“عظمت شاد: بحیثیت شاعر” :ایک تاثر از: انوار الحسن وسطوی

0
77

شاد عظیم آبادی اردو کے ممتاز کلاسیکی شاعروں میں اپنا مقام رکھتے ہیں- ان کا شمار دبستان عظیم آباد کے سب سے بڑے اور نمائندہ شاعر میں ہوتا ہے- شاد نے غزل، مرثیہ، مثنوی، قصیدہ اور رباعی جیسی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن غزل گوئی میں ان کی انفرادیت سب سے نمایاں ہے- یہی سبب ہے کہ کلیم الدین احمد نے میر و غالب کے ساتھ شاد کو اردو غزل کا مثلث تسلیم کیا – شاد عظیم آبادی نے اپنی عمر عزیز کے تقریبا ساٹھ سال شعر و سخن کے گیسو سنوارنے اور سجانے میں گزارے – اپنی ان خدمات کی بدولت وہ اردو ادب کے معماروں اور محسنوں میں شمار کیے جاتے ہیں- شاد کی عظمت کی دلیل علامہ اقبال کے اس قول سے ہوتا ہے کہ” شاد کلاسیکی طرز کے آخری اہم شاعر تھے -”

شادعظیم آبادی کی بلند قامتی کو اجاگر کرنے والی پروفیسر ابو منور گیلانی کی زیر نظر کتاب” عظمت شاد:بحیثیت شاعر” حالیہ دنوں منظر عام پر آئی ہے- گزشتہ سال اسی سلسلہ کی موصوف کی پہلی کتاب “ارشد تلامذئہ شاد” شائع ہوئی تھی- مذکورہ دونوں کتابیں دراصل پروفیسر ابو منور گیلانی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے پروفیسر عطاالرحمن عطا کاکوی کے زیرنگران1982میں مکمل کیا تھا اور 1984 میں اس تحقیقی مقالہ پر انہیں بہار یونیورسٹی سے پی ایچ- ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی تھی- اپنے اس مقالہ کو پروفیسر موصوف نے دو کتابوں میں منقسم کیا اور یکے بعد دیگرے انہیں شائع کرایا جس کا ذکر پروفیسر موصوف نے زیر تذکرہ کتاب کے پیش لفظ میں یوں کیا ہے:

” پروفیسر عطا کاکوی کی نگرانی میں میرے تحقیقی مقالہ بعنوان” عظمت شاد: بحیثیت شاعر” کا ایک اہم اور تیسرا باب The grateness of Shad Azimabadi as a poet تھا – میں نے اس باب کو قصداً پچھلی کتاب میں شائع شامل نہیں کیا تھا – میرا خیال تھا کہ یہ موضوع ایک الگ کتاب کا متقاضی ہے چنانچہ چند مہینوں کی لگاتار محنت کی بدولت یہ کتاب آپ تک پہنچ رہی ہے-
(ص-5)
پیش نظر کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے- پہلا باب شاد عظیم آبادی کا سوانحی خاکہ اور ان کی ابتدائی شاعری کے عنوان سے ہے جس میں شاد کی پیدائش تا وفات تک کے مختصر ذکر کے ساتھ ان کی ابتدائی شاعری کا ذکر بھی کیا گیا ہے-” شاد کی کہانی شاد کی زبانی” کے تعلق سے یہ بات لکھی گئی ہے کہ شاد نے سات آٹھ برس کی عمر میں اپنی تلنگی( پتنگ) پر شعر لکھے تھے- یعنی سات آٹھ سال کی عمر میں ہی ان کی شاعری کا آغاز ہو چکا تھا- دوسرا باب شاد عظیم آبادی کی شاعری کا منظر و پس منظر کے عنوان سے ہے جس میں بہار میں اردو شاعری کے آغاز کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے اور اس ضمن میں مرزا عبدالقادر، بیدل عظیم آبادی، عمام الدین قلندر پھلواروی، قاضی عبدالغفار غفا، غلام نقشبند سجاد، راجہ رام نرائن موزوں، جو شش عظیم آبادی اور راسخ عظیم آبادی جیسے شعراء کا تعارف نمونہ کلام کے ساتھ پیش کیا گیا ہے- تیسرا باب” عظمت شاد بحیثیت شاعر” کے عنوان سے ہے، جس میں بحیثیت غزل گو، مرثیہ نگار، رباعی گو اور بحیثیت مثنوی نگار شاد عظیم آبادی کی شاعری کا جائزہ درج ہے جس کے مطالعے سے شاد کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ ہوتا ہے- چوتھا باب تین ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے-(الف) شاد نامہ، (ب) شاد اور مخالفین شاد( اشعار کی روشنی میں) (ج) شاد کے متعلق چند تذکرہ نگاروں اور ناقدین کی آراء- جن تذکرہ نگاروں کو اس فہرست میں جگہ دی گئی ہے ان کے نام ہیں: علامہ اقبال، پروفیسر اعجاز حسین، پروفیسر کلیم الدین احمد، پروفیسر آل احمد سرور، سید ابو طالب زیدی لکھنؤ، پروفیسر اختر اورینوی، علامہ جمیل مظہری، پروفیسر محمد حسن، پروفیسر عطاکاکوی، کلیم احمد عاجز، پروفیسر لطف الرحمن، پروفیسر خلیل اعظمی اور پروفیسر وہاب اشرفی- یہاں چند صاحب الرائے حضرات کے خیالات کو نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں :

“شاد کے یہاں دلی اور لکھنؤ دونوں کے رنگ کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے – کلام میں سادگی اور متانت ہے- محاوروں کے استعمال میں بھی کمال رکھتے ہیں – غزل میں شاد کا درجہ بہت بلند ہے- جذبات نگاری میں میر کا رنگ غالب ہے-”
(پروفیسر آل احمد سرور)
“شاد اپنے دور کے امام المتغزلین ہی نہیں بلکہ پیغمبر سخن اور ہادئ طریقت بھی تھے- انہوں نے فکر و فن کے تقاضوں کو غلط راستے پر چلنے سے روکا ہی نہیں بلکہ اس کے لئے ایک سمت بھی مقرر کر دی جس پر آگے چل کر اردو کو اقبال جیسا مسیحائے غزل ملا اور اکبر الہ آبادی، اصغر گونڈوی اور صفی لکھنوی نے اپنا راستہ پہچانا –
(علامہ جمیل مظہری
شادکے کلام میں میر بھی جلوہ گر ملیں گے اور خواجہ میر درد بھی، آتش بھی ملیں گے اور انیس بھی، غالب بھی پائیں گے اور داغ بھی- حافظ بھی ہیں اور خسرو بھی، نظیر بھی ہیں اور عرفی بھی- ان رنگا رنگیوں کے باوصف شاد کا اپنا رنگ بھی ہے-”
( پروفیسر عطا کاکوی)

پروفیسر ابو منور گیلانی کی زیر تذکرہ کتاب بلاشبہ شاد عظیم آبادی کی شاعرانہ عظمت کی آئینہ دار ہے- پروفیسر ابو منور گیلانی نے اپنی اس علمی اور تحقیقی تصنیف میں جس علمی جستجو اور تحقیق ریزی کا ثبوت دیا ہے وہ قابل تعریف ہے-پیش نظر کتاب” عظمت شاد: بحیثیت شاعر” اپنی اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے جہاں طلباء ریسرچ اسکالرز اور اساتذہ کے لیے کارآمد ہے وہیں اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والوں کے ادبی ذوق کی تسکین کا بھی ذریعہ ہے- 136 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 150 روپے ہے جسے ملت کالونی، سیکٹر 2 پھلواری شریف پٹن801505 اور بک امپوریم، سبزی باغ پٹنہ 4 سے حاصل کیا جاسکتا ہے- مزید معلومات کے لئے پروفیسر ابو منور گیلانی سے ان کے موبائل ن 9934222359 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے-

Previous articleمولانا محی الدین ساتن پوری ؒ از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Next articleمرکزی حکومت کا بڑا فیصلہ :

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here