہ یہاں پیش ہوئے ہیں ان سے پوری نظم کے گراف کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کتابوں کے تئیں ’’چراغِ طور‘‘،’’دل کا نور‘‘، ’’کامیابی کا زینہ‘‘، ’’کتابوں سے خالی گھر کو بھوتوں کا مسکن کہنا‘‘، ’’نادر خزانہ‘‘، ’’نرم گفتار‘‘، ’’وفادار‘‘، ’’غم خوار اور مددگار‘‘، ’’دماغوں کی تنویر، دولت، جاگیر‘‘، ’’خوابوں کی تعبیر‘‘، اور ’’قوموں کی تقدیر‘‘ جیسے استعارے وہی پیش کرسکتا ہے جس کا اوڑھنا بچھونا کتابیں ہوں۔ظفرکمالی کی شخصیت میں کتابوں سے محبت کا انوکھا طور دکھائی دیتا ہے۔ ہزاروں کتابوں پر مشتمل لائبریری کے درمیان وہ خود چلتی پھرتی کتاب ہیں۔یہی وجہ ہے کہ زندگی کے تجربات و مشاہدات سے ان نظموں کی معنویت میں اضافہ ہوا ہے۔ کتابیں پڑھنے کا اصل مقصد کیا ہے اسے اس بند میں ملاحظہ کیجیے ؎

جہالت ہے دل کا اندھیرا میاں
بڑا سخت ہے اس کا گھیرا میاں
خوشی کا نہیں یہ سویرا میاں
جہالت ہے ظلمت کا ڈیرا میاں
کتابیں پڑھیں ہم کتابیں پڑھیں

یہاں جہالت کے سخت گھیرے میں زندگی کی بڑی سچائیاں بیان کی گئی ہیں۔شاعر نے جہالت کی جو کارستانیاں دیکھی ہیں ان سے بچوں کو آگاہ کرنا وہ اپنا فریضہ متصور کرتا ہے۔

ظفر کمالی انسانی نفسیات پر اچھا درک رکھتے ہیں۔ کرداروں کے بطون میں اترکر تجزیاتی اور تحلیلی رویے ان کے یہاں مجموعی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادبِ اطفال میں بھی بچوں کی نفسیات کا گہرا شعور ان کی نظموں میںملتا ہے۔ دیگر نظموں کے ساتھ ساتھ انھوں نے تعلیمی نظموں میں بھی بچوں کی نفسیاتی دل چسپی برقرار رکھی ہے۔’’کیا کروں‘‘، ’’آتا ہے یاد مجھ کو‘‘اور’’استاد کی چھڑی‘‘ جیسی نظمیں بچوں کے لیے لطف کا سامان بن گئی ہیں۔

نظم’’کیا کروں‘‘ میںبچوں کی معصوم شکوہ سنجیوںکی عکاسی کی گئی ہے۔ یہاں بچے اپنی نفسیاتی اور ذہنی الجھنوں کو لہجے کی معصومیت میں اس طرح پیش کررہے ہیں کہ ان سے یک گونہ ہمدردی پیداہوجاتی ہے۔ تعلیم سے متنفر ہونا اور اسے مصیبت خیال کرنا بچوں کے عام مسئلے ہیں۔ مستقبل سے بے خبر ان بچوں کے اعصاب پر تعلیم وحشت بن کر سوار رہتی ہے۔ شاعر نے اسرارالحق مجازؔ کی نظم ’’آوارہ‘‘ سے ٹیپ کا مصرعہ اسی مناسبت سے استعمال کرکے نظم کو دل چسپ بنادیا ہے۔ یہ بند ملاحظہ کریں ؎

مجھ کو آتی ہی نہیں انگلش نہ بنتا ہے حساب
چور لے جاتے چراکر کاش میری ہر کتاب
ہوگیا ہوں میں جَہالت میں جو کامل کیا کروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

گھر پہ ٹیوشن بھی پڑھوں اسکول جانے کے سوا
روز مرغا بھی بنوں میں کیا کروں میرے خدا
کب ملے گی مجھ کو آزادی کی منزل کیا کروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

’’استاد کی چھڑی‘‘ جیسی نظم بھی بچوں کی نفسیات کا بیانیہ بن کر سامنے آتی ہے۔ تعلیم و تدریس کے سنجیدہ ماحول میں ’’چھڑی‘‘ جیسی جزئیات کوبھی ظفر کمالی نے اسی کیفیت کے ساتھ پیش کیا ہے جو بچوں پر فطری طورپر طاری ہوتی ہے۔اس عنوان کی ایک نظم تلوک چند محروم کے یہاں بھی ملتی ہے۔ انھوں نے ناصحانہ لہجے میں چھڑی کا تصور پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چھڑی کو ’’نصرت میں نامداری اور ہمدردی و غم گساری‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حالانکہ بچوں کا ذہن چھڑی کی خوفناکی اور وحشت ناکی سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ظفر کمالی نے اپنی نظم میں چھڑی کے تئیں بچوں کی فطری اور برجستہ سوچ کی تصویر کشی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر کے مطابق یہ چھڑی بچوں کے لیے مصیبت بنتی ہے، کلیجے میںہوک اٹھاتی ہے، خیالوںمیں ستاتی ہے، سدا خون کے آنسو رلاتی ہے اور بچے اس میں جلاّد کی کئی خوبیاں پاتے ہیں اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تلوک چند محروم کی نظم کے بالمقابل ظفر کمالی کی نظم زیادہ کامیاب اور دل چسپ ہے۔ نظم کے آخری حصے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎

حرام اس کے دم سے ہوئی زندگی
کہاں تک اٹھائوں میں شرمندگی

بڑوں کا تو کہنا ہے رحمت ہے یہ
مگر میرے حق میں تو زحمت ہے یہ

سمجھتا ہوں دل سے اسے واہیات
خدایا مجھے دے تو اس سے نجات

کئی خوبیاں اس میں جلاّد کی
چھڑی کہتے ہیں جس کو استاد کی

اس ضمن میں ’’قوالی‘‘ کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ فلم ’’مغل اعظم ‘‘ کے مشہور گیت ’’تری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے‘‘کی پیروڈی کے طورپریہ قوالی لکھی گئی ہے۔ اس میں بھی بچوں کے ذہنوں میں پیوست پڑھائی کی سخت جانی کو اسی دل چسپی اور شگفتگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس طرح نظم ’’کیا کروں‘‘ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ بچوں کے ذہنوں کے دریچے میں جھانک کر شاعر نے ان کے تصورات و خیالات کی عمدہ تصویر کھینچی ہے۔ دو بند ملاحظہ کریں ؎

پڑھائی کی حقیقت کا فقط اتنا ہے افسانا
سبق رٹنا، پہاڑے یاد کرنا اور چھڑی کھانا
جنازہ اس چھڑی کا اب اٹھاکر ہم بھی دیکھیں گے
اجی ہاں ہم بھی دیکھیں گے

کتابیں ہم نے مانا زندگی آباد کرتی ہیں
مگر بچوں کے بچپن کو بھی یہ برباد کرتی ہیں
کسی صندوق میں ان کو چھپاکر ہم بھی دیکھیں گے
اجی ہاں ہم بھی دیکھیں گے

