یوم شہادت پر صحافی مولوی باقر کو پرجوش خراج عقیدت

0
140

مولانا باقر نے اتحاد کی بات کی اس لئے انہیں شہید کردیاگیا: شمیم الدین منعمی

مولانا باقر جس طرح سے سیاسی ، سماجی، ملی مسائل کی آواز تھے اسی طرح آج کے صحافیوں کو بھی خدمات انجام دینا چاہئے:مولانا شمشاد رحمانی

صحافیوں کو طے کرنا ہوگا کہ وہ کس صف میں کھڑے ہیں: خالدانور ایم ایل سی

مولانا محمد باقر حق بات لکھنے اور بولنے کی پاداش میں شہید کئے گئے: ثناء الہدی قاسمی

مولانا باقر کے خدمات سے آج کے صحافیوں کو روشنی حاصل کرنے کی ضرورت: امتیاز احمد کریمی

پٹنہ 16ستمبر. بہار اردو میڈیافورم بہار پٹنہ نے ملک کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے والے پہلے صحافی مولانا محمد باقر کا آج یوم شہادت منا یا . انہیں 16 ستمبر 1857 کو انگریزوں نیتوپ کے منہ پر باندھ کر اڑا دیا تھا. اس موقع پر آج بہار اردو اکادمی کیسمینار ہال میں جلسہ خراج عقیدت منعقد کیا گیاجس کی صدارت فورم کے صدر مفتی ثناء الہدی قاسمی نے کی اور نظامت کا فریضہ فورم کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ریحان غنی نیانجام دیا. انہوں نے بتایا کہ اگلے سال مارچ میں اردو صحافت کا دوسوسال پورا ہونیوالاہے.اس موقع پر 16-17 مارچ 2022 کو پٹنہ میں دوروزہ جشن ارد وصحافت منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے. آج کا پروگرام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اپنے کلیدی خطبہ میں معروف نقاد اور کالج آف کامرس آرٹس اینڈ سا ئنس کے شعبہ اردو میں استاد پروفیسر صفدر امام قادری نے مولوی محمد باقر کو قومی صحافت کا نقّاشِ اوّل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مولوی محمد باقراپنے علمی مزاج اور سیاست،مذہب،ادب جیسے مختلف شعبوں سے گہری واقفیت رکھنے کی وجہ سے اردو صحافت کا قطب نما بن سکے۔ مولوی باقر کوانھوں نے غدر سے پہلے کی صحافت کا منارہَ نور قرار دیا۔

پروفیسر قادری نے اپنے طویل خطبے کو مختلف اجزا میں موضوعاتی تقسیم کے ساتھ پیش کیا۔ اوّلاً انھوں نے ہندستان میں صحافت کے ا?غاز و ارتقا کے سلسلے سے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے یہ بتانے میں کامیابی حاصل کی کہ ہندستان میں دورِ اوّل کے صحافیوں نے حکومتِ وقت سے جو مقابلہ آرائی اور حق گوئی کے لیے مختلف طرح کی قربانیوں کا جو سلسلہ قایم رکھا،مولوی باقر نے اس باغیانہ ذہن اور بے باکی کو اپنے لیے رہنمایانہ طور سمجھا۔ پروفیسر قادری نے مولوی محمد باقر کی سوانح حیات پر گفتگو کرتے ہوئے متعدد تاریخی اغلاط اور خلفشار پر اپنی واضح رائے دینے کی کوشش کی۔ مولوی محمد باقر کی پیدائش کے سال کے تعلق سے انھوں نے متعدد محققین کے نتائج پر تحقیقی بحث کرتے ہوئے اس مسئلے کو ایک انجام تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔

مولوی محمد باقر کے اخبار کے اجرا کے سلسلے سے محققین کے بیچ جو تاریخی خلفشار ملتا ہے، اس پر تفصیلی بحث کر کے انھوں نے 1937ء اور 1938ئکو خارج کرتے ہوئے 1936ء کو ہی اخبار کے اجرا کا سال تسلیم کیا۔ دہلی کالج کے سپرنٹنڈنٹ اور قایم مقام پرنسپل فرانسس ٹیلر سے مولوی محمد باقر کے رشتوں کے حوالے سے پروفسیر قادری نے خاصی وضاحت کی۔ مشہور مستشرق اشپرنگر کے برلن کتب خانے میں محفوظ بعض دستاویزات کی روشنی میں ٹیلر اور مولوی باقرکی شخصیت اور خدمات کو موضوعِ بحث بنایا۔

پروفیسر صفدر امام قادری نے مولوی محمد باقر کی شخصیت سے متعلق بعض تنازعات اور ان کے مخصوص مزاج پر الگ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی راست گوئی اور ا?زاد خیالی کے ساتھ ساتھ مزاج کی تْندی اور تلخ گوئی کے امور بھی زیرِ بحث لائے۔ پروفیسر قادری نے یہ بات واضح کرنے میں کامیابی پائی کہ مولوی محمد باقر کے ذہن میں قومیت اور صحافت کے قومی کردار کے تعلق سے ایک واضح تصوّر تھا۔ اس لیے رفتہ رفتہ وہ اخبار انگریزوں کی تنقید اور ہندستانیوں کے حقوق کے تئیں بے داری کا علم بردار بنتاچلاگیا۔ دہلی اردو اخبار کے غدر سے پہلے کے شماروں میں ہی یہ بات سمجھ میں ا?نے لگتی ہے کہ وہ کس طرح اپنی وطن دوستی اور وطن پرستی کو صحافت کے راستے سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

پروفیسر صفدر امام قادری نے مولوی محمد باقر کی شہادت کے سلسلے سے متعدد روایات کا تحقیقی طور پر جائزہ لیتے ہوئے اپنا نقطہَ نظر پیش کیا۔ انھوں نے دہلی اردو اخبار کو غدر سے پہلے کی زندگی کا سب سے بڑا تہذیبی اور ثقافتی وقوعہ قرار دیا۔ پروفیسر قادری کے خطبے کا ا یک خاص پہلو یہ تھا کہ انھوں نے مولوی محمد باقر کے حوالے سے کئی گمشدہ گوشوں کی تلاش کی اور نئے ما?خذتک پہنچنے کی ان کی کوشش سے ایک واضح علمی رویہ سامنے آیا۔

اپنے کلیدی خطاب سے پہلے پروفیسر صفدر امام قادری نے ارود میڈیا فورم کو اردو صحافت کی دو صدی کے موقعے سے مختلف پروگراموں کی بنیاد رکھنے کے لیے مبارک باد دی اور فورم کے اراکین بالخصوص صدر مفتی ثناء الہدا قاسمی اور جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ریحان غنی کا خاص طور سے شکریہ ادا کیا۔
اپنے صدارتی خطبے میں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے کہا کہ مولانا محمد باقر حق بات لکھنے اور بولنے کی پاداش میں شہید کئے گئے. آج بھی ایسے ہی حق گو صحافی کی ضرورت ہے. خانقاہ منعمیہ میتن گھاٹ پٹنہ سیٹی کے سجادہ نشیں ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی نیمو لانا باقر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسے مجاہد صحافی تھے جنہوں نے اپنیدہلی اردو اخبار کے ذریعہ بڑی مضبوطی کے ساتھ انگریزوں کے خلاف آواز بلند کی ا ور لوگوں میں مجاہدانہ جذبہ پیدا کیا.
خانقاہ منعمیہ، میتین گھاٹ کے سجادہ نشیں شمیم الدین احمد نے مولوی باقر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ صحافی سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنا رشتہ قاری کے ساتھ قائم کریں۔ جو قوم امام حسین کی یادگار مناتی ہے وہ مولانا باقر کی شہادت کیسے بھول گئی۔ مبارکباد اردو میڈیا فورم کو جس نے ایک پلیٹ فارم تیار کر ہمیں یہ موقع فراہم کرایا۔ آج مولانا باقر کیوں یاد کئے جاتے ہیں۔ انگریزوں نے انہیں کیوں ماردیا ۔ جب میں نے اس بات کو جاننے کو شش کی تو پتہ یہ چلا کہ اگر انگریز انہیں نہیں مارتے تو ہم مار دیتے کیونکہ وہ اتحاد کی بات کررہے تھے۔ آج شہید بھگت سنگھ کو ہم جس طرح یاد کرتے ہیں اسی طرح مولانا باقر کو بھی یاد کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس نے قوم و ملت کے اتحاد کے لئے اور ملک کی آزادی کے لئے جام شہادت نوش فرمایا۔

امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت نائب امیر شریعت حضرت مولانا شمشاد احمد رحمانی قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو میڈیا فورم کے لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مولانا باقر جیسے اردو کے پہلے صحافی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے راہ ہموار کی۔ انہوںنے کہا کہ مولانا باقر جب میدان عمل میں آئے تو تو دیکھا کہ ظلم اور بربریت کا نگا ناچ ہورہا ہے۔ لہذا انہوںنے صحافت کے ذریعہ اسے ختم کرنے کی کوشش کی۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی لہذا صحافیوں کو بھی چاہئے کہ وہ پوری صداقت کے ساتھ تحقیق کرکے خبروں کو شائع کریں۔ مولانا باقر جس طرح سے سیاسی ، سماجی، ملی مسائل کی آواز تھے اسی طرح آج کے صحافیوں کو بھی خدمات انجام دینا چاہئے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اردو میڈیا فورم نے ۱۹ ویں صدی کے بزرگ صحافی کو اکیسویں صدی میں یاد کرکے تاریخ رقم کی۔
ڈاکٹر خالد انور ایم ایل سی نے کہا کہ آپ کو طے کرنا ہوگا کہ آپ کس صف میں کھڑے ہیں۔ اگر اخبار کسی سیاسی پارٹی کی ترجمانی کررہا ہے تو کھل کر کرنا چاہئے۔

اخترالایمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحافت اپنے دور کا آئینہ ہوتا ہے ۔ اخبار کا رشتہ افکار ہونا چاہئے لیکن افسوس کہ آج اخبار کا رشتہ کاروبار سے ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافی حق بات لکھنے سے گھبراتا ہے۔
بہار اردو اکادمی کے سا بق نائب صدر ڈاکٹر عبدالواحد انصاری نے ایک عربی کوٹیشن کے ذریعہ مولانا باقر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا باقر نے انگریز حکومت کے خلاف مولویوں کے فتوے کو بھی بڑی دلیری سے چھاپا اور روحانی بشارت اور خوابوں کو اپنے اخبار میں شائع کیا کہ اب انگریز حکومت نہیں رہے گی۔ اسی لئے انہیں شہید کردیا گیا۔
بی پی ایس ای کے رکن امتیاز احمدکریمی نے اردومیڈیا فورم کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت کا ماضی کل بھی تابناک تھا اور مستقبل بھی تابناک رہے گا۔ سماج میں کبھی ظلم و ستم نے سر اٹھایا ہے تو اردو صحافیوں نے نوک قلم نے ان کے سر کو قلم کردیا ہے۔ مولانا باقر کے خدمات سے آج کے صحافیوں کو روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اکابرین کی صحافت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ نئی نسل کو پروان چڑھانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ صحافت کے استاد کی ذمہ داری ہے وہ نئی نسل کی آبیاری کریں۔ اردو کی بہتری کے لئے اردو میڈیافوم کے تمام پروگرام میں ساتھ دوں گا۔ اگر اردو اخبارات لکھنے لگیں تو اردو اساتذہ ،مدارس کے معلمین،اردو لکچرار کی بحالی شروع ہوجا ئے گی۔
معیشت میگزین ممبئی کے ایڈیٹردانش ریاض نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا باقر کی شہادت کا پیغام ہے کہ حقیقت بیانی کی جائے لیکن آج کے حالات یہ ہیں کہ اخبارات مراعات حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہے۔ مولوی باقر کو ان کی قوم نے یعنی شیعہ حضرات نے ہی زیادہ اذیت دی اور ان کا جینا حرام کردیا جبکہ ہر قدم پر سنی حضرات نے ان کی مدد کی۔
سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر اظہار احمد نے کہا کہ مولانا باقر نے شہید ہونا منظور کیا لیکن انگریزوں سے معاہدہ کرنا منظور نہیں کیا۔ آج کا دن ایک تاریخی دن ہے کہ اردو میڈیا فورم نے خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا۔ انہوںنے کہا کہ تمام لوگ جو اردو میڈیا کی دعوت پر آئے ہیں ان سے امید ہے کہ وہ نئی نسل کو مولانا باقر کے خدمات سے روشناس کرائیں گے۔

کاروان اردو کے روح رواں اور جد یو ایم ایل سی پروفیسر غلام غوث نے مولانا باقر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک طبقہ لڑنے والا ہوتا ہے اور دوسرا طبقہ خوشنودی حاصل کرنے والا ہوتا ہے ۔ آج اردو کا الف ب امیروںکے یہاں سے غائب ہے جبکہ حقیت یہ کہ اردو آج غریب غرباء کی زبان بن گئی ہے۔
ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا ا نیس الرحمن قاسمی نے کہا کہ مولانا باقر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات کے الفاظ آسان ہونے چاہئے۔ اخبار کو سچ لکھنا چاہئے۔
اس موقع پر صحافی سراج انور کے ذریعہ مندرجہ ذیل قرارداد بھی منظور کیا گیا۔
۰یہ جلسہ تجویز پیش کرتا ہے کہ مولوی باقر علی کے یوم شہادت پر ہر سال جانباز جواں سال اردو اور ہندی کے ایک-ایک صحافی کو ان کی صحافتی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اعزاز سے نوازہ جائے گا۔
۰یہ جلسہ تجویز پیش کرتا ہے کہ بیاعتبار ہو رہی اردو صحافت کو تابندہ اور زندہ رکھنے کے لئے نوجوان صحافیوں کو نہ صرف تربیت دی جائے گی بلکہ ان کی حوصلہ افزاء کے لئے تمام طرح کے اقدام اٹھائے جائیں گے۔
•یہ جلسہ تجویز پیش کرتا ہے کہ اردو اخبارات کو ہندی میں جاری اشتہار کو اردو میں ہی جاری کروانے اور شائع کرانے کے لئے کانفرنس ہال میں موجود ایوان اراکین حکومت کی سطح پرپہل کریں گے۔
۰یہ جلسہ تجویز پیش کرتا ہے کہ اردو میڈیا سے منسلک تمام تنظیموں کو متحد کرنے کی ایماندار پہل کی جائے گی۔
۰یہ جلسہ تجویز پیش کرتا ہے کہ اردو صحافیوں کے مسائل کوسمجھیں گے اور اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
۰یہ جلسہ تجویز پیش کرتا ہے کہ پی ڈی ایف کا انتظار نہ کر اردو اخبار خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں گے

جلسے سے قائم مقام ناظم،مولانا محمد شبلی القاسم، مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر ڈاکٹر توقیر عا لم، ، اردو کونسل ہند کے ناظم اعلی ڈاکٹر اسلم جاوداں، سینیئر صحافی سراج انور، سید عمران غنی ایڈووکیٹ سمیت کئی دوسری شخصیتوں نے بھی خطاب کیا. اسحاق اثر کیاظہار تشکر پر جلسہ ختم ہوا.

Previous articleاردو کی بقا کے لئے زمینی سطح پر پیہم جدوجہد کی ضرورت از : سیّد فضل وارث
Next articleروزنامہ تاثیر کے سرپرست جناب نظام الدین صاحب مرحوم نہایت خوش مزاج تھے،مولانا محمد ناظم

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here