سلطان اختر ایک تعارف از: انسان گروپ مغربی بنگال

0
127

نام: سلطان اشرف
قلمی نام: سلطان اختر
تاریخ پیدائش: 16 ستمبر 1940ء
تاریخ وفات: 20 اپریل 2021ء
مقامِ پیدائش: سہسرام
مطبوعات: انتساب (1994ء)
غزلستان (2014ء)
برگ خوش رنگ (2016ء)
سرِ شاخِ طلب (کلیات، جلد اول) -2016ء
عہدہ: سابق نائب صدر بہار اردو اکاڈمی، پٹنہ
سکونت: مولانا آزاد نگر، ایف سی آئی روڈ کے پچھم
پھلواری شریف، پٹنہ-801505، (بہار)
فون: 09835843286
09097450586

غزل کے قصر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شایدہو آخری آواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفدر امام قادری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو میں جدید غزل کے بعض بنیاد گزاروں ناصر کاظمی ، ابن انشا اور خلیل الرحمان اعظمی کے اثر سے ۱۹۶۰ء کے بعد جس نئی شاعری کا ورودِ مسعود ہوا،اس کے پچھلے پچاس برسوں میں کئی رنگ اور دبستان سامنے آئے۔حسن نعیم ،بانی ، شکیب جلالی ، زیب غوری ،ظفراقبال، احمد مشتاق ، شہزاداحمد،بشیر بدر ، شہر یار ،مظفر حنفی ،قیصر شمیم،پرکاش فکری ،ظفر گورکھ پوری،صدیق مجیبی،عرفان صدیقی اور سلطان اختر کے ناموں کو بغیر کسی تردد اور تحمل کے جدیدیت کے نمایندہ شعرا میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ہر لکھنے والے نے اپنے مخصوص اسلوب کو وضع کرنے میں مشقّت اٹھائی اور کوشش کی کہ اس کی شاعری دوسروں سے مختلف اورنئی معلوم ہو۔ سب ترقی پسندوں کے َدور سے ابھر کر سامنے آئے تھے،اس لیے دھیان دے کر انھوں نے ترقی پسندانہ ادبی اور فنّی رویّوں سے گریز کی خوٗ اپنانے کی کوشش کی ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ترقی پسند شعرا میں سے اکثر غزل سے دور رہنے کے مرتکب رہے،اس لیے جدید شعراکی روایت میں وہ تربیت دہندہ کے طور پ رموجود نہیں ہو سکتے تھے ۔شاید اسی خلامیں جدید شاعر ی اور بالخصوص غزل کے ساتھ ایک’’ اینٹی غزل‘‘کا ماحول بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا۔گویا غزل کی روایت اور اس کے مخصوص مزاج سے جدید شاعری کا لاگ اور لگاؤ کا رشتہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔اس ماحول نے جدید اردو غزل کے متعدد شعرا کے کلام کے بڑے حصّے کو بے اعتباری کے راستے پر بھی لگا دیا ۔ (یہ بھی پڑھیں دھیمے سُروں کی شاعری (شہریار کی شاعری کا تفصیلی مطالعہ۔ حصّہ اوّل ) – ڈاکٹر صفدر امام قادری)
