مجتبی حسین ! ایک تاثر

0
247

ظفرؔکمالی

معزز حاضرینِ مجلس! سب سے پہلے مجھے اقرارکرلینے دیجیے کہ میں نہ مجتبیٰ حسین کا دوست ہوں اور نہ وہ میرے روایتی دیرینہ بزرگ ہیں۔ چند مختصر ملاقاتوں اور موبائل سے گفتگو کے علاوہ نہ میں نے انھیں قریب سے دیکھا اور نہ انھیں جاننے کے لیے ادبی سراغ رسانی کا فریضہ انجام دیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر ان کی شخصیت پر اظہارِ خیال کیسے کر سکتا ہوں۔ اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ جب لوگ سفر کے بغیر سفر نامے لکھ سکتے ہیں، ادب پارے کی تفہیم سے عاری حضرات پایے کے نقاد بن سکتے ہیں ، قافیہ ردیف سمجھے بغیر شاعری ہوسکتی ہے، نظم کے نام پر نثر لکھی جاسکتی ہے تو پھر کسی کی شخصیت پر خامہ فرسائی کے لیے اسے اچھی طرح جاننا کیا ضروری ہے۔ ویسے بھی اردو میں لکھنے والے دیدہ ورکم دیدہ دلیر زیادہ ہیں۔آج یہ خاکساردیدہ دلیری کی اسی مروجہ روش سے فیض اٹھالے تو بھلا کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔
یادش بخیر! مجتبیٰ حسین صاحب کے نام سے میری باضابطہ شناسائی کنھیا لال کپورپر لکھے ان کے خاکے کے ذریعے ہوئی۔ ۱۹۸۱ء میں جب ان کے خاکوں کا مجموعہ’’آدمی نامہ‘‘ چھپا تو اس کی دھوم مچ گئی۔ میں نے بھی حیدرآباد سے کتاب منگوائی۔ اس میں پندرہ ادیبوں اورشاعروں کے خاکے پڑھ کر عجیب سی حیرانی ہوئی۔ اس وقت میں بی۔اے کا طالبِ علم تھا۔ استاذی احمد جمال پاشا سے دریافت کیا تو انھوں نے ان کی تعریفوں کے وہ پل باندھے کہ مت پوچھیے۔فن کاروں میں تو پیشہ ورانہ رقابت ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں ایسے ایسے بلکہ ایسے ویسے ادیبوں اور شاعروں کی کمی نہیں جو اپنے کو ایسا آفاقی فن کارسمجھتے ہیںجن کی دنیا نے قدرنہیں کی۔ ایسی حالت میں ایک مزاح نگار سے اپنے ہم عصر مزاح نگار کی تعریف سن کر حیرت کا ہونا فطری تھا۔ بہر حال! دل کو اتنا تو یقین ہوگیا کہ یہ حضرت کوئی اونچی قسم کی چیز ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات ان کے نام سے آشنائی کے بیس برسوں بعد دہلی میں ان کے گھرپر ہوئی جہاںمیں اظہارندیم کے ساتھ گیا تھا۔ اس پہلی ملاقات میں وہ جس اپنائیت کے ساتھ ملے اس کانقش ہنوز دل پر قائم ہے۔ انھوں نے حسن چشتی کی مرتبہ کتاب’’مجتبیٰ حسین کی بہترین تحریریں‘‘ کی جلد اول اپنے دستخط کے ساتھ عنایت کی اور اپنی پر خلوص گفتگو سے بے حد حوصلہ افزائی فرمائی۔ انھوں نے ہم لوگوں کی آمد کی اطلاع مظہر امام صاحب کو بھی دے دی تھی۔ وہیں ان کا فون بھی آیا کہ میں آپ لوگوں سے ملنے کا منتظرہوں۔ مجھے جیسے نوواردِ ادب کے تئیں ان کا یہ مشفقانہ رویہ خاصا تعجب خیز تھا۔ ان سے رخصت ہوتے وقت حالیؔ کا مصرع بہت یاد آیا کہ ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں۔
