اسلام کا تصور توحید اور سوریہ نمسکار

0
161

شمع_فروزاں

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

خدا کے بارے میں بحیثیت مجموعی تین تصورات پائے جاتے ہیں، ایک تصور خدا کے انکار کا ہے، یعنی خدا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، ایسے لوگ مختلف ادوار میں رہا کئے ہیں،اس کو اصطلاح میں ’’ الحاد‘‘ کہتے ہیں اور ایسا نظریہ رکھنے والے کو ’’ ملحد‘‘ یا ’’ دہریہ‘‘ کہا جاتا ہے، قرآن مجید میں خدا کے وجود پر کائنات سے بہت سی دلیلیں پیش کی گئی ہیں، اور خدا کا انکار کرنے والوں پر رد کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ایسے لوگ بھی پائے جاتے تھے، مگر خدا کے وجود کا انکار کرنے والے ہمیشہ بہت ہی کم تعداد میں رہے ہیں؛ البتہ کمیونسٹ تحریک شروع ہونے اور روس وچین جیسے بڑے ملکوں میں ان کا اقتدار قائم ہونے کے بعد ملحدین کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا، اسی طرح یوروپ میں جب چرچ کا اقتدار ختم ہوا، جنھوں نے سائنسدانوں پر اور عوام پر بڑے ظلم ڈھائے تھے، تو جو لوگ چرچ سے عاجز آچکے تھے، انھوں نے رد عمل میں الحاد کا راستہ اختیار کیا، اس کے بعد مغربی تہذیب اس تصور کے ساتھ آگے بڑھی کہ انسان اپنی خواہشات کے سلسلے میں مکمل طور پر آزاد ہے، اُس پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، اس کے لئے یہ بات ضروری تھی کہ انسان پر کسی غیبی طاقت کی حکمرانی کا بھی انکار کر جایا جائے؛ اس لئے آج کل مغرب میں لوگوں کی بڑی تعداد خدا کی، مذہب کی، وحی اور نبوت کی، آخرت کی اور جزا ء سزا کی منکر ہے؛ کیوں کہ اس کے بغیر انسان اپنی شہوات اور خواہشات میں آزاد نہیں ہو سکتا، یوروپ میں جو لوگ اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں، ان کی بڑی تعداد کرسمس منانے اور شہریت کے رجسٹر میں رسمی طور پر خود کو عیسائی لکھنے تک محدود ہے، وہ اصل میں ملحد ہیں اور حقیقی عیسائیت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

الحاد کا یہ تصور صرف اس لئے مقبول ہے کہ انسان اپنی خواہشات میں آزاد رہے، جیسے چاہے دولت حاصل کرے، جہاں چاہے عیش کرے، جی چاہے تو کپڑے پہنے اور دل چاہے تو بے لباس رہے، صنفی تعلق کے لئے نکاح کی کوئی پابندی نہ ہو، اولاد پر بوڑھے ماں باپ کی خدمت کا بوجھ نہ ہو، ان کو ہاسٹل کے حوالہ کر دیا جائے، اگر نکاح کرنا بھی پڑے تو اس میں جنس مخالف ہی سے نکاح کرنے کی قید نہ ہو، چاہے تو اپنی ہی جنس کے ساتھ نکاح کرے، نسب کی اہمیت نہ ہو یہاں تک کہ باپ کا نام بھی نہ پوچھا جائے، مغرب میں اور اس کے اثر سے مشرق میں جن لوگوں نے الحاد کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ کسی دلیل کی بناء پر نہیں ہے، وہ اسی لئے ہے کہ اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزارنے میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو؛ مگر خدا کا انکار ایسی بات ہے جس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہے، خدا کا انکار کرنا ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص کہے کہ میرا کوئی باپ یا ماں نہیں ہے، میں اپنے آپ پیدا ہو گیا ہوں، یا ایک شخص جہاز پر سوار ہو اور کہے کہ یہ جہاز اپنے آپ فطرت کے تقاضے کے تحت بن گیا ہے، اور کسی پائلٹ کے بغیر راستہ طے کر رہا ہے۔

