”بیٹا! اس طرح بنا پوچھے کسی کی چیز نہیں لیتے۔“ احمر کا قلم اس کے ہاتھ میں دیکھ کر امی نے نرمی سے اسے ٹوکا۔
”امی! لیکن بھیا مجھے منع تو نہیں کریں گے۔“ حسین نے منہ بناتے ہوٸے کہا
”بالکل منع نہیں کریں گے لیکن پھر بھی اجازت لینا اچھی بات ہوتی ہے۔“
حسین ایک اچھا بچہ تھا لیکن بنا پوچھے سب کی چیزیں استعمال کرنا اس کی عادت بنتی جارہی تھی جس پہ کبھی اس کو سمجھایا جاتا تو کبھی ڈانٹا جاتا لیکن وہ پھر بھی اس حرکت سے باز نہ آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”واٶ دادی! کتنا زبردست موباٸل ہے۔“ اویس چاچو نے دادی کو دبٸی سے موباٸل بھیجا تھا۔ جسے دیکھ کر حسین پھولے نہیں سمارہا تھا۔
”میرے بیٹے نے بھیجا ہے۔ اچھا تو ہوگا نا۔“ دادی کے لہجے میں ایک عجب سی خوشی تھی۔
”دادی اس کو سنبھال کے رکھیے گا۔ آپ کو پتا تو ہے ہمارے گھر میں ایک بچہ ہے جو سب کی چیزوں کو اپنی ملکیت سمجھ کر استعمال کرتا ہے۔“ احمر نے حسین کی طرف دیکھتے ہوٸے شرارت سے کہا۔
”جی نہیں۔ میں مما کا موباٸل لیتا ہوں وہ بھی ان سے پوچھ کر۔“ اس نے ناراض ہوتے ہوٸے کہا تو سب اس کے انداز پہ ہنسنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کے وقت جب امی اور دادی سورہی تھیں تو اپنی عادت سے مجبور ہوکر حسین دادی کا موباٸل لے کر بیٹھ گیا۔ موباٸل پہ گیم کھیلتے کھیلتے اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ امی کی آواز جب اس کے کانوں میں پڑی تب اس نے حیرت سے گھڑی کی جانب دیکھا جو پانچ بجارہی تھی۔ امی کے ڈر سے جلدی سے وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ کچھ زمین پہ گرنے کی آواز آٸی۔ موباٸل۔۔۔۔دادی کا نیا موباٸل زمین پہ پڑا ہوا تھا اور اس کی اسکرین پہ پڑنے والا نشان واضح نظر آریا تھا۔ ڈر کے مارے اس کے اوسان خطا ہوگٸے۔ پہلے اس نے موباٸل چھپانے کا سوچا لیکن پھر تیزی سے احمر کے کمرے کا رخ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”بھیا! میرے پیارے بھاٸی۔۔۔۔۔“ پھولی ہوٸی سانسوں کے درمیان روہانسی آواز میں اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی احمر کو پکارا۔
اس کو دیکھ کر ہی احمر کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ پھر کوٸی کارنامہ سر انجام دے کر آیا ہے۔ تب ہی اتنی محبت سے اسے پکارا جارہا ہے۔
”جو بھی کام بگاڑ کر آٸے ہو۔ وہ میں ٹھیک کردوں گا ہمیشہ کی طرح ان شاء اللہ۔ کیا کیا ہے یہ تو بتاٶ بچے۔“ ان دونوں بھاٸیوں میں بہت پیار تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا ہمیشہ ساتھ دیتے تھے۔
”وہ۔۔۔۔۔ دادی۔۔۔“
”اس بار دادی کو کچھ کردیا ہے تم نے۔۔“ احمر تقریبا چلایا۔
”دادی کا موباٸل مجھ سے ٹوٹ گیا۔“ یہ الفاظ تھے یا بم۔ وہ اپنی جگہ سے اچھل پڑا۔
”تم کر کیا رہے تھے دادی کے موباٸل میں۔ تم سے کہا بھی تھا ہاتھ مت لگانا۔ دکھاٶ مجھے موباٸل۔“ اس نے غصے سے کہا۔
کمر کے پیچھے ہاتھوں میں چھپا موباٸل اس نے ڈرتے ڈرتے احمر کی طرف بڑھایا۔
”اللہ یہ تو واقعی ٹوٹ گیا۔ جانے کتنا خرچہ آٸے گا اس پہ۔ دل تو چاہ رہا ہے تمہارا سر ہی توڑ دوں۔“
”سوری بھیا۔“ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔
” اچھا اب رو مت۔ میں جاتا ہوں موباٸل مارکیٹ“ اس کو روتا دیکھ کر اب کی بار احمر نرمی سے بولا۔
”بھیا بہت سارے پیسے لگے گیں اس پہ؟“ وہ فکرمندی سے بولا
”یہ تو وہاں جاکر ہی پتا چلے گا۔ اگر اسکرین کو ٹوٹی ہے تو چار پانچ ہزار تو کہیں نہیں گٸے۔“
”چار پاننننننچ ہزار۔۔۔۔ “ حسین نے ہکلاتے ہوٸے کہا۔
”دیکھو پارٹنر! بہت غلط حرکت کی ہے تم نے اس بار۔ میں ہمیشہ تمہارا ساتھ دیتا ہوں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تم اس ہی طرح غلطیاں کرتے رہو۔“
”پکا والا وعدہ بھیا! آٸندہ کسی کی چیز کو بنا اجازت ہاتھ نہیں لگاٶں گا۔ مجھے معاف کردیں۔ آپ بس موباٸل ٹھیک کروادیجیے۔“
”موباٸل ٹھیک کروادیجیے۔۔۔۔ آٸے بڑے۔۔ اپنی تنخواہ میں سے اتنے پیسے بھاٸی چارے کی خاطر خرچ کرنے پڑیں گے۔ غریب انسان ہوں میں۔ ٹیوشن پڑھاتا ہوں کوٸی ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری نہیں کرتا۔“ موباٸل لے کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کیا ہوا حسین؟ تسبیح لے کر کیوں بیٹھ گٸے؟“ مغرب کی نماز کے بعد اس کو یوں بیٹھا دیکھ کر دادی نے حیرت سے پوچھا۔
”کچھ بھی نہیں دادی جان! بس ویسے ہی آج دل کرہا تھا۔“ اب وہ ان کو کیا بتاتا کہ وہ ان کے موباٸل کی جلد صحت یابی کے لیے اس وقت تسبیح لے کر بیٹھا تھا۔ ساتھ اس کے دل سے یہ دعا بھی نکل رہی تھی کہ بھیا کی واپسی تک کسی کا دماغ موباٸل کی طرف نہ جاٸے۔
اللہ اللہ کرکے بھیا گھر واپس آٸے تو اس کی جان میں جان آٸی۔ وہ بے تابی سے اس کی جانب بڑھا۔
”ارے ارے آرام سے میرے بھاٸی! ٹھیک ہوگیا ہے موباٸل۔ اللہ کا شکر ادا کرو ۔“
” آپ کے کتنے پیسے خرچ ہوٸے؟“ اس نے پریشانی سے پوچھا۔
”پیسوں کی تم فکر مت کرو۔ بس اپنا پکا والا وعدہ یاد رکھنا اب۔“ احمر نے اسے یاد دلاتے ہوٸے تنبیہ کی۔
”جی جی بھیا! بہت بہت شکریہ۔ جزاک اللہ۔۔۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔۔۔۔“ اس کے منہ میں اظہار تشکر کے لیے جو الفاظ آرہے تھے وہ کہہ رہا تھا۔
” اچھا اچھا بس۔ کیا دادی جان کی طرح دعا دینے لگ گٸے۔ جاٶ اور جاکر اسکول کا کام کرو۔ کل ٹیسٹ ہے نا تمہارا۔“
”وہ تو میں کرلوں گا۔ پہلے ذرا شکرانے کے نفل تو ادا کرلوں۔“ حسین بردباری سے کہہ کر اٹھنے لگا تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گٸی۔ امی اور دادی کی طرف بڑھتے ہوٸے یہ مسکراہٹ مزید گہری ہوگٸی۔
”شکرانے کے نفل ادا کررہا ہے آپ کا شہزادہ۔“ کمرے میں داخل ہو کر اس نے ہنستے ہوٸے کہا۔
”تمہارے پیچھے تو بچے کے ہاتھ سے تسبیح ہی نہیں چھوٹ رہی تھے۔“ دادی اسے بتانے لگیں۔
”اچھا ہے بچہ اب کوٸی ایسی حرکت کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے گا۔“ احمر نے بدستور ہنستے ہوٸے کہا۔
”کتنے میں مرمت ہوٸی ہے اس فتنے کی؟“ ادادی نے غصے سے پوچھا۔
”ہمم اچھا سوال ہے۔ لیکن اس کی فکر آپ مت کیجیے۔ مابدولت نے اپنے پیسوں سے مرمت کرواٸی ہے۔“
”احمر! سیدھے سیدھے جواب دو۔“امی نے سختی سے کہا۔
”ارے بھٸی ایک تو آپ لوگ بھی نا۔ سو روپے لگے ہیں بس۔ اسکرین ٹھیک تھی۔ پروٹیکٹر پہ نشان پڑگیا تھا گرنے کی وجہ سے۔“
”پروٹیکٹر کیا بلا ہے؟“
”دادی جان! موباٸل کی اسکرین کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے اوپر لگایا جاتا ہے اور“ اس سے آگے دادی نے اسے کچھ کہنے ہی نہ دیا۔
”سو روپے کا اوپر کا ڈھکن توڑ دیا میرے بچے نے۔ خوف زدہ ایسے کردیا تم نے اسے کہ جانے کیا کردیا۔“ دادی جان خفا ہوتے ہوٸے بولیں ساتھ میں پروٹیکٹر کو ڈھکن کا نام دے دیا۔
امی اور احمر نے بمشکل اپنی ہنسی کو روکا۔
”دادی جان! یہ تو مجھے وہاں جاکر پتا چلا ہے نا کہ اسکرین کو کوٸی نقصان نہیں ہوا۔“
”بس بس رہنے دو۔ میں جانتی ہوں سب۔۔“
دروازہ کھلنے کی آواز ہوٸی تو وہ تینوں خاموش ہوگٸے۔
”بھیا! میری پینسل نہیں مل رہی۔ کیا میں آپ کی پینسل لے سکتا ہوں؟“ حسین نے معصومیت سے پوچھا۔
”جی جی لیجیے۔“ احمر نے اس کو کچھ جتاتے ہوٸے اجازت دی۔
”دیکھا کتنا پیارا بچہ ہے میرا۔“ حسین کے باہر نکلتے ہی دادی نے ہونہہ کرتے ہوٸے ان دونوں کے سامنے حسین کی طرف داری کی۔
احمر اور امی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ان کو لگ رہا تھا کہ حسین واقعی اب اپنا پکا والا وعدہ نبھالے گا۔۔