ہمارے بڑے بہنوئی ڈاکٹر خورشید عالم مرحوم، مجتبیٰ صاحب کی تحریروں کے ناقابلِ علاج عاشق تھے۔ انھوں نے ان کی کتابوں کا پوراسیٹ منگوارکھا تھا۔ وہ اپنے اینٹ بھٹّے پر بیٹھے یہ کتابیں پڑھتے رہتے۔ مجھے جب بھی فون کرتے دو ایک جملوں میں خیریت دریافت کرکے کسی نہ کسی بہانے مجتبیٰ صاحب کی تحریریں سنانے لگتے۔ کبھی ایسا بھی ہواکہ میں صبح کاناشتہ کررہاہوں کہ ادھر سے فون آیا کہ ’’جاپان چلو جاپان چلو‘‘ سے یونیسکو کی چھتری والاحصہ سن لو۔میں کہتا کہ میں پڑھ چکا ہوں لیکن وہ اصرارکرتے کہ نہیں مجھ سے سنو۔ مرحوم مضمون کم سناتے اور قہقہے زیادہ لگاتے تھے۔ مجھے کالج جانے کی دیر ہورہی ہوتی لیکن ان کے قہقہوں کے لامتناہی سلسلے سے نجات ملنی مشکل تھی۔ کبھی کبھی مجھے ان سے زیادہ مجتبیٰ صاحب پر غصہ آتا کہ وہ تو آرام سے دہلی میں بیٹھے ہیں اور میں فون سے کبھی’’ڈائرکٹر کا کتا‘‘کبھی ’’قصہ داڑھ کے دردکا‘‘ اور کبھی ’’ریلوے منتری مسافر بن گئے‘‘ زبردستی سننے کے لیے مجبورہوں۔ ایک مرتبہ توحد ہی ہوگئی۔ میں اپنے کسی عزیز دوست کے یہاں تہنیتی تقریب میںشرکت کے لیے نکل ہی رہا تھا کہ حسبِ سابق مرحوم کافون آیا کہ ارے ارے تہنیتی تقریب میں جانے سے پہلے ’’تعزیتی جلسے ‘‘سنتے جائو۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ پون گھنٹے تک تعزیت کے بہانے ان کی ہنسی سنتا رہا۔ اس وقت بے اختیار یہی جی چاہتا تھا کہ کاش! کوئی میرا ہی تعزیتی جلسہ کردیتا تو یہ روز روز کی مصیبت سے نجات مل جاتی۔ مجتبیٰ صاحب نے کسی جگہ لکھا ہے کہ امریکا کے ہاتھ ہمارے باورچی خانوں تک پہنچ چکے ہیں لیکن حضرت کو کیا خبر کہ ان کے مضامین شہری حدود سے نکل کر دیہات کے اینٹ بھٹوں تک جاپہنچے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی مقبولیت نے محبوبیت کی شکل اختیارکرلی ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اسّی پچاسی کی عمر میں محبوب بننا کسے اچھا نہیں لگتا۔


مجتبیٰ حسین بچپن سے ہی شوخ مزاج رہے ہیں لیکن ’’سقوطِ حیدرآباد‘‘ کے زمانے میں انھوں نے بڑے دل دوز مناظر دیکھے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے ماموں اور پھوپھا کا قتل ہوا۔ ان حادثات نے ان کے وجودکو ہلاکر رکھ دیا اوروہ شدیدباطنی اضطراب کا شکارہوگئے۔ ذہنی بے سکونی اور یاسیت نے انھیں اپنا اسیر بنالیا۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب وہ کالج میں داخل ہوئے تو کالج کی زندگی نے انھیں بہت ذہنی سنبھالادیا۔ اپنی شعوری کوششوں سے قنوطیت کے حصارسے باہر نکلنے میںجب وہ کامیاب ہوگئے توان کی فطری زندہ دلی پھر بیدارہوگئی اور انھوں نے دوستوں کے ساتھ مل کر جی بھر کر شرارتیں کیں۔ دراصل وہ کبھی نچلے بیٹھ ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کی رگوں میں چہکتاہوا لہو ہمیشہ موجیں مارتا رہا۔ نوجوانی کی انھیں شرارتوں نے جب ادبی شائستگی کا لبادہ اوڑھا تو اردو کو ایک بہترین مزاح نگارملا۔ اردو دنیا کو ان کے برادرِ بزرگ جناب محبوب حسین جگر کا احسان مند ہونا چاہیے جن کی جوہر شناس نظروں نے انھیں کالم نگاری کی جانب مائل کیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید مجتبیٰ صاحب صحافی ہوتے ظرافت نگار نہیں۔
مجتبیٰ صاحب بڑے باخبر انسان ہیں۔ ہزاروں کی گھریلو زندگی کی انھیں واقفیت ہے۔ ادبی دنیا کے دانو پیچ اور سازشوںکی پل پل کی خبریں ان تک پہنچتی رہتی ہیں۔ وہ دوستوں اور دشمنوں کے راز ہاے سربستہ سے اس طرح واقف رہتے ہیں جیسے سی۔ بی۔آئی انھیں کے قبضے میںہو۔ ان کی فطرت میں تجسّس کا جومادّہ ہے اسی کی بدولت و ہ لوگوں کی گھریلو زندگی سے لے کر عالمی مسائل تک کا یکساں عرفان رکھتے ہیں۔ ان کی باخبری ، ان کے سوچتے ہوئے ذہن اور تیز بیں نظرکا ہی کرشمہ ہے کہ ان کی تحریروں میں بصارت سے زیادہ بصیرت کی کارفرمائی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔
وہ تقریباً تین دہائیوں تک دہلی کی ادبی اورتہذیبی زندگی کاسرگرم حصہ بنے رہے۔ ان کے باغ وبہار قلم نے پوری دہلی کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ شہر کی کوئی بھی ادبی تقریب ان کے خاکوں کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی رہی۔’’چہرہ در چہرہ‘‘کے دیباچے میں انھوں نے خود لکھا ہے کہ :
’’مجھ ناچیز پر ایک دَورایسا بھی گزرچکاہے جب حیدرآباداوردہلی کے کسی ادیب یاشاعرکی کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی اس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی جب تک کہ میں صاحبِ کتاب کا خاکہ نہ پڑھوں ۔ کسی شاعر کا جشن منایا جاتا تو میراخاکہ جشن کے تابوت میں آخری کیل کے طورپراستعمال کیا جاتا تھا‘‘۔
اپنے زورِ قلم سے مجتبیٰ حسین نے کتنے کرداروں کوزندگی بخش دی۔ ادب کے جہانیاں جہاں گشت بن کرانھوں نے ایک عالم کی سیر کی اور وہاں کے تجربات و مشاہدات اور کھٹّی میٹھی یادوں کو قلم بند فرماکر مزاحیہ سفرناموں کی اس روایت کو توانائی اور وسعت بخشی جوابنِ انشا اور کرنل محمد خاں سے مخصوص تھی۔
ان کی شخصیت کے مختلف روپ ہیں۔ وہ بزرگوں کا احترام کرنے والے بھی ہیں اور خُردنواز بھی۔ وہ مُتواضِع ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت منکسرالمزاج ہیں۔ تعلقات نبھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔رشتوں کا پاس ولحاظ کوئی مجتبیٰ صاحب سے سیکھے۔ یہ رشتے خواہ خاندانی ہوں یا ادبی ومعاشرتی، ایسا لگتا ہے اللہ نے انھیں خصوصی طورپر اسی کے لیے پیدا کیا ہے۔ آج رشتو ں کی جڑیں جس طرح کٹ رہی ہیں، لوگوں کاخاندانی دائرہ سمٹتے سمٹتے بیوی بچوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، اس سے کون واقف نہیں۔ ایسے میں مجتبیٰ صاحب اپنے عزیزوں اور احباب کی چھوٹی بڑی ضرورتوں کا خیال جس طرح رکھتے ہیں و ہ حیرت میں ڈالنے والا ہے۔ مجھے ان کے نام آئے ہوئے خطوط کو ترتیب دینے کا شرف حاصل ہے۔ ان خطوط میں ان سے کی گئی فرمایشیں قابلِ دید ہیں۔ تعلیم گاہوں میں داخلے اور مقابلہ جاتی امتحانوں کا فارم بھیجنا، کتاب کے مسوّدے مالی امدادکے لیے داخل کرنا، شائع شدہ کتابوں پرانعامات اور تھوک خریداری کے لیے فارم کی طلب، ٹھہرنے کے لیے ہوٹل بک کرانا یا گیسٹ ہائوس کا انتظام ، ریل ریزرویشن اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ بک کرانا، پاسپورٹ فارم حاصل کرنا، ویزے دلوانا، رشتے طے کرنا، نوکری دلوانا، اعزازو اکرام کے لیے سفارش کرنا، تبادلے کرانا، جگہ جائیداد کا تصفیہ کرنا، دوستوں کے آپسی جھگڑے سلجھانا، مختلف طرح کے بلوں کی ادائیگی کرانا، گیس کے چولھے دلوانا، ادبی اسکیموں کو منظوری دلوانا، ادبی تقریبات کے معاوضے میں اضافہ کرانا، نئے اور پرانے شاعروں کی کتابوں کا جشنِ اجرا کرانا، ریڈیو سیٹ ٹھیک کرانا،داڑھ کے دردمیں لوگوں کو ڈینٹل سرجن کے یہاں لے جانا، وزیروں سے سفارش اور نہ جانے کتنی طرح کی فرمایشیں ۔ یہ وہ فرمایشیں ہیں جنھیں وہ تو اترکے ساتھ انجام دیا کرتے تھے۔ ان کے خدمتِ خلق کے جذبے کوسمجھنا ہوتو فکر تونسوی کا مضمون ’’مجتبیٰ بھائی فکر بھا ئی مزاح والے‘‘ پڑھ لیجیے بہت کچھ آئینہ ہوجائے گا۔ میرا محتاط اندازہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے گھروں کی سبزی ترکاری اور سوداسُلَف بھی ضرورلاتے ہوں گے۔ اپنے گھر کا آٹا تو وہ پسواتے ہی تھے۔ آپ مسکرائیں نہیں،یہ تو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں اور اللہ والوں کا خاصّہ رہا ہے۔ خلقِ خداکے کام آنا مجتبیٰ حسین کا محبوب مشغلہ ہے۔ آپ انھیں آج بھی کوئی کام سونپ دیجیے یاصرف کام کا تذکرہ کر دیجیے، ان کے تعلقات اتنے وسیع ہیں کہ وہ گھر بیٹھے بیٹھے سارا انتظام کردیں گے۔ وہ آ پ کے مسئلے کو صرف اپناہی نہیں بلکہ اپنی انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔ مجھے ویلورمیں اپنے بیٹے کے داخلے کا مسئلہ درپیش ہواتو انھوں نے سنتے ہی مسئلہ یہاں تک حل کیا کہ ویلورریلوے اسٹیشن پر مجھے کون ریسیوکرے گا، میں کہاں ٹھہروںگا، کون داخلہ کرائے گا، میری ملاقات کن حضرات سے ہوگی، اسٹیشن پر مجھے چھوڑنے کون آئے گاوغیرہ۔ دوسروں کے مسائل کواپنے مسائل کی طرح حل کرنا ایک طرح سے ان کی ہابی ہے۔
تہذیبی قدروں اور رشتوں کا یہ احترام ہی ہے کہ جب ان کے بچوں کی شادیاں ہوئیں تو دعوت نامے ان کے بڑے بھائی جناب محبوب حسین جگر کی طرف سے چھپے۔ بہ ظاہر اس طرح کی چھوٹی چھوٹی لیکن بے حداہم باتوں کا خیال کتنے لوگ رکھتے ہیں۔ خدمتِ خلق کا جذبہ ان کے خاندان کا وتیرہ رہا ہے۔ ان کے دوبڑے بھائی محبوب حسین جگر اور ابراہیم جلیس تاعمر اپنے معاشرے کے لیے ہی جیے اور اسی کے لیے مرے۔ جگر صاحب نے تو اسی کے چلتے شادی تک نہیں کی۔ مجتبیٰ حسین اسی خاندان کے فردِ فریدہیںاوراس تابناک روایت کو اپنی کوششوں سے مزید روشن کر رہے ہیں۔
قدیم حیدرآبادی تہذیب کے پروردہ مجتبیٰ حسین بے حد جذباتی شخصیت کے حامل ہیں۔ جذباتی لوگوں کا خلوص شک وشبہے سے بالا ترہوتاہے۔ مجتبیٰ صاحب کے پرخلوص جذبات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ لگاتارستائیس برسوں تک جس اسکوٹر پر بیٹھ کر مختلف دفاتر اور شہرِدہلی کی گلیوں کا چکّر لگاتے رہے، جب دہلی سرکارنے یہ فرمان جاری کیا کہ وہاں کی سڑکوں پر پندرہ سال پرانی گاڑیاں نہیں چلیں گی تو انھوں نے اسکوٹر کو بیچنے کے بجائے حیدرآباد بھجوانا پسند کیا تاکہ وہ محفوظ ر ہ سکے۔ اس کی مفارقت کسی حال میں بھی ان کو گوارا نہ ہوسکی۔ ستائیس برسوں میںوہ ان کے لیے ایک جیتے جاگتے فرد کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔جس کے جذبات اسکوٹر سے اس طرح جڑے ہوں، انسانوں کے ساتھ اس کی وابستگی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اسکوٹر کی بات آئی تو یہ بھی سنتے چلیں کہ یہ وہ اسکوٹر ہے جس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر اٹل بہاری واچپئی،اندرکمارگجرال، کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، ایم۔ ایف حسین اور پاکستانی گلوکارغلام علی کے علاوہ سیکڑوں دیگر مشہورادیب و شاعر، آرٹسٹ، بڑے افسران اور ممبران پارلیمنٹ نے اس کی زینت بڑھائی اور دہلی کی سیر کی۔ پورے ہندستا ن میں اگر ایسی تاریخی اسکوٹر کہیں اورہوتو کوئی ہمیں بتائے۔ اسے تو کسی میوزیم کی زینت ہوناچاہیے۔ سالارجنگ میوزیم کے ذمّے داران ا س کی جانب کب متوجہ ہوں گے۔