جدید غزل کے اس موڑپر جن شعرا کے کلام کوہر مکتبِ فکر میں یکساں طور پر اعتبار حاصل ہوا، ان میں ایک بڑا طبقہ ایسے شعرا کا تھا جنھوں نے خود کو کلاسیکی بنیادوں پر قائم کرنے کی کو شش کی ۔سلطان اختر کی شاعری پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے جدیدیت کے طوفان کے دور میں بھی زبان اور لہجے کی کلاسیکی بنیادوں کو انگیز کرنے میں کامیابی پائی۔انھوں نے اپنے بزرگ معاصرین بالخصوص محمد علوی ،عادل منصوری وغیرہ کے مقابلے میں اردو غزل کی اس روایت کو سمجھنے کی کوشش کی جس کی کئی صدیوں میں ایک مکمل شکل ابھر کر سامنے آئی تھی۔سلطان اختر نے اپنے عہد کے مفاہیم اور استعاروں کو ملحوظِ نظر تو رکھا لیکن اردو غزل کی کلاسیکی بنیادوں سے مکمل طور پر انحراف کرنے کے انداز کو دوسرے شعرا کی طرح ضروری نہیں سمجھا ۔ہر بڑے شاعر کو ماضی اور حال کے منظر نامے سے ایک نیا محلول تیار کرنا ہوتا ہے جس کے بغیر اس شخص کا انفراد ظاہر نہیں ہو سکتا۔ سلطان اختر نے اپنے رنگِ سخن کو جدیدیت اور کلاسیکیت کی آمیزش سے کچھ اس انداز سے صیقل کیا کہ ان کی شاعری اقبال اور ان کے عہد کے دوسرے لکھنوی شعراسے تو مختلف ہوئی ہی؛ اسی کے ساتھ یہ بھی رہا کہ ترقی پسند تحریک کے کسی سرخیل سے بھی ان کی شعر گوئی کا واضح سلسلہ جڑتا ہو ا نظر نہیں آتا ۔یہ ایک حیرت انگیز بات ہے مگر سچائی ہے کہ سلطان اختر کا شعری اسلوب ان کے کسی ہم عصر یا بزرگ ہم عصر سے خوشہ چینی کر کے نہیں تیار ہوا ۔ جدیدیت کے مشہور مضامین بہت سارے اشعار میں ضرور دہرائے جاتے رہے ہیں لیکن بانی ہوں یا حسن نعیم ،شکیب جلالی ہوں یا ظفر اقبال ،مظہر امام ہوں یازیب غوری ؛سلطان اختر ان سب سے مختلف بنیادوں پر شعر وضع کرنے میں ہمیشہ کوشا ںر ہے ۔ اسی اجتہادی اقدام سے وہ اپنے عہد کے شعرا میں امتیازِ خاص حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
سلطان اخترکا کلام بالکل ا بتدائی زمانے سے ہی نقّادوں کی توجہ کا مرکز بنناشروع ہو گیاتھا۔ ستّر کی دہائی میں شاید ہی نئی شاعری یا جدید غزل پر کوئی تنقید ی مضمون سامنے آیاہوجس میں سلطان اختر کے بہت سارے اشعار بہ طورِ مثال نہ پیش کیے گئے ہوں۔ قدرتِ کلام اور ذاتی سطح پر علامتیں وضع کرنے کی مہارت نے سلطان اختر کو ۱۹۸۰ء سے پہلے ہی معتبر شعرا کے درمیان قابلِ قبول بنا دیا تھا ۔ اس پر مستزاد ادبی مشاعروں اور مقبولِ عام محفلوں میں وہ اپنی چنندہ غزلیں انوکھے ترنّم کے ساتھ کچھ اس طرح پیش کیا کرتے تھے جس سے وہ قبولِ عام کی بہ تدریج منزلیں سَر کرتے رہے۔ وہ دَور تھا جب مشاعروں میں جدید شاعری کے کئی نمایندہ فن کا ر اسٹیج پر اپنی طاقت کا لوہا منوا چکے تھے ۔ بشیر بدر اورندا فاضلی اسی زمانے سے متعلق ہیں ۔مشاعروں کا بھی غیر ادبی مزاج قائم نہیں ہوا تھا اور متشاعروں کی بھیڑنے ابھی اس پر قبضہ نہیں جمایا تھا ۔ مشاعروں میں سلطان اختر نے اسی کلام کو پیش کیا جسے ادبی اعتبار سے استحکام حاصل تھا اور جس پر کوئی ایسا ٹھپّا نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ وہ مقبولِ عام کیفیت کے استحصال کے لیے لکھا گیا ہو ۔ مگر ہمیں اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے کہ مشاعروں اور نقادوں کے مضامین میں اشعار کی موجودگی اور عوامی یادداشت وغیرہ امور ادبی تاریخ میں جگہ پانے کے لیے کافی نہیں۔سلطان اختر نے اپنی تین دہائیوں کے کلام کا اوّلین مجموعہ’انتساب‘عنوان سے ۱۹۹۴ء میں شایع کیا۔مسئلہ یہ تھاکہ اب جدیدیت کے ادبی سروکار دم توڑ رہے تھے اور نئے ادبی تقاضے سامنے آرہے تھے۔سلطان اختر کے اکثر ہم عصر اس زمانے تک دو ، تین اور چار مجموعے شایع کر کے تخلیقی اعتبار سے اپنا بوریا بستر سمیٹ رہے تھے۔بازار میں جو شاعری چلنے لگی تھی،سلطان اختر کی جدید شاعری اس سے مختلف تھی جس کی وجہ سے ان کی نوّے غزلوں کا انتخاب کچھ ایسا اثر قائم نہ کر سکا جیسا اگر وہ پندرہ برس پہلے شایع ہوتا تو ممکن تھا ۔ اس زمانے میں سلطان اختر کے اشعار بھی بہت کم شایع ہوتے تھے اور ادبی رسائل کے لیے وہ ایک گم شدہ شخصیت ہو کر رہ گئے تھے ۔ ہمارے لیے یہ ماننا ممکن نہیں کہ وہ مجموعہ قابلِ قدر شاعر ی کا نمونہ نہیں تھا۔ سلطان اختر اور دوسرے شعرا کا سارا کلام آج بھی ہمارے سامنے ہے اور سب کا آزادانہ طور پر محاسبہ ہو رہا ہے لیکن ہو ا ایسا ہی؛ سلطان اختر کا مجموعہ شائع ہو ا اور پڑھنے والوں کی ادبی تر جیحات میں شایانِ شان جگہ نہیں بنا سکا۔
اس نیم گمنامی سے سلطان اختر نے خود کو نکالنے کی ایک ذرا کو شش نہیں کی ۔مشاعروں کے اسٹیج سے رفتہ رفتہ اچھے شعرا اور خود سے شعر کہنے والے افراد کی چُھٹّی ہونے لگی تھی۔جدیدیت کے علمبردار رسائل یا تو بند ہو چکے تھے یا دم توڑ رہے تھے ۔ ’شب خوں‘ نے بھی اپنی بساط سمیٹ لی جہاں سلطان اختر اہتمام کے ساتھ چھپتے تھے۔ اس ماحول میں گوشہ گیری ہی ان کے لیے سہارا بنی۔ ان کے دوسرے ہم عصر ترکِ شعر گوئی میں مبتلا تھے۔منظرِعام سے دور ہونے کے باوجود سلطان اختر نے فکرِ شعر سے خود کو زیادہ علاحدہ نہیں کیا تھاجس کے نتیجے میں پہلے مجموعے کے بیس برس کے بعد ان کا دوسرا مجموعہ ’’غزلستان‘‘کے عنوان سے ۲۰۱۴ء میں شایع ہوا۔اس مجموعے میں شمس الرحمان فاروقی کے مقدمے کے ساتھ ۱۲۲غزلیں شامل ہوئیں۔ مطلب واضح ہے کہ ’انتساب ‘کی اشاعت کے بعد سلطان اختر ظاہری طور پر اگرچہ زیادہ سر گرم نظر نہ آتے ہوں مگر وہ شعر گوئی سے غافل نہ رہے اور بیس برس کی مدت میں سوا سو غزلیں پھر سے سامنے آگئیں۔یہ بھی خو ب اتّفاق ہے کہ جس طرح ’انتساب ‘ کے مرحلے میں قارئین کی عمومی طور سے جو سرد مہری رہی ، وہ اس موقعے سے بھی قائم رہی ۔
