(ہار ڈنگ )ہر دیا ل میونسپل پبلک لائبریری میں ہندو مذہب کے چند قلمی نسخے از: ڈاکٹر عرفان رضا

0
260

مادھوپور سلطانپور،ضلع سیتامڑھی،بہار

دہلی میں بڑے اور چھوٹےکتب خانے قدیم و جدید زمانے سے موجود ہیں ۔علاوہ خانقاہوں، مدرسوں ،درسگاہوں،میں موجود کتب خانے،عوامی و خصوصی کتب خانے موجود تھے اور ہیں ۔ لیکن دہلی جو کبھی مغلوں کی شایان شوکت تھی۔ اور پھر انگریزوں کی جاگیرداری انہوں نے بھی اس قیمتی وراثت کو جمع کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی ۔اُسی ضمن میں ایک تاریخی کتب خانہ ’’ہارڈنگ لائبریری‘‘ ہے جس کا موجودہ نام آزادی کے بعد ’’ہردیال لائبریری‘‘ رکھا گیا۔تاریخ کے اعتبار سے ایک بہت ہی خوشنما عالیشان ہال ۱۸۶۳؁ء میں بنایا گیا، اور اس کا نام ’’ٹاون ہال‘‘ رکھا گیا تقریباً آٹھ برس کے عرصہ میں یہ عمارت تیار ہوئی۔ اسی ٹاون ہال میں سرکاری جلسے میٹنگ اور بڑے بڑے لیکچر اور اجلاسیں ہوتی۔ اس کی بالائی منزل پر ایک پبلک لائبریری تھی جو ہارڈنگ لائبریری میں ضم کردی گئی۔ ۱۹۰۳؁ء کی ابتدا میں ملکہ کے باغ میں شرقی جانب بازار کوڑیاپل کی سڑک پر فوارے سے کچھ آگے بڑھ کر ’’لارڈ ہارڈنگ‘‘ گورنر جنرل (۱۰۔۱۹۰۵؁ء) کی یادگار میں یہ لائبریری حسب تحریک جناب ’’ہیلی صاحب‘‘ بہادر چیف کمشنر صوبۂ دہلی یہ عالیشان اور وسیع عمارت جس پر ایک گنبد ہے بنائی گئی، اور اس سے عوام و خواص مستفید ہوتی رہی۔ اور دہلی جیسے شہر کے لئے ایسی ہی ایک بڑی اور عمدہ کتب خانے کی جو اعلی پیمانے پر ہو اشد ضرورت بھی تھی۔ آزادی کے بعد ۱۹۷۰ء میں اس کتب خانے کا نام ہارڈنگ لائبریری سے تبدیل کرکے ’’ہردیال میونسپل پبلک لائبریری‘‘ کردیا گیا ۔اور اب تقریباً دہلی میں اس کے ۳۰ شعبے دہلی کے مختلف مقامات و علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں، اور اس سے عوام و خواص مستفید ہورہے ہیں۔ اس کتب خانہ میں تقریباً ۴۶۰ مخطوطات کی ایک اجمالی فہرست ہے۔ جسے ہم داخلہ رجسٹر بھی کہتے ہیں ،اس میں عربی فارسی اور اردو کی قلمی نسخے موجود ہیں ۔بہ نسبت عربی و فارسی کے اردو کے قلمی نسخے بہت کم تعداد میں ہیں۔

بنیادی طور پر قدیم مخطوطات کسی بھی ملک کی تہذیب اور ثقافت ان کے رسوم و رواج قوانین لسانی ادبی اور صنعتی زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ یہ بیش بہا ذخائر پرانے نادر، تاریخی واقعات اور ادبی و سماجی زندگی کے عکاس ہیں ۔جو کہ ملک و قوم اور حالات زمانہ کے تغیر و تبدل اور کمال و زوال کا ایک عمدہ خاکہ پیش کرتے ہیں۔ ہماری تہذیبی ثقافت کے شواہد مخطوطات، دستاویزات اور نادر کتب کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں واقع مختلف قومی کتاب خانوں، مساجد خانقاہوں مندروں مٹھوں گرودواروں، قومی و ریاستی آرکائیوز اعلی تعلیمی مراکز تحقیق و تفتیش سے متعلق اداروں اور ذاتی ذخیروں میں محفوظ ہیں۔