مجتبیٰ صاحب نے اگر اپنے احباب اورمتعلقین کودل کی گہرائیوں سے چاہا تو لوگوں نے بھی ٹوٹ کر ان سے پیار کیا۔ ان کے دوستوں میں سے نادانستہ طورپر کسی نے ان کو تکلیف پہنچادی تو فوراً پشیمان ہوا۔ ان کی ناراضگی اس شخص کے لیے سوہانِ روح ہوجاتی تھی۔ مشہورشاعرشہریارسے ایسی ہی چوک ہوئی تو انھوں نے علی گڑھ سے فوراً معذرت نامہ بھیجا جس میں یہ لکھا کہ’’دہلی کا ہر سفر اپنے اوپر اس وقت تک کے لیے بند کرتا ہوں جب تک آ پ کی طرف سے پروانۂ معافی موصول نہیں ہوجاتا۔ دہلی کا دروازہ ہم پر کھلے گا تو آپ کے حکم سے‘‘۔
مجتبیٰ صاحب سے فون سے گفتگو کیجیے توان کے اندازِتخاطب سے ہی ان کے پر خلوص جذبات کا اندازہ ہوجاتا ہے۔مثلاً میں نے اِدھرسے ہیلو کہا اُدھر سے فوراً آواز آئی’’السلام علیکوم۔ کیسے ہیں،کیسے ہیں، کیسے ہیںظفرصاحب آپ کیسے ہیں؟‘‘گویا ایک بار ’’کیسے ہیں‘‘ کہنے سے ان کے جذبے کی تسکین نہیں ہوتی وہ بار بار اسے دہراکر منتہاے خیریت تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کی آواز اور لہجے میں جوا پنائیت ہوتی ہے اس کا احساس اسی کو ہوسکتا ہے جس نے دل کے کانوں سے اسے سنا ہو۔ میں نے استاذی احمد جمال پاشا کے بعد محبت کی یہ جھلک انھیں کی ذات میں دیکھی اسی وجہ سے یہ نام اور یہ آواز آج میرے لیے کسی فرحت فزا اور حیات بخش جام سے کم نہیں۔
مجتبیٰ صاحب کے کردار کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ انھوں نے کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ورنہ فی زمانہ تویہ صورتِ حال ہے کہ جن کے پاس ضمیر نہیں وہ اپنی بے ضمیری کے سودے کے لیے ہی ہمہ دم تیار رہتے ہیں۔مجتبیٰ صاحب کے تعلقات کا دائرہ وسیع ہے۔ دو دو وزراے اعظم،کئی وزیراعلا، کتنے مرکز ی وزیروں ، کیسے کیسے اعلا افسروں اور بیورو کریٹ حضرات سے ان کے روابط رہے لیکن اپنے ذاتی فائدے کے لیے انھوں نے تعلقات کے استعمال سے حتی الامکان گریز کیا۔ وہ انعام و اکرام کے پیچھے کبھی نہیں دوڑے۔ اپنے ظریفانہ لہجے میں وہ کہتے ہیں کہ :
’’ہم کبھی شہرت کے پیچھے نہیں بھاگے ۔ جس عمر میں جس کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت پیش آئی ضرور بھاگتے رہے‘‘۔
یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ جب انھیں پہلا غالب ایوارڈ براے طنز و مزاح دینے کا اعلان ہواتو انھوں نے یوسف ناظم اور فکرتونسوی کے رہتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکارکردیا۔ فکرتونسوی نے ہی آگے بڑھ کراسے قبول کرنے کے لیے انھیں مجبورکیا تھا۔ ایک خاص تہذیب کا پروردہ انسان ہی ایسا کرسکتا ہے۔
