صدر شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی
’خشک پتوں کی موسیقی ‘ ڈاکٹر شائستہ فاخری کے رواں دواں قلم سے لکھی گئی افسانہ شکل وہ تحریر ہے جو ان کے افسانوی مجموعے ’ وصف پیغمبری نہ مانگ ‘ میں شامل ہے۔مذکورہ افسانوی مجموعہ ۲۰۱۶ء میں ایجوکیشنل پبلیشنگ ہائوس سے زیور طبع سے آراستہ ہو کر شائع ہوا۔ یہ تیرہ صفحات پر محیط افسانہ ہے جس میں خشک پتہ یعنی ۵۸؍ برس کی مس حجاب درانی ، اس افسانے کا مرکزی کردار ہیں اور ان خشک پتوں سے موسیقی رچرڈ تھامس کی بدولت پھوٹتی ہے۔انھیں خشک پتوں سے پھوٹنے والی موسیقی کے آہنگ پر یہاں گفتگو مقصود ہے۔
ڈاکٹر شائستہ فاخری کا تعلق شہر الہ آباد کی مشہور خانقاہ دائرہ شاہ اجمل سے ہے۔آپ ایسی فضا میں پلی بڑھیں جہاں صوفیانہ ماحول تھااورزبان و ادب کی آبیاری یہاں کے معمول میں شامل تھی۔ایسے ماحول میں شائستہ کے درون خانہ کم سنی میں ہی تخلیقیت کی تخم ریزی ہونا فطری عمل تھا۔ان کے مطابق خانقاہ میں وقتاً فوقتاً محفلوں میں شریک ہونے والی عورتوں نے انھیں فکر کے نئے زاوئے عطا کئے۔ان کی تخلیقات میں عموماً تانیثی اور صوفیانہ رنگ غالب نظر آتے ہیں جن کے محرکات کی جڑیں یہیں پیوست ہیں۔
پیش نظر افسانہ ’خشک پتوں کی موسیقی ‘ اپنے عنوان سے ہی دو متضاد رخ کا حامل نظر آتا ہے۔ خشک پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سے ہم سبھی آشنا ہیںجب کہ موسیقی کانوں میں رس گھولتی ہے۔کہانی مس حجاب درانی کے ارد گرد گھومتی ہے جن کا تعارف افسانے میں اس طرح پیش کیا گیا ہے ؎
’’حجاب درانی جدیدیت پسند والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں۔صحافت ان کا شوق تھا۔مزاج باغیانہ۔ان کے ہر فیصلے میں ان کے والدین کی رضا شامل رہتی۔شانے تک تراشے بال ، گوری رنگت ،گہری بھوری آنکھیں، چوڑی پیشانی ، بھرے بھرے رخسار والی حجاب درانی کی لمبائی پانچ فٹ چار انچ تھی۔ لباس ہو یا طرز زندگی وہ اپنی جدید سوچ سے الگ شناخت رکھتی تھیں۔‘‘
افسانے کا اگلا اقتباس قاری کے سامنے پوری کہانی لے کر حاضر ہو جاتا ہے ؎
’’سرخ جوڑے میں بیٹی کو دیکھنے کا خواب اس وقت پاش پاش ہو گیا جب حجاب درانی نے اپنے والدین کو یہ فیصلہ سنایا کہ وہ شادی نہیں کریں گی۔زندگی تنہا(ں) گزاریں گی۔لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہیںاور ہمیشہ کی طرح ان کے فیصلے کے آگے ان کے والدین کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے۔ اب حالات مختلف تھے۔ضدی اور مغرور حجاب درانی آج بالکل تنہا پڑ چکی تھیں۔اگر کوئی تھا تو ان کا اکلوتا دوست رچرڈ تھامس جو ایک فون پر ان سے ملنے کینیڈا سے انڈیا آ گیا تھا۔‘‘
