یوم اساتذہ: طلباء اور اساتذہ کے فرائض از: عارفہ مسعود عنبر، مراداباد

0
340

ہر سال 5 ستمبر کا دن ملک بھر کے لیے خصوصیت کا حامل ہوتا ہے ۔کیونکہ اس دن ملک بھر میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ یوم اساتذہ منایا جاتا ہے ۔پانچ ستمبر ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ ماہر تعلیم ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کا یوم پیدائش بھی ہے اور اسی کے مد نظر اس دن کو پورے ملک میں یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن ایک معلم تھے اور اساتذہ کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے عمر بھر کوشاں رہے ۔سروپلی رادھا کرشنن ہندوستان کے پہلے نائب صدر دوسرے صدر جمہوریہ تھے لیکن اس کے باوجود آپ کو استاد کہلوانا ہی زیادہ پسند تھا نیز انہیں تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کا اچھی طرح علم تھا ۔ان کا ماننا تھا کہ ایک تعلیم یافتہ معاشرہ ہی ملک کی ترقی و ترویج میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔رادھا کرشنن کا خیال تھا کہ تعلیم ہر انسان چاہے وہ امیر ہو یا غریب مرد ہو یا عورت سب کی اہم ضرورت ہے ۔تعلیم کے بنا ملک کی ترقی اور خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔تعلیم ہی کسی قوم اور معاشرے کے لیے ترقی کی ضامن ہے ۔تعلیم ہی قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے ۔اگر انسان تعلیم کے زیور سے آراستہ ہے تو اس کی اہمیت میں خود بہ خود اضافہ ہوتا جاتا ہے نیز اسے معاشرے میں عزت و قدر کی نظر سے دیکھا جانے لگتا ہے ۔

تعلیم ہی وہ خزانہ ہے جس کو جتنا تقسیم کیا جائے گا اللہ رب العزت اس میں اتنا ہی اضافہ کرےگا۔اللہ کریم نے کلام پاک میں پہلا لفظ اقرا اتارا “اقراء” یعنی پڑھو یعنی علم حاصل کرو اللہ کریم نے یہ نہیں واضح کیا کہ صرف قرآن پڑھو ،حدیث پڑھو، بلکہ اللہ کریم نے کہا پڑھو یعنی آپ کو وہ علم حاصل کرنا ہے جس علم سے آپ مستفیض ہو سکیں ،وہ علم جو آپ کی شخصیت اور کردار کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہو سکے وہ علم جو دنیا اور دین دونوں میں سرخروئی حاصل کرے ۔علم حاصل کرنے کا مقصد محض ڈگریاں حاصل کرکے اپنی تعلیم رتبہ کا رعب جھاڑنا نہیں بلکہ اس کا مقصد تعمیر انسانی ہے ۔رادھا کرشنن یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ تعلیم کے حصول کے لیے قابل اساتذہ بے حد ضروری ہیں۔آپ کو استاد کی اہمیت کا اچھی طرح علم تھا ،شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک صدر جمہوریہ سے ذیادہ استاد کہلوانا زیادہ پسند تھا ۔سروپلی رادھا کرشن نے 40 برس تک ایک استاد کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے ۔تعمیر انسانیت اور قوموں کی تعمیر میں اساتذہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی معاشرے کی فلاح وبہبود کی وجہ سے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔اساتذہ ہی وہ شخصیت ہے جو تعلیم و تربیت کا محور و منبع ہوتا ہے ۔کیونکہ ایک پر امن اور با شعور معاشرے کی تشکیل اساتذہ کی ہی مرہون منت ہوتی ہے ۔استاد اپنے طالب علم کی شخصیت سازی اور کردار کو بالکل اس طرح سنوارتا ہے جس طرح چمن میں مالی ننھے ننھے پودوں کو کھاد پانی دیکر ان کی غذا کا اہتمام کرتا ہے اور حسب ضرورت ان بڑے ہوتے ہوئے بے ترتیب پودوں کی تراش خراش کرکے انہیں اس لائق بناتا ہے کہ وہ چمن کی زینت بن سکیں ۔ اساتذہ ننھے پودوں کی طرح اپنے طلباء کی شخصیت کو سجانے سنوارنے اور کردار سازی میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔نہ صرف سروپلی رادھا کرشن بلکہ ان کے طلباء بھی اس حقیقت سے آشنا تھے اسی وجہ سے یہ اپنے استاد سے حد درجہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔رادھا کرشنن اپنے طلباء میں اتنے مقبول تھے کہ جس وقت آپ یونیورسٹی سے رخصت ہوئے آپ کے طلباء ایک گھوڑا گاڑی کو سجا کر لائے اور اس میں اُنہیں سوار کرکے گھوڑوں کی بجائے اپنے کاندھوں پر کھینچ کر اسٹیشن تک لیکر گئے اور نمناک چشم کے ساتھ عزت و احترام سے رخصت کیا۔لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم سروپلی رادھا کرشنن کی یاد میں یوم اساتذہ تو منا رہے ہیں لیکن کیا آج بھی طلباء اور استاد میں وہی مستحکم رشتہ ہے جو رادھا کرشنن اور ان کے طلباء میں تھا ؟ کیا آج اساتذہ وہ فرائض انجام دے پا رہے ہیں جس کا تصور کر کے رادھا کرشنن نے یوم اساتذہ کی ابتداء کی تھی ؟ نہیں ، ہم محسوس کرتے ہیں آج نہ اساتذہ وہ فرائض انجام دے رہے ہیں نہ طلباء میں وہ عقیدت باقی ہے جو رادھا کرشنن کے طلباء میں تھی ۔آج ہم محسوس کرتے ہیں اساتذہ اور طلباء کا رشتہ کافی کمزور ہو گیا ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اساتذہ تدریس کو اپنا فرض سمجھ کر نہیں بلکہ صرف پیشہ سمجھ کر انجام دے رے ہیں انہیں طلباء کے مسائل سے زیادہ اپنے معاشی اور اقتصادی مسائل کی فکر رہتی ہے جس کی وجہ سے طلباء اور اساتذہ کا رشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے اساتذہ مجبور ہیں کیونکہ سرکاری اسکول کالجوں کو چھوڑ کر سیکڑوں ہزاروں اساتذہ ایسے ہیں جو پرائیویٹ اسکول کالجوں میں قلیل تنخواہ پر تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ان کی تنخواہ اتنی نہیں کہ وہ اپنے اہل خانہ کے اخراجات اچھی طرح اٹھا سکیں یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اپنے معاشی مسائل میں الجھے رہتے ہیں ۔اگر ہمیں ایک بہتر اور صحت مند معاشرے اور ترقی یافتہ ملک کی تشکیل کرنی ہے تو حکومت انتظامیہ اور عدلیہ دونوں کو اساتذہ کی حالت زار پر غور فکر کر کے ان کے مسائل دور کرنے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ اساتذہ اپنے مسائل سے بے فکر ہو کر بہتر اور تعلیم یافتہ معاشرے کی تشکیل میں اہم رول ادا کر سکیں تب ہی ہمارا ملک رادھا کرشنن کے خوابوں کو مکمل کر سکتا ہے۔اور ہم صحیح معنوں میں یوم اساتذہ کا حق ادا کر سکتے ہیں۔۔۔

Previous articleبلند لب و لہجے کا شاعر ۔ بلند اقبال از: عظیم انصاری
Next articleاستاذ : معمار قوم و معاشرہ از: علی شاہد دلکش،

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here