پڑھائی بچوں کے بچپن کو برباد کرتی ہے جیسے خیال میں برجستگی کے ساتھ جو معنوی شگفتگی ہے اسے محسوس کیا جاسکتا ہے۔بچوں کی فطری سوچ کا ایسا خوبصورت اظہار بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اسی سلسلے کی نظم ’’آتا ہے یاد مجھ کو‘‘ اپنے مشمولات کی وجہ سے ذرا مختلف ہے۔ یہ بچپن اور لڑکپن سے شروع ہوکر زندگی کے آزمایشی ایام کی سرحد تک کی تصویر کشی کرتی ہے۔ اس کا مرکزی کردار وہ شخص ہے جس نے اپنے بچپن کو پڑھائی سے زیادہ غیر ضروری مشاغل میں مصروف رکھاتھا۔ آج جب وہ پیچھے مڑکر دیکھتا ہے تو اسے صحراہی صحرانظر آتا ہے اور نخلستان غائب ہے۔ یادوں کے جھروکے ایک ایک کرکے اس پر روشن ہورہے ہیں۔ اسی روشنی میں اسے اپنے وہ ساتھی بھی یاد آتے ہیں جنھوں نے پڑھائی میں جی لگاکر خود کو کامیاب بنایا اور افسر بن گئے۔ اس طرح یہ نظم بچوں کے لیے نصیحت اور عبرت کشید کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ کچھ اشعار دیکھیں ؎
آتا ہے یاد مجھ کو اسکول کا زمانا
وہ دوستوں کی صحبت وہ قہقہے لگانا

ملتی نہیں تھی فرصت دن رات کھیلنے سے
یوں رایگاں ہوا تھا پڑھنے کا وہ زمانا

کیسے کہوں کسی سے اب کیا ہے حال میرا
کھانے کو مشکلوں سے ملتا ہے ایک دانا

افسر بنے ہیں اس دم میرے ہی ہم جماعت
ان سے حیا کے مارے پڑتا ہے منہہ چھپانا

تعلیمی موضوعات پر لکھی گئیں ظفرکمالی کی نظمیں تعلیم کے مختلف زاویوں اور پہلوئوں کاخوبصورت احاطہ کرتی ہیں۔ ان نظموں میں ہم بچوں کی پڑھائی کے معصومانہ فرار سے لے کر فطری شوخی تک کے کئی جلوے دیکھ لیتے ہیں۔

اخلاقی اقدار اور تہذیبی شایستگی کو ادبِ اطفال میں ہمیشہ مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ بچے کئی حیثیتوں سے بڑوں کے محتاج ہیں۔ ان میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بچوں کی ذہنی نشوونما میں مثبت اور تعمیری افکار کے بیج پوری ہوشیاری کے ساتھ بوئے جائیں۔ اس سیاق و سباق میں ظفر کمالی کی نظمیں معنویت اور افادیت سے لبریز ہیں۔ ان کے یہاں اقدارِ حیات پر توانا اور مستحکم ادبی نظام کا سلسلہ دکھائی دیتا ہے۔ انسان کی سب سے اہم بڑائی یہ ہے کہ وہ انسان رہے جس میں شعورِ تعلق گہرائی کے ساتھ پیوست ہو۔ ظفر کمالی نے رشتوں کے بکھرتے نظام اور محدود ہوتے دائرے کو دیکھتے ہوئے کئی نظمیں کہی ہیں جن میں ان کی فکر مندی اور باطنی اضطراب کی شمعیں روشن ہیں۔ انھوں نے خاندانی اور خونی رشتوں کے تحفظ کے سلسلے میں ’’دادی اماں‘‘، ’’میرے چاچو‘‘، ’’ماں باپ کی محبت‘‘اور ’’داداپوتے کی دوستی‘‘جیسی نظمیں اسی حوالے سے پیش کی ہیں۔ ان تمام نظموں کی مشترکہ خوبی خونی اور خاندانی رشتوں کی تقدیس کا وسیع تناظر ہے۔ دل چسپی اور معصوم سوچوں کی حسین فضا میں یہ نظمیں کہانی کا لطف رکھتی ہیں اور شاعرنے چھوٹی چھوٹی جزئیات میں رشتوں کی پہچان کی گہری جڑیں پیوست کردی ہیں۔ دادی، دادا اور چاچو سے جذبۂ رشتگی کا وہی انداز یہاں ابھارا گیا ہے جس میں فلاحِ انسانیت کے راز مضمر ہیں۔بچوں کی زبان میںیہ نظمیں بین السطور کے طور پر اپنے مقاصد اور اہداف کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بچوں کی یہ عام فطرت ہے کہ وہ اپنے خاندان اور گھر والوں کی باتیں اپنے ہم عمروں کے ساتھ شِیَر کرتے ہیں۔ ان نظموں کی اس خوبصورت تکنیک میں گویا ایک بچہ اپنی داستانِ حیات اپنے دوستوں کو سنارہا ہے۔ اس طرح غیر شعوری طورپر پیغام کی ترسیل ہورہی ہے۔

’’ماں باپ کی محبت‘‘کی ابتدا ایامِ طفلی میں بچوں پر کیے گئے والدین کے احسانات، انعامات اور خدمات کے جذباتی بیان سے ہوتی ہے۔ والدین کس طرح عظیم ، مقدس، قابلِ احترام اور لایقِ تعظیم ہیں ان پہلوئوںکے راز منکشف کیے گئے ہیں۔مشقت سے پالنا، ہاتھوں سے کھلانا، لڑکھڑا تے وقت سنبھالنا، مسرت سے جھولے جھلانا، کلیجے سے لگانا، کبھی قصے سناکر اور کبھی لوری گاکر سلانا، بچوں کے لیے دکھ اٹھانا، ان کے لیے پیسے کمانا ، جینے کے طریقے سکھانا، بچوں کو ہنستا دیکھ کر ہنسنا، ریاضت، شجاعت ، سعادت اور صداقت کی تعلیم دینا جیسے مندرجات سے یہ نظم اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔کچھ بند ملاحظہ کریں ؎
چراغوں کی طرح جلنا سکھایا
درختوں کی طرح پھلنا سکھایا
نئے حالات میں ڈھلنا سکھایا
پکڑ کر انگلیاں چلنا سکھایا
محبّت باپ ماں سے ہم کریں گے
بتائیں کیا وہ کتنے مہرباں ہیں
سلگتی دھوپ میں وہ سائباں ہیں
جو ہم ہیں پھول تو وہ گلستاں ہیں
ہماری روح کا وہ آشیاں ہیں
محبّت باپ ماں سے ہم کریں گے
مذکورہ بند میں ’’درختوں کی طرح پھلنا‘‘، ’’دھوپ میں سائباں‘‘ اور ’’روح کا آشیاں‘‘ جیسے نظریات جب بچوں کے ذہنوں کو چراغاں کرتے ہیں تو وہ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں کہ ؎
بڑھاپے میں بنیں گے ان کی طاقت
کریں گے عمر بھر ان کی اِطاعت
کسی بھی کام میں لیں گے اجازت
چلے گی گھر میں ان کی بادشاہت
محبّت باپ ماں سے ہم کریں گے
’’دادا پوتے کی دوستی‘‘ بھی ظفرکمالی کی اہم نظم ہے۔ یہ مزاح کی لطافت ،شگفتگی اور دادا پوتے کے مابین دوستی میں خوشیوں اور مسرتوں کے ہالے سے معمور ہے۔اس میں دومرکزی کردار کے ساتھ دادی کاضمنی کردار بھی شامل ہے۔ شاعر نے تینوں کے تھرکتے جذبات کی ڈرامائی تشکیل سے نظم کی شان بڑھادی ہے۔ ادبِ اطفال میں عام طورپر دادا، دادی،چاچو اور خاندان کے دیگر افراد کے تعلق سے اتنے نازک جذبات پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے مگر ظفر کمالی کا یہ خاص فن ہے کہ وہ نازکی میں پوشیدہ شعری تجلیات اور کوند کو نہ صرف محسوس کرلیتے ہیں بلکہ فنی نمونہ بھی بنادیتے ہیں۔ یہ نظم اس کی عمدہ مثال ہے۔ یہاں پوتے کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں داد ا کو اس طرح نہال کرتی ہیں کہ شاعر کو اس قسم کے بلیغ اشعار کہنے پڑتے ہیں ؎