اسی نامعقولیت کی وجہ سے الحاد کو دنیا کی تاریخ میں کبھی بھی انسانی سماج میں عمومی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی، کمیونسٹوں نے اس کو منوانے کے لئے بڑی تگ ودو کی؛ لیکن وہ علم اور دلیل کے ذریعہ اس کو منوا نہیں سکے، انھوں نے اس کے لئے ظلم وجبر کا راستہ اختیار کیا اور اس بے دردی سے انسانی خون بہایا کہ اگر اسے کسی دریا میں ملا دیا جاتا تو شاید اس کا رنگ بھی بدل گیا ہوتا، افسوس کہ آج کل جدید تعلیم یافتہ، مغرب سے متأثر مسلمانوں کا ایک گروہ بھی الحاد کی طرف جا رہا ہے، علماء اساتذہ اور والدین کی ذمہ داری ہے کو وہ اس فتنہ کو محسوس کریں، اس تصور کے ساتھ چوں کہ انسان کو قول وفعل کی پوری آزادی مل جاتی ہے، اس کی شہوت پرستی میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی اور انسان فطری طور پر خواہشات کا غلام ہے؛ اس لئے وہ بہت جلد اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
دوسرا تصور: شرک کا ہے، یعنی ایک سے زیادہ خدا کا، انسان کا ایک مزاج یہ رہا ہے کہ جو چیز فائدہ پہنچائے، یا وہ بہت عظیم ہو، یا اس سے نقصان کا خطرہ ہو، انسان اس کے سامنے جھک جاتا ہے، اگر ہم قرآن مجید میں انبیاء کرام کی جدوجہد اور اپنی قوم سے ان کے خطاب کا مطالعہ کریں تو وہ سب زیادہ تر اسی مریضانہ سوچ میں مبتلا تھے، اس تصور کو ’’ شرک‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی حقیقی خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا، مثلاََ ایرانیوں کا ایک گروہ دو خدا کو مانتا تھا ایک: یزداں، دوسرے: اہرمن، یزداں کو بھلائیوں کا خالق سمجھا جاتا تھا اور اہرمن کو بدیوں کا، وہ بھلائیاں حاصل کرنے کے لئے یزداں کی اور نقصانات سے بچنے کے لئے اہرمن کی پوجا کیا کرتے تھے، ابھی بھی ایران وعراق میں اس طبقہ کے بچے کھچے لوگ موجود ہیں، جن کو ’’یزیدی‘‘ کہا جاتا ہے، ایران میں آتش پرستی کا بھی قدیم رواج رہا ہے، آج بھی آتش پرستوں کا ایک گروہ خود ہمارے ملک میں بھی موجود ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی قوم سورج، چاند، ستارے اور مورتیاں سب کی پوجا کیا کرتی تھی، (البدایہ والنہایہ:۱؍۳۲۵) بنی اسرائیل کے واقعات کا جو قرآن میں ذکر آیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گائے کی پوجا ان کی یہاں عام تھی، (البدایہ والنہایہ: ۱؍۳۰۵) اور وہ بادشاہ کی بھی پرستش کیا کرتے تھے، (تفسیر طبری: ۱۷؍۵۶۴)یونانیوں کے یہاں تین خداؤں کا تصور تھا، جب اہل یونان نے عیسائیت قبول کی تو انھوں نے معبودوں کے نام میں تبدیلی کے ساتھ عیسائیت کو اسی رنگ میں رنگ دیا۔

