کشن گنج ڈائری از: خالد مبشر

2
84

26 جولائی 2021

کشن گنج سے روٹانکلتے وقت شمیم ندوی کو فون کردیا تھا کہ ہم ڈاکٹر ظریف احمد صاحب اور انجینئر منصور عالم علیگ صاحب کے ساتھ دو گھنٹے میں آپ سے ملنے آرہے ہیں۔

وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہوں کہ علاقے کے اہلِ علم کا ایک مجمع ہمارے استقبال کے لیے اکٹھا ہے۔

ایسے ایسے چہرے جو اپنی اپنی جگہ آفتاب و ماہتاب تھے۔

کوئی قاسمی، کوئی مظاہری، کوئی ندوی، کوئی مدنی، کوئی علیگ، کوئی جامعی اور کئی ممتاز اداروں سے فراغت یافتہ علما، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، افسر، وکیل اور مختلف میدانوں کے ماہرین کی ایسی خوب صورت نشست بہت شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

مجھے بے ساختہ قوم کے سب سے بڑے بابا کی یاد آگئی۔انھوں نے بھی اپنے عہد کے تمام بڑے دماغوں کو ایک جگہ جمع کرلیا تھا، جس کو تاریخ علی گڑھ تحریک کے نام سے جانتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ مستقبل قریب میں سیمانچل کی علی گڑھ تحریک اسی خطّئہ روٹا سے بپا ہوگی۔

میں جب بھی روٹا آتا ہوں تو مجھے لگتا ہے میں سیمانچل کے دل میں آگیا۔

روٹا سیمانچل کا دل ہے اور اس دل کی سلطنت پہ شمیم ندوی کا راج ہے۔

شمیم ندوی وہ بادشاہ ہیں جن کے سر پہ لعل و جواہر نہیں، علوم و فنون کا تاج ہے۔

شمیم ندوی علم ودانش کے عجیب سنگم ہیں۔بیک وقت وہ ندوہ، جامعہ، جے این یو اور ڈی یو جیسی چار عظیم دانش گاہوں سے فیض یافتہ ہیں۔

سید عالم ندوی اور شمیم ندوی رام لچھمن کی جوڑی ہے۔سید عالم ندوی میں مجھے مولانا سجاد نعمانی کی جھلک نظر آتی ہے۔وہی علمیت، وہی سیاسی و سماجی بصیرت، وہی جذبہ و خلوص اور وہی خدمتِ خلق کا مشن ان کے دل میں موجزن ہے۔

یہاں کوئی شخص مریم گرلز اسکول اور بھاسا باڑی میں گرامر پبلک اسکول کی کچی دیواروں سے جذبہ و خلوص اور ایثار وقربانی کی خوشبو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

مولانا تنویر ذکی مدنی،مولانا محمد اشرف، ایڈوکیٹ کیپٹن عقیل جوہر،اویس قرنی صاحب، مولانا شمشاد، مولانا ذاکر حسین، جعفر صاحب، شاہجہاں صاحب اور امتیاز صاحب وغیرہ احباب سے مل کر دل باغ باغ ہوگیا۔یہ سبھی تعلیم، سماج اور سیاست کے میدان میں جنونی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

Previous articleمولانا محمد اظہار الحق قاسمی بھی چلے گئے از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Next articleدینی اور عصری علوم سے ہی دنیاوی اور اخروی کامیابی ممکن  تسخیر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ”ادارہ علوم اسلامیہ“ میں تعلیمی سلسلے کا آغاز

2 COMMENTS

  1. سفرنامہ کشن گنج مختصرترین مگر دلچسپ ہے۔ ڈاکٹر مبشر نے شاید عجلت میں تحریر کی ہے۔ بہر کیف! مبارک باد پیش کرتاہوں۔

  2. جاوید اختر صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ
    عرض ہے کہ بقول سفرنامہ نگار یہ سلسلہ دراز ہوگا۔امید ہے بقیہ سلسلے کو بھی اسی دلچسپی کے ساتھ پڑھیں گے۔

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here