بچپن جو کھوگیا تھا پلٹ کر وہ آگیا
معصومیت کا لطف حواسوں پہ چھاگیا
آئی خزاں رسیدہ چمن میں نئی بہار
پوتے سے زندگی ہوئی دادا کی مشک بار
۲۶؍ اشعار پر مشتمل یہ نظم ارتقائی طورپر آگے بڑھتی ہے اور دادا پوتے کی پر لطف حرکتوں، ادائوں اور جذباتی وابستگیوں کو اسٹیج پر جاری کسی ڈرامے کی طرح پیش کرتی ہے۔جس کا ایک ایک منظر ننھّے قاری کو دعوتِ نظاّرہ دیتا ہے۔ پوتے کی پیدایش سے یہ نظم شروع ہوتی ہے۔اس کے پیدا ہوتے ہی دادا کے انتظار کی تھکن ختم ہوجاتی ہے۔ انھیں پوتے کی معصومیت میں اپنے بچپن کا لطف ملنے لگتا ہے۔ گویا انھیں کھویا ہوا بچپن مل گیا ہو۔ ان کی سستی دور ہوجاتی ہے۔ پھر ہنس ہنس کے دونوں میں گفتگو ہوتی ہے۔ اس طرح ان کی محبت کے چرچے چار سو پھیل جاتے ہیں۔ پھر نظم ،ڈرامے کے ان مناظر کی طرف پہنچتی ہے جن میں لطف و انبساط کے سامان موجود ہیں۔ اس حصے کے چند اشعار ملاحظہ کریں ؎
عینک پہن کے دادا کی وہ کھِل کھلاتے ہیں
دادا بھی دل ہی دل میں بہت مسکراتے ہیں
مچلیں کبھی کہ مجھ کو ہوا میں اڑائیے
اچھلیں کبھی کہ میرے لیے چاند لائیے
رٹ ہے کبھی کہ دادا ! مداری بلائیے
بندر کا کھیل آج ہی مجھ کو دکھائیے
اس کے بعد نظم دادی اور پوتے کے مختصر مکالمے میں دل چسپی کو مزید بڑھاتی ہے۔ دادی سے بکری کو پان دینے اور مرغے کو دیکھ کر اذان دینے کے مطالبے ہونے لگتے ہیں۔ دولھا نہ بنائے جانے کا ملال بھی ہے اور اپنی دلہن کا سوال بھی ہے اور کہانی سننے کی دھن بھی پوتے پر سوار ہوتی ہے۔اس طرح نظم اپنے اختتام پر پہنچ کر مرکزی خیال پر سمٹ جاتی ہے۔

خونی اور خاندانی رشتوں کے پہلو بہ پہلو شاعر نے سماجی اور انسانی اقدار کے ساتھ رزقِ حلال، بھائی چارے، محبت ،عزت اور ہمدردی جیسے اعلا اقدار پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ اس قبیل کی نظموں میں ’’یتیم لڑکا‘‘، ’’حلال روزی‘‘، ’’بھائی چارا‘‘، ’’نفرت‘‘اور ’’مزدور کی عزت کرو‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
’’یتیم لڑکا‘‘ موـضوع کی مناسبت سے غم کی اثر انگیز مرقع کشی پر مبنی ہے۔ کسی بچے کا یتیم و یسیر ہونا جس بے بسی اور بے کسی کی تمہید ہوتی ہے اس کو شاعر نے اپنے دلی صدمات و اضطراب کے ساتھ یہاں نمایاں کیا ہے۔ اس نظم میں اس نے دوایسے کردار وضع کیے ہیں جن میں ایک یتیم ہے اور دوسرا ہمدردو غم خوار۔ چھے اشعار یتیم کی تصویر کشی میں کہے گئے ہیں اور چار میں اس کے غم خوار کے جذبات ابھارے گئے ہیں۔ دس اشعار کی یہ مختصر نظم اپنے اندر ہمدردی کے جذبات کو متحرک کردینے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ چھوٹے سے کینوس پر گویا درد کا دریا بہادیا گیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں ؎
خزاں بن کے آئی جو بادِ نسیم
تو بچپن میں ہی ہوگیا وہ یتیم

اچانک ہی اجڑا امنگوں کا باغ
بجھا اس کی خوشیوں کا روشن چراغ

امیدوں کا شعلہ لہکتا نہیں
چہکنے کے دن ہیں چہکتا نہیں

دوسری تصویر بھی دیکھیں ؎

بہت غم زدہ ہے بہت ہے اداس
چلو چل کے بیٹھیں ذرا اس کے پاس

وہ لڑکا اگر مسکرانے لگے
تو اپنی محبت ٹھکانے لگے

کسی کا جو غم ہم سے ہوجائے دور
ملے زندگی کا حقیقی سرور

یتیم کے حوالے سے ہمارے معاشرے میںجو تحفظات ہیں وہ یقینا تکلیف دہ ہیں۔ زبانی ہمدردی کی کمی نہیں ہوتی مگر امنگوں کے اجڑے باغ میں خوشیوں کے چراغ روشن کرنے کی عملی سبیلیں شاید و باید ہی نکالی جاتی ہیں۔ ان حالات میں بچوں کی ذہن سازی بڑے امکانات کا شاخسانہ ہوتی ہے اسی لیے شاعر نے یہاں دل کی گہرائی تک اترجانے والے پیغام کی ترسیل کی ہے۔
’’بھائی چارا‘‘ کے عنوان سے لکھی نظم بھی انسانیت اورآدمیت کے اعلا مدارج کا سبق بچوں کو پڑھاتی ہے۔ یہاں بھائی چارے کی اہمیت ، افادیت اور معنویت کو عالمگیر تناظر میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ گیارہ بند وں میں اس کے مختلف پیکر اس طرح تراشے گئے ہیں کہ زندگی کے اہم شعبوں پر بھائی چارا محیط ہوجائے۔سات بندتعمیری فکر پر مبنی ہیں جبکہ چار میں تخریب کے پردے میں تعمیری سطحیں روشن کی گئی ہیں۔
نظم’’مزدور کی عزت کرو‘‘ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ظفر کمالی کے یہاں دبے کچلے، دھوبی، نوکر، غریب، مزدور، حالات کے ستائے اور سماج میںبے وقعت کرداروں سے ہمدردی ، محبت، غم خواری اور جذبۂ ترحم کا وسیع تناظر ہے۔ یہ ایسے کردار ہیں جن کے تئیں عام طورپر سماج کے اعلا طبقات اور متمول حضرات تحفّظاتِ ذہنی میں مبتلا رہتے ہیں۔ حالانکہ یہی طبقہ سب سے زیادہ ہمدردی کا مستحق ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ایسے ہی طبقوں کو نظر انداز کیے جانے پر آزمایشیں نازل ہوتی ہیں اور مشترکہ آفات میں سماج گرفتار ہوتا ہے۔ شاید اسی لیے کہا گیا کہ جس کو غریبوں سے محبت نہیں اور مسکینوں سے الفت نہیں وہ جوہرِ دین سے محروم ہے۔ ظفر کمالی نے ایسے کرداروں کو اپنے منجملہ ادبی نگارشات میں خاص جگہ دے کر اپنے ایمانی جذبے اور تقاضے کاثبوت پیش کیا ہے لہٰذا ادبِ اطفال میں بھی ان کے یہاں خواہ رباعی ہو یانظمیں ، خاصے مواد موجو د ہیں۔ اسی سلسلے کی حسین کڑی ’’مزدور کی عزّت کرو‘‘ بھی ہے۔
اس نظم کا مرکزی خیال یہی ہے کہ مزدور بھی انسان ہے اور اس کی بھی اپنی عظمت، وقعت اور عزّت ہے۔ وہ بھی ہمارے سماج کا اٹوٹ حصہ اور ذمّے دار فرد ہے۔ اسی خیال کو شاعر نے مختلف حوالوں سے بچوں کے ذہن میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے مزدوروں کی عظمت کے نقوش ان کے انھیں کارناموں سے ابھریں گے جو ان سے منسوب ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کا زاویہ بدل کر انھیں دیکھنا ہوگا۔ ظفر کمالی کی یہ نظم اسی نظریاتی تبدیلی کا عنوان ہے۔ورنہ مزدور کو انسانیت کی شان، وطن کی جان ،ہمت کا طوفان، غربت میں سلطان ، ملک کے معمار، عزم کے کہسار اور سب کے خدمت گار جیسے معنیٰ خیز استعاروں سے نہیں نوازا گیا ہوتا۔ یہ وہی شاعر لکھ سکتا ہے جس کا دل، درد کا منبع اور فکر ِخیر کا سرچشمہ ہو۔ یہاں ایسے الفاظ لائے گئے ہیں جن میں عظمت کی پوری کیفیت سمٹی ہوئی ہے تاکہ شاعر اپنے ترسیلی مراحل کو طے کرسکے۔
اقدارِ حیات کے سلسلے میں ظفر کمالی نے کچھ تمثیلی نظمیں بھی کہیں ہیں۔ ’’بیمار چوہیا‘‘، ’’ننھّا پودا‘‘، ’’کوّا اور کویل‘‘، ’’مینڈکوں کا گیت‘‘اور ’’گوریّا رانی‘‘ اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔ اس قسم کی نظمیں اقبال کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ تمثیل اور مشاہدے کے سہارے ظفر کمالی نے ایسی نظموں کو مکالماتی انداز او ر قصّے پن کی کیفیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان میں کہیں ہمدردی، کہیں منصوبہ بندی، کہیں شیریں کلامی، کہیں نفرت سے بیزاری اور کہیں الفت و محبت کے لطیف پہلو منعکس کیے گئے ہیں۔

