مسنون نکاح۔۔ از : ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

0
83

نکاح ایک سماجی ضرورت ہے ، جو تمام میں رائج ہے ۔ اسلام میں نکاح کاجو تصور دیا گیا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔دوسرے مذاہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔

جنسی جذبہ انسان کی فطرت میں داخل ہے ۔ اس کی تکمیل کے لیے انسانوں نے عجیب و غریب طریقے اختیار کیے ہیں ۔ کچھ مذاہب کے ماننے والے سمجھتے ہیں کہ یہ بہت قبیح عمل ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ انسان اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے اس جذبے کو نہ دبائے اور نہ کچلے۔ ہم جانتے ہیں کہ عیسائی راہبوں اور ہندو جوگیوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے ۔ ان لوگوں میں جنسی جذبے کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ۔ دوسری طرف کچھ لوگوں نے اس کو پورا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی ہے ۔ ان کے یہاں کوئی پابندی نہیں ہے۔انسان جس طرح چاہے، اپنے اس جذبے کی تکمیل کر لے ۔

اسلام نے جنسی جذبہ کی تکمیل کے لیے صرف نکاح کو جائز قرار دیا ہے ۔ اس نے سماج کو حکم دیا ہے کہ تمہارے اندر جو غیر شادی شدہ ہوں ان کے نکاح کراؤ اور وہ نو جوان یا وہ لوگ جو غیر شادی شدہ ہوں ان کو بھی تاکید کی ہے کہ وہ شادی کے بندھن میں بندھ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَأَنکِحُوا الْأَیَامَی مِنکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَإِمَاءِکُمْ إِن یَکُونُوا فُقَرَاء یُغْنِہِمُ اللَّہُ مِن فَضْلِہِ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیْم (النور:32)

”تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا ۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے“۔

’ایامی‘عربی زبان کا لفظ ہے ۔ اس کا واحد ’ایّم‘ ہے ۔ اس کے معنیٰ ہیں وہ نوجوان یا دوشیزہ جس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو ، یا وہ شخص جس کی شادی ہو چکی ہو ، لیکن کسی وجہ سے طلاق ہو گئی ہو ، یا اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہو ، یا وہ عورت جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا ہو ، یا اس نے اس سے علیٰحدگی اختیار کر لی ہو ۔ ایامی میں یہ تمام لوگ شامل ہیں ۔

قرآن سماج کی یہ ذمہ داری قرار دیتا ہے کہ ان کے درمیان کوئی بھی شخص ، خواہ وہ کسی بھی عمر کا ہو ، بغیر نکاح کے نہ رہے ۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :

”یَا مَعشَرَ الشَّبَابِ مَنِ استَطَاعَ مِنکُمُ البَاءَ ۃَ فَلیَتَزَوَّج فَاِنّہ أغَضُّ لِلبَصَرِ وَأحصَنُ لِلفَرجِ“(بخاری: 1905، مسلم:1400)

”اے نوجوانو! تم میں سے جو بھی نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو ، اسے نکاح کر لینا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس سے نگاہوں کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے ۔“

قرآن مجید میں بعض مقامات پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب بنایا گیاہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مُحْصِنِیْنَ غَیْْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْ أَخْدَان(المائدۃ : 5)

”ان کے محافظ بنو ، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو یا چوری چھپے آشنائیاں کرو – “

مُحْصَنٰتٍ غَیْْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَلاَ مُتَّخِِذٰتِ أَخْدَان(النساء:25)

”وہ حصارِ نکاح میں محفوظ ہوکر رہیں، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں“۔

مردوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ عیاشیاں کریں ، کھلے چھپے بدکاری کریں یا ناجائز تعلقات قائم کریں ۔ اسی طرح عورتوں کو بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ نکاح کے بندھن میں نہ بندھیں اور کھلے چھپے آوارگی کا مظاہرہ کریں ، یا چوری چھپے عیاشیاں کریں ۔

اسلامی تعلیمات میں اس سے آگے کی چیز ملتی ہے ، جو ہم سب کے لیے قابل توجہ ہے ۔ اسلام نے نکاح کو آسان سے آسان تر بنایاہے اور زنا کو مشکل سے مشکل ترکیا ہے ۔ چنانچہ زناسے متعلق سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنیٰٓ إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَّسَآء سَبِیْلاً (الاسراء:32)

”لوگو! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ یہ فحش کا م ہے اور انتہائی برا راستہ“۔