ہمارے مجتبیٰ صاحب طالبِ علمی کے زمانے میں اداکاراورگلوکار کی حیثیت سے تہذیبی پروگراموں کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ کبھی سوچتاہوں کہ اگر وہ گلوکاری یا اداکاری کے میدان میںہی قسمت آزمائی کرتے تو آج کیا ہوتے اور کہاں ہوتے۔ ظاہر ہے اداکاری میں وہ شاہ رخ یا سلمان خان تو ہو نہیں سکتے تھے۔ تصورکی آنکھ سے انھیں اسٹیج پر بیٹھے راگ الاپتے اور پکّاگاناگاتے ہوئے دیکھتا اورسنتاہوں تو دل میں بیک وقت ظرافت کی ہزاروں پھل جھڑیاں چھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔
ان کی معصوم فطرت کا چلبلا پن آج بھی قائم ہے۔ مجلسی گفتگو کے علاوہ لطائف و ظرائف میں کم لوگ ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ علمِ سینہ سے تعلق رکھنے والے لطائف کاخزانہ بھی ان کے پاس موجود ہے۔ وہ ٹیلی فونی گفتگو میں بھی بے ساختہ انداز میں ایسے ایسے لطیفے سنادیتے ہیں کہ بعض اوقات پرہیز گاروں کو تجدیدِ وضوکی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کمال درکمال یہ ہے کہ ایسی حالت میں بھی ان کے ہاتھوں سے شائستگی کا دامن نہیں چھوٹتا۔مجتبیٰ صاحب نے اپنی تحریروں میں لطائف سے بھی بہت کام لیا ہے لیکن ان کے یہاں یہ لطیفے پیوند کاری نہیں معلوم ہوتے بلکہ ان کے مضامین کا جزوبن جاتے ہیں۔
مجتبیٰ صاحب اکثر اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے کو کبھی مزاح نگارنہیں سمجھا۔ وہ یہ بات بربناے انکسارنہیں کہتے بلکہ کبھی کبھی قسمیں کھاکر اس کا یقین دلاتے ہیں۔ اگر واقعی ان کا یہی خیال ہو کہ وہ ظرافت نگار نہیں تو ان سے زیادہ یہ کون سمجھ سکتا ہے کہ حاسدین توہمیشہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ وہ ان کی سچی خاکساری کو سچ سمجھ کر اس کی تشہیر کریں اوربہ طورحوالہ ان کے مستند قول کو ہی استعمال کرنے لگیں تو پھر بڑی پیچیدہ صورتِ حال پیدا ہوجائے گی۔ لہٰذا خاکساربڑے ادب سے عرض کرنا چاہتا ہے کہ آ پ بھلے ہی اپنے کو مزاح نگارنہ سمجھیں لیکن اس کا تذکرہ بھری بزم میں ہرگزہرگزنہ کریں کہ اس میں خطرے بہت ہیں اورخطرات سے کھیلنا جواں مردوں کا کام سہی لیکن دانش مندوں کو اس سے گریز کرناہی مناسب ہے ۔ ویسے یہ کون نہیں جانتا کہ آج مجتبیٰ حسین اردو ظرافت کے محوربن چکے ہیں۔ کم ازکم ہندستان کی ظرافت اب انھیں کے اردگردرقصاں ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے بجا طورپر انھیں طنز ومزاح کا سفیر کہا ہے جن کے ذریعے اردو کا مزاحیہ ادب اجنبی دیاروں تک جاپہنچا۔
مجتبیٰ حسین کی تحریریں سہلِ ممتنع کے شعرجیسی ہوتی ہیں۔ ان کی تقلید آسان نہیں ۔ ان کے لہجے کی نقل خاص طورسے دشوارہے۔ ان کے فقرے نثر کے ’’مصرعۂ تر‘‘ ہیں جن کے لیے بقولِ شاعر سیروں لہو خشک کرنا ہوتا ہے۔وہ پڑھتے بھی سادہ اندازمیں ہیں لیکن ان کے مضامین ہوں یا خاکے یا کوئی اور طرح کی تحریر، وہ بذاتِ خوداتنی دل چسپ ہوتی ہے کہ سامعین کے دل کو فوراً مسحورکرلیتی ہے۔ پٹنہ کی ایک محفل میں جب انھوں نے گورنر بہاردیوانند کنورکی موجودگی میں اپنامضمون’’صاحب باتھ رو م میں ہیں‘‘سنایا تو گورنرصاحب بھی اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ مجھے تو گورنر صاحب کے عملے کی معنی خیز مسکراہٹ بھلائے نہیںبھولتی۔ وہ تو محرمِ رازِ درونِ خانہ تھے۔ نہ معلوم ان کے ذہن میں اس وقت صاحب اور ان کے باتھ روم کی کیسی کیسی تصویریں گھوم رہی ہوں گی۔ مجتبیٰ حسین کے یہاں المیہ اور طربیہ آپس میں مدغم ہوگئے ہیں۔ ہنساتے ہنساتے رلانا اور رلاتے رلاتے ہنساناان کا خصوصی امتیاز ہے۔ یہ حزنیہ نشاط اور ایسی دردمندانہ ہنسی کی فضا خلق کرنے کے لیے فن کارکوکرب کی جس شدت سے گزرنا پڑتا ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو زندگی کا سچا عرفان رکھتا ہو۔