’’کوااور کویل‘‘ کا وہی انداز ہے جو علامہ اقبال کی نظم ’’ ایک گاے اور ایک بکری‘‘ کا ہے۔ علامہ کے یہاں گاے اور بکری کے مابین جو مکالمے ہیں ان میں گاے کی شکوہ سنجی، ظفر کمالی کے یہاں کوّے کی شکوہ سنجی میں تبدیل ہوگئی ہے اور بکری کی معنیٰ خیز گفتگو یہاں کویل کی گفتگو بن گئی ہے۔ یہ مماثلت محض تمثیلی طور پر ہے ورنہ کردار، مکالمے اور موضوع تینوں مختلف ہیں۔ اس نظم کا موضوع کوے کی بھدّی اور کویل کی شیریں آواز ہے۔ اس طرح آدابِ گفتگو کا حسین پیغام اس نظم کا مرکزی خیال بن کر بچوں کے ذہن میں اترتا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں ؎
کسی کوّے نے اک کویل سے پوچھا
بتا بہنا کہ ہے یہ ماجرا کیا
غضب ہے یہ کہ ہم دونوں ہیں کالے
خدا کے فضل سے ہیں عقل والے
مگر دنیا کرے کیوں پیار تجھ سے
رہیں چھوٹے بڑے بے زار مجھ سے
کوّا ،کویل سے رنگ وروپ میں مماثلت کے باوجود دنیا والوں کی بے زاری کودیکھ کر کیفیتِ تحیّر میں ڈوب جاتا ہے اور کویل کے سامنے عاجزانہ سوال کرتا ہے۔ اس کا جواب کویل کچھ یوں دیتی ہے ؎
کہا کویل نے کوّے سے کہ بھائی
نہ کیوں تیری سمجھ میں بات آئی
جسے آتی نہ ہو شیریں بیانی
کرے کیا وہ دلوں پر حکمرانی
اس جواب کے پسِ پردہ بچوں کے لیے جو نکتہ اہم ہے وہ یہ کہ انسان جسمانی ساخت میں ایک ہیں اور ہر رنگ و روپ میں وہ انسان ہی ہیں اس لیے دلوں پر حکمرانی کے لیے شیریں بیانی کے راز ہاے سربستہ کو نہاں خانۂ دل میں محفوظ کرنا ہوگا۔

عزم وحوصلے اور بہادری و دلاوری کے پہلو پر ظفر کمالی کا خاص ارتکاز ہے۔انھوں نے بچوں کو زندگی کی مشکلات و آفات میںحوصلوں کے چراغ جلائے رکھنے اور مسلسل سعیِ پیہم کی خوبصورت تلقین کی ہے۔ زندگی میںکچھ کرنے کا جذبہ اور منزل تک پہنچنے کی سرشاری ان کی نظموں کو معنیٰ خیز بناتی ہے۔ادبِ اطفال میں ’’ہمتِ مرداں‘‘ (محمد حسین آزاد)’’کیے جائو کوشش ‘‘ (اسمٰعیل میرٹھی) اور ’’بڑھے چلو‘‘ (ساغر نظامی) جیسی نظموں کے فکری نظام ظفر کمالی کے یہاں وسیع تناظر میں ملتے ہیں۔’’ہوں گے جب ہم جواں‘‘، ’’حوصلوں کی اُڑان‘‘، ’’چیونٹیوں کی قطار‘‘، ’’کام کریں‘‘، ’’آگے بڑھتے جائیں‘‘اور ’’چک بَم چَک بَم‘‘کے عنوان سے اس موضوع کی نظمیں بچوں کو عزمِ جواں اور پیہم رواں کی تحریک عطا کرتی ہیں اور ان کے حوصلوں اور ولولوں کو بڑی شدّت سے مہمیز کرتی ہیں۔دو نظموں کے چند اشعار دیکھیں ؎
غار گہرے بھی ہوں تو پَٹ جائیں
حوصلوں سے پہاڑ کٹ جائیں

حوصلے جب اُڑان بھرتے ہیں
چاند پر جا کے وہ ٹھہرتے ہیں

جوش اور وَلولے ہیں جن کے غلام
ان کو آتے ہیں منزلوں کے سلام

ان کی ہمّت کو جب لگیں کوڑے
وہ سمندر میں ڈال دیں گھوڑے
(حوصلوں کی اُڑان)
ہم کتنی دولت والے ہیں چاہت اپنی پونجی
نفرت کی ماری دنیا میں الفت اپنی پونجی
طاقت اپنا سرمایہ ہے ہمّت اپنی پونجی
جرأت، حکمت، ملّت، غیرت، عزّت اپنی پونجی
ہم کتنے جوہر والے ہیں دنیا کو دکھلائیں
آگے بڑھتے جائیں ہم آگے ہی بڑھتے جائیں
قدموں کے نیچے رکھّیں گے ہم خوشیوں کا زینہ
اس رستے میں اک کردیں گے اپنا خون پسینہ
بپھری موجوں کی چھاتی پر چڑھ جائے گا سفینہ
سرکش دریائوں کا مِل کر چیریں گے ہم سینہ
خوشیوں سے دامن کو بھر لیں ناحق غم کیوں کھائیں
آگے بڑھتے جائیں ہم آگے ہی بڑھتے جائیں
(آگے بڑھتے جائیں)

مذکورہ مثالوں میںدلوں کوگرمانے اور باطنی کائنات کو متزلزل کردینے والی کیفیات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ محض شاعرانہ جوش نہیں بلکہ ان میں شاعر کی مدبّرانہ سوچ سے پیدا شدہ نکتے بھی ہیں کیونکہ جوشِ محض کی کوئی قیمت نہیں اگر اس میں حکمت کے جوہر شامل نہ ہوں۔یہاں مجاہدانہ جوش و خروش نہیں بلکہ زندگی کے تھپیڑوں اور ہچکولوں سے نبردآزمائی میںعزمِ مصمّم کی تلقین ہے اس لیے اشعار میں علائم و اشارات اسی مناسبت سے استعمال کیے گئے ہیں۔ منزلوں سے سلام آنا، چاند پر جاکر ٹھہر نا،سمندر میں گھوڑے ڈالنا،ہمّت اور خدمت والوں کی دنیا،جرأت، حکمت، ملّت، غیرت اورعزّت کی پونجی زندگی سے مربوط تلازمے ہیں۔