افسانے کا مرکزی کردارمس حجاب درانی ہیں۔مس حجاب ایک خاتون ہیں اور ایسی خاتون جو انفرادی آزادی کی علم بردار ہیں۔صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں اس لئے دلیر بھی ہیں۔خطروں سے کھیل کر انھوں نے کئی یادگار ڈاکیومنٹری فلمیں بھی بنائیں۔حجاب بولڈ ہونے کے ساتھ ساتھ ضدی بھی ہیں۔ انھیں اپنے انفرادی تشخص کو ثابت کرنے کا جنون ہے۔اسی لئے نہ انھیں مرد کی ضرورت ہے نہ کنبے کی اور نہ رشتے ناتے داری کی۔نسائیت کا تعارف ان کی اپنی ذات کے لئے مسرور کن دریافت اور دنیا جہان کے لئے انکشاف کا درجہ رکھتا ہے۔انھیں تو بس اپنی آزادی اظہار سے غرض ہے۔وہ اپنی ذات اور اس کے کمالات کو اپنے علاوہ کسی دوسرے رشتے کا مرہون منت نہیں دیکھنا چاہتیں۔بالخصوص ایک مرد کا رشتہ جسے شوہر کہا جاتا ہے۔وہ اپنے وجود کو صرف اپنا وجود اور ایک کامیاب عورت کا وجود ثابت کرنے کی تگ و دو میں زندگی کی اٹھاون بہاریں نکال دیتی ہیں۔بقول شائستہ ’اب حالات بدل چکے تھے۔ضدی اور مغرور حجاب درانی بالکل تنہا پڑ چکی تھیں‘۔یہ تنہائی مس حجاب کی انفرادی آزادی کی ضد کی دین ہے۔جب والدین کا سایہ ان کے سر پر تھا تب سرخ جوڑے میں اپنی بیٹی کو دیکھنے کی ان کی خواہش حجاب نے بڑی نخوت سے پامال کر دی۔’ایک دن باتوں ہی باتوں میں جب رچرڈ نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تو حجاب نے بڑی شائستگی سے انکار کر دیا‘۔اس طرح ایک مخلص اور سمجھدار دوست نے ازدواجی رشتے کی بات کی تو اس کے حصے میں بھی انکار ہی آیا۔گویا ایک مرد سے نکاح کر خانہ آبادی کا تصور حجاب کے نزدیک لغویات کے مترادف تھا۔جب کہ ان جیسی ذہین خاتون اگر محض اپنے وجود پر ایماندارانہ نگاہ ڈالتی تو اسے ایک آن میں اپنے سراپے کی اصل کا سراغ مل جاتا۔وہ جس پیشے سے وابستہ تھیں اس کا وقار بھی اسی اصول پر مبنی تھایعنی معاملہ کی تہہ تک پہنچنا۔مگر غرور اور خود پرستی نے مس حجاب کو اس جانب مڑ کر دیکھنے کا موقعہ ہی نہیں دیا۔حتیٰ کہ ان کی زندگی اس نہج پر نکل آئی ؎
’وقت گذرتا رہا،عمر کے دائرے پھیلتے رہے اور زندگی سمٹتی رہی۔‘
’نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھیں تو جانے کیوں آہستہ آہستہ ہر چیز سے دل بیزار ہونے لگا۔‘
’ماضی کی یادیں انھیں پریشان کرنے لگی تھیں۔کبھی والدین یاد آتے ، کبھی اس لڑکی کی یاد ستانے لگتی ، جو مغرور تھی ، خود پرست تھی ، جو زندگی کو اپنے طریقے سے جینے کی قائل تھی۔‘
’سنو! کیا رات میں تم کو کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔‘
’دیکھئے باجی یہ سوکھے کھول ہیں نا، انہی کے ٹوٹنے کی آوازیں آتی ہوں گی‘۔
’دل پریشان رہنے لگا۔‘
’حجاب درانی کو اپنا ہی گھر اجنبی لگنے لگا۔‘
اب محض خشک پتوں کی کھڑکھڑاہٹ اور کپاس کے سوکھے خول کے گرنے کی آوازیں انھیں خوف زدہ کرنے لگیں حالانکہ مس حجاب درانی کچھ دنوں قبل تک ایک تیز طرار صحافی ہوا کرتی تھیں۔کتنے ہی سنگین جرم کی گتھیاں سلجھا کر انھوں نے سی ڈی میں قید کر لی تھیں۔مگر اب انھیں جرائم کا اطلاق انھیں اپنی زندگی پر ہوتا نظر آتا ہے۔وہ اپنے پرانے ملازم اور قدم سے قدم ملا کر چلنے والے ڈاگی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتی ہیں۔یہاں شائستہ نے اس نسوانی کردار کی توسیع اس کے نفسیاتی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے کی ہے۔حجاب نے اپنی ایک فائل کے خاتمے پر لکھا تھا کہ اکیلا پڑتا ہوا انسان صرف اکیلے پن کا ہی شکار نہیں ہوتا بلکہ مختلف جرائم کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔انھیں اسی کا خدشہ بری طرح لاحق ہو گیا تھا۔وہ اس سے چھٹکارا پانے کے لئے پھر ایک بڑا فیصلہ کرتی ہیں اور اپنا پشتینی بنگلہ فروخت کر ایک فلیٹ خرید کر اس میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ایک بار پھر ان کے شب و روز تبدیل ہوتے ہیں۔
’۵۷۔۵۸ برس کی عمر کوئی ایسی نہیں ہوتی کہ بیٹھ کر موت کا انتظار کیا جائے۔انھوں نے محفلوں میں جانا شروع کر دیا۔‘
مگریہ سلسلہ دراز نہ ہو سکا ۔ایک دن لفٹ بند ہو جانے پر انھیں تقریباً موت کاسامنا کرنا پڑا جس کے نتیجہ میں انھوں نے خود کو پوری طرح اپنے فلیٹ میں مقید کر لیا۔اب وہ تھیں اور ان کی یادیں۔انھیں یادوں میں’ رچرڈ کے تئیں ملال بھی تھا۔‘رچرڈ یعنی خشک پتوں کے باب میں موسیقی کا اضافہ، رچرڈ یعنی خشک پتوں کی موسیقی کی تان، رچرڈ یعنی خشک پتوں کی موسیقی کا باعث۔رچرڈ ،جس کی ذات سے افسانے کا عنوان مکمل ہوتا ہے۔
رچرڈ تھامس کا ذکر افسانے کی ابتدا میں مس حجاب درانی کے ہمکار کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔دونوں اچھے دوست ہیں ۔رچرڈ ہندوستانی ماں اور کینیڈین باپ کے بطن سے پیدا ہوا ۔اسے ہندوستان سے لگائو ہے۔اس نے کئی پروجیکٹ مس حجاب درانی کے ساتھ مل کر مکمل کئے۔جب کبھی مس درانی پریشان ہوتیں تو رچرڈ کے شانے پر سر رکھ کر سکون کا احساس کرتیں۔دونوں ایک دوسرے کے لئے خاص کشش رکھتے تھے۔وہ ہندوستان کے چکر لگاتا رہتا تھا۔اسی رچرڈ نے جب ان سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو مس درانی نے نفی میں جواب دے دیاتھا۔آج اس کو یاد کر ان کی طبیعت ملول ہو جاتی ہے۔اب انھیں بھولنے کی بھی بیماری لگ گئی ہے۔اسی یاد اور بھول کے درمیان ایک دن وہ اپنا لیپ ٹاپ اوپن کرتی ہیںاور وہاں عرصے بعد رچرڈ کا مسیج دیکھ خشک پتوں میں سرسراہٹ ہوتی ہے اور یکلخت موسیقی کے سارے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔رچرڈ ہندوستان آ رہا تھا۔
’رچرڈ سچ مچ تم بہت اچھے ہو۔آخر تم نے میرے لئے وقت نکال ہی لیا۔‘
’وہ سرشار تھیں ، بشاش تھیں۔‘
’رخصت ہونے سے پہلے رچرڈ نے ان سے کینیڈا آنے کا وعدہ لیا۔‘
’انھوں نے ٹیبل پر اپنی ہتھیلیاں ٹکا دیں اور جھک کر اپنا سراپا دیکھنے لگیں۔مانا کہ ایک لمبی زندگی وہ گذار کر آئی تھیںمگر وقت اب بھی ان کی مٹھی میں تھا۔ان کا یہی اعتماد کینیڈا کے سفر کی طرف ان کو گامزن کر رہا تھا۔‘
’وہ گنگنا رہی تھیں،رات گذر رہی تھی اور زانو پر پھیلا ہوا سرخ تاش کا نکاحی دوپٹہ گوٹوں لچکوں سے وزنی ہو تا رہا۔‘
’خشک پتوں کی موسیقی ‘ دراصل نسائیت کی تفہیم کا افسانہ ہے۔مس حجاب درانی کا کردار آزادی نسواں کے ایک پہلو پر بالخصوص روشنی ڈالتا ہے اور وہ ہے عورت کا خود فیصلہ کرنا۔کچی عمر میں بھی حجاب نے اپنی ذات کے اعتراف کی خاطر ایک بڑا فیصلہ شادی نہ کرنے کا کیا تھا اور اب پکی عمر میں شادی کرنے کا فیصلہ اس سے بھی بڑا مرحلہ ہے ؛مگر یہ فیصلہ بھی انھوں نے ہی کیا ہے۔ظاہر ہے عورت اپنی ذات کے اظہار کے ساتھ ساتھ فیصلے کی آزادی چاہتی ہے۔یہ اس کا حق ہے۔اس طرح حجاب درانی کا نظریہ ایک پوری نسائی فکر کا ترجمان ہے۔افسانے میں مضبوط قوت ارادی والے نسائی کردار کے ہمراہ ایک نہایت مثبت مرد کاکردار تخلیق کیا گیا ہے۔اس کی سمجھداری اور مستقل مزاجی وہ رویہ ہے جس کی بدولت عورت اور مرد معاشرے کے دو مضبوط ستون بن کر ابھرتے ہیں۔دونوں الگ اکائی نہ ہو کر انسان اور بشر کے زمرے میں شمار کئے جاتے ہیں۔عورت کو انسان سمجھا جائے ،یہی تو اس کا مطالبہ ہے ۔مس حجاب کو شادی سے انکارنہیں تھا اور مرد ذات ان کے لئے شجر ممنوعہ بھی نہیں تھی۔رچرڈ جیسا دوست ہمیشہ ان کے دل کے قریب رہا۔کسی کا ہو جانے کی تمنا تو ہر لڑکی کی ہوتی ہے مگر مستقبل کی غیر یقینی اسے خوفزدہ کرتی رہتی ہے۔اس خوف نے معاشرے کی ہیئت کے تناسب کو اثر انداز کیا ہے۔رچرڈ اور مس حجاب درانی کو ایک دوسرے کا ہمسفر بننے میں طویل عرصہ لگا۔ذہنی ہم آہنگی کہیں نہ کہیں تھی مگر اس دوران فطری تقاضے شکست و ریخت کا شکار ہو گئے۔شائستہ نے مس حجاب درانی کو اس حد تک پہنچانے کے لئے ایک مخصوص ماحول تیار کیا۔اس پورے سفر میںاس نسائی کردار کی انفرادیت برقرار رہی جو اپنے ماحول کے ساتھ مختلف مسائل سے نبرد آزما ہے۔مسائل اس کے اپنے ہیں تو حل بھی وہ خود تلاشتی ہے۔ان سب کے ساتھ نسائیت کا وہ لطیف جذبہ بھی نمو پاتا رہا جو صنف نازک کا خاصہ ہے۔ان سب کی آمیزش سے مس حجاب درانی کا کردار انفرادیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ان کی باطنی الجھن کے اسباب سے بھی نسوانیت کی تفہیم مقصود ہے۔یہ اس بات کا مظہر ہے کہ ظاہری طور پر بہت کچھ حاصل کر لینے کے باوجود دل کی چاہ اور اس کی خلش نہیں مٹتی۔شائستہ نے بنظر غائر معاشرے کا مشاہدہ کیا ہے اور وہاں سے کشید کئے گئے تجربات کو اپنی فکر رسا کی آمیزش کے ساتھ افسانے کی شکل میں پیش کر دیا ہے۔انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ایک عورت کا تخلیقی تجربہ مرد کے تخلیقی تجربے سے فرق ہوتا ہے ۔اسی بنا پر وہ عورت کے تئیں معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی خواہاں نظر آتی ہیں۔ایسی تبدیلی جو عورت کو انسان کے زمرے میں شمار کرے۔اس کے باشعور اور پر اعتماد ہونے کا یقین کرے۔وہ عمدہ جزئیات نگاری کے ساتھ مس حجاب کے احساسات کو بھی پروتی چلتی ہیں۔اس طرح وہ اس نسوانی کردار کی خارجی اور داخلی کیفیات سے قاری کو روبرو کراتی ہیں اور اس کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔شائستہ کا بیانیہ اس حقیقت کا اعلامیہ ہے کہ آج عورت کی گفتگو محض جسم و جان اور سراپے کی گفتگو نہیں ہے بلکہ یہ اس کے درون میں جھانکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔اس کی کیفیات اور نفسیات پر گفتگو کرنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔بالفاظ دیگر عورت کا انفرادی وجود اور اس کا بالغ شعور تخلیقی ادب میں اول تو اپنا مقام متعین کرنا چاہتا ہے دوسرے اپنے تئیں برتے جا رہے روایتی نظریات میںتبدیلی کا طلبگار ہے۔مس حجاب کی زندگی کا ہر موڑ اسی فکر کا ترجمان ہے ۔ حجاب کے کردار میں دو متضاد رجحان موجود ہیں ۔اول تو یہ کہ وہ فرسودہ رسم و رواج پر خود کو قربان نہیں کرتیں بلکہ اپنی بقا کی راہ تلاشتی ہیں دوسری طرف اپنے خوابوں اور ارمانوں کی سطح پر وہ مشرقی اقدار کی پاسدار ہیں۔انسان کتنا بھی ضدی ہو خود پرست ہو ، تنہائی پسند ہو متول ہو مغرور ہو مگر وہ سماج سے منقطع ہو کر زندگی نہیں گذار سکتا۔سماجی حالات فرد کی زندگی پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ اس کے بود وباش کے طور طریق تہ و بالا کر دیتے ہیں۔مس حجاب کا کردار اسی فکر کی پیداوار ہے۔دوسری طرف عورت کے درون خانہ پلنے والا وہ لطیف جذبہ ہے جسے محبت کہتے ہیں؛عورت کتنی ہی مشکلوں میں گھری ہو، تنہا ہو یا کنبے کے درمیان ، صحت مند ہو یا کسی عارضے میں مبتلا، نفسیاتی الجھن کا شکار ہو یا ہشاش بشاش زندگی گذار رہی ہو ، خوف کے سائے میں گذر بسر ہو رہی ہو یا آزادانہ، محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر حال میں پنپ جاتا ہے۔پنپتا ہے تو پروان بھی چڑھتا ہے۔ظاہری نفی اسے مرنے نہیں دیتی۔عمر فقط انگلی پر شمار کیا جانے والا نمبر بن کر رہ جاتی ہے؛ جیسا کہ مس حجاب کے معاملے میں ہوا۔ ان سب سے گذرتے ہوئے افسانہ فکری سطح پرقاری کو متأ ثر کرتا ہے۔اس کی بنت مضبوط ہے۔بہت سوچ سمجھ کر ضبط تحریر میں لایا گیا افسانہ ہے۔اس میں کہیں عجلت نظرنہیں آتی۔
افسانے کے عنوان ’ خشک پتوں کی موسیقی ‘ سے رومانیت کا احساس ہوتا ہے۔اس پر نگاہ پڑتے ہی قاری کے اندر ایک نرم و نازک جذبہ انگڑائی لیتا ہے۔اس کی شروعات بھی ایک رومان پرور سین سے ہوتی ہے اور تین چار جملوں کے بعد مس حجاب درانی اور رچرڈ تھامس کے مکالمے شروع ہو جاتے ہیںجن میں بالکل عام بول چال کے جملوں کا استعمال کیا گیا ہے جب کہ عنوان کے اعتبار سے مکالمے زبان کی چاشنی کے متقاضی ہیں۔اس کے ساتھ ہی یہاں پر درشت صوتی آہنگ بار بن جا تا ہے مثلاً ۔۔’تم ابھی بھی ٹھیک ٹھاک ہو ۔‘اس طرح تیرہ صفحات پر مشتمل افسانہ سادہ بیانیہ اور سادے مکالمے کے سہارے پورا ہوتا ہے ۔کہیں کہیں شعوری طور پر تخلیقی جملے استعمال کئے گئے ہیںجو اپنی آورد کا پتہ دیتے ہیں۔مثلاً ؎
’حیوان بننے کے لئے جنون کا ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے‘
’پانی کی سطح پر ہلچل ہوئی ، بلبلے اٹھے ،چھوٹے چھوٹے دائرے پھیلے اور پھیلتے پھیلتے وہ سمندر کی سطح پر ایک ہو گئے۔‘وغیرہ
افسانے میں کئی ایسے موقعے آئے جہاں پلکوں کی چلمن اور لبوں کی جنبش بروئے کار لائی جا سکتی تھی جس سے عنوان کی موسیقیت اور غنائیت کا احساس قاری کو مسحور کر سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔اس کے علاوہ لفظ تنہا نون غنہ کے ساتھ لکھا گیا ہے ۔پہلی نگاہ میں اسے کمپوزنگ کی غلطی مانا جا سکتا ہے مگر اس کی تکرار پورے افسانے میں موجود ہے ؎
’ایک ڈرائنگ روم اور ایک بیڈ روم ایک تنہاں عورت کے لئے۔۔۔
’اتنی زمین جائیداد اور تنہاں وہ‘
’زندگی تنہاں گذاریں گی‘
’مخملی گھانس پر کھیلا کرتی تھی‘
اسی طرح کچھ جملے اپنی ساخت کے اعتبار سے توجہ طلب ہیں ؎
’وہ ایک ٹی وی چینل پر اعلیٰ عہدے پر مقیم تھیں‘۔
’بیگ سے ایک ایک اشیا نکالنے لگیں‘۔
’خوف مٹ رہے تھے زندگی سنبھل رہی تھی‘
’خوف کا لرزا طاری ہوا‘وغیرہ
ڈاکٹرشائستہ فاخری کا قلم و قرطاس سے تین دہائی سے بھی زیادہ کا سابقہ ہے۔اس دوران انھوں نے انگنت افسانے ،ناول ،تراجم اور بہت خوبصورت نظمیں قارئین کی نذر کی ہیں۔انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کر دیا۔ان کی فکر پوری طرح ان کی تحریر پر حاوی رہتی ہے۔جیسا کہ زیر تبصرہ افسانہ ’خشک پتوں کی موسیقی ‘ سے واضح ہے۔شائستہ نے اپنے متعلق لکھا ہے ’ادب میرا شوق ہے،مطالعہ میرا ذوق اور لکھنا میری ضرورت۔‘ان کا سماجی جڑائو، زبردست مشاہدہ،خواتین کی ذہنی الجھن اور نفسیاتی پیچیدگی کا مطالعہ ،حقیقت کا بیباک اظہار؛ان سب کے اختلاط سے تخلیق کیا گیا مس حجاب درانی کا کردار متأثر کرتا ہے۔اس کے ساتھ ہی رچرڈ تھامس کی مثبت شبیہ نہ فقط افسانے میں بلکہ معاشرے میں تناسب برقرار رکھنے کا پیغام ہے۔حجاب کا ایک لمبی عمر گذار لینے کے باوجود رچرڈ کا ساتھ پانے کی خاطر سفر کی صعوبتیں برداشت کر سات سمندر پار جانے کا فیصلہ خشک پتوں سے پھوٹنے والی موسیقی کا وہ خوشگوار آہنگ ہے جس سے قاری محظوظ ہوتا ہے۔