مگر تجھے ترا عہد کہن مبارك ہو (سلسلہ: 1,مثالی معاشرہ ) از: مولانا مفتی جنید احمد قاسمی

0
214

حالات کی تبدیلی:

زمانے کی رفتار کے ساتھ انسانوں کا رہن سہن ,۔ کھانے پینے سے لےکر اٹھنے بیٹھنے ,اور سوچنے سمجھنے تک کا انداز بدل چکا ہے۔ گھر یلو معاملات, اخوت و بھائی چارگی, ہمدردی و جاں نثاری کا معنی اب محسوس ہوتاہے کچھ اور ہو گیا ہے۔ نہ پہلے جیسا خلوص باقی رہا اور نہ پہلے جیسی علم و عمل کی وہ تصویر باقی رہی – خود غرضی, مفاد پرستی, دولت کی ہوس, خود آسائشی,اور خود راحتی انسان کا مقصود اعظم بن گئی ہے۔ حقوق اللہ سے لے کر حقوق العباد تک پائمال کئے جا رہے ہیں ;لیکن احساس تک نہیں ہے۔ نہ آخرت کا خوف ہے , نہ سزا و جزا کی پرواہ ہے ۔ الا ماشاءاللہ!

نماز کی پائمالی:
سب سے اہم چیز نماز تھی , پہلے(قرون مشھود لھا الخیر میں ) ایک مسلمان جان بوجھ کر نماز چھوڑے ایسا تصور ہی نہیں تھا- نماز کی پائمالی نہ یہ کہ اپنے سب سے بڑے محسن کی صرف احسان فراموشی ہے ; بلکہ بے وفائی کی بڑی مثال ہے۔ جس نے جسم دیا, جان دی, ہوا دی, پانی دیا, غلے دئیے- ہزاروں نعمتیں دیں اس کو بھول بیٹھے ; اسی لیے حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا: جو جان بوجھ کر نماز چھوڑے وہ دوسروں کے حقوق بدرجۂ اولی ضائع کريں گے ۔
محشر میں سب سے پہلے نماز کی پوچھ ہوگی:
قیامت / میدان حشر میں جب کہ نفسی نفسی کا عالم ہوگا سب سے پہلے نماز کی پوچھ ہوگی – مشہور فارسی شعر ہے ۔
روز محشر کہ جاں گداز بود
اولیں پرسش نماز بود

نوجوانوں کی حالت:
اذان ہو رہی ہوتی ہے۔ اور ہمارے نوجوان بے خبر رہتے ہیں۔ مؤذن پکارتا ہے ۔ آؤ کامیابی کی طرف …آؤ نماز کی طرف ….اللہ ہی سب سے بڑا ہے ۔ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔
بعض خدا کے نیک بندے ہیں۔ جو اذان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وضو کرتےہیں- اور مسجد حاضر ہو جاتے ہیں۔ تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھتے ہیں۔ فجر سے پہلے دو رکعتیں اور ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں سنت مؤکدہ اور عصر و عشاء سے پہلے کی چار چار غیر مؤکدہ پڑھتے ہیں۔ اور پھر تلاوت یا تسبیح کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ فرائض کی ادائگی کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہی حال نیک خواتين کا ہے ۔ وہ اللہ سے ڈرتی ہیں ۔ اذان کے بعد ساری مشغولیتوں سے بے پرواہ ہوکر گھر کے ایک کونے میں بیٹھ جاتى ہیں ۔ قبر و حشر کو یاد کرتى ہیں ۔ اپنے مالک کے سامنے روتی اور گڑگڑا تی ہیں ۔
لیکن وہیں نوجوانوں کی بڑی تعداد کا حال یہ رہتا ہے کہ: اذان کے بعد بھی بے پرواہ رہتے ہیں ۔ اگر دن ہے تو ہائے کام !- ہائے کام ! ہائے پیسہ ! ہائے پیسہ ! اور رات ہے ۔ تو رات گئے تک موبائل بینی یا ٹی وی شو ,ٹک ٹاک وغیره میں مشغول رہے – صبح کے آٹھ بجے آنکھ ملتے ہوئے اٹھے – ناشتہ واشتہ ہوا پھر دنيا کمانے نکل گئے – یعنی: دنیا کمانے کی مشین ٹھرے اور بس! …

نوجوان خواتين:
اور اگر خواتين ہیں تو ان کا بهى وہی حال ہے ۔ آج کی نوجوان لڑکیاں اور بہوئیں نماز کے معاملے میں بہت سست واقع ہوئی ہیں ۔ دن بھر گھر کے کام کاج دیکھنا اور رات کو بستر پر دراز ہو جانا –

میرے بھائیو اور بہنو! دنیا جس قدر بھی بدل جائے ,دنیا جتنی بھی ترقی کرجائے ۔ لیکن تمہاری معراج و ترقی اسی میں ہے کہ: ہر وقت اللہ کے احکام کو بجالانے کے لیے کھڑے رہو – تمہارے اسلاف نے جس طرح مجاہدہ کرکے اللہ کو راضی کیا تھا – تم بھی ویسا ہی کرو _ یہی اصل ترقی ہے -باقی دنیا کی چکا چوند دھوکہ کے سوا کچھ نہیں –
زمانہ مانگ رہا ہے دعا ترقی کی
مگر تجھے ترا عہد کہن مبارك ہو

قبرستان جاکر دیکھ لو وہاں تمہیں ہزاروں ایسے نوجوانوں کی قبریں ملیں گی جنھیں بڑھاپے میں توبہ کرنی تھی ..اور سیکڑوں ایسے افراد کی قبریں ملیں گی۔ جو کل سے نماز شروع کرنے والے تھے – اس لئے بہانہ بازی چھوڑو اور ابھی سے نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ !

(جاری)

Previous articleہندوستانی مسلم مجاہدینِ آزادی کا انسائیکلوپیڈیا از: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
Next articleتحفظ ماحولیات -اسلامی تعلیمات کی روشنی میں از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here