ان نظموں میں ’’چیونٹیوں کی قطار‘‘ شاہ کار کا درجہ رکھتی ہے۔ مشاہدے کی باریک بینی اس نظم کو خصوصی امتیاز عطاکرتی ہے۔ ایسی نظمیں لکھنے کے لیے شاعر کو جس جانکاہی سے گزرنا پڑاہوگا اس کو وہی جانتا ہے کیونکہ چیونٹی کے معمولی کردار میں غیر معمولی نتائج کی جستجو کوئی آسان کام نہیں۔ شاعر اپنی پختہ ذہنی سے ہی ایسی نظمیں رقم کرتا ہے۔ حفیظ جالندھری کی نظم’’محنتی چیونٹی‘‘ سے ظفر کمالی کی ’’چیونٹیوں کی قطار‘‘ جزوی طورپر موضوعاتی مماثلت رکھتے ہوئے بھی منفرد ہے۔دونوں نظموں کو تقابلی نظر سے دیکھیں تو حفیظ جالندھی کے یہاں سادگیِ محض نمایاں ہے جبکہ ظفر کمالی کے یہاں سادہ بیانی میں شعری وقار پوری طرح موجود ہے۔ظفرکمالی نے ’’لشکرِ بے نظیر‘‘، ’’ نہایت ذہین‘‘،’’ ننھّی مشین‘‘، ’’ہمّتوں کا نشان‘‘ اور ’’عظمتوں کا جہان‘‘ جیسی فکریات کے ذریعے اپنی نظم کو تازہ کار بنانے کی سعی کی ہے۔چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
چال میں نظم و ضبط ہے کتنا
ان میں آپس میں ربط ہے کتنا

لشکرِ بے نظیر کی صورت
ایک کالی لکیر کی صورت

یہ نہایت ذہین لگتی ہیں
ننّھی منّی مشین لگتی ہیں

عزم کی یہ چٹان ہوتی ہیں
اس لیے کامران ہوتی ہیں

ہم کو غفلت سے یہ جگاتی ہیں
کام کرنے کے گُر سکھاتی ہیں

ادبِ اطفال میں عالی حوصلگی، بلند ہمتی ، اولوالعزمی اور شجاعت و بہادری کی خصوصیات کو قومی اور وطنی نظموں کے ذریعے بچوں کے شعور کا حصہ بنانے کی مستحکم روایت موجود ہے۔ ظفر کمالی نے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انھوں نے بچوں کے ذہنوں میںوطنیت اور قومیت کا نقش بٹھانے کے لیے کئی کامیاب نظمیں کہیں ہیں۔ ’’ترانہ‘‘، ’’ہم اپنے دیس کے پیارے‘‘، ’’کار گِل کے شہید‘‘، ’’دیس کے سپاہی‘‘، (بچوں کا باغ)’’ترانہ‘‘، ’’ہمارا جھنڈا‘‘اور ’’ہمارا ملک‘‘(حوصلوں کی اُڑان)جیسی نظمیں وطن پرستی ،جذبۂ حرّیت، پیغامِ امن و آشتی اور الفت و محبت کی آبیاری کے لیے کسی محرّک کی طرح پیش کی گئی ہیں۔ شاعر کی منظم اور مستحکم منصوبہ سازی یہاں عروج پر ہے۔ اس نے ان نظموں میں اصلیت اور واقعیت کے ساتھ قومی اور وطنی جذبات کی جیسی مصّوری کی ہے اس میں خوداس کے جذبۂ حرّیت اور وطنی محبت کی آنچ بھی شامل ہوگئی ہے۔ یہی کیفیت وہ بچوں میں بھی پیداکرنا چاہتا ہے۔ کبھی رنگ و نسل کی تفریق مٹاکر، کبھی گنگا جمنا کے پانی کو امرت بتاکر، کبھی دل کو کعبہ اور مندر سے تشبیہہ دے کر، کبھی جغرافیائی سرحدیں مٹاکر، کبھی شہیدوں کی بہادری کے مناظر دکھاکر، کبھی قول و عمل میں یکسانیت دکھاکر، کبھی وطن کی مٹّی کو تاج کہہ کر، کبھی جھنڈے کے کردار کا وسیع تناظر پیش کرکے اور کبھی اپنے ملک کو دنیا میں منتخب بتاکر اس طرح مختلف جہتیں اور سطحیں ان نظموں میں اجاگر ہوتی چلی گئی ہیں۔ ادبِ اطفال میں آسان ، سہل اور روانی کو ملحوظ رکھنے کی کوشش میں اکثر لوگ یہ فراموش کرجاتے ہیں کہ شاعری جس طرح بڑوں پر اثر انداز ہوتی ہے اسی طرح بچوں کو بھی متاثر کرتی ہے اس لیے اگر وہ خلوص ، گہرے اثر اور فطری جوش سے خالی ہے تو بچے اس سے متاثر نہیں ہوسکتے۔ ان باتوں کے بیچ ظفر کمالی کا قددوسرے بہتوں سے مختلف نظر آتا ہے کیونکہ انھوں نے ہر جگہ شاعرانہ ساحری کو ملحوظ رکھا ہے۔ ان میں روانی اور سادگی بھی ہے اور تخیل آفرینی کے ساتھ للکار کی مدھم لَے بھی۔

’’ہمارا جھنڈا‘‘ کو علامتی پیکر میں ڈھالاگیا ہے۔ انقلاب اور حرّیت کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں قومی نشان نے جو کردار ادا کیا تھا شاعر نے چھے بندوں میں اس کو آئینہ کردیاہے۔ پہلے دوبندوں میں آزادی اور غلامی کے بیچ جھنڈے کے ثالثی کردار میں پوشیدہ جذبے کی آتش فشانی کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے سایے میں نہ صرف تحریکِ آزادی کا بگل بجاتھا بلکہ قوت و توانائی کی ایسی آگ بھڑکی تھی جس نے ہمارے ارادوں کو فولادی طاقت بخشی تھی اور جلاّدوں کی جلاّدی اور انگریزوں کی استادی کو خاک میں ملادیا تھا۔ یہ جھنڈا نہیں بلکہ دشمنوں کے سامنے بلوان اور جنگ کے میدان میں طوفان کا استعارہ بن گیا تھا۔ پہلا بند ملاحظہ کیجیے ؎
اسی جھنڈے کے سایے میں چھڑی تھی جنگِ آزادی
ارادوں کو ہمارے کردیا اس نے ہی فولادی
نہ پھانسی کام آئی اور نہ جلّادوں کی جلّادی
ملائی خاک میں اس نے ہی انگریزوں کی استادی
ڈریں اس سے نہ کیوں دشمن بڑا بلوان ہے پیارے
یہ وہ جھنڈا ہے جو لاکھوں دلوں کی جان ہے پیارے
تیسرے اور چوتھے بند میں یہ جھنڈا اہنسا، پیارو محبت ، اتحاد و اتفاق اور قومی یکجہتی کا نشان بن کر سامنے آتا ہے ؎
یہی جھنڈا سبھوں کو ایک دھاگے میں پروتا ہے
محبت اور چاہت کے دلوں میں بیج بوتا ہے
یہ نفرت کے سفینوں کو سمندر میں ڈبوتا ہے
کدورت ہو اگر دل میں تو اس کو بھی یہ دھوتا ہے
وطن پر جاں لٹانا دین ہے ایمان ہے پیارے
یہ وہ جھنڈا ہے جو لاکھوں دلوں کی جان ہے پیارے
آخری بند میں جھنڈے کے لیے دعائیہ لہجے کا اہتمام ہے ۔اس بند کے بین السطور سے بچوں میںجھنڈے کے تئیں تقدّس اور احترام کی تعلیم کو عام کرنے کا فلسفہ اختیار کیا گیا ہے ۔

