خان محبوب طرزی : ایک جائزہ۔از: ایس ایم حسینی

0
86

کتاب: خان محبوب طرزی (لکھنؤ کا ایک مقبول ناول نگار)
مرتب: ڈاکٹر عمیر منظر
تعداد: پانچ سو (500)
صفحات: چار سو چھیالیس (446)
سن اشاعت: دسمبر 2020
قیمت: چار سو پچیس روپئے (425)
طباعت: نعمانی پرنٹنگ پریس، لکھنؤ
ملنے کا پتا: پاریکھ بک ڈپو ، لکھنؤ۔

موجودہ دور میں ڈاکٹر عمیر منظر کی ادبی اور تنقیدی شخصیت سے کون واقف نہیں، جو تحقیق کے ساتھ شاعری میں بھی کمال رکھتے ہیں اور زیر نظر کتاب “خان محبوب طرزی” آپ کی تحقیقی مزاج اور کوشش کا نتیجہ ہے جس میں لکھنؤ ہی نہیں بلکہ ہندو وپاک کے ایک مقبول ناول نگار خان محبوب طرزی کی ذاتی اور ادبی زندگی کا تفصیلی محاکمہ کیا گیا ہے جسے زمانہ نے بہت جلد فراموش کردیا۔

خان محبوب طرزی کا نام میرے لئے محض پندرہ دن پرانا ہے اور شاید یہ نام میرے لئے اجنبی ہی رہتا اگر ڈاکٹر عمیر منظر صاحب کی یہ کتاب میری نظر سے نہ گزرتی اور ہم لکھنؤ کے ایک زبردست ادیب، افسانہ نگار و ناول نگار سے ناواقف ہی رہتے، اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد اب امید ہے خان محبوب طرزی کا نام نئی نسل کے لئے اجنبی نہیں رہے گا، جس کے لئے ڈاکٹر عمیر منظر کی کوشش قابل رشک وتحسین ہے کہ جنہوں نے ایک محبوب ناول نگار اور اس کی مدفون ادبی وتحقیقی تخلیقات کو یکجا کرنے کا کام انجام دیا، جس کی داد ڈاکٹر صاحب کو اردو کے ہیرو مرحوم شمس الرحمن فاروقی سے بھی وصول ہوئی اور انہوں نے زیر نظر کتاب کے پیش لفظ میں یہ ستائشی جملے تحریر کئے: “ہم سب کو عمیر منظر کا شکر گذار ہونا چاہئے کہ انہوں نے خان محبوب طرزی کی تحریروں کو یکجا کرنے اور شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا، اس طرح ماضی قریب کا ایک قیمتی سرمایہ محفوظ ہو گیا اور شاید اس طرح خان محبوب صاحب کے کارناموں سے دنیا دوبارہ واقف ہو سکے، عمیر منظر نے یہ کام کئی برس کی تلاش اور محنت سے انجام دیا ہے”

مصنف نے کتاب کا انتساب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے پروفیسر جناب عبدالرشید کے نام کیا ہے اور شمس الرحمن فاروقی کا تحریر کردہ پیش لفظ کتاب کی شان بڑھاتا ہے، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے جہاں طرزی کے ذاتی کوائف پر روشنی ڈالی ہے وہیں ان کے ادب، فکر وفن اور کارناموں پر باون صفحات کو محیط ایک طویل اور پرمغز دیباچہ لکھ کر خان محبوب کی بے مثال شخصیت اور فن کو پوری طرح اجاگر کردیا ہے، دیباچہ پڑھتے ہوئے کتاب کا شوق تیز ہوجاتا ہے اور ہر سطر طرزی سے متعلق نئے انکشافات کرتی ہے، ڈاکٹر صاحب نے دیباچہ میں طرزی کی دستیاب سائنسی، جاسوسی، تاریخی، معاشرتی اور مہماتی ایک سو گیارہ ناولوں کی بہ حروف تہجی مکمل فہرست مع سن اشاعت شامل کرکے طرزی کے چاہنے والوں کے لئے آسانی پیدا کردی ہے، مزید طرزی کے وہ تاریخی ناول جن میں لکھنؤ کی گم شدہ تہذیب وثقافت کا عکس ملتا ہے کا جائزہ بھی پیش کیا ہے جس میں “نواب قدسیہ محل”، “نازک ادا”، “قمر طلعت” اور “آغاز سحر” شامل ہیں، علاوہ بریں طرزی کے سائنسی ناول “سفر زہرہ” کا خلاصہ بھی بہت عمدگی سے پیش کیا گیا ہے، طرزی نے لکھنؤ اور اودھ کی معاشرت کو “اودھ کے بانکے” “دلہن” “رسی جل گئی” “انجمن” “امین آباد” اور “سیلاب” جیسے ناولوں میں زندہ کرکے در حقیقت ایک کارنامہ انجام دیا ہے، جو اہل نظر و محبین لکھنؤ کی توجہ کے منتظر ہیں۔