یہ عجیب اتّفاق ہے کہ اپنے عہد کے مشہور اور معتبر شاعر کے کلام کو ازسرِ نو احتساب کا موضوع نہیں بنایا گیا ۔ اس دوران سرورالہدیٰ ، وہاب اشرفی ، منصور عالم، ارمان نجمی اور منظر اعجاز وغیرہ کے مضامین مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ ’’شعر وحکمت‘‘نے ایک مختصر سا گوشہ پیش کیا مگر اس قدر شناسی کے لیے ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سلطان اختر کی خدمات کے عین مطابق تھی۔ اس دوران وہ اپنی ملازمت سے سبک دوش ہوئے اور دنیا زدگی سے الگ ہو کر اپنی بچی کھچی ادبی قوت کو مجتمع کر کے بھر پور مستعدی کے ساتھ پھر سے شعر گوئی کی طرف راغب ہوئے۔ دو برسوں میں ہی انھوں نے ایک سو اٹھائیس غزلوں کا نیا مجموعہ ’برگِ خوش رنگ‘کے نام سے پیش کر دیا۔ ان کے مطبوعہ مجموعوں میں اب تین سو چالیس غزلیں پڑھنے والوں کے لیے موجود ہیں۔ان کے نئے پرانے کلام کو جمع کر دیا جائے تو اس کی مقدار الگ سے ان تینوں مجموعوں سے ہر گز کم نہیں ہو گی۔ ان کی نظموں اور رباعیات کی علاحدہ جلدوں کے علاوہ ان کی باقی ماندہ غزلوں کی تعداد بھی خاصی ہے اور توقع ہے کہ ان سے ایک سے زاید مجموعے تیار ہو جائیں۔ (یہ بھی پڑھیں خواجہ بندہ نواز سے منسوب دکنی رسائل: ایک مطالعہ – ڈاکٹر صفدر امام قادری)
ابتدائی مجموعے کے بعد کے کلا م میں ایک اور بات یہ نظر آتی ہے کہ قدرتِ کلام نے انھیں عام طور سے آٹھ دس اور بارہ پندرہ اشعار کہنے کی صلاحیت بخشی ہے۔پچاس برسوں کی مشقِ سخن کے بعد شاعر میں کوئی تھکان نہیں ہو اور اپنی اختراعی صلاحیت سے نئے نئے مضامین اور استعارے وضع کر رہا ہو تو اسے خوش آیند کہنا چاہیے۔یہ وہ دور ہے جب سلطان اختر کے ہم عصروں میں ہندو پاک کی سطح پر صرف ایسے چند افراد نظر آتے ہیں جو اَب بھی تنو مندی کے ساتھ اچھے شعر کہہ رہے ہیں اور بڑی عمر کے باوجود نئے مضامین پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے لیے یہ بات قابلِ غور ہونی چاہیے کہ آخر وہ کون سی ادبی صفات تھیں جن کی بنیاد پر سلطان اختر اپنی قدرتِ کلام کو قائم رکھنے میں کامیاب ہوئے جب کہ ان کے بہت سارے ہم عصر میدان شعر گوئی سے ہی باہر ہوگئے یاخود کو سمیٹ لینے کے لیے مجبور ہوئے ۔سلطان اختر کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ حقیقت میں ایسے سوالوں کے جواب کی کو شش بھی ہے۔
سلطان اخترکے پہلے شعری مجموعے’انتساب‘کے اُن اشعار کو اوّلاً غور وفکر کا موضوع بنانا چاہیے جنھیں بالعموم جدیدیت کے دور میں اچھی خاصی شہرت ملی اورجن کے بارے میںعام طور سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مخصوص ادبی فکر یعنی جدیدیت کے سہارے سامنے آئے۔ایسے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
پانو رکھتے ہی پھسل جاتے ہیں منظر
بے حِسی کی کائی آنکھوں میں جمی ہے