ظفر کمالی کو فطرت اورمناظرِ قدرت سے خاص شغف ہے۔ اپنی اس دل چسپی کو انھوں نے بچوں کے ادب میں بھی نظر انداز نہیں کیا۔ رباعیات سے لے کر نظموں تک یہ سلسلہ ملتا ہے۔اس تناظر میں انھوں نے بچوں کو ماحولیات کی تطہیر اور اعتدال و توازن کا سبق بڑے سلیقے سے پڑھایا ہے۔ ماحولیاتی تحفظ اب عالمگیر موضوع ہے۔ انسان نے اپنے جبرو تسلّط کے ذریعے جس بے دردی کے ساتھ قدرتی نظام میں مداخلت کی ہے ۔ ظاہر ہے اس کاخمیازہ بھی اسے ہی بھگتنا پڑے گااس لیے ابتداے عمر سے ہی ماحولیات کے تئیں بیداری سماجی ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ظفر کمالی نے اس ذمّے داری کو محسوس کرتے ہوئے ’’پانی ‘‘ اور ’’ہرے درخت‘‘ جیسی نظموں میں اپنے پیغام کی ترسیل کی ہے۔ دونوں نظموں سے بطورِ نمونہ چند اشعار دیکھیں ؎
زندگی کا مَدار ہے پانی
اِس چمن کی بہار ہے پانی

اس سے اُگتی ہے یوں زمین پہ گھاس
جیسے دلہن کا شاندار لباس

ختم دنیا کے غم نہیں ہوں گے
یہ نہ ہوگا تو ہم نہیں ہوں گے
(پانی)
ہرے درختوں سے فطرت کلام کرتی ہے
بہار ان کو ادب سے سلام کرتی ہے

یہ سخت دھوپ میں قدرت کا شامیانہ ہیں
یہی ہزاروں پرندوں کا آشیانہ ہیں
(ہرے درخت)

ظفر کمالی نے ’’زبان‘‘ ، ’’وقت‘‘ اور ’’صبح کا وقت ‘‘ جیسی نظموں میں قدرتی مظاہر کی عظمت ، اہمیت اور ضرورت سے بھی بچوں کو آگاہ کیا ہے۔’’زبان‘‘ کے ۱۹؍ اشعار یوں تشکیل دیے گئے ہیں کہ زبان کے کردار میں تخریب و تعمیر کے دونوں پہلو اجاگر ہوگئے ہیں ۔ یہ نمونہ دیکھیں ؎
راحتوں میں زبان کی راحت
آفتوں میں زبان کی آفت

یہ محبت بھی ہے عداوت بھی
یہ جہنم ہے اور جنّت بھی

سوچ کر بولتے ہیں دانش مند
ورنہ رکھتے ہیں اپنے منہہ کو بند

رب کی نعمت یہ خوش بیانی ہے
طوق لعنت کا بدزبانی ہے
غور کیجیے ! نکتہ آفرینی کے کئی چراغ یہاں منور ہیں۔ سادگی کی سحر کاری کا یہ بہترین نمونہ ہیں ۔گویا یہ چھوٹے چھوٹے جملے ہیں مگر کتنے کاری ہیں اس کابھی اندازہ ہوتا ہے۔
’’صبح کا وقت ‘‘ میںمناظرِ فطرت کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔ نشاطِ صبح کا سماں ، اس کے شیریں نغمے، آب و تاب، قوتِ مزاحمت، ظلمتوں کا سینہ چیر کر ظہور کرنے کی طاقت، اس کی نزاکتیں ، ادائیں، لطافتیں، زندگی کی نئی حرارت ، ذرّے ذرّے میں ایقاظ و بیداری ، پرندوں کی سرمستیاں، عباد ت گاہوں کی روحانیت اور دنیاکے بازاروں کی ابتدائی رونقیں جیسی جزئیات کے ساتھ صبح گویا جیتا جاگتا اور پیغام رساں کردار بن گئی ہے۔یہ چند اشعار بطورِ خاص قابلِ توجّہ ہیں ؎
ذرّے ذرّے پہ چھائی بیداری
غافلوں میں بھی آئی ہشیاری

تتلیاں اُڑ رہی ہیں مستی میں
گھر ہے ان کا گلوں کی بستی میں

ہے یہی کیرتن بھجن کا وقت
شاعروں کے لیے سخن کا وقت

وقت بہتر یہی تلاوت کا
روح کے واسطے حلاوت کا

صبح کا وقت وقتِ ربّانی
صبح کا کام کارِ سلطانی
جاگتی راتوں اور سوتی صبحوں کے اس نئے عہد میں نئی نسل کو یہ کون سمجھائے کہ صبح کی پراسرار خاموشی میں قدرت کے کتنے اسرار پوشیدہ ہیں۔ظاہر ہے اس کی ذمّے داری بھی ادبِ اطفال کے ادیبوں کے کاندھے پر ہے۔صبح کے وقت کو ’’وقتِ ربّانی‘‘ اور اس وقت کے کام کو ’’کارِ سلطانی‘‘ سے تعبیر کرکے شاعر نے نظم کو دومرکزی قطبین کی طرف لے جانے کی سعی ہے جس کے وسیع پس منظر میں زندگی کے بنیادی لائحۂ عمل کی تعیین سے صبح کا کردار اہم ہوجاتا ہے۔

