عصمت دری ،آبرو ریزی ،زنا بالجبر ،کے ساتھ بہیمانہ قتل کے جرائم بھارت میں شب و روز بڑھتے جارہے ہیں ۔ کبھی چار برس کی معصوم بچی کے ساتھ زنا کی خبر ، کبھی گیارہ سال کی بچی کے ساتھ بلاتکار ، کبھی دلت کی بیٹی کے ساتھ حیوانیت ،کبھی مسلمان کی بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھلواڑ، انسانیت کو۔شرمسار کرنے والے ان مجرموں پر پولس کی گرفت سخت کیوں نہیں ہوتی؟ سرکار اپنے پیگاسس جاسوسی وائرس کا استعمال ان درندوں کے لئے کرے جو جانوروں سے بدتر ہوچکے ہیں کبھی دلی کی نربھیا کی آبرو ریزی ہوتی ہے ،کبھی حیدر آباد کی جیوتی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے ساتھ اس کو زندہ نذر آتش کیا جاتا ہے ،کبھی اناؤ کی بیٹی کی عزت لوٹی جاتی ہے ،کبھی علیگڑھ کے ہاتھرس کی بیٹی زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے اور خود اسپتال اور پولس والے اس پر ہوے ظلم کی پردہ پوشی کرتے ہیں ڈاکٹر غلط رپورٹ دیتے ہیں، پولس غلط بیانی کرتی ہے اور رات کے اندھیرے میں پولس کے اہلکار گھر والوں کے بغیر ہی لاش کو پٹرول چھڑک کر جلا دیتے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے؟ یہ کیسی حکومت ہے؟
جہاں خواتین کو جینے کا حق نہیں یہ کیسا تعلیم یافتہ سماج ہے؟ جہاں بیٹیوں کی عزت محفوظ ہے نہ زندگی ؟ ابھی ایک سال پہلے ہاتھرس کی بیٹی کے ساتھ یہ دردناک حادثہ گزرا ہے اور اب یہ نیا کیس رابعہ سیفی کے ساتھ زنا بالجبر اور بہیمانہ قتل کا دردناک واقعہ ، ظلم اور بر بریت کی انتہا ہے، ایک تعلیم یافتہ اور باشعور لڑکی سول ڈیفینس میں کام کرنے والی ہونہار رابعہ کو کس نے اغوا کیا ؟ کس نے عصمت دری کی ہمت کی ؟ کس نے رابعہ کو مارڈالا ؟ اور کون ہیں وہ درندہ صفت لوگ؟ کس نے جھاڑیوں میں لاش پھینکی ؟ رابعہ کا مجرم اور اصل قاتل کون ہے؟ اس کا پتہ لگانے کا کام پولس کا ہے مگر دلی پولس بھی یوپی پولس کی طرح مجرموں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے تبھی تو نہ دلی پولس پتہ لگانا چاہتی ہے نہ گودی میڈیا، ملک کے دونوں شعبوں، ایک پولس دوسرا گودی میڈیا جس نے اپنی شرم بیچ کھائ ہے جو حلق پھاڑ کر چلاتے ہیں تو صرف مسلمانوں کے خلاف اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں ان کے گلے میں سرکار کی ہڈی اٹک جاتی ہے ۔ نربھیا کیس ہوا تو ملک کے کونے کونے سے، ہر شہر ہر گلی ہر کوچے سے آواز بلند ہوئ مگر رابعہ کی عصمت دری ہوئ رابعہ کا قتل ہوا تو ہر طرف خاموشی ہے ۔ایسا کیوں ؟ کیونکہ اس قتل میں عام لوگ شامل نہیں ہیں رابعہ کے قاتلوں کے ہاتھ یقینا لمبے ہونگے ، یا اس لئے کہ رابعہ مسلم قوم سے تعلق رکھتی ہے ؟ عام آدمی پارٹی ہو یا بی جے پی کانگریس ہو یا سماج وادی پارٹی، سب خاموش ہیں، بیٹی کسی بھی مذہب کی ہو گھر اور ملک کی عزت ہوتی ہے ۔ سرکاریں کیوں خاموش ہوجاتی ہیں؟ اور کسی بےگناہ کو کیوں مجرم بنا دیتی ہیں؟ کون ہے یہ بہروپیا نظام الدین جو خود کو رابعہ کا شوہر بتا تا ہے اور جرم کا اقبال کرتا ہے؟ اس کا نکاح نامہ کہاں ہے ؟ یا اسے بھی بلی کا بکرا بنایا گیا ہے تاکہ اصل مجرم کو بچایا جا سکے ، جیوتی سے سوال کیوں نہیں کیا پولس نے جو رابعہ کی کولیگ ہے ؟ اروند مہرا سے کیوں پوچھ تاچھ نہیں ہوئ؟ جو رابعہ کا افسر ہے جس نے رابعہ کو اپنے خزانے کی چابھیاں دے رکھی تھیں ، رابعہ اروند مہرا کا کون سا راز جان گئ تھی ؟ رابعہ کو کیوں مارا گیا؟ سرکار کا آئ ٹی سیل مجرموں کو پکڑنے میں مد د نہیں کرتا ہے ، اس راز سے پردہ اٹھانا میڈیا کا کام ہے مگر میڈیا تو مودی سرکار کی گود میں بیٹھی ہے کیسے بڑے بڑے لوگوں کے راز افشا کرے ؟ حق اور انصاف کی پہلی صدا ایم آئ ایم یعنی مجلس اتحاد المسلمین نے بلند کی ہے ،ایم آئ ایم کی دلی شاخ کے صدر کلیم الحفیظ صاحب نے رابعہ کے لئے آواز اٹھائ ہے امید کرتی ہوں وہ مجرموں کا وہ راز جو حکومت کے اعلی افسران اور رہنما چھپا نا چاہتے ہیں پوری ایمانداری سے فاش کریں گے ۔ اور مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچا نے میں قانون کی مدد کریں گے،سیاست کی کرسی سے ایمان اور انصاف کا خون ہوتا رہا ہے ۔کلیم الحفیظ صاحب کے لئے دعا گو ہوں کہ اللہ ان کو صداقت کا علمبردار بناے ،شجاعت کا پیکر بناے ،اور بہترین رہنما بناے ، وہ بہترین انسان ہیں حق گوئ و بے باکی کی مثال ہیں ۔ سماج اور قوم کی خدمت کا جزبہ ہے ان کے اندر ، اللہ خدمت خلق کا یہ جذبہ ہمیشہ قائم رکھے ۔تمام قارئین سے میری گزارش ہے کہ آپ سب رابعہ سیفی کے لئے انصاف کی مانگ کیجئے آپ سب کے گھروں میں بیٹیاں ہیں ۔تمام طلباء و اساتذہ کرام سے گذارش ہے آپ بھی رابعہ کے لئے انصاف کی مانگ کریں ، تمام ماؤوں اور بہنوں سے گذارش ہے کہ رابعہ کے لئے آواز اٹھائیں ۔رابعہ کو انصاف دلائیں ۔اس کے گھر والوں کے ساتھ کھڑے ہوں ۔
یقین کریں معزز و محترم قارئین جب ایسا درناک واقعہ کسی بیٹی کے ساتھ ہوتا ہے میرا قلم غیظ و غضب سے تھر تھرانے لگتا ہے میرا قلم میرا ساتھ چھوڑ دیتا ہے ۔ حکومت اور شعبہ محافظت سے سوال کرنا چاہتی ہوں کہ بیٹیوں پر اور کتنے ظم ڈھائے جائیں گے؟ انسانیت اور کتنی شرمسار ہوگی؟ ابھی تو سات سال کی ایک طویل مدت اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر احتجاجی مظاہروں اور ظلم کے خلاف پر زور مخالفت کے بعد ایک بیٹی کو انصاف ملا تھا۔ابھی تو بیٹیاں جی بھر کے خوش بھی نہیں ہوئ تھیں کہ پے درپے اس طرح کے وحشیانہ گینگ ریپ کے درد ناک،اذیت ناک جرائم کھلے عام سامنے آرہے ہیں کہ جسم ہی نہیں روح بھی سہر اٹھتی ہے۔کہاں سے آرہا ہے یہ وحشی پن یہ درندگی کا سبق کہاں سے پڑھ رہے ہیں ہمارے سماج کے نوجوان ؟ معاشرہ کس سمت میں جارہا ہے؟ کبھی جیوتی، کبھی آشا،ا کبھی منیشا، کبھی رابعہ ہر بار بیٹی ہی لوٹی جاتی ہے اور اب تو ستم اس سے بھی آگے زندہ جلادی جاتی ہے یا قتل کر دی جاتی ہے ، ابھی حیدر آباد کی میڈیکل کی طالبہ کے ساتھ ایسا ہی اذیت ناک گینگ ریپ ہوا تھا اور پھر ظالم وحشیوں نے اس معصوم کو زندہ جلا ڈالا تھا ابھی وہ زخم بھرا بھی نہیں تھا کہ ہاتھرس کی منیشا پھر ایسی ہی درندگی کا شکار ہوگئ تھی اب رابعہ درندوں کا شکار ہوگئ ہے ۔ ڈی ایم کے آفس میں کام کرنے والی ایک لڑکی غائب ہوجاتی ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی چند روز کے بعد لاش جھاڑیوں میں ملتی ہے اور پولس خود سے من مانی رپورٹیں بنا تی ہے یہ سب کیا ہے؟ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت ظلم کا ساتھ دے رہی ہے۔شعبہ پولس کے محافظوں نے بے حسی اور بے شرمی کی انتہا پار کردی ہے۔ ایسے افسران سے ان کی ور دیاں ان کے تمغے انکی ملازمت فوری طور پر۔ چھین لینے چاہیے ۔ نربھیا سولہ روز تک موت اور زندگی سے جنگ لڑتی رہی جسم زخموں سے چور تھا روح بری طرح گھایل تھی۔
ایک لڑکی کے ساتھ چار چار انسان کی شکل میں بھیڑیوں نے اپنی مردانگی کے جوہر دکھائے تھے منیشا ایک ہفتے سے زیادہ بے ہوش رہی اس کے دل و دماغ پر کتنی کاری ضرب لگی ہوگی ؟ اس نے زخموں سے چور حالت میں ہوش میں آتے ہی اپنی کمزور اور لڑکھڑاتی آواز میں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی حقیقت بیان کردی ۔ مگر رابعہ تو کچھ بھی نہ بتا سکی اور ایک معصوم زندگی ہوس کی بھینٹ چڑھ کر زندگی کی جنگ ہار گئ تو کیا اسے انصاف کی جنگ بھی ہار جانا چاہیے؟ ۔شعبئہ پولس کا گھناؤنا چہرہ دیکھکر،ان کی بدتمیزیوں ،اور ان کی بے حسی پر افسوس بھی ہوتا ہے اور شدید غصہ بھی یہ آئ جی ، ڈی آئ جی، کمشنر، ایس پی کیا اسی لئے پولس افسر وردی پہنتے ہیں کہ قانون کے ساتھ کھلواڑ اور انسانیت کو شرمسار کرتے رہیں؟ کیا ذات پات رنگ نسل کی سیاست ،انسانیت کو یونہی قتل کرتی رہے گی۔شرم آتی ہے ایسی ماؤں پر جو اپنے ایسے درندہ صفت لڑکوں کے جرم پر پردہ ڈالتی ہیں ۔
کیا غریب اور دلت کی بیٹی یا دنیا کی کوئ بھی بیٹی یا عورت اس طرح کا ظلم سہنے کے لئے پیدا ہوئ ہے؟ کیا ان پولس والوں کے گھر بیوی، بیٹی یا بہن نہیں ؟ ظلم کی انتہا اس ملک میں ہوگئ جو گاندھی کا دیش ہے جہاں مریادا رام نے شبری کے جوٹھے بیر کھاکر ذات پات کی دیوار کو توڑ دیا تھا جہاں ہنومان کی پوجا ہوتی ہے جس نے رام کی بیوی سیتا کو راون سے بچایا جانور بھی عورت کی عزت بچا کر مہان ہوگئے مگر لعنت ہے ایسے ٹھاکر ، پنڈت، یوگی ڈھونگی پاکھنڈی وحشی جنگلی جانوروں سے بھی بدتر انسانوں پر جو ایک عورت کی عزت لوٹتے وقت حیوا نیت کی بھی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں ۔لعنت ہے ایسے وکیلوں پر جو ایسے درندوں کو بچانے میں مدد کرتے ہیں ۔