زنا کی سزا قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے ۔ اس کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کو سو(100) کوڑے مارے جائیں گے اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر وہ شادی شدہ ہے تو اسے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا ۔ اس کے مقابلے میں نکاح کو بہت آسان بنایا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ کے ارشادات ، آپؐ کا اسوہ اور صحابہ کا عمل ہماری رہ نمائی کرتا ہے ۔ آپؐ کا ارشاد ہے :

أعظَمُ النِّکَاحِ بَرَکَۃً أیسَرُہ مَئُونَۃً (احمد:24529)

”سب سے زیادہ با برکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچ ہو“۔

عام طور سے نکاح کے موقع پر بہت خرچ کیا جاتا ہے ، دل کے ارمان نکالے جاتے ہیں ، پر تکلف دعوتیں ہوتی ہیں ، بڑی تعداد میں دولہا ، دلہن اور رشتہ داروں کے جوڑے تیار کیے جاتے ہیں ۔ ان مصارف کے لیے قرض تک لینے کی نوبت آجاتی ہے ۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے اس نکاح کو سب سے بہتر قرار دیا ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو اور جو سب سے زیادہ آسانی سے انجام پائے ۔

اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں ایک عورت آئی اور کہا کہ مجھ سے نکاح کر لیجیے ، یا کسی اور سے میری شادی کر دیجیے ۔ آپؐ خاموش رہے۔وہ عورت بیٹھ گئی ۔ کچھ دیر کے بعد ایک صحابی نے کہا : اے اللہ کے رسول! اس عورت کا نکاح مجھ سے کر دیجیے ۔ آپ ؐ نے پوچھا: تمہارے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا : کچھ نہیں ہے ۔ آپؐ نے فرمایا : کچھ تو ہوگا ۔ اس نے عرض کیا : کچھ نہیں ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا : اپنے گھر جاؤ اور دیکھو ، جو بھی ہو، لے آؤ ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی تاکید کے بعد وہ صحابی چلے گئے ۔ کچھ دیر کے بعد واپس آئے اور کہا : میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ آپ ؐنے فرمایا : تمہارے پاس لوہے کی انگوٹھی تو ہوگی؟ انھوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! وہ بھی نہیں ہے ۔ مگر اس وجہ سے نکاح نہیں روکا گیا ۔ آپؐ نے فرمایا : تمہیں جو کچھ قرآن یاد ہے ، اسے اس عورت کو سکھا دینا ۔ اسی کے عوض میں اس کو تمہارے نکاح میں دیتا ہوں ۔ (بخاری:5121 ، مسلم : 1425)

ایک مرتبہ ایک نوجوان آپ ؐ کے پاس آیا اور کہا : اے اللہ کے رسولﷺ!میں نکاح کرنا چاہتا ہوں ، لیکن کہیں پیغام بھیجتا ہوں تو لوگ مجھے اپنی لڑکی دینے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ وہ نوجوان پچھنا لگانے کا کام کرتا تھا ۔ ہمارے سماج میں بھی لوہار ، نائی اور اس طرح کے لوگوں کو بد ذات سمجھا جاتا ہے ۔ چوں کہ وہ نوجوان ایک معمولی پیشہ سے وابستہ تھا ، اس لیے لوگ اسے اپنی بیٹی دینے کے لیے راضی نہ تھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا : تمھارا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ اس نے جواب دیا : بنو بیاضہ سے ۔ آپؐ نے قبیلے والوں کو پیغام بھجوایا کہ اس نوجوان کا کہیں نکاح کروادیں ۔ (ابوداؤد : 2102)

اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ آج کل ہمارے سماج میں دوشیزائیں بیٹھی رہتی ہیں ، ان کے رشتے نہیں مل پاتے ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہؓ کے زمانے میں مطلقہ یا بیوہ عور ت گھر میں بیٹھی رہے ، اس کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ ایک عورت کی کسی وجہ سے طلاق ہو گئی ہو یا وہ بیوہ ہو گئی ہو تو اس کی دوسری شادی ہوجاتی تھی ، تیسری شادی ہوجاتی تھی ، چوتھی شادی ہوجاتی تھی ۔ عمر کے کم یازیادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ کم عمر لڑکیوں کی شادی بڑی عمر کے مردوں سے ہوجاتی تھی اور زیادہ عمر کی عورتوں کی شادی نو عمر لڑکوں سے ہوجاتی تھی ۔ اس معاملہ میں کوئی روک ٹوک اور دشواری نہیں تھی ۔