اگرچہ قومی مشن برائے مخطوطات کے تحت ایک حالیہ جائزے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہندوستان میں کم ازکم پچاس لاکھ مخطوطات موجود ہیں جن میں پچاس ہزار مخطوطات تو صرف علم طب پر ہی مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ مزید سینتیس ہزار نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ تین ریاستوں کے جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کے پاس چھ لاکھ پچاس ہزار مخطوطات موجود ہیں۔ماہرین مخطوطات نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا اور کہا کہ عربی فارسی اور اردو مخطوطات نہ صرف ملک کا عظیم قومی سرمایہ ہیں بلکہ مشترکہ وراثت کے ناقابل تردید ثبوت بھی ہیں۔ ہندوستان میں بہت سارے اردو عربی فارسی کے ناد ر و نایاب مخطوطات مختلف مدارس، مساجد اور خانقاہوں میں موجود ہیں، جنہیں سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ اس مشترکہ وراثت کی معلومات ہو سکے۔ نیز اس کو باقی رکھنے اور عروج بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ مخطوطات کی تدوین کی جائے۔ اور آج کی نسل کو مخطوطات سے روشناس کرایا جائے۔ اسی کے ضمن میں چند ایسے مخطوطات کا ذکرضروری ہے جو کہ ہماری ہندوستانی تہذیبی لسانی اور مشترکہ وراثت کی پرزور عکاسی کرتا ہے۔اگرچہ ہندوستان میں مختلف زبانوں میں مخطوطات کی کمی نہیں ہےلیکن ہمارے پیش نظر اس وقت ’’ہردیال پبلک لائبریری ‘‘ میں ہندو مذہب کے چند نادرقلمی نسخےہیں۔
’’جوگ باسسٹ : یوگ وششٹھ‘‘جسکا داخلہ نمبر ۳۹۴،اور مخطوطہ نمبر۲۹ ۳ہے ۔موضوع: ہندو مذہب، اس نسخہ کے مؤلف پنڈت ابھینندن کشمیری اور کاتب ہنومان پرساد ہیں۔ خوشخط نستعلیق ،تاریخ کتابت۱۹۰۰ء ،اوراق ۲۸۲ہیں، اس کتاب میں سری جوگ باسسٹ کی داستان سری بالمیکی جی نے تقریباً ۳۶ ہزار اشلوک میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ لیکن پنڈت ابھینندن کشمیری نے تقریباً ۶ ہزار اشلوک میں مختصر طور پر بیان کیا ہے۔ یہ کتاب کئی (پرکرن) اقسام پر منقسم ہے ان میں سے چند یہ ہیں
( بیراگ پرکرن۔ مکچھ پر کرن۔ اتپت پر کرن۔ اپشم پر کرن۔ نروان پر کرن۔) در اصل یہ مخطوطہ رامائن کا ایک حصہ’’یوگ وششٹھ‘‘ہے جو برج ترجمہ میں ہے۔جسے یہاں اردو رسم الخط میںلکھا گیا ہے۔اس میں ’’ شِو ‘‘او ر ’’ پاروتی ‘‘کا تذکرہ شامل ہے۔ اس نسخہ میں شاہزادی سلطان سلیم کہ جب بادشاہ ہوئی اس کا بھی کسی ضمن میں تذکرہ آیا ہے۔ ترقیمے میں یہ عبارت درج ہے ’’ تمت تمام شد روز جمعہ سمت ۱۹۰۰ء ۔یعنی یک ہزار نہ صد ۔کاتب الحروف ہنومان پرساد نے جو کہ قوم کا کایستھ قانونگوئی برگنہ صدرپور سرکار خیرآباد بلدہ اٖلٰہ بادعرف پراگ است برائے خاطر لالہ مہٹن لعل صاحب خط نویس صدر کلکٹر اٖلٰہ باد ‘‘۔ اس نسخہ کے بعض اوراق پھٹے ہوئے ہیں۔
