مولانا محمد حنیف قاسمی ؒ از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

0
72

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ وارباب حل وعقد کے رکن ، آل انڈیا ملی کونسل کے مدعو خصوصی ، مدرسہ رحیمیہ گاڑھا موجودہ ضلع مدھے پورہ، سابق استاذوپرنسپل بہت سارے مکاتب ومدارس کے سر پرست مولانا محمد حنیف قاسمی بن نبی بخش بن ابو محمد کا ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء برو زسوموار ، بوقتساڑھے نو بجے صبح اپنے آبائی گاؤں رحمت گنج ، تھانہ شری نگر وایا کمار کھنڈ ضلع مدھے پورہ میں انتقال ہو گیا ، ایک سال قبل فالج کا حملہ ہوا تھا، جس کی وجہ سے ان کے چلنے پھرنے کی قوت کو سخت نقصان پہونچا تھا ، لاٹھی کے سہارے ضرورت کے مطابق چل لیا کرتے تھے، بڑھاپا خود بھی ایک بیماری ہے ، جو موت تک پہونچا کر دم لیتا ہے ، جنازہ کی نماز ۲۶؍ اکتوبر کو بعد نماز عصر ان کے منجھلے داماد قاری سیف اللہ نعمانی ، امام عیدین کدواہانے بڑھائی اوررحمت گنج کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں پہلی اہلیہ سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں اور دوسری اہلیہ سے تین لڑکے اور چار لڑکیاں کل سات لڑکی اور چھ لڑکے کو چھوڑا، جن میں کئی عالم اور حافظ ہیں۔

مولانا محمد حنیف قاسمی کی ولادت اسناد کے مطابق ۲۶؍ جنوری ۱۹۳۹ء مطابق ۲۰؍ شوال ۱۳۵۹ھ کو رحمت گنج موجودہ ضلع مدھے پورہ میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم محلے کے میاں جی مولوی بھوٹائی سے حاصل کرنے کے بعد مدرسہ رحیمیہ گاڑھا میں داخل ہوئے، اور دو سال رہ کر وہاں کے اس وقت کے اساتذہ خصوصا مولانا محمد جمیل صاحب سے کسب فیض کیا، تعلیم بھی پائی اور تربیت بھی ، وہاں سے جامعہ رحمانی مونگیر چلے گیے اور چار سال دور طالب علمی کے یہاں گذارنے کے بعد دار العلوم دیو بند کا رخ کیا، جامعہ رحمانی مونگیر کے آپ کے اساتذہ میں امیر شریعت رابع حضرت مولاناسید منت اللہ رحمانیؒ بھی تھے، جن سے آپ نے شرح تہذیب پڑھی تھی، بخاری شریف آپ نے دارالعلوم میں حضرت مولانا فخر الدین صاحب ؒ سے پڑھی اور یہیںسے ۱۹۵۸ء میں سند فراغ حاصل کیا، قابل ذکر ہے کہ دار العلوم دیو بند میں آپ کا داخلہ بھاگلپوری طالب علم کی حیثیت سے ہوا اور فراغت سہرساوی کی حیثیت سے ہوئی۔

تدریسی زندگی کا آغاز دار العلوم لطیفی کٹیہار سے کیا، چھ ماہ کے بعد اپنے استاد مولانا محمد جمیل صاحب کی تحریک اور حضرت امیر شریعت رابع ؒ کی اجازت سے مدرسہ رحیمیہ گاڑھا چلے آئے اور سبکدوش ہونے تک پوری زندگی مادر علمی کی خدمت کرتے رہے، ۳۱؍ جنوری ۲۰۰۱ء میں سبکدوشی کے بعد بھی آپ علمی میدان میں سرگرم رہے، جس سے علاقہ کو بہت فائدہ پہونچا، آپ کے رفقاء درس میں مولانا محمود صاحب قاسمی پورینی، مولانا محمد حنیف ثانی قاسمی، مولانا عبد الستار قاسمی وغیرہ کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں، اکابر علماء سے آپ کے گہرے مراسم تھے وہ لوگ مولانا پر اعتماد کرتے تھے،ا س حوالہ سے حضرت امیر شریعت رابع ؒ اور قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کا نام لیا جا سکتا ہے ، ان حضرات کی شفقت مولانا پر آخری دم تک رہی ۔
مولانا کی نانی ہال اسرائین موجودہ ضلع مدھے پورہ تھی، والدہ منگلی خاتون بنت محمد اصغر علی تھیں، مولانا تین بھائی میں دوسرے نمبر پر تھے، بڑے بھائی محمد شفیق الحق مرحوم تھے، جن کے نواسہ مولانا مفتی زاہد حسین صاحب قاسمی ہیں جو ایک زمانہ تک راورکیلا میں امارت شرعیہ کے قاضی رہے، ان دنوں علاقہ کے ایک اسکول میں سرکاری معلم کے طور پر خدمت انجام دے رہے ہیں، تیسرے بھائی مولانا محمد سلیم اسجد قاسمی حی القائم ہیں، ایک بہن آمنہ خاتون بھی تھیں جو مولانا کی زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔

مولانا نے یکے بعد دیگرے دو شادیاں کیں، پہلی شادی گلشن آرا بنت محمد یٰسین مقام کدواہاضلع ارریہ سے ہوئی تھی ، ان سے تین لڑکے مولانا شمیم اختر ندوی، نسیم اختر ، فہیم اختر اور تین لڑکیاں زاہدہ خاتون ، ساجدہ خاتون اور عابدہ خاتون ہیں، ۱۹۸۳ء میں ان کے انتقال کے بعد نکاح ثانی حوا خاتون بنت محمد اسحاق مقام زورگنج ضلع ارریہ سے کیا، جن سے تین لڑکے حافظ کلیم اختر، حافظ نعیم اختر اور مولوی عظیم اختر اور چار لڑکیاں غزالہ پروین شائستہ ناز نین ، نغمہ چاندی اور شگفتہ چاندی تولد ہوئیں، غزالہ پروین تو اللہ کو پیاری ہو گئیں، بقیہ حی القائم ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مولانا کثیر العیال تھے، ایک درجن سے زائد لڑکے لڑکیوں کی پرورش وپرداخت اور تعلیم وتربیت آسان کام نہیں ہے ، وہ بھی بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی ملازمت کے ساتھ ، جہاں تنخواہ پہلے بہت قلیل تھی اور کبھی کبھی اس تنخواہ کو نکالنے میں چھ مہینے اورسال بھر کی مدت گذر جاتی تھی، مولانا نے اس قلیل یافت میں اپنے بچے بچیوں کی پرورش کی، انہیں پڑھا لکھا کر کام کا بنایا یہ اپنے میں خود ہی بڑی بات ہے ، جو مولانا کی قناعت پسندی اور ان کے گھر چلانے کی مضبوط صلاحیت کا مظہر ہے ، انہوں نے پوری زندگی اسی قناعت پسندی کے ساتھ کفایت شعاری سے گزار دیا، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کفایت شعاری آدھی آمدنی ہے ، مولانا محمد حنیف صاحب قاسمی نے اس آدھی آمدنی کا سہارا لیا تو اللہ نے زندگی اچھے انداز میں گذار دی ، توکل الی اللہ اور قناعت پسندی میں بڑی طاقت ہے اور اس طاقت کی حقیقت مولانا مرحوم کی زندگی کو دیکھ کر سمجھ میں آتی ہے ۔
مولانا نے پوری زندگی پڑھنے پڑھانے کا ہی کام کیا، اس حیثیت سے آپ استاذ الاساتذہ ہیں، آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد ہے جو ملک میں دینی، ملی اور سماجی خدمات میں مصروف ہیں، میرے قدیم رفیق مولانا نور اللہ ندوی مدھے پورہ اور مولانا محمدابو لاکلام شمسی شعبہ تعلیم اور معاون ناظم امارت شرعیہ بھی ان کے شاگردوں میں ہیں۔

مولانا مرحوم سے میرے تعلقات انتہائی قدیم تھے، جس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پو رویشالی میں مدرس تھا اور جمعیت شباب اسلام بہار کا جنرل سکریٹری ہوا کرتا تھا، اس زمانہ میں پہلی بار پرسا جانا ہوا تھا، وہاں جمعیت شباب اسلام کے ذریعہ مولانا نور اللہ ندوی صاحب کے گاؤں میں مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی ، پرسا کا راستہ گاڑھا ہو کر ہی گزرتا ہے ، مولانا نور اللہ صاحب کے والد بھی مدرسہ رحیمیہ گاڑھا میں پڑھا تے تھے، اس کی وجہ سے پہلے مدرسہ میں حاضری ہوئی ، پھر پر سا جانا ہوا، مولانا مرحوم سے میری پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی ، میں نے انہیں منکسرالمزاج، تواضع اور سادگی کا پیکر پایا ، وہ دوسروں کی عزت نفس اور حفظ مراتب کا خاص خیال رکھتے تھے، علاقہ میں دینی شعور اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کی فکر مندی نمایاں تھی، اسی فکر مندی کی وجہ سے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے مدرسہ اسلامیہ مغلا گھاٹ نند یا ضلع سوپول کا سر پرست بنایا تھا، اس کے علاوہ مدرسہ سلیمانیہ رفیقیہ رام نگر بازار ، دار العلوم نورانی چوک چین پور، مدرسہ قاسم العلوم رحمت گنج پوربی محلہ ، مدرسہ فلاح المسلمین جدوہ پٹی، جامعہ اسلامیہ سراج العلوم ڈپرکھا مدھے پورہ ، مدرسہ نظامیہ تعلیم القرآن مکھنا ہا ضلع پورنیہ، مدرسہ جامع العلوم کدواہا ضلع ارریہ، مدرسہ اصحاب صفہ للکوریہ وایا کمار کھنڈ ضلع مدھے پور سے بھی ان کی وابستگی مختلف حیثیات سے تھی۔

ان کی وفات سے اس پورے علاقہ کا ملی، تعلیمی نقصان ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ اس نقصان کی تلافی کی شکل پیدا کردے، علاقہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، مولانا مرحوم کو جنت الفردوس دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل ۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی کریم۔

Previous articleتمام اسکول بند، سرکاری ملازمین گھر سے کام کریں گے!
Next articleیومِ اطفال… ہماری ذمہ داریاں از: تسنیم فرزانہ (بنگلور)

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here