ایک خاتون تھیں حضرت عاتکہ بنت زیدؓ ۔ حضرت ابو بکرؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ سے ان کا نکاح ہوا ۔ غزوہئ طائف میں وہ شہید ہو گئے تو حضرت زید بن الخطاب ؓ نے ان سے نکاح کر لیا ۔ وہ شہید ہو گئے توحضرت عمر فاروق ؓ نے ان سے نکاح کیا ۔ وہ شہید ہو گئے تو حضر ت زبیر بن العوّامؓ نے ان سے نکاح کیا ۔ وہ شہید ہوگئے تو حضرت حسن بن علیؓ نے ان سے نکاح کر لیا ۔ اس طرح ان کا لقب’زوجۃ الشھداء‘(شہیدوں کی بیوی) پڑ گیا تھا ۔ (الاستيعاب ، ابن عبد البر)حضرت اسماء بنت عمیسؓ حضرت جعفر بن ابی طالبؓ کی بیوی تھیں ۔ وہ جنگ مؤتہ میں شہید ہوئے تو حضرت ابو بکر ؓ نے ان سے نکاح کرلیا ۔ حضرت ابو بکرؓ شہید ہوئے تو حضرت علیؓ نے ان سے نکاح کیا ۔ (اسد الغابۃ)

حضرت فاطمہ بنت قیسؓ بہت مشہور صحابیہ ہیں ۔ ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی توعدّت مکمل ہوتے ہی ان کے پاس تین (3) رشتے آگئے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچیں اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! میرے پاس فلاں فلاں رشتے آئے ہیں ۔ بتائیے ، ان میں سے کون سا رشتہ میرے لیے بہتر ہوگا ؟ حضور ؐ نے فرمایا : اگر مجھ سے رائے لیتی ہو تومیرا مشورہ یہ ہے کہ تم ان کے بجائے اسامہ بن زیدؓ سے نکاح کرلو ۔ چنانچہ انھوں نے حضرت اسامہؓ سے نکاح کر لیا ۔ وہ خود بیان کرتی ہیں کہ میرا یہ رشتہ بہت با برکت ثابت ہوا ۔ (مسلم:1480، ترمذی: 1135) حضرت فاطمہؓ کی عمر زیادہ تھی، ان کے مقابلہ میں حضرت اسامہؓ کی عمر کم تھی ۔ دونوں کی عمروں میں کافی تفاوت تھا ، لیکن انھوں نے خوش گوار ازدواجی زندگی گزاری ۔

اسلام میں عورت کو آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس کو چاہے پسند کرے ۔ اسے کھل کر اپنی خواہش کے اظہار کی آزادی ہے ۔ ایک لڑکی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میرے باپ نے میرا رشتہ اپنے بھتیجے کے ساتھ طے کر دیا ہے ، مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : اگر تم نہیں چاہتی ہو تو تمہارا یہ رشتہ نہیں ہو سکتا ۔ وہ لڑکی فوراً بول اٹھی: مجھے یہ رشتہ منظور ہے ۔ میں تو صرف یہ دکھانا چاہتی تھی کہ اسلام میں خواتین کو اپنی رائے کے اظہار کرنے کی کہاں تک آزادی ہے؟! آپؐ نے میرا حق تسلیم کر لیا ، اب میں یہ رشتہ قبول کرتی ہوں ۔ (نسائی : 3269 ، احمد : 25043)

اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ عربی زبان میں جہیز کے لیے کوئی لفظ ہے ہی نہیں ۔ عہد نبوی میں جتنی شادیاں ہوئیں ، کسی میں بھی جہیز کا تذکرہ نہیں ملتا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی شادی میں کسی باپ نے اپنی بیٹی کو کچھ نہیں دیا ہوگا ۔ ضرور دیا ہوگا ، لیکن وہ جہیز کی شکل میں نہیں تھا ۔ سامان اکٹھے نہیں کیے گئے ہوں گے ، ان کی نمائش نہیں کی گئی ہوگی ، شادی سے پہلے لڑکے والوں کی طرف سے لسٹ نہیں دی گئی ہوگی کہ فلاں فلاں چیز چاہیے اور وہ فلاں کمپنی کی ہونی چاہیے ۔ آج سماج میں جس بڑی مقدار میں اور جس دکھاوے کے ساتھ جہیز کا لین دین ہوتا ہے اس کی دین میں کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی ہر بیوی کا مہر پانچ سو درہم تھا۔ یہی مہر حضرت فاطمہؓ کا بھی تھا ۔ حضرت علی ؓ شروع ہی سے آپ ؐکے پروردہ تھے ، آپؐ کے ساتھ رہتے تھے ۔ جب نکاح کا موقع آیا تو آپؐنے ان سے پوچھا : تمہارے پاس کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا : میں تو شروع ہی سے آپ کے ساتھ رہ رہا ہوں ، میرے پاس اپنا کچھ نہیں ہے ۔ حضور ؐ نے فرمایا: تمہارے پاس جو زرہ ہے اسے بیچ لاؤ ۔ انھوں نے زرہ بیچی ۔ اس سے جو پیسے وصول ہوئے اس سے آپؐ نے گھر گرہستی کا سامان خرید وایا اور اسی سے مہر ادا کروایا ۔ (السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر)