آغاز: سری گور چرن پرتاپ یتن پایو پرم آنند مکت روپ تت چہن ہیو کٹی دویت کی پنہہ
سری سارو اکرن کرو نمسکار کر جور۔۔۔۔
انجام: کریہوناہی کبھو بلنبھ جو یاکوں پایخت رہیہ جی کرن پجار
سکھ سون رہی جو سٹ میں جہو ہیں سکل بکار
’’رامائن بالمیک‘‘جسکا داخلہ نمبر۴۰۰ ،اور مخطوطہ نمبر۲۲ہے ۔موضوع: ہندو مذہب۔ بصورت بیانیہ نظم ہے۔۔ خوشخط نستعلیق ، سیاہ روشنائی ، اوراق: ۲۴۸ہیں۔یہ نسخہ رامائن کاہندی ترجمہ ہےمترجم کا حال معلوم نہیں ہوسکا۔ جو کہ اردو رسم الخط میں لکھا گیا ہے۔نام کاتب و تاریخ کتابت کا پتہ نہیں چلتا،لیکن تحریر سے پتہ چلتا ہےکہ یہ انیسویں صدی کا مخطوطہ ہے۔ رامائن لطیفوں اور فلسفیانہ بحث سے خالی ہے۔ اس میں جو کچھ قابل تذکرہ ہے، وہ رام چندر اور سیتا کی سیرتیں ہیں، جنہیں ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بعد میں چوں کہ رام چندر اور سیتا کو وشنو اور لکشمی کا اوتار مانا گیا ہے، اس لیے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور یہ وشنو کے ماننے والوں کی سب سے اہم کتاب بن گئی۔ اس کتاب کا مصنف والمیکی بتایا جاتا ہے اور اس کو رام چندر کا ہم عصر قرار دیا گیا۔آخر کے کچھ اوراق گم ہونے کی وجہ سے ترقیمہ موجود نہیں ہے۔

آغاز: پرتھم نام نرمل نارائن پن کچھ کتھا کہوں رامائن
نرنکار،جگدیش،نرنجن پار برّہم داناوکہہ بھجن
( راماین (ہندی/سنسکرت: سنسکرت لفظ۔ راماینا بمعنی رام کی سرگزشت۔ سنسکرت کی ایک طویل رزمیہ نظم جس میں ہندؤںکے اوتار رام چندرکے حالاتِ زندگی بیان کیے گئے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق اسے سنسکرت کے ایک شاعر والمیکی (ہندی/سنسکرت: نے تیسری صدی قبل مسیح میں، مختلف لوک گیتو ں سے استفادہ کرکے تالیف کیا تھا۔ تقریباً 500 سال تک دیگر شعرا اس میں اضافے کرتے رہے۔ راماین میں 24 ہزار اشعار ہیں اور یہ مہابھارت کے مقابلے میں مختصر لیکن معاملہ بندی کے لحاظ سے زیادہ منظم، اسلوب کے اعتبار سے کم فرسودہ، زیادہ رومانی اور کم المناک ہے۔ تلسی داس کی رامائن اس سے بہت بعد (سترھویں صدی) کی تصنیف ہے۔گوسوامی تلسی داس کی اس رامائن کا نام راما چریتا مَانَس ہے۔’’تلسی داس راماین کا مصنف تھا۔ ضلع باندہ پور کے ایک قصبہ راجاپور میں پیدا ہوا۔ غریب برہمن کا بیٹا تھا۔ زندگی آزاد روی میں بسر ہوئی۔ ایک بزرگ گورو نرسنگھ داس کی نظر اس جوہر قابل پر پڑی اور انھوں نے تلسی داس کو اپنی پرورش میں لے لیا۔ تھوڑی سی مدت میں تلسی علم و کمال کا مخزن بن گیا۔ اس کی ساری عمر خدا پرستی اور حقیقت نوازی میں گزری۔ بہترین تخلیق اور عمر بھر کی کمائی رام چرن مانس (رامائن) ہے ،۱؎ رامائن اگرچہ والمیک بہت پہلے 30 ق م میں منظوم کر چکے تھے مگر تلسی داس نے رام چندر جی کی حیات کو ایک انوکھے انداز سے قلمبند کیا۔ تلسی داس نے اکبر اعظم اور جہانگیر کا زمانہ پایا تھا۔ راجا مان سنگھ اور عبدالرحیم خانخاناں دونوں اس کی قدردانوں میں سے تھے۔ رامائن کے علاوہ اس کی تصانیف میں رام گیتاولی، کوتاولی، ست سئی اور دوہوں کا ایک مجموعہ ’’ دوہاولی‘‘ شامل ہیں۔ تلسی داس کی زبان سے قدیم اردو کے خدوخال کا بھی پتا چلتا ہے )