اگرچہ تثلیث کا تصور ہندوؤں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، وہ شیو، وشنو اور برہما کے خدا ہونے کا تصور رکھتے ہیں؛ لیکن وہ پوجا ساری چیزوں کی کرتے ہیں، مشہور ہے کہ ہندو تین کروڑ سے زیادہ مورتیوں کے سامنے اپنی پیشانی خم کرتے ہیں، مختلف علاقوں کی الگ الگ مورتیاں ہیں، مختلف قوموں کے الگ الگ معبود ہیں، مختلف موسموں کے لئے الگ الگ مورتیوں کی پوجا ہوتی ہے، انھوں نے کائنات کے انتظام وانصرام کے لئے بھی الگ الگ بھگوان ایجاد کر لئے ہیں، کوئی علم کی دیوی ہے، کوئی رزق کی دیوی، کوئی طاقت کی دیوی ہے، کوئی جنگ کا دیوتا ہے اور مظاہر قدرت میں سے شاید ہی کوئی چیز ہو جس کو ہمارے برادران وطن بھگوان نہ مانتے ہوں، سورج ، چاند ، ستارے، پہاڑ، دریا، سمندر، درخت، گائے، سانپ، بندر ،خود انسان کی بھی پرستش کی جاتی ہے، اور حد یہ ہے کہ انسان کے صنفی اعضاء کی بھی پرستش ہوتی ہے، شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تاریخ میں شرک کی جتنی صورتیں مروج رہی ہیں، ہندوستان میں یہ تمام صورتیں جمع ہیں۔
یہ ایسا تصور ہے جس کا غلط ہونا پوری طرح واضح ہے، انسان اپنے ہاتھوں ایک بُت بنائے اور اس کو اپنا اور کائنات کا خالق و مالک تصور کرے، اس سے زیادہ ناسمجھی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ جو چیزیں خود اپنے پائے جانے اور باقی رہنے میں دوسرے کی محتاج ہوں، وہ کیسے خدا ہو سکتی ہیں؟ جو مورتیاں اپنی ناک پر بیٹھ جانے والی مکھی کو بھی نہیں ہٹا سکتیں، کیا وہ کائنات میں متصرف ہو سکتی ہیں؟ یہ اتنی واضح بات ہے کہ اس کو دس سال کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے؛ مگر افسوس کہ موروثی عقیدت انسان کو چشمِ بصیرت سے محروم کر دیتی ہے، یہاں تک کہ انسان مٹی کو سونا کہنے لگتا ہے۔

خدا کے بارے میں تیسرا تصور ’’ توحید‘‘ کا ہے، یعنی خدا کی ذات ہے اور وہ اکیلی اوریکتا ہے، پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے انسانیت کو اسی کی تعلیم دی ، شرک والحاد سے منع کیا، دنیا کی موجودہ قوموں میں مسلمانوں کے علاوہ شاید یہود ایک ایسی قوم ہیں، جو خدا کے ایک ہونے کی قائل ہے، قرآن مجید میں اس کا اشارہ موجود ہے؛ چنانچہ ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہودیوں کو دعوت دی گی کہ ایک ایسی بات پر آجاؤ جس کو ہم بھی تسلیم کرتے ہیں اور تم بھی مانتے ہو، اور وہ یہ ہے کہ ہم صرف ایک خدا ہی کی عبادت کریں گے: أن لا نعبد الا اللہ (آل عمران: ۶۴)
اسلام کی بنیادی دعوت ہی عقیدۂ توحید ہے اور اس نے توحید کا وسیع تصور دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ خدا اپنی ذات کے اعتبار سے بھی ایک ہے، نہ خدا دو ہیں جیسا کہ اہل ایران کا ایک گروہ مانتا تھا،نہ تین خدا ہیں، جیسا کہ عیسائی اور بعض دوسری قوموں کا خیال ہے، اور نہ اس سے زیادہ ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں اہل عراق اور انبیاء بنی اسرائیل کے عہد میں اہل مصر کہا کرتے تھے، اور ہمارے برادران وطن کا تصور ہے، اور نہ خدا کی صفات میں ک وئی اور شریک ہے، وہی روزی دیتا ہے، وہی اولاد دیتا ہے، اسی کے حکم سے کائنات کا یہ پورا نظام جاری وساری ہے، سورج اور چاند ، سمندر اور پہاڑ سب اسی کے غلام ہیں، ان میں سے کسی کو خدا سمجھنا غلط ہے۔