جہاں تک مجتبیٰ صاحب کے مضامین ، کالم اوردیگر تحریروں کا تعلق ہے ، ان کا منتخب حصہ ہی اب تک کتابی صورت میں سامنے آسکاہے۔ ابھی ان کی تحریروں کی کئی ضخیم جلدیں شائع ہوسکتی ہیں جو بکھری ہوئی ہیں۔ دراصل مجتبیٰ صاحب فنی عظمت کی اس بلندی پر فائز ہوچکے ہیں جب فن کارکی تحریر و تقریر کا ہر لفظ اہمیت کا حامل ہوجاتاہے لہٰذا ان کی تمام غیرمُدوَّن تحریروں کو یکجا کیاجانا ضروری ہے تبھی ہم مکمل مجتبیٰ حسین کوسمجھ سکتے ہیں۔ ان کی غیرظریفانہ تحریروں کا کوئی مجموعہ اب تک شائع نہیں ہوا۔ دوسروں کی کتابوں پرلکھے گئے ان کے دیباچوں اورپیش لفظ کوبھی یکجا نہیں کیا جاسکا ہے۔ نہ معلوم مجتبیٰ صاحب کی توجہ اس جانب کیوں نہیں اوروہ موجودہ کتابوں پر ہی کیوں قانع ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان کے فکروفن پرکافی اظہارِ خیال کیا جاچکا ہے۔ ان پر مختلف ریسرچ اسکالر نے تحقیقی و تنقیدی کا م کیے ہیںلیکن میں بڑی ذمّے داری سے کہتا ہوں کہ مجتبیٰ صاحب کی تحریروں کی سطورکوتولوگوں نے بہت حد تک سمجھا لیکن ان کے بین السطور کو سمجھنا ابھی باقی ہے۔ ان کی ظرافت میں دانشورانہ افکارکی تفہیم کا قرض بھی ابھی ادانہیں ہوسکا ہے۔ ہمارے ظرافت نگاروں کا یہ المیہ ہے کہ ان کے فکرو فن پر لکھنے والے عموماً ظرافت کی تلاش تک ہی محدودرہتے ہیں۔ اگر اسلوب شگفتہ بیانیہ سے تعلق رکھتا ہو تو لوگ اس سے اور سرسری گزرتے ہیں۔ اس سرسری گزرنے میں کیا کیا سر سے گزرجاتا ہے انھیں اس کی خبر بھی نہیںہوتی۔ مختلف کیفیات کی چند مختصر مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
۱۔’’انفرادی سچ ایک منزل پر پہنچ کر جب اجتماعی جھوٹ میں بدل جاتا ہے تو یہ وقت بہت براہوتاہے۔‘‘
۲۔’’پاگل خانے کا صداقت نامہ کسی یونیورسٹی کی تعلیمی سند کے مقابلہ میں زیادہ معتبر اور مستند ہوتا ہے‘‘۔
۳۔’’امریکہ کے صدرکوزکام کاعارضہ بھی لاحق ہوجاتا ہے تو عالمی مارکٹ میں نزلے اور زکام کی دوائوں کے دام بڑھ جاتے ہیں اور امریکی صدرکا نزلہ کمزورملکوں کی معیشت پرگرنے لگتا ہے۔‘‘
۴۔’’بعض لوگ اس ملک میں سیکولرزم کو بھی اس طرح پھیلانا چاہتے ہیں جیسے گندگی پھیلانا چاہتے ہوں‘‘۔
۵۔’’انگریزی میں گالی دی جائے تو وہ گالی کم خیرسگالی زیادہ معلوم ہوتی ہے‘‘۔
۶۔’’کچھ لوگوں میں اپنے بل بوتے پر گمراہ ہونے کی بڑی زبردست صلاحیت ہوتی ہے‘‘۔
۷۔’’شہرت جب ایک خاص حد سے تجاوز کرجاتی ہے تو وہ بدنامی کی حدوں میں داخل ہوجاتی ہے‘‘۔
۸۔’’ہمارے ادب میں بہت سے اہلِ قلم کو صرف اس لیے شہرت ملی کہ ان میں صلاحیت کم اور خوش فہمی زیادہ تھی‘‘۔
۹۔’’ہماری بعض شاعرات کی شاعری میں شاعری کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی’’ماوراے شاعری‘‘ کی ہوتی ہے‘‘۔
ایسے فقرے اور اقتباسات مجتبیٰ صاحب کے یہاں بہت ہیں۔ ان پر ذراٹھہر کر غورکرنے سے فنی تفہیم کی نئی راہیں روشن ہوں گی۔
