“کائنات” ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر خورشید اقبال کی ضیا پاشی

1
66

نسیم اشک (جگتدل)

رسالہ”کائنات”کو اردو زبان کا اولین آن لائن ادبی ماہنامہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔یہ بہت بڑی بات ہے کہ جس وقت کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی رسائی عام لوگ کے پہنچ سے باہر تھی اور ہم میں سے بیشتر ایسے کسی آن لائن رسالے کی بابت میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے اس وقت ڈاکٹر خورشید اقبال نے یہ کارنامہ انجام دیا۔یہ اردو ادب میں ایک بڑا کارنامہ تھا۔اس کا پرنٹ ایڈیشن بھی آتا تھا۔کسی سبب کچھ سالوں سے منظر عام پر نہ آ سکا لیکن خورشید اقبال نے اس رسالے کو اپنے چند رفیقوں کے ہمراہ پھر سے نکالنے کا فیصلہ کیا اور گذشتہ 4ستمبر کو یہ دوبارہ منظر عام پر آیا جس کے لئے سب سے پہلے میں ان کو اور انکی پوری ٹیم کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آج جب کہ اردو اخبارات اور رسائل بند ہونے کی دہلیز پر کھڑے ہیں “کائنات” نے ان شکستہ رگوں میں پھر گرم خون دوڑا دیا ہے۔یہ رسالہ لوگوں تک مفت رسائی کے بھی انتظامات کر ڈالے گئے ہیں اب اس سے بڑا قدم ایک رسالے کو زندہ رکھنے کے لئے اور کیا ہوسکتا ہے۔پیش نگاہ شمارہ ایک خاص شمارہ ہے جو بنگلہ دیش کے ایک خوبصورت لب و لہجے کے شاعر احمد الیاس کے نام ہے۔

رسالہ اپنے نام کی طرح ادبی کائنات ہے۔ڈاکٹر خورشید اقبال کے اداریے میں اس کی تجدید کے منظر نامے کو پیش کیا گیا ہے۔ایک خوبصورت حمد اور عمدہ نعت سے اس کے مذید صفحیں کھلتے ہیں۔ اس خاص شمارے میں بنگلہ دیش کے احمد الیاس کی شاعری کے حوالے سے اچھی گفتگو ملتی ہے نیز ان سے روشناس ہونے کا موقع بھی نصیب ہوتا ہے اور ان کے کلاموں کو پڑھ کر ایک ترنگ اٹھتی ہے۔ احمد الیاس کی شاعری میں ایک درد پنپتا ہے ایک عہد اپنے کو روتا ہے، شدید کرب کا اظہار ہے انکی شاعری۔ان کے چند اشعار شاید میری بات کی وضاحت کر سکیں۔

مجھے بھی سایہ دیوار اب ملےتو کہیں
میں کتنی دیر کھڑا دھوپ میں رہوں لوگو

آسودۂ نظر نہ ملا کوئی شام کو
آنکھوں میں سب کے خوف زوال سحر کا ہے

جہاں تک کر سکو دیوار و در سے گفتگو کرلو
امیر شہر کی جانب سے یہ اب تک اجازت ہے

میری تاریخ ہے ہجرت کی سند میرے لئے
جس میں اوراق نہ الفاظ ،زمیں اور نہ زماں

لبوں پہ حرف مقدس بھی اب ہے زیر عتاب
اٹھاؤں کیسے بھلا ہاتھ میں دعا کے لئے

احمد الیاس کے متعلق دیگر مضامین بھی معلوماتی ہیں ۔محمد حسن صاحب کا مضمون بھی انکی نظمیہ شاعری کے تناظر میں عرق ریزی سے لکھا گیا ہے۔عمدہ مضامین،غزلوں اور نظموں سے مزین یہ شمارہ ایک گلدستے کے مانند ہے۔افسانے،افسانچے اور انشائے کے علاوہ الحاج ڈاکٹر محمد علی حسین شائق کی کتاب”اترکے” پر محترم عظیم انصاری کا تبصرہ بھی” کتاب نما” کے تحت پیش کیا گیا ہے جو خوش آئندہ ہے۔

اردو کو میں ایک تہذیب سمجھتا ہوں اور تہذیبیں اس وقت تک زندہ رہتی ہیں جب تک اس کے پاسدار زندہ رہتے ہیں۔اردو کے عاشقین دنیا کے مختلف ملکوں میں قیام پزیر ہیں اور اپنے رشحات قلم سے اردو زبان و ادب کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں یہ بین ثبوت ہے کہ اردو زبان کی مقبولیت میں نہ کوئی کمی آئی ہے اور نہ آئے گی جب تک دلوں میں اس کی محبت کی حرارت باقی رہے گی یہ زبان بھی قائم رہے گی اور آنے والی نسلوں کو اپنے اجداد کی روداد سناتی رہی گی جس سے نئےدلوں میں اسکی پرانی محبت کی حرارت جنون اور حوصلہ پیدا کرتی رہے گی۔

گرچہ میں بہت کم سواد ہوں مگر تمام مشمولات کے معیار پر صاد کرتا ہوں۔ “کائنات”کے چیف ایڈیٹر،سب ایڈیٹر اور اسوسی ایٹ ایڈیٹرز کے ساتھ ساتھ تمام قلمکاروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور “کائنات” کے حق میں جگ کے پالن ہار سے دعا کرتا ہوں کہ یہ رسالہ مذید ترقی کی منزلوں کو طئے کرتا رہے۔آمین۔

ہولڈنگ نمبر10/9گلی نمبر3
جگتدل 24 پرگنہ مغربی بنگال
فون۔9339966398

Previous articleمولانا سید جلال الدین عمری کی حیات و خدمات پر خصوصی اشاعت
Next articleگداگری ____

1 COMMENT

  1. ماشاء اللہ ۔۔۔۔بہت عمدہ۔۔۔اللہ آپکے قلم میں اور قوت دے ۔۔۔۔آپ مزید اردو کی خدمت کرے ۔۔۔۔آمین یا ربّ العالمین

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here