ظفر کمالی نے جن نظموں میں اپنی افتادِ طبع سے ظریفانہ عنصر کو شامل کیا اگر انھیں نظر انداز کردیا جائے تو ہم ان کے ساتھ انصاف نہیںکرپائیں گے۔ بچوں کی ذات میں ظریفانہ پہلوئوں اور تحصیلِ مسرّت کے توانا رجحانات موجود ہوتے ہیںاس لیے جب ہم ایک ظریف شاعر کی اطفالی نظمیں پڑھتے ہیں تو اس بات کی توقع بے محل نہیں ہوتی کہ اس نے سنجیدگی کے پہلو بہ پہلو شوخیوں اور مضحک گوشوں کو بھی اپنے طبعی رجحان کے مظاہر سے معمور کیاہوگا۔ ظفر کمالی کا قد اس حوالے سے اس لیے مختلف نظر آتا ہے کہ انھوں نے ابن انشا اور راجہ مہدی علی خاں کی طرح محض ایک پہلو پر پوری توجہ مرکوز نہیں کی بلکہ دونوں پہلوئوں کو حیطۂ تحریر میں لانے کی مشکل اٹھائی ہے۔ اب تک ظفر کمالی کی سنجیدہ اور نیم سنجیدہ نظموں پر روشنی ڈالی گئی تھی اس لیے یہاں کچھ ظریفانہ نظموں کو ذہن کا حصہ بنالینا بھی مناسب ہے۔ ’’شریر بچّے‘‘، ’’گڑیا کی شادی‘‘، ’’مجھے دولھا بنادو‘‘، ’’پیٹو میاں‘‘، (بچوں کا باغ)’’شریربچّے کی دعا ‘‘، ’’میرا بکرا‘‘، ’’بچّے‘‘ اور ’’گڈے کی برات‘‘یہ نظمیں نہ صرف شاعر کے شاداب و شگفتہ تخیل کی مظہر ہیں بلکہ ننھّے قاری کے جمالیاتی ذوق کی تسکین اور ظریفانہ تبسم کے ذریعے حظ اٹھانے کا پورا سامان رکھتی ہیں۔
ظفر کمالی زندگی کے مظاہر کا مطالعہ ہمیشہ نئے زاویۂ نگاہ سے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشاہدے کی قوت اور زاویۂ نگاہ کی ندرت سے اپنے فن پارے کو نیا طور اور نئی تجلی سے ہمکنار کرنے میںکامیاب نظرآتے ہیں۔ وہ اپنے آپ پر بے رنگی اور یکسانیت کو حاوی نہیں ہونے دیتے۔ تازہ کاری ایک ظرافت نگار کے لیے ضروری بھی ہے۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو ان کی ادیبانہ شخصیت کے لیے نشانِ امتیاز کا درجہ رکھتی ہیں۔ چنانچہ انھوں نے مذکورہ نظموں میں بچوں کے کردار کے مضحک پہلوئوں کو جدّتِ نظر کے ساتھ اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور بہجت و سُرور کی حسین دنیا آباد کردی۔
ان نظموں میں مزاح کی کیفیت ابھارنے کے لیے شاعر نے وہی انداز اختیار کیا ہے جو ادبِ اطفال کی روایت میں کافی توانا ہے۔ان نظموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ظفرکمالی نے بچوں کی زندگی سے بھرپور لطف اٹھایا ہے۔ ان کی اچھل کود ، ولولہ، سیر تماشے، معصومیت، جوش و خروش اور والہانہ پن سے حظ اٹھانے میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسی نظموں کو لکھتے وقت وہ بچوں میں بالکل گھل مل گئے اور لفظوں کے استعمال سے اس طرح خوش ہوئے جیسے بچے اپنے کھلونوں اور معصوم ادائوں سے مسرور ہوتے ہیں۔وہ دانائی کی اس منزل میں بھی نادانی کی لذّت انگیزیوں سے سرشار نظر آتے ہیں۔ ’’غیر معقولیت‘‘ میں ’’معقولیت‘‘ کی ایسی راہ یہاں اپنائی کہ یہ نظمیں بہ طورِ خاص جاذبِ نظر بن گئی ہیں۔ بچوں کے ادب میں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ گڑیا اور گڈے کی شادی، بچے کو دولھا بنانے، چوہیا کے بیمار ہونے جیسے پہلوئوں پر فلسفیانہ اور حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے سوچنا بچوں کی فطرت نہیں ۔ ان کے مرغے اذان دیں گے، وہ کھیت میں لڈو بوئیں گے اور وہ اللہ سے مونچھ اگانے کی دعائیں مانگیں گے۔ایسی ’’غیر معقولیت‘‘ کا بچوں کی کائنات میں اپنا جواز ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ان پہلوئوں کو ظفر کمالی نے نہ صرف نظموں میں بلکہ اپنی رباعیوں میں بھی بڑی ہنرمندی سے اجاگر کیاہے۔
’’شریر بچے ‘‘،یہ نظم ایک ایسی فضا میں ابھر تی ہے ،جہاں شرارت کے کئی شو خ رنگ دکھائی دیتے ہیں اور شریربچے اپنے فن میں بے نظیر ہو نے کی داد چا ہتے ہیں ۔اس نظم کی ابتدا ہی استعجابیہ انداز سے ہوتی ہے اور پوری نظم پرتحیرا تی تا ثر قا ئم ہے ۔جوں جوں یہ ارتقاء کی طرف بڑھتی ہے استعجاب کی یہ لہریں مزید ابھر تی ہیں گویایہ نظم نہیں بلکہ ایک حیرت سراے ہے جہاں بچوں کا ذہن ہچکو لے کھا تا ہے ۔ پہلا شعر ملاحظہ کریں ؎
ہم کو ہے فخر اس پر ہم ہیں شریر بچے
ماہر ہیں اپنے فن میں ہم بے نظیر بچے
اس کے بعد کے منا ظر میں شاعر نے دل چسپیوں کا ایک سماں باندھ دیا ہے ۔سو لہ اشعار میں ہر شعر شریر بچوں کی عجیب و غریب شو خیوں کا نگار خانہ ہے جس میں پِلّے کو با نہوں میں جکڑنا ،بلی کی دم کھینچنا ،گدھے کو سلا می داغنا ،بکرے کی پیٹھ پر بیٹھنا ،چو زے کو چو منا ،خر گوش کو سبز چادر اُ ڑھانا ، منّو کی لال ٹو پی بکرے کو پہنانا ،دادا کی نقا لی میں ان کے مو ٹے فریم والے چشمے کو پہننا ، کمر جھکا کر چلنا ،نصیحتوں سے نفرت ،مر غوں کی اذان میںاپنی آواز ملا نا ،با جی کے دو پٹّے کو عمامہ اور بڑے بھا ئی کا پا ئجا مہ پہن کر جو کر بننا ،کنستر کو ڈھول بنانا ،چڑیوں کے گھونسلوں میں روز جھانکنا، کچے امرود توڑنے کو تمام کاموں پرفوقیت دینا ،پانی میں رنگ گھول کے اسے شربت تصور کر نا ،کتّے پر ہلّا بو لنا اور پھر اپنی بہادری پر جشن منانا،ان تمام شرا رتوں کو فنی ہنر مندی اور شیریں بیانی سے پیش کر نے کی سعی کی گئی ہے ۔اشعار میں ان منظر نا موں کو پڑھ کر ننھّا قا ری محو ہو جا تا ہے۔ ان شریر بچوں کو آفا قی پیمانے پر شرارت کا اعتراف بھی ہے اسی لیے وہ کہتے ہیں ؎
انصاف ور ہیں جتنے وہ اس کو مانتے ہیں
دنیا کی ہر شرارت ہم خوب جانتے ہیں
گڑیا اور گڈّے کی شا دی بچوں کے ذوقِ طبع کو تلذّذ عطا کر تی ہے ۔ بچے اس محبوب مشغلے سے لطف اندو ز ہو تے ہیں اور مختلف انداز میں ان دونوں کی شا دی رچا تے ہیں۔اس موضوع پر ادبِ اطفال کے کئی ادیبوں نے خامہ فر سائی کی ہے اور اپنے اپنے انداز میں اس کو پیش کیا ہے ۔ ’’گڑیا کی شادی‘‘(کیف احمد صدیقی) ’’گڈے گڑیا کا بیاہ‘‘ اور ’’بلی کی شادی‘‘ (شفیع الدین نیر) ’’ہتھنی دلہن بنی ہے‘‘(کیفی سنبھلی) ’’گڈے میاں کی شادی‘‘ (اخگر مشتاق رحیم آبادی) اور ’’گڑیا کی شادی‘‘ (فراغ روہوی)مگر ڈاکٹر ظفر کمالی کا انفراد یہ ہے کہ انھوں نے اس مو ضوع کو ہمارے سماج سے جوڑکر دکھا یاہے ۔گڑیا اور گڈے کی شا دی سے پہلے منّی کے سامنے جہیز کے نام پر آشا کی جو فر ما یشیں ہو تی ہیں ان کا سرا ہمارے معا شرے سے جڑا ہو ا ہے۔اس اہم مو ضوع کو شاعر نے پُرلطف اندازمیں شعری اظہار عطا کیا ہے ۔آشا کی مانگ پر منّی آنسو بہا تی ہے، وہ سوچتی ہے کہ ہا تھی گھوڑے ،کپڑے کے سو جو ڑے ،ٹی وی ،کو لر ،مو ٹر ،سونے چاندی کے زیور کہاں سے آئیں گے اوربا راتیوں کا انتظام کیسے ہو گا ؟اسی تصوّر میں وہ گھبراتی ہے کہ یکا یک آشا کہتی ہے ؎
پھر وہ بولی جا ئو جائو
ڈوبے گی کا غذ کی نائو
لالچ کا پھل جس نے کھا یا
رویا آخر وہ پچھتا یا
اب خوشی کے ما حول میں شادی طے ہو رہی ہے ،آئیے !ہم لوگ بھی شربت پی لیں ؎
لائو جلدی شربت لائو
جائو اچھلو ناچو گائو
اس حوالے سے نظم ’’میرا بکرا‘‘ بھی یادگار ہے۔اس میں بچوں کے معصومانہ کردار اور سوچ میں برجستہ سنجیدگی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ بچے فطری طورپر مجبور ہیں کہ وہ نا معقول کا م کرتے ہوئے بھی غیر معمولی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ یہیں سے ظرافت کے پہلو روشن ہوتے ہیں۔اس نظم میں یہی ظرافت زیرِ لب مسکرانے پر مجبورکرتی ہے۔ اس میں بچہ پوری معصومیت اور ایمانداری کے ساتھ اپنے بکرے کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر میں مبتلا ہے۔ وہ ہر قیمت پر اپنے بکرے کو تعلیم یافتہ اور سماج کا حسّاس فرد بنادینا چاہتا ہے۔ وہ اسے عالم ، فاضل اور پی ۔ ایم تک بنانے کا سنہراخواب دیکھ رہا ہے۔ یہ تینوں مرکزی خواب نظم میں جزئیات آفرینی کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ پندرہ اشعار میں انھیں خوابوں کے تانے بانے بنے گئے ہیں۔ بکرے کو پڑھانے، ٹوپی پہنانے، چشمہ لگانے، دوستی کرنے، ٹافی بسکٹ کھلانے، اسکول لے جانے، ساتھ میں بیٹھانے، انگلش، اردو اور ہندی پڑھانے ، کرکٹ کھلانے، شادی بیاہ کرانے اور گھربسانے تک جیسے گوشوں کے ذریعے بچے کی سوچوں کی حسین دنیا کو نظم کا پیکر دے دیا گیا ہے۔چند اشعار سے آپ بھی لطف اندز ہوں ؎
وہ جب مغموم ہو گا میں کروںگا اس کی دل داری
سنائے ہیں مجھے دادی نے جو قصّے سنائوں گا