مجتبیٰ صاحب اس عمر میں بھی حالاتِ حاضرہ پر گہری نظررکھتے ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری ، تعصب اورفرقہ واریت کے خطرناک زہر کی وجہ سے ا ن کا دلی اضطراب چھپائے نہیں چھپتا۔ ایک دن دورانِ گفتگو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ کبھی جھانسی کی رانی کا زمانہ تھا آج جھانسے کے راجا کا دور ہے۔ یاسیت کے درازہوتے سایوں نے ان کے ماتھے پرتفکر کی لکیریں کھینچ دی ہیں۔ سیکولر قوتوں کی پسپائی انھیں بے حد بے چین رکھتی ہے۔ انھوں نے راج بہادرگوڑ کے خاکے میں لکھا ہے کہ:
’’ڈاکٹر راج بہادرگوڑ ہندوستان کی پہلی پارلیمنٹ کے ممبر رہے ہیں۔ ایک سوال میں ڈاکٹر گوڑ سے پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا وہ آج کے حالات میں پھرپارلیمنٹ کے ممبر بننا پسند کریں گے؟ مجھے ڈر ہے کہ اگر کوئی انھیں پھر سے پارلیمنٹ میں بھیجنے کی کوشش کر ے تو کہیں وہ پھر سے ہتھیارنہ اٹھالیں‘‘۔
یہ خاکہ ۱۹۹۳ء میں لکھا گیاتھا آج ۲۰۱۷ء کے سیاسی تناظرمیں ان کی ذہنی کیفیت کیا ہوسکتی ہے اس اقتباس کی روشنی میں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
مجتبیٰـ حسین کو اپنی بڑھتی عمر کاشدید احساس ہونے لگا ہے۔ ان کے سبھی قریبی دوست ایک ایک کرکے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ۔ ان کی صحت بھی اب ان کا ساتھ نہیں دیتی ایسے میں حواس پر احساسِ محرومی کا چھاجانا تعجب خیزنہیں۔ یہی احساس ان سے ایسے جملے لکھواتارہاہے کہ اب میں اپنی تاریخِ پیدایش سے دوراور تاریخِ وفات سے قریب ہوتا جارہا ہوں۔ اپنی ٹیلی فونی گفتگو میں جب وہ زندگی کے تعلق سے مایوسی بھری باتیں کرتے ہیں تو اسے سن کر دل بھر آتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جیسے جیسے عمر کا آفتاب ڈھلتا ہے ویسے ویسے صحت کی آنکھ مچولی کا کھیل گہراہوتا جاتا ہے۔ ایسے عالم میں قوتِ خوداعتمادی عصاے موسیٰ کا کام کرتی ہے۔ مجتبیٰ صاحب کا ہی قول ہے کہ’’انسان کی عمرکیلنڈوں سے نہیں بلکہ اس کے اپنے احساس اور رویے سے طے ہوتی ہے‘‘۔ وہ اپنے احساس اوررویے کو مثبت رخ عطا کرتے ہوئے صرف اتنا یاد رکھیں کہ نہ صرف اردو ظرافت بلکہ پورے اردو ادب کے لیے ان کا وجود نہایت قیمتی ہے۔ ان کے ہونے سے ہم جیسے نہ جانے کتنوں کو اپنے ہونے کا یقین باقی ہے۔ ہماری دلی تمنا ہے کہ وہ تادیر اردو ادب کی خدمت میں مصروف رہتے ہوئے ہم سب کی رہنمائی فرماتے رہیں۔
اے اہلِ مجلس! ہم بڑے خوش بخت ہیں کہ آج مجتبیٰ صاحب بزمِ صدف کی زینت ہیں۔ آپ جی بھر کر انھیں دیکھ لیں کہ ایسی صورتیں روز روز دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ ایسی صورتوں کا دیدارہماری زندگی کو زیادہ بامعنی اورپروقاربنادیتا ہے اورہم اپنے کو پہلے سے زیادہ توانا اور ثروت مند سمجھنے لگتے ہیں۔
(۲۹؍دسمبر ۲۰۱۷ء کو بہاراردو اکادمی پٹنہ کے ہال میں
منعقدہ ’’بزمِ صدف انٹرنیشنل‘‘کے سے می نارمیں پڑھا گیا)

Previous articleبلاغ پر ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں
Next article’’تحقیقی تبصرے‘‘:ایک مطالعہ

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here