لعنت ہے ایسی سرکار پر جس نے معصوم کے زخموں کو نہیں دیکھا سچ تو یہ ہے کہ بیٹیوں کے قاتل صرف وہ درند ےنہیں بلکہ ہمارا پورا معاشرہ ،حکومت ، وزیر اعظم، وزیر اعلی اور وہ تمام پولس اور معاشرے کے لوگ ہیں بھی جو اس مظلوم کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں ۔ کاش کہ ہر انسان کا ضمیر جاگ جائے ۔حکومت بے گناہوں پر این ایس اے لگاتی ہے اور مجرموں کی پیٹھ تھپتھپاتی ہے۔پولس کا کردار بہت زیادہ خطرناک ہوتا جارہا ہے۔صحافت الگ بے لگام ہے ۔بیٹوں کے لئے انصاف کو ن مانگے گا؟۔رہنماؤں کے غلیظ چہرے بھی دیکھنے کو ملے بیٹیوں کی عصمت دری ، آبرو ریزی اور قتل پر سیاست کی جاتی ہے۔میں سکتے میں ہوں کبھی دہلی کبھی حیدر آباد کبھی کانپور، کبھی مظفر پور کبھی علی گڑھ کبھی ہاتھ رس کبھی بلرام پور کھبی بھدوہی یہ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ بھارت کا کون سا روپ ہے ؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کا مشن” بیٹی بچاؤ ہے یا بیٹی جلاؤ” ؟ عام آدمی پارٹی کی سرکار بھی بے حس ہی نکلی ، وزیر اعظم نریندر مودی جی کب تک بیٹیاں لوٹی جائنگی ان ہوس کے بھوکے کتوں کے لئے کوئ اسپیشل پاگل خانے بنوائئے ان کو زنجیروں میں جکڑ کر ساری عمر کے لئے قید کرئے یا ان کی شرم گاہوں کو کٹوا کر پھینک دیجئے ۔ چوراہے پر ننگا لٹکا کر ان کو اتنا سنگ سار کریئے کہ گناہ اور ظلم بھی پناہ مانگنے لگے ۔پولس مظلوم کی حفاظت کے بجاے مظلوم کو ڈراتی ہے دھمکاتی ہے خواتین کے ساتھ دھکا مکی کرتی ہے بدتمیز ی کرتی ہے صحافی خاتون کے ساتھ بھی بد سلوکی یہ رام راجیہ کا کون سا روپ ہے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ ہو ں یا اروند کیجری وال ؟ ہم نہیں مانتے ایسی سرکار کو کیا ان کو ظلم اور جرم کو فروغ دینے کے لئے وزیر اعلی کا عہدہ سونپا گیا ہے؟ میں دنیا کی تمام خواتین سے دست بستہ گذارش کر رہی ہوں کہ چاہے وہ ڈاکٹر ہوں ، ٹیچر ہوں، پولس ہوں، صحافی ہوں، قانون دان ہوں، اداکارہ ہوں یا صرف عورت ہوں رابعہ اور اس جیسی تمام مظلوم لڑکیوں کے حق کے لیے، انصاف کے لئے ایک ساتھ ایک پلیٹ فارم پر آجائیں اپنی بربادی کا انتظار مت کریں ۔بے حسی اور خود غرضی کی چادر اتار پھینکیں اے ماؤں اور بہنو خوف کا گھونگھٹ الٹ دو ۔ہم لوگ 50 % ہیں چاہیں تو کسی کا بھی تختہ پلٹ سکتے ہیں ۔ کب تک بیٹیاں ہوس کی آگ میں جلائی جائینگی؟ شاید جانوروں میں ایسی بد صفت نہیں ہوگی کہ کئ جانور ایک ساتھ ایک مادہ کے ساتھ یوں بےرحمی سے اپنی نفسانی خواہشات کو تکمیل دیں ۔یقین جانیں ذہن سکتے میں ہے اب تک قلم بہت ناراض ہے روشنائی دہشت میں ہے کاغذ رنج و غم کی کیفیت سے دوچار ہے اور بیٹیوں کے جسم کہ رہے ہیں
زخم دو چار نہیں سارا بدن چھلنی ہے
درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے