عقلمندی و دانائی اللہ رب العزت کی عظیم نعمتوں میں سے ہے؛اسی وجہ سے جو شخص جسقدر عقلمندی کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے،وہ اسی قدر دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے۔یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ عقلمندی و دانشمندی کا معیار کیا ہے اور ہم کسی کے تعلق سے کس طرح یہ طے کریں کہ فلاں شخص عقلمند ہے یا نہیں۔اس سوال کا جواب مختلف طبقات اور مختلف فکروں کے حامل افراد الگ الگ طریقوں سے دیتے ہیں۔در اصل یہ افراد کامیابی کو عقلمندی کا معیار سمجھتے ہیں؛ اس پیمانے کے حساب سے جو جتنا کامیاب ہے وہ اتنا ہی عقلمند ہے۔ یہاں تک تو بات معقول ہے لیکن جب اس سے آگے بڑھتے ہیں اور کامیابی کا معیار طے کرتے ہیں تو اس میں لوگوں کی آرا ء مختلف ہوجاتی ہیں۔چنانچہ کچھ لوگوں نے محض مالداری کو کامیابی کا معیار مان لیا ہے تو کچھ لوگوں نے نرا اعلی تعلیم کو کا میابی کی معراج سمجھ لیا ہے؛ جبکہ کچھ دوسرے لوگ صرف مد مقابل کو کسی بھی طرح زیر کرنے کو کامیابی گردانتے ہیں اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو دنیا سے ہر طرح کی لاتعلقی کو کامیابی کا مدار سمجھتے ہیں۔
اگر عقل سلیم کو بروئے کار لا کر کامیابی کے تعلق سے مذکورہ نظریوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ نظرئیے جزئی طور پر درست ہو سکتے ہیں، کلی طور پر نہیں۔پھر یہاں یہ سوال قائم ہوتا ہے کہ کامیابی کے اصل معیار کو جاننے اور اس بنیاد پر حقیقی عقلمندی کو طے کر نے کے لئے کیا کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کے لئے اس ذات کے کلام کو پڑھنا ہوگا جو حقیقت میں عقلمندی اور کامیابی عطاء کرنے والے ہیں؛ وہ ذات کوئی اور نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ چنانچہ اللہ رب العزت نے عقل سلیم رکھنے والوں کے لئے قرآن مجید میں بار بار اولو الالباب کا ذکر فرمایا ہے۔چنانچہ سورہ ب زمرکی آیت ۹ میں ارشاد باری تعالی ہے: ”اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔”اس آیت کریمہ میں عقل والوں کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نصیحت قبول کرتے ہیں۔صرف اسی ایک صفت سے ہمارے لئے زیر بحث موضوع کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ عقلمند اسی کو کہا جائے گا جو اپنی دین و دنیا کی کامیابی کے لئے اللہ رب العزت اور رسول اللہ کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہویعنی نصیحت قبول کرے۔
اب ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ ایک مسلمان کی دنیاوی زندگی درحقیقت اخروی زندگی کی تیاری کے لئے میدان عمل ہے۔اس اعتبار سے اس دنیا میں انجام پانے والے تمام اعمال کا اثر آخرت کی زندگی پر ہوگا،اب یہ اعمال چاہے خالص دینی قبیل کے ہوں یا بظاہر وہ اعمال دنیاوی شمار ہوتے ہوں۔اس فلسفے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔حضرت ابو یعلیٰ شدّاد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’دانش مند ہے وہ شخص جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے تیاری کرتا رہے اور نادان ہے وہ شخص جونفسانی خواہشات کی پیروی میں لگا رہے اور اللہ تعالیٰ سے لمبی لمبی آرزوئیں باندھتا رہے۔ (جامع ترمذی)