شکست و ریخت کا منظر تو دیکھو
کئی شانے ہیں لیکن ایک سر ہے

پھٹی پُرانی سہی چھانو اوڑھ لو ورنہ
برہنہ دھوپ ابھی اور بے حیا ہو گی

ایک ویران جزیرہ ہے مِرا دل اخترؔ
مَیں نے اِس گھر میں خوشی دیکھی نہ ماتم دیکھا

اُس سے ملنے کی بات تھی لیکن
دوستوں نے اُچک لیا اِتوار

لہو میں لَذّت کے پھول مہکے
بدن پہ خواہش کی گھاس نکلی

دَربہ دَر بھٹکو گے آوارہ صداؤں کی طرح
اور پھر اپنی طرف تھک کے پلٹ آئو گے

کوئی بھی شہر میں کھل کر نہ بغل گیر ہوا
میں بھی اُکتائے ہوئے لوگوں سے اُکتا کے ملا
اس مجموعے میں اس طرح کے بیس پچیس اور اشعار بھی ہوںگے۔اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ ۱۹۶۰ء کے بعد جس نئی شاعری نے مختلف النوع مضامین اور استعارے وضع کیے ، ان کی یہاں بہ حسن و خوبی نمایندگی ہوتی ہے ۔ بے حسی کی کائی کا آنکھو ں میں جمنا ، بغیر سر کے شانے کا ہونا ،پھٹی پرانی چھانو، برہنہ دھوپ کا بے حیا ہونا ، ویران جزیرہ ہونا ، دوستوں کے ذریعہ اتوار کا اچک لینا، لہو میں لذت کے پھول کا مہکنا،بدن پہ خواہش کی گھاس کا نکلنا، آوارہ صداؤں کی طرح در بہ در بھٹکنا، اپنی ہی طرف تھک کے پلٹ آنا اور اُکتا ئے ہوئے لوگوں سے اُکتا کے ملنا جیسے زبان و فکر کے لوازم اردو شاعری کی ایک نئی دنیا سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں۔یہاں نئی سفّاکیوں میں زندگی کچھ اس انداز سے نظر آتی ہے جیسی ہماری روایتی شاعری یا قدیم فن کاروں کے یہاں دیکھنے میں نہیں آتی ۔یہا ں فرد کی تنہائی بھی ہے،اپنے عہد کی سفّاکی اور شہر ی زندگی کے عتابات، اقدار کی شکست اور نازک زندگی کی پامالی جیسے بہت سارے نئے پہلو ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔زندگی کا اضطراب اور داخلی سطح پر بے اطمینانی کی ایک ایسی کیفیت ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ہمارے لیے لازم ہے کہ سلطان اختر جدید شاعری کی مانوس آوزوں کا اکرام کرتے ہوئے اس عہد کے ادبی ترجمان کے طور پر ہمارے سامنے دکھائی دیتے ہیں۔
جدیدیت سے نئے استعارات وضع کرنے کا جو عمل سلطان اختر نے سیکھا ، صرف اسی پر انھوں نے قناعت نہیں کی۔انھوں نے اسی زمانے میں جب نئے اندازاور نئی آوازوں کا گھماسان مچا ہوا تھا،شفاف لہجے میں زندگی کی پیچیدہ اور مشکل ترکیفیت کو سمونے کی بھی کوشش کی۔لہجے کی شفّافی عام ترقی پسندوں کی طرح ان کے یہاں سپاٹ انداز سے سامنے نہیں آئی بلکہ ان کے فکر ی استحکام اور اسلوبیاتی تدبّر کی مثالوں کے طور پر انھیں دیکھنا چاہیے۔پہلے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ہَرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دے
زمیں کے جسم پہ کوئی لباس رہنے دے

لِپٹی ہوئی ہے جسم سے زنجیرِ مصلحت
بے دست و پا ہیں لوگ سزا کے بغیر بھی

بے یقینی کی ہَوا سب کچھ اُڑا لے جائے گی
مُنتشر ہو جائے گا ہر سلسلہ بنتا ہُوا

ہوٗ کا عالم رینگتا ہے صحنِ جاں میں
خانہ ویرانی کا منظر دِیدنی ہے

کَٹا پھَٹا سہی ملبوسِ کُہنگی نہ اُتار
تِرے لیے یہی دیوارِ آبرو ہے بہت

ٹوٹتے لمحوں کو مُٹّھی میں جکڑنے والو!
کیا ملے گا تمھیں پرچھائیں سے لڑنے والو!

ہَوا خلاف، فضا گرم، روز و شب برہم
عذاب ہو گیا اپنی رضا سے جینا اب
ان اشعار میں بعض اس قدر مشہور ہیں جن سے اردو شاعری کے اچھے طالبِ علم لازماً واقف ہوں گے۔غور سے دیکھیں تو ان اشعار کے پیچھے سلطان اختر کا عہد اور زندگی کے نئے حقائق بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔چار دہائیوں پہلے سلطان اختر نے جس بے چارگی میں پہلا شعر کہا ہوگا، اس کیفیت کو آج بہ غو ر سمجھنے کی ضرورت ہے ۔یہ ہر دور کا مقدّر ہے کہ اقدار اور طاقت کے نشے میں انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے سامنے آجاتے ہیں۔بے چارگی اور بے بسی کا یہ کیسا عالم ہوگا جب شاعر کو کہنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ ہرے شجر تو کاٹ ہی ڈالیں گے مگر مروّتاً کچھ خشک گھاس تو رہنے دیں ورنہ زمیں کا جسم بے لباس ہوجائے گا۔ اس گزارش میں ایک طرف بے چارگی ہے تو دوسری جانب طنز کی ایک لطیف کیفیت سے بھی ہم آشنا ہوتے ہیں۔دوسرے شعر میں ایک عجیب کیفیت کی طرف ہماری توجّہ مبذول کرائی جاتی ہے۔ایک طرف جسم سے زنجیرِمصلحت کا لپٹا ہونا اور دوسری طرف سزا کے بغیر افراد کا بے دست وپا ہونا۔زندگی اور عہد کی یہ عجیب وغریب کیفیت ہے۔انسان نے اپنے لیے کچھ ایسی اقدار منتخب کر لی ہیںجن کا نتیجہ یہی ہوناتھا۔سزا کے بعد بے دست وپائی سمجھ میں آتی ہے لیکن ہم نے خود کو مصلحت کا قیدی بنالیا ہے جہاں آسانی سے کوئی چارئہ کار سامنے نہیں آسکتا۔ اگلے شعر میں سلطان اختر اس مضمون کو صوفیانہ حدوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔ بے یقینی کی ہوا سب کچھ تو اڑالے جائے گی مگر اس سے یہ بھی ہو گا کہ بنتے ہوئے سارے سلسلے بھی معدوم ہو جائیں گے۔باقی شاید ہی کچھ بچنا ہے۔
چوتھے شعر میں صحنِ جاں میں ہُوکے عالم کا رینگنا ،خانہ ویرانی کے منظر کا دیدنی ہونا بھی عہد اور زندگی کی پس پائی کے مظاہر ہیں مگر یہ مضمون پانچویں شعر میں ایک خاص ذہنی کیفیت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔ ملبوسِ کہنگی بے شک تار تار ہے،سلطان اخترکے لفظوں میں ’کٹا پھٹا‘ ہوا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اسے نہ اتارو ۔یہاں سلطان اختر سبب بتاتے ہوئے یہ سادہ سا مصرعہ پیوست کرتے ہیں:’ ترے لیے یہی دیوارِآبرو ہے بہت‘۔ ملبوسِ کہنگی کا کٹا پھٹا ہونے کے باجود دیوارِ آبرو ہونا،یہ بڑا لطیف اشارہ ہے ۔ دیوار کے منفی معنوں کو تو سب دیکھتے ہیں لیکن سلطان اختر نے اسے اثباتِ زندگی کا ایسا استعارہ بنایا کہ دیوار ِ آبروکی سادہ مگر بامعنی ترکیب سامنے آگئی جس سے یہ شعر اپنی معنوی حیثیت میں نیا اعتبار حاصل کرلیتا ہے۔آخر کے دونوں شعر سلطان اختر کے نئے اسلوب ِ بیان کی وضاحت کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ٹوٹتے لمحوں کو مُٹّھی میں جکڑنے کی کوشش کرنے والوں کے لیے سلطان اختر نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پر چھائیں سے لڑنے والوں کو کچھ نہیں ملتا ہے۔یہ کیفیت ساتویں شعر میں اکتاہٹ اور غصے کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ نمایاں ہوتی ہیں۔سلطان اختر سوال کرتے ہیں کہ اپنی رضا سے جینا آخر عذاب کیوں ہو گیا ؟کیوں کہ ہوا خلاف ہے ، فضا گرم اور روز و شب میں برہمی کے آثار ہیں۔غالباًیہاں سلطان اختر اپنے عہد کی اس بے سمتی اور دانش وروں پر جبر اور انفرادی غور وفکر پرقدغن لگانے کے احوال کو طشت ازبام کرنا چاہتے ہیں۔گذشتہ اشعار میں جس طنز یہ اسلوب کی جھلکیاں مل رہی تھیں، اس کے مزید نمونے ذیل کے اشعار میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں:
اِک لمحہ اپنے آپ پہ قابو نہیں مگر
کم ظرف زندگی کو نشہ اور چاہیے

