ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی،پٹنہ
رابطہ نمبر:9199726661
کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ اردو کے معروف ادیب و شاعر تھے۔ ان کی ولادت 9 / مارچ 1909ء کو منٹگمری(ساہیوال) میں ہوئی تھی اور انتقال 17/جولائی 1998ء کو دہلی میں ہوا تھا۔انہوں نے چیفس کالج ، لاہور میں 1919ء سے 1925ء تک تعلیم حاصل کی تھی اور آئی سی ایس کا بھی امتحان دیا تھا، مگر اس میں انہیں کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ ان کی پہلی تقرری لائل پور میں ہوئی تھی۔بعد میں ان کا تبادلہ بطور فرسٹ کلاس مجسٹریٹ رہتک ہوا تھا۔ وہ گڑگاؤں میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے۔ تقریبا 33 برس ملازمت کرنے کے بعد ڈائرکٹر، محکمہ پنچایت کے عہدے سے 1984 میں سبکدوش ہوئے تھے۔ ان کی دو تصانیف ” یادوں کا جشن” خودنوشت اور ” کلامِ کنورمہندر سنگھ بیدی سحر” اردو ادب کی کتابوں کے ذخیرے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
کتاب ” یادوں کا جشن ” کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ کی سوانح حیات ہے جو پہلی بار 1983 میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب کا انتساب ” ہندو پاک دوستی کے نام ” معنون ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بیدی کی حیات مختلف نشیب وفراز سے دوچار رہی۔انہوں نے اپنی بہت ساری تلخ و شیریں یادوں کو ” یادوں کا جشن“ میں بڑے درد وکرب کے ساتھ کیا ہے قلمبند کیا ہے۔ ایک جگہ رقمطراز ہیں: ” میں نے زندگی کو جن مختلف پہلوؤں سے دیکھا ہے بہت کم آدمیوں کو یہ موقع نصیب ہوا ہوگا ۔ میں نے ریاست بھی دیکھی ہے۔تقسیم وطن کے بعد معزز سیاستدانوں اور حکمرانوں کا دست راست بھی رہاں ہوں اور حکومت کے بدلنے پر غیر ضروری بھی سمجھا گیا ہوں۔ رندان سرمست کی خوش صحبتی بھی میسر رہی ہے ۔ زہاد خشک نے بھی مجھے اپنا سمجھا ہے۔میرے مشاغل بھی مختلف اور متضاد قسم کے رہے ہیں اور کسی حد تک اب بھی ہیں انار ملس لوگوں کی جھونپڑیوں میں بھی وقت گزرا ہے۔فٹ پاتھ پر بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ کھانا کھایا ہے۔صدر جمہوریہ کے سرکاری اور غیر سرکاری دعوت ناموں پران کی ضیافتوں میں بھی شریک ہوا ہوں، کھیل کود کے میدان میں بھی پل رہا ہے۔ مرغ باز تیتر باز چنگ باز میرے ملنے جلنے والے ہیں”۔
مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے اس کتاب کے ابتدائی اوراق میں نہایت تفصیل سے اپنے آباء واجداد کے حالات قلمبند کئے ہیں۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں گرو نا نک کو رام چندر کی نسل سے قرار دیا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر آئی ایس آئی کا امتحان پاس کرنے کے واقعات بھی درج کئے ہیں۔ جن عہدوں پر مامور رہے اور جن مقامات پر ملازمت کی ان سے متعلق بھی خوب خامہ فرسائی کی ہے۔ شاعری سے اپنی دلچسپی، اپنی شاعری کا آغاز مشاعروں میں شرکت او ہمعصر شعراء ودیگر اہم شخصیات سے اپنے مراسم کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ﺗﺠﮫ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺳﺤﺮؔ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﮐﺲ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﭨﮯ
ﺟﯿﻨﺎ ﺗﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﺟﺰﺍ ﺑﮭﯽ
مرنا تو لازم ہے اک دن جی بھر کے اب جی تو لوں
مرنے سے پہلے مر جانا میرے بس کی بات نہیں
مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے اپنی اس خود نوشت میں اکابرین اور برگزیدہ شخصیات سے متعلق دلچسپ گفتگو کی ہے جو اپنے مخصوص تہذیبی رکھ رکھاؤ کا اہتمام کرتے تھے۔ جوش ملیح آبادی ڈاکٹر ذاکر حسین ، نواب افتخار، جمیل الدین عالی، فراق گورکھپوری، ندیم قدوائی وغیرہم کا تذکرہ ” چند برگزیدہ شخصیتیں” عنوان کے تحت کیا ہے اور ان شخصیات کا خاکہ بھی نہایت خوبصورت اسلوب میں پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کا خاکہ اس طرح کھینچا ہے:
” سفید رنگ نورانی ریش، کشادہ پیشانی جو وسعت قلب کی غمازی کرتی تھی ۔ متناسب جسم، چال ڈھال میں وقار ، لب ولہجہ میں حلاوت، گنگا جمنی تہذیب و تمدن کی جیتی جاگتی تصویر ۔ یہ تھے ڈاکٹر ذاکر حسین جو ایک معلم سے ہندوستان کے مقبول ترین صدر جمہور میں ہے”۔
کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے چند ” عجیب و غریب شخصیتیں” عنوان کے تحت اپنے کئی دوستوں کی بعض عجیب وغریب عادات و اطوار سے بہت ہی دلچسپ انداز میں پردہ اٹھایا ہے۔ ان کے مطابق بسمل شاہجہانپوری متقی اور پرہیز گار تھے۔ساتھ ہی وہ بیحد حسن پرست بھی تھے اور شاہدہ نکہت نامی شاعرہ پر فریفتہ تھے۔ ہر روز ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد وہ بلا تکلف اور بغیر کسی ڈر و خوف کے اپنی معشوقہ شاہدہ نکہت کے گھر ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔ اس میں وہ کسی طرح کی عار بھی محسوس نہیں کرتے تھے۔ بسمل شاہجہاں پوری کی ایک طرف پر ہیز گاری اور دوسری طرف شاعرہ پر ان کی فریفتگی مہندر سنگھ بیدی کو عجیب وغریب معلوم پڑتی تھی۔حالانکہ ان کے احوال اور ان کی شاعری سے اس بات پر مہرثبت ہوتی ہے کہ بیدی خود بھی نہایت ظریف، پرمزاح اور عاشق مذاق واقع ہوئے تھے۔ درج ذیل اشعار سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
ان شوخ حسینوں کی نرالی ہے ادا بھی
بت ہو کے سمجھتے ہیں کہ جیسے ہیں خدا بھی
ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮎ ﺭﻭﺯ ﺗﺮﯼ ﺯﻟﻒ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﻟﯿﮟ
ﻭﮦ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﻮ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
شوخی شباب حسن تبسّم حیا کے ساتھ
دل لے لیا ہے آپ نے کس کس ادا کے ساتھ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﺛﺮ ﺭﻓﺘﮧ ﺭﻓﺘﮧ
ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﻧﻈﺮ ﺭﻓﺘﮧ رفتہ
کنور مہندرسنگھ بیدی نے اپنے آباء واجداد کی شکار کرنے میں مہارت کا تذکر بڑے کر و فر کے ساتھ کیا ہے ۔ انہوں نے دعوی کیا ہے کہ ان کا خاندان شکار کرنے میں اپنی مہارت کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان میں مشہور تو تھا ہی ،علاوہ ازیں سعودی عرب میں بھی ان کے خاندان کی شہرت تھی۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے شہزادے شکار کے مقصد سے جب بھی ہندوستان آتے تھے تو ان کے والد صاحب کی طرف روجوع کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں :
” بندوق کے شکار کے علاوہ ہمارا خاندان ہندوستان و پاکستان میں باز کے شکار کے لئے مشہور ہے۔ یہاں تک کہ سعودی عرب کے شہزادگان بھی بھارت آئے تو انہوں نے آنے سے پہلے ہی مجھ سے رابطہ قائم کیا”۔
مذکورہ اقتباس میں مصنف نے جو باتیں کہی ہیں،ان میں سے شکار میں ان کے خاندان کی مہارت کی بات تو سمجھ میں آسانی سے آ جاتی ہے اور قابل یقین ہے لیکن ہند و پاک اور سعودیہ تک اس کی شہرت کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ اس لئے کہ باز کا شکار کرنا کوئی ایسا کام نہیں ہے جو ہندستان اور پاکستان میں شہرت کا سبب بن جائے۔ یہاں تک کے سعودی شہزادگان بھی اس کی شہرت سے متاثر ہو جائیں اور وہ جب ہندوستان آئیں تو ان سے را بطہ کریں۔ہندستان ، پاکستان اور سعودیہ عربیہ کوئی چھوٹا سا گاؤں نہیں یا ان کا حلقہ بہت محدود نہیں۔ باز کے شکار سے پورے ہندستان میں شہرت تو ممکن ہی نہیں، چہ جاۓ کہ عرب و عجم میں اس کی شہرت کی گونج سنی جاۓ، نا قابل یقین بات معلوم پڑتی ہے ۔سعودی شہرزادگان جب شکار کرنے کے لئے ہندستان آۓ تو انہوں نے بھی پہلے ان سے رابطے کئے ، یہ بات بھی قاری کے گلے سے نیچے اتر نے والی معلوم نہیں پڑتی اور نا ہی یقین کئے جانے کے لائق لگتی ہے۔ مصنف نے دوسروں کی عجیب وغریب باتیں لکھتے لکھتے خودا پنی بھی کچھ عجیب وغریب باتیں لکھدی ہیں، جنہیں پڑھ کر صرف ہنسی آتی ہے اور بس!
کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے اپنی اس خودنوشت میں جس طرح کے مواد پیش کئے ہیں اور جن نکات کو اجاگر کئے ہیں، ان سے یہ کتاب صرف ایک آپ بیتی ہی نہیں، بلکہ جگ بیتی بھی معلوم پڑتی ہے۔اسلوب تحریر نہایت دلکش ہے۔فکری، فنی، سماجی،تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل اور لائق مطالعہ ہے۔مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی اردو ادب اور اردو شاعری میں بہت اہم کردار رہا ہے جس کا ہمیں بلا تفریق مذہب کشادہ چشمی اور کشادہ قلبی سے اعتراف کرنا چاہیے