رشتہ داروں کے لئے وقت نکالنا اسلامی معاشرت کا ایک اہم باب ہے

0
205

از: مدثر احمد قاسمی

وقت بدلنے کے ساتھ حالات بدلتے ہیں اور حالات بدلنے کے ساتھ ہمارے اعمال بدلتے ہیں۔حالات بدلنے کے ساتھ اگر ہمارے اعمال مثبت طریقے پر بدلتے ہیں تو یہ ایک مستحسن تبدیلی شمار ہوتی ہے ،جبکہ منفی طرزِ عمل ہمارے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ اِس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ایک اہم بات ہمارے ذہن میں یہ بھی رہنی چاہئے کہ شریعتِ اسلامیہ کی جو طے شدہ چیزیں ہیں وہ حالات کے بدلنے سے نہیں بدلتی ہے ،ہاں !اُن طے شدہ چیزوں کی شکلیں بدل سکتی ہیں۔اِس کی بہت ساری مثالیں ہیں،لیکن زیرِ نظر مضمون میں چونکہ رشتہ داروں سے ملاقات اور میل جول کی اہمیت پر بات کریں گے،اسی لئے موضوع کی مناسبت سے یہاں ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں اور وہ مثال یہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث ِنبوی میں کثرت سے صلہ رحمی (رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتائو) کی ترغیب دی گئی ہے؛چنانچہ اِس ترغیبی حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دورِ نبوی (ﷺ)، دور صحابہؓ اور بعد کے زمانوں میںمسلمانوں نے رشتہ داروں کا خوب خیال رکھا اور حق ادا کیا ۔رشتہ داروں کے منجملہ حقوق میں سے ایک حق اُن کی خبر خیرت معلوم کرنا ہے، پہلے زمانے میں یہ کام صرف جسمانی طور پر رشتہ داروں کے پاس جا کر ممکن تھا؛لیکن آج کے زمانے میں یہ کام موبائل اور فون کے ذریعے بھی ممکن ہے،اسی لئے اگر کسی کے پاس معقول عذر کی وجہ سے رشتہ داروں داروں کے پاس جا کر خبر خیریت معلوم کرنے کا وقت نہیں ہے تو وہ فون کال کے ذریعہ یہ کام بآسانی کر سکتا ہے۔اِس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شریعت میں صلہ رحمی کا جو حکم ہے وہ ہر زمان و مکان اور حالات کے لئے ہے ؛ہاں !موقع اور ضرورت کے حساب سے اس کی شکل بدل سکتی ہے۔

صلہ رحمی کے تعلق سے قرآن مجید میںارشاد ربانی ہے: ـ” اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا۔”(سورہ النحل :۹۰) اس آیتِ کریمہ میں رشتہ داروں کی حسب استطاعت مالی اور جانی خدمت بھی داخل ہے اور ان سے ملاقات اور خبرگیری بھی۔حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے ’’رحم‘‘ یعنی (رشتہ و قرابت) کو پیدا کیا ہے اور اپنے نام رحمن کے مادّہ سے نکال کر اس کو ’’رحم‘‘ نام دیا ہے۔ لہٰذا جو اسے جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس کو توڑے گا میں (بھی) اس کو توڑوں گا۔(ابودائود)

ہمارے لئے مذکورہ آیت و حدیث میں یہ پیغام ہے کہ ہم ہر حال میں صلہ رحمی کو لازم پکڑیں کیونکہ یہ ہماری زندگی کا بہت ہی حساس مسئلہ ہے۔اگر رشتہ داروں سے ہمارے تعلقات استوار ہوں اور قابلِ اطمینان حد تک ہمارا ملنا جلنا ہو تو اِس کا اثر ہماری زندگی پر اِس طرح ہوتا ہے کہ ہم پُر سکون ہوتے ہیں اور ہمارے دینی و دنیوی تمام کا م خوش اسلوبی سے انجام پاتے ہیں اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہے تو ہمارا سکون بھی غارت ہوتا ہے اور ہم اپنے آپ کو قدم قدم پر تنہا بھی محسوس کرتے ہیں۔ایک طرف یہ ایک مسلمہ حقیقیت ہے لیکن دوسری طرف ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے لوگوں نے صلہ رحمی کے باب کو یا تو اپنی زندگی سے نکال دیا ہے یہ جانے انجانے میں اسے بھلا دیا ہے۔

پہلے لوگ رشتہ داروں سے ملنے جلنے اورخبر خیریت معلوم کرنے کے لئے با ضابطہ وقت نکالتے تھے اور اگر کسی وجہ سے ملاقات کے بغیر زیادہ عرصہ گذر جاتا تو ایک قسم کی بے چینی ہوتی تھی ؛لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہر ایک شخص وقت کی تنگ دامنی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔حا لانکہ پہلے کے لوگ ہم سے زیادہ کام کرتے تھے اور اُن کو تو وہ سہولیات بھی میسر نہیں تھی جو آج ہمیں ہے؛جیسا کہ اِس مشینی دور میں ہم گھنٹوں کا کام منٹوں میں کر لیتے ،اس کے باوجود تنگی وقت کی اگر ہم شکایت کرتے ہیں تو یہ ایک بیجا شکایت ہے۔ افسوس ہے پہلے لوگ پیدل رشتہ داروں کے پاس چلے جایا کرتے تھے لیکن آج ہمارے پاس موٹر سائیکل، کار اور دیگر سہولیات موجود ہیں؛پھر بھی بیشمار عذر ہمارے پائوں کی زنجیر ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اُن سے بات کرنے کا بھی وقت نہیں ہے،جبکہ ہر وقت موبائل ہمارے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔

افسوس!آج ہمارے پاس خونی رشتہ داروں کے پاس جانے کا موقع نہیں ہے،جبکہ نبی اکرم ﷺ نے اُن لوگوں سے بھی ملاقات کا درس دیا ہے جو ہمارے خونی رشتہ دار نہیں ہیں۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن رضی اللہ عنھا کی ملاقات کے لیے چلو،ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے۔(مسلم) اُم ایمن ؓ کا تعلق آپ ﷺ یہ تھا کہ انہوں نے آپ ﷺ کی پرورش کی تھی۔نبی اکرم ﷺ کا یہ طرزِ عمل ہم سب کے لئے مشعلِ راہ ہے کہ ہمیں اُن تمام لوگوں سے ملاقات اور بات کاسلسلہ قائم رکھنا چاہئے جن سے ہمارا کسی قسم کا تعلق ہے۔

اخیر میں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ دنیا ہے ،یہاں مختلف قسم کی پریشانیاں اور مصروفیات ہماری زندگی کا جز و لاینفک ہے،اس لئے ہمیں اپنی مصروفیات ہی میں کچھ وقت اپنے رشتہ داروں کے لئے بھی نکالنا ہے تاکہ اسلامی معاشرت اور اخلاقیات کا یہ اہم باب ہماری زندگی میں باقی رہے اور ہم دوسروں کے لئے خیر کا ذریعہ ثابت ہوں۔

Previous articleتہنیتی پیغام
Next articleدنیا کے سب سے عظیم آئیڈیل محمد عربی سے گہرا تعلق کامیابی کا ضامن ہے :سید صہیب حسینی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here