نیند کی کائی تو آنکھوں میں جَمی ہے لیکن
سونے دیتا ہی نہیں گرم ہوا کا جھونکا

دوستوں سے نجات کیسے ہو
دشمنوں کو تو خیر ٹال آیا

رسمِ زندہ دِلی نبھانی تھی
میں بھی کچھ قہقہے اُچھال آیا

زندگی بھر ہم اِسی اُمّید پر چلتے رہے
اب کے صحرا پار کر لیں تو سمندر آئے گا

چلتے رہے تو پائوں پکڑتی رہی زمیں
ٹھہرے تو ہم پہ وقت کی دیوار گِر پڑی

وہاں سب قلندر صفت لوگ تھے
تہی دَست بھی بادشاہوں میں تھا

یقیں کا ذائقہ بدلے نہ بدلے
ہمارا عَہد لیکن معتبر ہے

وارفتگی میں جُبّہ و دستار ہی نہ چوٗم
سانپوں کو آستین میں پلتے ہوئے بھی دیکھ
ان اشعار میں بھی حالات صبر کے سانچے میں ڈھلتے ہوئے نظر نہیں آتے۔سلطان اختر باریکی کے ساتھ اپنے عہد کے ذاتی اور عمومی تجربات کو نگاہ میں رکھتے ہیں ۔اپنے عہد کی بوالعجبیوں کو ملاحظہ کرتے ہوئے انھوں نے اپنا ذاتی طنزیہ اسلوب وضع کیا۔دنیا کے تقاضوں کو وہ صرف دوسروں کے تجربوں سے نہیں پہچانتے بلکہ حسبِ ضرورت انھیں جیسی زندگی ملی ہے ،اس کا تفکر آمیز انداز میں تجزیہ کرتے ہیں ۔اس سے ان کے اسلوب اور فکر میں ایک ایسی معروضیت در آتی ہے جو فی الحقیقت فکر و فلسفہ کی سب سے بڑی قوت ہے۔پہلے شعر میں دوسرے مصرعے کی بلاغت ہمیں طنزِ لطیف کی منتہا پر پہنچاتے ہوئے زندگی کی سچی حقیقت کا عرفان عطا کرتی ہے:’کم ظرف زندگی کو نشہ اور چاہیے‘۔’زندہ دلی ‘کور سم کے طور پر نبھانے کی منزل آج کے عہد کی انسانی بے بسی تو ہے ہی لیکن اس پس پائی پر طنزیہ کیفیت کا اضافہ دوسرے مصرعے سے ہوتا ہے۔جب سلطان اختر رسمِ زندہ دلی نبھا نے کے لیے یہ مصرعہ پیش کرتے ہیں :’میں بھی کچھ قہقہے اچھال آیا‘۔
طنز کی لطافت سے سلطان اختر حقیقت میں انسانی جد و جہد کے نتا ئج سے ہمیں باخبر کرنا چاہتے ہیں۔یہ نتائج صبر آزما، مشکل اور زندگی کی مسدود راہوں کے سفر سے سامنے آئے ہیں۔اسی لیے وہ امید اور توقعات پر اسی سادہ لوح انداز میں طنز کی ایک خفیف سی لَے اختیار کرتے ہوئے زندگی کی حصولیابیوں کے چھلاوا کو کچھ اس انداز سے بے نقاب کرتے ہیں:
زندگی بھر ہم اسی امید پر چلتے رہے
اب کے صحرا پار کر لیں تو سمندر آئے گا
زندگی شاید اسی انداز سے نئی منزلوں کا سفر بن جاتی ہے کیوں کہ ہمیں ہر لمحہ یہ توقع حوصلہ دیتی ہے کہ اگلا مرحلہ سامنے ہے۔ اس صورتِ حال سے سلطان اختر ایک اور نتیجہ اخذکرتے ہیں اوروہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب چلتے رہے تو زمین پانو پکڑتی رہی یعنی ہمیں روکنے کی ہزاروں کوششیں ہوئیں مگر مسئلہ اس سے زیادہ مشکل تب آیا جب کہیں ٹھہرنا چاہا۔نتیجہ اور بھی دگرگوں تھا: ’ٹھہرے تو ہم پہ وقت کی دیوار گر پڑی‘۔
سلطان اختر کے یہاں طنز، لطافت کے ساتھ ساتھ کئی بار شفافیت کے ایک مختلف اسلوبیاتی پیکر میں سامنے آتاہے۔غزل کا شاعر ہمیشہ دروں بینی اور ایمائیت میں مبتلا رہے تو زندگی کے کچھ رنگ اس کی مٹھی میں قید ہونے سے رہ جائیں گے۔ اس لیے سلطان اختر بعض اوقات صاف اور برہنہ اندازمیں اپنی بات کہتے نظر آتے ہیں۔پیش کردہ مثالوں کے آخری دو اشعار سلطان اختر کے اس انداز ِ سخن کی مثال کے طور پر لیے جائیں گے۔یقیں کے ذائقے میں تبدیلی آئے بغیر اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا عہد معتبر ہے تو اسے کیا کہا جائے۔اسی طرح شوق اور جذبے میں مبتلا ہو کر جن لوگوں نے قیادت کا اقبال کر لیا ہے، انھیں وہ بہت صفائی سے یاد دلاتے ہیں کہ سب کے باوجود یہ بھی تو ہو رہا ہے :’سانپوں کو آستین میں پلتے ہوئے بھی دیکھ‘۔

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
سلسلہ میرے سفر کا کبھی ٹوٹا ہی نہیں
میں کسی موڑ پہ دم لینے کو ٹھہرا ہی نہیں
خشک ہونٹوں کے تصور سے لرزنے والو
تم نے تپتا ہوا صحرا کبھی دیکھا ہی نہیں
اب تو ہر بات پہ ہنسنے کی طرح ہنستا ہوں
ایسا لگتا ہے مرا دل کبھی ٹوٹا ہی نہیں
میں وہ صحرا جسے پانی کی ہوس لے ڈوبی
تو وہ بادل جو کبھی ٹوٹ کے برسا ہی نہیں
ایسی ویرانی تھی در پہ کہ سبھی کانپ گئے
اور کسی نے پس دیوار تو دیکھا ہی نہیں
مجھ سے ملتی ہی نہیں ہے کبھی ملنے کی طرح
زندگی سے مرا جیسے کوئی رشتہ ہی نہیں

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
فرصت میں رہا کرتے ہیں فرصت سے زیادہ
مصروف ہیں ہم لوگ ضرورت سے زیادہ
ملتا ہے سکوں مجھ کو قناعت سے زیادہ
مسرور ہوں میں اپنی مسرت سے زیادہ
چلتا ہی نہیں دانش و حکمت سے کوئی کام
بنتی ہے یہاں بات حماقت سے زیادہ
تنہا میں ہراساں نہیں اس کار جنوں میں
صحرا ہے پریشاں مری وحشت سے زیادہ
اب کوئی بھی سچائی مرے ساتھ نہیں ہے
یعنی میں گنہ گار ہوں تہمت سے زیادہ
اس ریگ رواں کو میں سمیٹوں بھی کہاں تک
بکھرا ہے وہ ہر سو مری وسعت سے زیادہ
روشن ہے بہت جھوٹ مرے عہد میں اخترؔ
افسانہ منور ہے حقیقت سے زیادہ

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھوٹ روشن ہے کہ سچائی نہیں جانتے ہیں
لوگ اب وہم و گماں کو ہی یقیں جانتے ہیں
یہ الگ بات کہ آتی نہیں دنیا داری
اہل دنیا کو مگر گوشہ نشیں جانتے ہیں
طاق و محراب کا رونا ہو کہ دیوار کا غم
بام و در پر جو گزرتی ہے مکیں جانتے ہیں
ورق دل پہ ابھی نقش ہے شب نامۂ غم
پھر بھی ہر صبح کو ہم صبح حسیں جانتے ہیں
جھک کے ملتے تو ہیں وہ خاک نشینوں سے مگر
آسماں والوں کو ہم اہل زمیں جانتے ہیں
سب کے ہونٹوں پہ منور ہیں ہمارے قصے
اور ہم اپنی کہانی بھی نہیں جانتے ہیں
کوئی در قابل تعظیم نظر تو آئے
سر جھکانا ہے کہاں اہل جبیں جانتے ہیں

متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں وہ صحرا جسے پانی کی ہوس لے ڈوبی
تو وہ بادل جو کبھی ٹوٹ کے برسا ہی نہیں

فرصت میں رہا کرتے ہیں فرصت سے زیادہ
مصروف ہیں ہم لوگ ضرورت سے زیادہ

سفر سفر مرے قدموں سے جگمگایا ہوا
طرف طرف ہے مری خاک جستجو روشن

سب کے ہونٹوں پہ منور ہیں ہمارے قصے
اور ہم اپنی کہانی بھی نہیں جانتے ہیں

ہر ایک داستاں تجھ سے شروع ہوتی ہے
ہر ایک قصہ ترے نام پر تمام ہوا

سامنے آنکھوں کے پھر یخ بستہ منظر آئے گا
دھوپ جم جائے گی آنگن میں دسمبر آئے گا

ہماری سادہ مزاجی پہ رشک کرتے ہیں
وہ سادہ پوش جو بے انتہا رنگیلے ہیں

یہ اور بات کہ اخترؔ حویلیاں نہ رہیں
کھنڈر میں کم تو نہیں اپنی آبرو روشن

کسی کے واسطے جیتا ہے اب نہ مرتا ہے
ہر آدمی یہاں اپنا طواف کرتا ہے

پھر بھی ہم لوگ وہاں جیتے ہیں جینے کی طرح
موسم قہر جہاں ٹھہرا ہوا رہتا ہے

Previous articleوزیر اعلیٰ نتیش کمار کا اعلان: سڑک حادثہ کے شکار لوگوں کے اہل خانہ کو اب ملے گا 5لاکھ
Next articleرونالڈ روس ایک تعارف از: انسان گروپ مغربی بنگال

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here