اس حدیث مبارک سے جہاں عقلمند شخص کی تشخیص ہوتی ہے وہیں اصل بیوقوف کون ہے اس کا بھی علم ہوتا ہے۔یہیں سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ لوگوں نے خود ساختہ طریقے سے لوگوں کو جو بیوقوف سمجھنے کا معیار قائم کر رکھا ہے وہ شریعت کی نظرمیں صحیح معنوں میں درست نہیں ہے۔مثال کے طور پر آج عموما بیوقوف انہیں سمجھا جاتا ہے جو جدید فیشن کو نہ اپنائے یا مذہب کا پابند ہو، جبکہ از روئے شریعت اصل بیوقوف وہ ہے جو نفسانی خواہشات کا اسیر ہو یعنی رب چاہی زندگی چھوڑ کر من چاہی زندگی گزارے۔
جس طرح عقل اللہ کی عظیم نعمت ہے،اسی طرح بیوقوفی حرماں نصیبی کی علامت ہے،اسی وجہ سے ہمیں جان بوجھ کر نفسانی خواہش کا اسیر بن کر بیوقوفی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ ہر شخص کی آخری منزل آخرت ہے اسی وجہ سے اس دنیا ں میں ہمارے تمام کا موں کا محور آخرت کی تیاری ہونی چاہئیے اور اسی میں حقیقی عقلمندی ہے۔عقلمندی اور بیوقوفی کے اسی پہلو کو ذیل کے مشہور حکایت سے ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں:
ایک روز ہارون الرشید نے ملاقات کے دوران اپنے ہاتھ میں تھامی ہوئی چھڑی حضرت بہلول کو دی اور کہا کہ یہ چھڑی امانت کے طور پر دے رہا ہوں، یہ اس شخص کو دے دیجیے گا جسے آپ خود سے زیادہ بے وقوف پائیں۔ بہلول نے وہ چھڑی رکھ لی۔ کہتے ہیں کہ ہارون الرشید کی بہلول سے کافی بے تکلفی تھی اور خلیفہ نے انھیں یہ چھڑی دے کر گویا یہ کہنا چاہا تھاکہ دنیا میں بہلول سے زیادہ بے وقوف انسان کوئی نہیں ہے۔
کئی سال بیت گئے۔ ہارون الرشید کے سخت بیمار ہونے کی اطلاع ملی تو بہلول عیادت کو پہنچے اور پوچھا: امیر المومنین کیا حال ہے؟ہارون الرشید نے کہا: کیا حال سنائوں، ایک لمبا سفر درپیش ہے۔ بہلول نے کہا اچھا تو اس سفر کی کیا تیاری کی؟ وہاں پر آپ نے کتنے لشکر بھیجے ہیں، کتنے خیمے اور دیگر آرائش و اسباب کے کیسے انتظامات کیے ہیں؟
ہارون الرشید نے کہا: بہلول کیسی عجیب بات کرتے ہو، وہ سفر ایسا ہے کہ اس میں کوئی خیمہ نہیں جاتا، کوئی لشکر ساتھ نہیں جاتا۔بہلول نے مزید پوچھا: اچھا جناب واپس کب آئیں گے؟ ہارون الرشید نے الجھتے ہوئے کہا کہ تم نے کیسی باتیں شروع کر دی ہیں، وہ سفر آخرت کا سفر ہے، اس سفر پر جانے کے بعد کوئی واپس نہیں آتا۔
اب بہلول دانا نے کہا: امیر المومنین! پھر تو ایک امانت میرے پاس آپ کی بہت مدت سے رکھی ہوئی ہے جو آپ نے یہ کہہ کر دی تھی کہ اپنے سے زیادہ بے وقوف آدمی کو دے دینا، آج مجھے اس چھڑی کا مستحق آپ سے زیادہ کوئی نظر نہیں آتا۔ میں نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ جب آپ چھوٹا سا بھی سفر کرتے اور کہیں جانے کے لیے نکلتے تو خوب تیاری کی جاتی تھی۔ لشکر اور دوسرے اسباب ساتھ ہوتے تھے، لیکن اب جب یہ لمبا سفر درپیش ہے تو اس کی کوئی تیاری ہی نہیں ہے۔مجھے اپنے سے زیادہ بے وقوف صرف آپ ہی نظر آتے ہیں۔ یہ چھڑی آپ کو مبارک ہو۔ حضرت بہلول کی یہ حکمت بھری بات سن کر خلیفہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور تذکروں میں لکھا ہے کہ انھوں نے بہلول ایک مدبر و
دانا تسلیم کیا۔
آئیے! ہم بیوقوفی سے بچنے کی پوری کوشش کریں اور عقل سلیم کو بروئے کار لا کر ابدی کا میابی کو یقینی بنائیں۔