طرزی کمیاب نہیں، ہاں نایاب ناول نگار ضرور ہیں، ان کی تخلیقی قابلیت وصلاحیت اور لکھنے کی دھن سے متعلق پڑھ کر پسینہ آجاتا ہے، خان محبوب طرزی کے یہاں موضوعات کا تنوع تو تھا ہی اس کے علاوہ وہ ایک ساتھ پانچ ناول لکھا کرتے تھے اور سب کا موضوع ایک دوسرے سے متضاد ہوتا تھا، جیسے قلم سے ان کا رشتہ پیدائشی ہو، لکھتے وقت آپ کے لئے جگہ، وقت اور ماحول کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، بقول مائل ملیح آبادی:
“انہوں نے گھٹنوں کے حساب سے بھی دو تین سو صفحات کے ناول لکھے ہیں، لگ بھگ بارہ سو صفحات کا ناول مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں کسی دوسرے مصنف کے نام سے لکھ ڈالا، پھر اس کے بعد ہی سترہ اٹھارہ سو صفحات کسی اور مصنف کے نام سے لکھ دئیے۔”

مزید لکھنؤ کے کچھ قدیم اشاعتی اداروں سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے جس میں نسیم بک ڈپو، مکتبہ کلیاں، ادارہ فروغ اردو، پرواز بک ڈپو، کتابی دنیا، ناول گھر، علمستان اور ناول پبلشنگ ہاؤس وغیرہ قابل ذکر ہیں، مصنف نے “اظہار تشکر” کے عنوان کے ذیل میں اپنے اساتذہ، محبین اور کتاب کی اشاعت میں معاون تمام افراد اور سورسز کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر عمیر منظر نے زیر نظر کتاب میں سات ابواب قائم کئے ہیں، پہلا باب “احوال وکوائف” کے نام سے ہے جس میں طرزی کے دو فرزند خان مسعود طرزی، خان رشید طرزی اور سید احتشام حسین، شوکت تھانوی، نسیم انہونوی اور حفیظ نعمانی جیسی دیگر اہم ادبی شخصیات کے پچیس (25) مختلف مضامین شامل ہیں، “طرزی کا فکشن” کے تحت گیارہ تحریریں درج ہیں، تیسرا باب “ناولوں سے متعلق طرزی کی تحریریں” کے عنوان سے طرزی کے دس ناولوں پر لکھے گئے دیباچے وپیش لفظ کو جگہ دی گئی ہے، چوتھا باب “طرزی کی ناولوں پر مقدمے اور رائیں” ہیں، اس باب کے تحت پانچ مضامین پیش کئے گئے ہیں، اگلا باب “خان محبوب طرزی کی تحقیقی تحریریں” ہیں جس میں “لکھنؤ کے معرکے” “لکھنؤ کی ریزیڈینسی” “جنگ آزادی کی ابتداء” اور “محکمہ ڈاک کی ابتداء” کے نام سے چار بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی مضامین کو جگہ دی گئی ہے، جن کے مطالعہ سے انگریزوں سے ہونے والی جھڑپوں اور لکھنؤ کے کچھ اہم تاریخی مقامات کا پتا چلتا ہے، چھٹا باب “طرزی کا ناول اور افسانہ” کتاب کی جان ہے، جس میں طرزی کے قلم کا جادو ایک سو چھتیس (136) صفحات کو محیط دلچسپ اور حیرت انگیز سائنسی ناول “سفر زہرہ” اور چودہ (14) صفحے پر مشتمل افسانہ “زینب خطیبہ” میں دیکھنے کو ملتا ہے، جسے پڑھ کر قاری عش عش کئے بنا نہیں رہ سکتا، آخری باب ہے “طرزی کی کچھ دیگر تحریریں” اس باب میں چھ (6) چٹپٹی اور مزیدار تحریریں جمع کی گئی ہیں، جنہیں پڑھ کر طرزی کی ظرافت کا قائل ہوئے بنا نہیں رہا جاسکتا ہے، پہلی سرخی “تیر بہدف” کے عنوان سے ہے، جو روزنامہ “سرپنچ” میں ایک مستقل کالم ہوا کرتا تھا اور خان محبوب طرزی اخباری خبروں میں دلچسپ ٹکڑے لگایا کرتے تھے، ان میں سے چند ملاحظہ ہوں:

“عصمت کا افسانہ” معلوم نہیں عصمت دری سے پہلے کا ہے یا بعد کا”
“پیر جی نے ایک نوجوان لڑکی غائب کردی” یہی تو پیر جی کی کرامت ہے”
“ایک خبر ہے “دہلی میں ایک بیوی نے میاں کو لوٹ لیا” اس میں دہلی کی قید سے کیا حاصل، بیویاں تو ہر جگہ ہی شوہروں کو لوٹتی ہیں”
“ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی ختم ہورہی ہے” جن سنگھ اور مہا سبھا کو فورا متوجہ ہونا چاہئے”
“لال باغ میں سنیما دکھا کر لوٹ لیا” پہلے زمانہ میں سبز باغ دکھا کر لوگ ایسی حرکتیں کیا کرتے تھے”
دوسری تحریر “روزی کمائی مکر سے” ایک شاندار تحریر ہے جسے پڑھتے ہوئے مسکراہٹ لبوں پر قبضہ جمائے رہتی ہے، “جوابی پوسٹ کارڈ” کے ذیل میں 24 جنوری 1943 کے “سرپنچ” میں خان محبوب کے لکھے گئے دس جوابی پوسٹ کارڈ پیش کئے گئے ہیں جو روتے ہوئے کو بھی ہنسنے پر مجبور کرسکتے ہیں، پڑھئے اور سر دھنئے:
جناب ایڈیٹر صاحب۔ تسلیم ونیاز
میں نے سنا ہے کہ سرپنچ کی ادارت سے قبل آپ ریس کورس میں گھوڑے سدھایا کرتے تھے کیا یہ حقیقت ہے، جکد جواب دیجئے گا۔
ایف ایم دہلی۔
ایف ایم۔ تسلیم
مہربان من! گھوڑے تو کیا میں گدھوں تک کو سیدھا کرسکتا ہوں اگر یقین نہ ہو تو تشریف لاکر تجربہ کرلیجئے، آمد ورفت کے اخراجات میرے ذمہ، اپنی آمد کی اطلاع دیجئے گا۔
ایڈیٹر
اس جیسے اور بھی جوابی پوسٹ کارڈ پڑھ کر طرزی کی ظرافت اور طنزیہ اسلوب خاموشی سے بہت کچھ بیان کردیتا ہے، مزید “چائے خانے میں” “مظہر خاں کے نام” اور “انتظار” کے نام سے لکھی گئی طرزی کی مزاحیہ تحریریں بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
خان محبوب طرزی اور ان کی تخلیقات سے نئی نسل کو روشناس کرانے میں ڈاکٹر عمیر منظر کا ایک خوش کن کردار ہمارے سامنے ہے، آپ نے کوشش اور جانفشانی سے ایسے ادیب اور ناول نگار کو ڈھونڈ نکالا ہے جس کی تصویر کا ایک دھندلا سا عکس بھی لوگوں کے ذہن میں محفوظ نہیں تھا، یہ کتاب ڈاکٹر صاحب کے سنجیدہ تحقیقی مزاج اور ادب شناسی کا بین ثبوت ہے، لکھنؤ اور اردو والوں کو ایک بار پھر خان محبوب طرزی لوٹا کر ڈاکٹر صاحب نے ایک اہم اور قابل رشک کام انجام دیا ہے جس کے لئے تمام فدائین لکھنؤ کو ان کا شکر گزار ہونا چاہئے۔

ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ۔

Previous articleدوسری ہجرت …ایک جائزہ از: ڈاکٹر سیدشاہداقبال(گیا)
Next article“اختر ستان ” از: توصیف الحسن میواتی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here