توحید کے لئے صرف زبان سے خدا کا اقرار کافی اور غیر اللہ کا زبان سے انکار کافی نہیں ہے؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کسی ایسے فعل کا مرتکب نہیں ہو، جو غیر اللہ کی عبادت کو ظاہر کرتا ہو؛ اسی لئے مسلمانوں کی نماز، روزہ اور ہر طرح کی عبادت صرف اللہ کے لئے ہے: إن صلاتی ونسکی ومحیاي ومماتی للہ رب العالمین (انعام: ۱۲۶)ایک عامی سے عامی مسلمان بھی جب نماز روزہ کا ارادہ کرتا ہے تو ’’ نویت للہ‘‘ سے شروع کرتا ہے، یعنی ہماری یہ عبادت اللہ ہی کے لئے ہے، مسلمانوں کی نظر میں سب سے مقدس شخصیت انبیاء کرام علیہم السلام کی اور بالخصوص جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے؛ لیکن مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی سجدہ ریز نہیں ہوتا؛ کیوں کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۸۵۳) انسان جن رشتوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے، ان میں سب سے زیادہ محبت، احترام اور حسن سلوک کی مستحق ماں ہے؛ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کو سجدہ کرنے بلکہ اس کے سامنے جھکنے سے بھی منع فرمایا ہے، گویا رکوع اور سجدہ دونوں کی ممانعت کر دی گئی، عورتیں شوہر کو اپنے لئے سر کا تاج سمجھتی ہیں اور ہر سوسائٹی میں شوہر کو عزت وعظمت دی جاتی رہی ہے؛ لیکن آپ نے شوہر کو بھی سجدہ کی اجازت نہیں دی (ترمذی، حدیث نمبر: ۱۵۹۰) اس کا حاصل یہ ہے کہ چاہے کوئی شخص زبان سے اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا اقرار کرتا ہو؛ لیکن عمل اس کے مطابق نہ ہو اور وہ کسی مخلوق کے ساتھ ایسا عمل کرے جو عبادت اور بندگی کے طور پر کیا جاتا ہے تو یہ بھی شرک ہے۔

سوریہ نمسکار کو مسلمان اسی لئے شرک سمجھتا ہے کہ اس میں سورج کی پرستش کی صورت پائی جاتی ہے، جیسے مورتیوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر تقدیس واحترام اور بندگی کا اظہار کیا جاتا ہے، یہی کیفیت سوریہ نمسکار میں پائی جاتی ہے، سوریہ نمسکار کا عمل کبھی تنہا بھی کیا جاتا ہے اور کبھی یوگا کا ایک جزء بنا کر بھی، سورج کی طرف رُخ کر کے، کھڑے ہو کر ، ہاتھ جوڑ کر اور سنسکرت کے کچھ کلمات پڑھتے ہوئے ایک خاص کیفیت کے ساتھ اس عمل کو انجام دینا واضح کرتا ہے کہ یہ ایک مشرکانہ عمل ہے، جس کی بنیاد ایک ایسی قوم نے رکھی ہے جو سورج کی پرستش کی قائل ہے؛ اس لئے اس کو صرف ورزش قرار دینا دھوکہ ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دو تین سال پہلے جب یوگا کی بحث چھڑی ہوئی تھی اور بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو ورزش کی ایک شکل ہے اور نماز میں بھی ایسی صورتیں پائی جاتی ہیں جو جسمانی ورزش کی ہیں تو آر ایس ایس کے بعض بڑے لیڈران نے کہا تھا کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے، یوگا ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کا حصہ ہے، جس کی تعلیم گیتا میں دی گئی ہے؛ اسی لئے مسلمانوں کے لئے سوریہ نمسکار قابل قبول نہیں ہے، اور اسلام کے عقیدۂ توحید کے سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لئے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہو؛ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی بھی شئی کے معبود ہونے کا انکار کرے، اقرار وانکار کے اس مجموعہ کا نام ایمان ہے؛ اس لئے ہر مسلمان کے ذہن میں یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ سوریہ نمسکار ایک مشرکانہ عمل ہے اور ہم کسی قیمت پر اس کو قبول نہیں کر سکتے۔

Previous articleجمعیت علماء بیگوسرائے کی طرف سے مضمون نگاری وانشا پردازی کے مقابلے میں شرکت کرنے والے نوجوان علماء کی عزت افزائی
Next articleایک ای میل میں، NDTV نے اطلاع دی، “یہ NDTV کے لیے بہت برا دن

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here