سکھادوں گا اسے مَیں کس طرح گاتے ہیں قوّالی
وہ ’’ مِیں مِیں ‘‘کرکے گائے گا تو میں ڈھولک بجائوں گا

پلائو مرغ کو کیوں سونگھ کر وہ چھوڑ دیتا ہے
یہ کھانا مولوی کھاتے ہیں میں اس کو بتائوں گا

کرے گا اپنی ٹانگیں جوڑ کر پَرنام لوگوں کو
اسے میں شہر لے جائوں گا ،گلیوں میں گھمائوں گا

اگر اسٹیج پر تقریر کرنا سیکھ جائے گا
تو بکرستان کا بکرے کو میں پی ایم بنائوں گا
دادی سے سنے قصے سنانا، لوگوں کو پرنام کرنا اور بکرستان کا پی۔ایم بنانا یہ وہ خیالات ہیں جوآسانی سے ہاتھ نہیں آسکتے۔خیالی دنیا کی یہ تصویر اپنی تمام تر غیر معقو لیت میں معقولیت کا مثبت انداز لیے ’’کہی ‘‘میں پوشیدہ’’ ان کہی ‘‘کا بیان بن گئی ہے۔
خیالی ادائوں او ر کرداروں کے ساتھ ساتھ ظفر کمالی نے ’’ریشم کی گڑیا‘‘،’’ہادیہ بیٹی‘‘اور ’’یاور میاں‘‘ جیسی نظموں میں بچوں کے جیتے جاگتے کرداروں کو منتخب کرکے گو یا خیال اور حقیقت کے درمیان مماثلت کی مثال پیش کی ہے۔ ریشما ان کی بھانجی، ہادیہ بھتیجی اور یاور میاں ان کے پوتے ہیں۔ اس طرح کی نظمیں الطاف حسین حالی کے یہاں ’’سیدہ خاتون‘‘ اور ابن انشا کے یہاں ’’بلو کا بستہ‘‘ کے عنوان سے بھی ملتی ہیں۔ظفرکمالی کی نظموں سے کچھ مثالیں ملاحظہ کیجیے ؎
ہادیہ بیٹی کتنی اچھّی ہیں
نیک ہیں اور دل کی سچّی ہیں
ایک بھائی ہیں ان کے بابو ایاز
پیار سے جن کو کہتی ہیں یہ پیاز
دیر تک یہ کبھی نہیں سوئیں
صبح اٹھ جائیں ہاتھ منہہ دھوئیں
چھوٹی روٹی یہ ِبیل لیتی ہیں
بَیڈمنٹن بھی کھیل لیتی ہیں
اپنے ابّو کی ہیں مُشیر یہی
شاہ وہ ہیں تو ہیں وزیر یہی
جھوٹ ان کو ذرا نہیں بھاتا
تیز غصّہ کبھی نہیں آتا
(ہادیہ بیٹی)
بڑے خوبصورت ہیں یاور میاں
محبت کی مورت ہیں یاور میاں
طبیعت میں ان کی بہت ہے اچھال
مچاتے ہیں دن رات گھر میں دھمال
پکاریں جب امّی کو ، مَمّا کہیں
کوئی ان کو چومے تو چَمّا کہیں
بنائیں یہ دادا کو گھوڑا کبھی
یہ پہنائیں بلّی کو جوڑا کبھی
کوئی آئے جائے کریں یہ سلام
سبھی لوگ ہیں اس ادا کے غلام
(یاور میاں)
ان اشعار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خیال اور حقیقت میں کتنی مماثلت ہے۔
ظفر کمالی کی نظموں کے تجزیے سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ وہ جس دل چسپی، محنت ، ریاضت اور مخصوص فنّی اور فکری زاویۂ نگاہ سے بڑوں کے لیے لکھتے ہیں ، بچوں کے لیے بھی وہی طَور اختیار کرتے ہیں۔ دونوں کے اپنے تقاضے، اپنی اہمیت و معنویت اور اپنے اسلوب ہیں لہٰذا ان کی رعایت کو ملحوظ رکھنا بھی وہ جانتے ہیں۔ بچوں کے لیے لکھتے ہوئے ان کے یہاں کئی بنیادی امتیازات ملتے ہیں۔ وہ غیر معقولیت میں معقولیت کی تلاش بڑی ہنرمندی سے کرتے ہیں۔ وہ بچوں کی سوچ، ادا، لب ولہجے اورمعصوم حرکتوں کی اتنی پرتیں کھولتے ہیں کہ قاری پر تحیّر کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہ کام وہ گہرے مشاہدے کی نظر سے انجام دیتے ہیں۔ دیگر لوگوں سے عنوانات کی جزوی مماثلت کے باوجود ان کی نظمیں اس لیے مختلف ہوجاتی ہیںکہ وہ چیزوں کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کی نظموں میں ڈرامائی پن، قصّہ گوئی اور تمثیلی اسلوب کی ہم آہنگی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظمیں کسی کہانی کار کی ذہنی اپج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معمولی پہلوئوں میں بھی غیر معمولی مناظر پیش کردیتے ہیں۔ ان کے الفاظ آسان، سادہ اور موزوں ہوتے ہیں ان کی تراکیب میں دل نشینی اور شگفتگی پائی جاتی ہے اوران کے افکار و خیالات روشن اور تعمیری ہیں۔ نظموں کی روانی بھی خوب ہے جس سے ان کی نغمگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ان کے یہاں شاعری کے نام پرنہ ’’واعری‘‘ ہے اور نہ تُک بندیاں بلکہ باضابطہ بحروں کے انتخاب کے ساتھ شاعرانہ شان میں نظمیں لکھی گئی ہیں۔ چھوٹے بچوں سے لے کر ایک خاص عمر کے بچوں تک کے لیے یہ شاعری نہایت مفید اور کار آمد ہے۔ بعض نظمیں اس قبیل کی ہیںکہ انھیں درسیات میں خاص جگہ ملنی چاہیے۔ امید ہے کہ یہ مجموعہ نہ صرف ادبِ اطفال میں انفرادی مقام حاصل کرے گا بلکہ پڑھے لکھے گھرانوں کی زینت بھی بنے گا۔

Previous articleادبِ اطفال کا ایک معیاری نمونہ: ’حوصلوں کی اُڑان‘
Next articleبچوں کے ظفرکمالی (مجموعہ چہکاریں کے حوالے سے)

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here