آج کل باراتیوں کی لمبی لسٹ بنتی ہے ۔ لڑکے کے چچا اور چچیاں ، خالو اور خالائیں ، پھوپھا اور پھوپھیاں ، پڑوسی ، دوست و احباب ، غرض ایک لمبی فہرست تیار ہوتی ہے ۔ اس موقع پر کسی کو نظر انداز کیا جاتا ہے ، یا بھول کر اس کا نام چھوٹ جاتا ہے تو وہ ناراض ہوجاتا ہے ۔ پھر لڑکے والے لڑکی والوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو باراتی آپ کے یہاں پہنچیں ان کی خوب اچھی طرح خاطر داری ہو ۔ غور کریں ، یہ کتنی بڑی زیادتی اور بے شرمی کی بات ہے کہ لڑکے والے اپنے مہمانوں کو زبر دستی لڑکی والوں کا مہمان بنا دیتے ہیں ۔ عہد نبوی میں ہونے والی شادیوں میں بارات کا کوئی تصور نہیں تھا ۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا شمار مدینہ کے انتہائی مال داروں میں ہوتا تھا ۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتقال کے وقت انھوں نے جو سونا چھوڑا اسے کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر ان کے ورثہ میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ ان کا جب نکاح ہوا تو انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ کو بھی بلانے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ بعد میں جب آپ ؐ کو معلوم ہوا توان سے فرمایا : اے عبد الرحمن !ولیمہ کرو،چاہے اس میں ایک بکری ہی ذبح کرو۔ (بخاری:2048، مسلم:1427) ہم غور کریں ، اللہ کے رسول ﷺ کی ذات کتنی با برکت اور محترم تھی ۔ ایک چھوٹی بستی میں نکاح کی مجلس ہوتی ہے ، لیکن آپؐ کو بلانے کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی ۔

نکاح کی تقریب منعقد کرنے کے لیے بڑے بڑے میرج ہال بک کیے جاتے ہیں اور اس کے ڈیکوریکشن پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ، حالاں کہ بہت آسانی سے سادہ تقریب منعقد کی جاسکتی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”نکاح کا اعلان کرو اور اسے مسجد میں کرو۔“(ترمذی:1089) حدیث کے دوسرے جملے کو بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن مسجد میں انعقادِ نکاح کی افادیت کو دیکھتے ہوئے فقہاء نے اسے نہ صرف جائز ، بلکہ بہتر اور پسندیدہ قرار دیا ہے ۔ اس سے ایک تو نکاح بہت سادگی سے انجام پاتا ہے ، دوسرے اس کی تشہیر بھی ہو جاتی ہے ۔ مسجد کا روحانی ماحول بہت سکون و اطمینان اور برکت والا ہوتا ہے ۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستانی سماج میں ہم نے اپنے اوپر بہت سے بوجھ لاد لیے ہیں ۔ جب تک ہم ان سے دوری اختیار نہیں کریں گے اور ان کو اتار نہیں پھینکیں گے ، ہمارے لیے صحیح اسلامی معاشرہ کا نمونہ پیش کرناممکن نہ ہوگا ۔ ہر نکاح کی تقریب میں نکاح کے فضائل اور مسائل بیان کیے جاتے ہیں ، اس کی تفصیلات پیش کی جاتی ہیں ، لیکن عمل کا جذبہ مفقود ہوتا ہے ۔ اگر ہم اپنی ایجاد کی ہوئی رسموں کو چھوڑ کر اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے لگیں اور ان کا عملی نمونہ پیش کریں تو نہ صرف یہ کہ معاشرہ کی اصلاح ہوگی ، بلکہ جو غیر مسلم بھائی ہمارے آس پاس رہتے ہیں ، ان کے سامنے بھی اچھا نمونہ پہنچے گا ۔

وَآخِرُ دَعوَانَا َانِ الحَمدُ لِلّّٰہِ رَبِّ العَالَمِین ۔

Previous articleساہتیہ اکادمی کے 24 ہندستانی زبانوں کے ترجمہ ایوارڈ کا ہوا اعلان،ممتاز مترجمہ صبیحہ انور اردو ترجمہ ایوارڈ 2020 کے لیے منتخب!
Next articleمدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس و دیگرمدارس کے مولوی پاس طلبا و طالبات کے لیے ایک سنہرا موقع : عبدالقیوم انصاری

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here