۱۔ ماخوذ از:آزاد دائرۃ المعارف
’’وشنو پوران : مہا وشنو پوران‘‘جسکا داخلہ نمبر ۱۷،اور مخطوطہ نمبر ۸۰ ہے،موضوع ہندو مذہب ،زبان فارسی،مصنف: مہرشی پراشرجی ۔اس نسخہ کےمترجم کا پتہ نہیں چل سکا،لیکن تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ نسخہ بہت قدیم ہے۔یہ داستان ہندو مذہب کے مسائل فلسفی اٰاٰٰٖلہی اور اخلاقیات پر مبنی داستان ہے۔ اس داستان کا دوسرا نسخہ بھی اسی داخلہ نمبر پر درج ہے۔ جس میں ۳۲ اوراق اور ۱۳ سطور ہیں۔ ہندو مذہب میں رامائن کے بعد’’ پوران ‘‘کا درجہ ہے، جو تعداد میں اٹھارہ ہیں ان کے علاوہ دو اور پوران ہیں، اس طرح یہ تعداد میں بیس ہو جاتے ہیں۔ ان کتابوں کے عنوانات یہ ہیں:تخلیق کائنات یعنی کائنات کس طرح وجود میں آئی۔دیوتاؤں کے نسب نامے جو خترافات پر مبنی ہیں۔بادشاہوں کے نسب ناموں کے متعلق۔’’فسانئہ توحید‘‘ کے نام سے ’’وشنوپوران کا سلیس اردو زبان میں ترجمہ اور خلاصہ پنڈت امر ناتھ مدن ساؔحر دہلوی تحصیلدارکیتھل ضلع کرنال صوبہ پنجاب ،خلیفہ رائے بہادر پنڈت جانکی ناتھ صاحب مدن مرحوم مصنّف برہم درشن گرنتھ بزبان بھاشا ومترجم صحیفہ شریمد بھگوت گیتا بزبان اردو۔۱۹۱۶ء میں رام نرائن پریس متھرا سے بابو رادھا رمن بھارگو کے اہتمام میں چھپا۔جسے آپ ریختہ کی ڈیجیٹل لائبریری میں دیکھ سکتے ہیں۔

’’بھگوت گیتا (منظوم)‘‘دخلہ نمبر ۹۹، مخطوطہ نمبر ۸۱، موضوع :ہندو مذہب ۔فارسی،یہ نسخہ بھی ہندو مذہب کی بہت مشہور کتاب بھگوت گیتا کا ترجمہ ہے۔ جوفارسی زبان میں ہے۔کرپارام نے ۲۳ جلوس شاہ عالم میں تحریر کیا۔خط شکستہ میں ۴۱۲ اوراق پر مشتمل یہ ضخیم نسخہ ہے۔نسخہ کا آغازاسطرح ہے: ثناھا مالک کون و مکان را : ونگہدارندہ نُہ آسماں را۔ بھگوت گیتا یا شریمد بھگوت گیتا (ہندی: لفظی ترجمہ: الوہی نغمہ) ہندو مت کا سب سے مقدس الہامی صحیفہ ہے اہل ہنود کے نام شری کرشن جی کا پیام ہے ۔جسکو ویدویاس نے لکھا ہےجو اپنی قابلیت کی بنا پر مہا رشی کہلائے۔ اٹھارہ ابواب اور سات سو شلوک پر مشتمل یہ کتاب دراصل مہا بھارت کے باب۲۳ تا ۴۰کا حصہ ہےیہ ایک فلسفیانہ اور مذہبی گیت ہے اور اس سے ہندوستان کے مخصوص تخیّل پر روشنی پڑتی ہے سنسکرت ادب میں گیتا کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ہندوستان میں یہ سب سے زیادہ ہندومت کے یہاں مشہور مذہبی نظم ہے۔ہندو مت کے تمام فرقوںمیں اسکو مقدّس مانا جاتا ہے ۔اسکے اعلٰی فلسفیانہ خیالات کے پیش نظربھگوت گیتا کا پیام بہت سادہ ہے، اسکی تعلیمات ہندو مت کی فلسفیانہ بنیاد ہیں ۔ بھگوت گیتا کب لکھی گئی یہ تو حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا ،لیکن طرز تحریر ،قافیہ پیمائی ، اور دیگر خصوصیات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لگ بھگ تیسری صدی قبل مسیح میں لکھی گئی تھی۔ مہا بھارت کی مشہور جنگ میں جب کورو اور پانڈو اپنی اپنی فوج لے کر آمنے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں تو پانڈو سپاہ سالار ارجن مخالف فوج پر ایک نگاہ ڈالتا ہے جہاں اسے اپنے بھائی بند اور عزیز و اقارب صف آراء نظر آتے ہیں۔ اپنے دادا، چچا، استاد اور دیگر قابلِ احترام ہستیوں کو مدِّ مقابل دیکھ کر ارجن جذباتی ہو جاتا ہے اور اپنے رتھ بان کرشن جی سے کہتا ہے کہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کے خون سے ہم ہاتھ کیسے رنگ سکتے ہیں۔ میں اس جنگ میں حصّہ نہیں لے سکتا۔ کرشن جی جواب دیتے ہیں کہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینا ہمارا فرض ہے اور فرض میں کوتاہی نہیں کی جاسکتی۔ دونوں کا مکالمہ جاری رہتا ہے اور بالآخر ارجن جنگ پہ راضی ہو جاتا ہے اور اس بے جگری سے لڑتا ہے کہ ظالم کورؤں کو شکستِ فاش ہو جاتی ہے۔ کرشن جی اور ارجن کا یہ طویل مکالمہ ہی اصل میں بھگوت گیتا کا متن ہے۔ سنسکرت کی اس نظم کو ہندو دھرم میں ایک بنیادی صحیفے کا درجہ حاصل ہے لیکن ترجموں کے ذریعے اس کا متن دنیا کے ہر کونے میں پہنچا اور اس کے مداحوں میں بلا تفریقِ مذہب و ملت ہر قوم کے لوگ شامل ہیں۔ گیتا کے دنیا کی ہر معروف زبان میں تراجم ہوچکے ہیں۔گیتا کا اولّین ترجمہ فارسی میں ہوا تھا جو شہنشاہِ اکبر کے درباری دانش ور فیضی نے کیا تھا۔بھگود گیتا کے فلسفے نے جدید دنیا کے ممتاز مفکروں کو متاثر کیا ہے۔ چاہے وہ بت پرستی کا سخت مخالف سماجی مصلح راجا رام موہن ہو یا ادویت پسند شنکر اچاریہ۔ گاندھی جی کی زندگی میں گیتا اور اس کی تعلیمات کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے اسے اپنی ’’روحانی لغت‘‘ قرار دیا ہے۔

’’بھگوت گیتا، ترجمہ (دسم اسکند) اکھنڈ‘‘داخلہ نمبر ۶،مخطوطہ نمبر ۸۲،موضوع :ہندو مذہب۔فارسی،خط شکستہ میں ۵۶ ،اوراق پر مشتمل یہ نسخہ بھی بھاگوت گیتا جو ہندووں کی مقدس کتاب ہے اور جس میں ارجن وغیرہ کی جنگ کے بارے میں تذکرہ ہے اس کے دسویں ’’ادھیائے‘‘ کا فارسی ترجمہ ہے۔ آغاز: گوبند سری نرائن بھگوان سھای،آغاز کتاب دسم اسکند (اکھنڈ) از بھاگوت زبانی گوسکھدیو۔یہ نسخہ اس کتب خانہ کے علاوہ کہیں اور موجود نہیں ہے۔یہ دوسرا نسخہ ہےتفصیل اوپر مذکور ہوا۔

’’ترجمہ ارجن گیتا‘‘ یہ بھی بھگوت گیتا کا ایک حصّہ ہےجس کا داخلہ نمبر ۱۳،مخطوطہ نمبر ۸۳،موضوع،ہندو مذہب،زبان فارسی ہے۔اس کے مترجم :’’شیخ ابوالفضل علّامی ہیں، ( شیخ ابوالفضل علّامی دربار اکبری کے مشہور وزیر اور مصنف ہیں، علاّمی تخلص ہے ۔یہ شیخ مبارک ناگوری کے دوسرے بیٹے اور شیخ فیضی کےچھوٹے بھائی تھے۔ ۱۵۵۱؁ء مطابق ۹۵۸ھ کو آگرہ میںپیدا ہوئے اور انیسویں سن جلوس میں دربار اکبری میں شامل تھے دربار میں باریاب ہوئے آپکی تصنیفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے زمانہ کے علامہ تھے۔ ’’آئین اکبری‘‘ شاہان مغلیہ کی تاریخ شیخ جلال الدین محمد اکبر کے پیتالیسویں سال حکومت تک لکھی ہے۔ ۱۳ اگست ۱۶۰۲ء کو قتل کردیئے گئے۔ اکبر اعظم کے نورتنوں میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ ۱۵۷۲ء میں اپنے بھائی فیضی کے ساتھ دربار اکبری میں باریاب ہوا۔ آہستہ آہستہ تقرب شاہی حاصل کر لیا۔ یہاں تک کہ صدر الصدور کے عہدے پر فائز ہوا۔۱۶۰۰ء میں منصب چار ہزاری پر فائز ہوا۔ شہزادہ سلیم (جہانگیر) کا خیال تھا کہ ابوالفضل اس کے بیٹے خسرو کو ولی عہد بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس کے اشارے پر راجا نرسنگھ دیو نے اسے اس وقت قتل کر دیا جب وہ دکن لوٹ رہا تھا۔ اپنے وقت کا علامہ اور بلند پایہ مصنف تھا۔ علامی تخلص رکھتا تھا۔ آزاد خیال فلسفی تھا۔ علما اسے دہریہ سمجھتے تھے۔ اکبرکے دین الٰہی کے اجرا کا سبب اسی کو گردانا جاتا ہے۔ اکبر نامہ اور آئین اکبری مشہور تصانیف ہیں،۲؎ اس کے خطوط کا مجموعہ مکتوب علامی فارسی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔اس نسخہ کے کاتب آتما رام کھتری نے ۷ ہفتم شوال ۱۲۱۰ھ ؍۱۸۵۳ءمیں تحریر کیا۔یہ نسخہ خوشخط نستعلیق میں مہابھارت کتاب جوکہ سنسکرت میں ہے اس کے ایک فصل کا یہ فارسی ترجمہ ہے۔ اور اس فصل میں سری کشن نے ارجن کو جنگ کی ترغیب دینے کا بیان ہے۔ یہ کتاب اس کتب خانہ کے علاوہ کہیں اور موجود نہیں ہے۔آغاز اس طرح ہے۔ ایں نسخۂ گیتا کہ در انکشاف سرایر قدرت ذوی الجلال واستکشاف حقیقت معرفت لایزال است۔
۲؎ قاموس المشاہیر:جلد۱،ص۳۸

’’سری سکنت‘‘ مخطوطہ نمبر ۳۲۸، موضوع ہندو مذہب ،اسکے مؤلف :نندرا سین،۹۴ اوراق ۲ کالم پر مشتمل نستعلیق سیاہ روشنائی سے یہ خود نوشتہ مخطوطہ ہے۔اس مخطوطے میں کرشن جی کی سوانح کو منظوم پیرایے میں پیش کیا گیاہے۔مخطوطے کی زبان ’’ بھا ’’ کا ہے ۔جو کہ اردو رسم الخط میں ہے۔اس مخطوطے کے بارے میں زیادہ تفصیل معلوم نہیں ہو سکا۔
آغاز: نو لچہن کر لجہہ جو دسویںآسری روپ پرم پتر متر ایک رہیے
نند بندلی پرتہم جند سری کرشن آگہہ انوپ کرشن چرترسینئو سو چہیے
اختتام: سنیں جو کو او من کرم پجن نیہ اون تس اون ادیائے ہنس کل مل ہنس کہنہ نند نہ انّ ادیائے
ترقیمہ: اتسری دسم اسکندہ بہاکا نندراسین کرتا اونس اوں ادہائے
راقم السطور نے شامل جملہ مخطوطات کا کتب خانے میں جاکرتفصیلی سے جائزہ لیا ہے،نیز ہر مخطوطے کو اچھی طرح سے دیکھا اور ملاحظہ کیا ہے۔اس لائبریری میں موجود ذخیرے کی افادیت و اہمیت کا اندازہ یہاں کے مخطوطات پر حواشی و تاریخی مُہریں اور عبارتوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔اہم مخطوطات و نوادرات کی طرح ان حواشی اور تاریخی عبارتوں کی اہمیت اپنی جگہ کسی طرح کم نہیں ہے ۔ایک ایک مخطوطہ اپنے زمانہ کا خود آئینہ ہے۔ نیز ترقیمے کی عبارتیں مہروں پر کندہ سجع، سنین، قاری اور سامع کے غیر شعوری حالات میں لکھے ہوئے نوٹس، واردات، واقعات، نسخ، تعویذات، نقوش وغیرہ بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ مُطلّا و مذہب اور مصور نسخے کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلّم ہے۔ بعض ایسے مخطوطات ہیں جوکہ مُطلّا و مذہب اور مصور ہیں، جو سلاطین کے حضور پیش کئے ہوئے نسخے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو بادشاہوں کے مطالعہ میں آئے ہوئے ہیں، کہیں کہیں ’’عرض؎دیدہ ‘‘ جائزہ نمودہ‘‘ ملاحظہ نمودہ‘‘ لکھے ہوئے تاریخی فقرے ہیں۔ جو بہت اہم ہیں۔ کیونکہ اس زمانے میں، لشکری کتب خانہ، درباری کتب خانہ ، شاہی کتب خانہ، بیگمات اور شہزادو کے کتب خانے وغیرہ الگ الگ ہوا کرتے تھے اس کتب خانے میں وہ سارے مخطوطات کو محفوظ کرلیا گیا ہے۔ جو ایک مثبت قدم ہے یہاں ایسے مخطوطات بھی شامل ہیں جو خطی شان و شوکت و شفا اور مختلف النوع خطوط کے آئینہ دار ہیں بعض ایسے مخطوطات ہیں جن کے خط اب متروک ہوچکے ہیں۔ماہرین مخطوطات کے مطابق ہندو مت کے جملہ مخطوطات جو فارسی اور اردو میں ترجمہ ہوئے وہ نہ صرف ملک کا عظیم سرمایہ ہیں بلکہ مشترکہ تہذیب کے نا قابل تردید ثبوت بھی ہیں ۔اس لئے انکا تحفّظ ایک قومی فریضہ ہے ۔ایسے مخطوطات کا ذکر بھی ضروری ہےجواگرچہ وہ داستان یا کہانی کی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن کہیں نہ کہیں ہندومذہب کے رسم ورواج سے کلّی طور پر منسلک ہیں -ان کہانیوں کا مقصد پڑھنے اور سنے والوں کو مذہبی، اخلاقیات کی تعلیم دینے کے ساتھ تفریحی سامان فراہم کرنا بھی تھا ،ذیل میں اسی کڑی کے مخطوطے شامل ہیں۔

’’سنگھاسن بتیسی‘‘جسکا داخلہ نمبر ۵۷ ۔مخطوطہ نمبر۳۶ موضوع: ھندو مذہب۔ فارسی، کہا جاتاہےکہ اس نسخہ کے مؤلف برج پنڈت وزیر راجہ بھوج ہیں۔منشی کنول نے ۱۲۰۵ء میں اسے تحریر کیا۔خوشخط نستعلیق /شکستہ، ۱۴۱ اوراق پر مشتمل یہ نسخہ ہندو مذہب سے جزوی طور پرتعلق رکھتی ہے،ویسے اس مخطوطے میںہندومذہب کے رسم ورواج پر کہانیاںہیں۔مؤلف برج پنڈت جو راجہ بھوج کے وزراء میں سے تھا۔ تقریباً ۳۲ داستانوں کا یہ مجموعہ ہے۔ جس میں تاریخی، افسانوی و عرفانی و نصیحت آموز مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ جو راجہ بکرمہ جیت (وکرمہ دیتہ )سے متعلق ہے۔اس کا دوسرا نسخہ بھی داخلہ نمبر ۹۵ پر درجہ ہے۔ جو خط شکستہ، رام سروپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ کتابت ۱۱۷۰ ھ میں ہوئی، لیکن آغاز میں فرق ہے۔ قادر مطلق خدائی انس و جان۔ نقش پرداز زمین و آسمان۔ ۷۲ اوراق پر مشتمل یہ نسخہ ہے۔ یہ مخطوطہ در اصل فارسی ترجمہ ہے اصل میں یہ داستان سنسکرت میں تھی۔اسکے مصنف کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔یہ فارسی ترجمہ برج بھاشا سے کیا گیا ہے،لہٰذا فارسی مترجم ناسناش ہے۔ہو سکتا ہے کہ سنسکرت سے کچھ کہانیوں کا برج بھاشا میں ترجمہ برج پنڈت وزیر راجہ بھوج نے کیا ہو۔تفصیل کے لئے ’’مشترک،جلد ۴،شمارہ ۲۱۷‘کا ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہبی روایات سے وابستہ ہیں،لیکن ان ہی مذہبی روایات میں مشترکہ تہذیبی وراثت اور تحریری روایت کی قدرو قیمت اور اہمیت سب سے زیادہ ہے۔در اصل یہ وہی کتابیں ہیں جو ہمارے اسلاف نے لکھ کر ہندوستانی سماج کی تشکیل وتعمیر میں اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ایک اندازے کی مطابق ہندو مذہب کے بیشتر قلمی نسخوں کا فارسی میں ترجمہ عہد مغلیہ میں ہوا۔شہنشاہ اکبر نے اپنی نا قابل یقین فراست سے ہندو مسلم تعلقات میں ایک اہم اور باہمی روابط کا اختلاط ایسا کیا جو کہ ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی نمایاں خصوصیت اور علامت بن کر ابھرا ،نیز شہنشاہ اکبر کے حکم سے ہندو مذہب کی مشہور کتابیں جو سنسکرت میں تھیں اسے حاصل کرکے فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے ایک خاص شعبہ قائم کیا گیا جس میں قابل اعتماد علماوفضلا کا ایک مجمع رہا کرتا تھا جو ہندو مذہب کی کتابوں کا ترجمہ کیا کرتے تھے ۔ان مترجمین میں فیضی، ابو الفضل،حاجی محمد سلطان ،ملّا شاہ نقیب خاں،اور عبدالقادر بدایونی خصوصاً نہایت قابل سنسکرت داں تھے۔جسے آج ہم لوگ گنگا جمنی تہذیب یا مشترکہ تہذیب کہتے ہیں ۔شہنشاہ اکبر کے دور کی ترجمہ کی گئی ’’ رامائن ‘‘خصوصیت کی حامل ہے۔ہر دیا ل پبلک لائبریری میںہندومت کے علاوہ اور بھی دیگر موضوعات پر قلمی نسخے موجود ہیں ،جو اِس کتب خانے کی شان وشوکت میں مزید اضافہ کا ضامن ہے۔ یہ دنیا کی ان چند کتب خانوں میں سے ایک ہے جن میں کم از کم۸۰۰۰ نایاب کتابیںاور ۳۵۰ قلمی نسخےموجود ہیں۔مذکورہ قلمی نسخے ہر دیا ل پبلک لائبریری کی شان وشوکت بڑھانے میں بہت اہم ہیں۔

مادھوپور سلطانپور،ضلع سیتامڑھی،بہار
Email : iraza3819@gmail.com

Previous articleعقیل حشمی کی یاد میں از:امتیاز وحید
Next articleپروفیسر ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی : بنگال کے ادبی افق کا روشن ستارہ از: مظفر نازنین، کولکاتا

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here