ڈاکٹر ظفرکمالی
زیڈ اے اسلامیہ کالج(سیوان)
اردو کے مشہور و معروف ترقی پسند ادیب اور نقاد ڈاکٹر محمد حسن کا ڈراما ’ضحاک‘ ان ایام میں لکھا گیا جب ہندستان ہنگامی حالات کے دور سے گزر رہا تھا۔ پورا ملک ایمرجنسی کی بندشوں میں جکڑا ہوا تھا۔ محمد حسن نے اس ڈرامے کے ذریعے ایمرجنسی کے دوران ہونے والی زیادتیوں کے خلاف صداے احتجاج بلند کی۔ یہ ڈراما سب سے پہلے جنوری ۔اپریل ۱۹۷۷ء کے ’’عصری ادب‘‘ کے شمارے میں شائع ہوا اور مارچ ۱۹۸۰ء میں کتابی شکل میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا۔ کتابی شکل میں شائع شدہ اس ڈرامے میں پروفیسر گیان چند کے پیش لفظ اور ڈاکٹر محمد حسن کے دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈرامے کی اشاعت کے بعد اس پر مختلف اعتراضات کیے گئے۔ ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ محمد حسن نے مشہور رومان پرست شاعر اختر شیرانی کے ڈرامے ’ضحاک‘ سے سرقہ کیا ہے اور اپنے مآخذ کا اعتراف نہیں کیا۔ یہ الزام عائد کرنے والے حضرات کون ہیں انھوں نے اپنے دعوے کے ثبوت میں کون سے دلائل پیش کیے ہیں ان کا مجھے علم نہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے مشہور صحافی رضوان احمد کے ہفتہ وار اخبار ’’عظیم آباد اکسپریس‘‘ کے شماروں میں اس طرح کی چیزیں طبع ہوئی تھیں لیکن اب وہ باوجود کوششوں کے مجھے دستیاب نہ ہوسکیں۔ پروفیسر گیان چند جین اور محمد حسن نے اس الزام سے برأت کے لیے جو صفائی پیش کی ہے وہ میرے خیال میں ناکافی ہے۔ محمد حسن پر کیے گئے اس اہم اعتراض کی صداقت کو پرکھنے کے لیے ’ضحاک‘ مترجم اختر شیرانی کا تفصیلی ذکر نامناسب نہ ہوگا۔
’ضحاک‘ ایک ترکی ادیب سامی بک (ترکی تلفظ بے) کا ڈراما ہے جس کا ترجمہ اختر شیرانی نے اردو میں کیا ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی نے لکھا ہے کہ اختر شیرانی ترکی زبان سے ناواقف تھے اس لیے براہِ راست ترکی زبان سے ترجمے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔(۱) پھر ڈرامے کا ترجمہ انھوں نے کس زبان سے کیا اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اخترؔ نے کوئی دیباچہ یا پیش لفظ بھی نہیں لکھا ہے۔ ان کا یہ ترجمہ ’بہارستان‘‘ میں اپریل ۱۹۲۷ء سے قسط وار شائع ہونا شروع ہوا تھا۔ کتابی صورت میں اس کی اشاعت کب ہوئی یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔ اس کا صرف ایک ایڈیشن نکلا جس پر سالِ اشاعت درج نہیں ہے۔ ڈاکٹر یونس حسنی نے قیاس کی بنیاد پر اس کی اشاعت ۱۹۳۰ء کے لگ بھگ بتائی ہے۔ اختر شیرانی کا ڈراما کمیاب ہے۔ گیان چند جین کا کہنا ہے کہ ’’اختر شیرانی کا ڈراما کسے دیکھنے کو ملتا ہے۔ ’’خوش قسمتی سے اس کا ایک نسخہ خدابخش لائبریری پٹنہ (نمبر ۷۳۵۳ دسنہ) میں موجود ہے۔ ڈرامے کا سرورق غائب ہے۔ صفحہ ایک تا چار سامی بے کا مقدمہ ہے جس میں انھوں نے ضحاک سے متعلق وضاحتیں پیش کی ہیں۔ ص ۵ پر افرادِ قصہ کا تعارف ہے اور اصل ڈراما ص۶ سے ۱۸۲ تک محیط ہے۔ ص۱۸۴ تا ۱۹۴ مختلف دوائوں کے اشتہارات ہیں۔
سامی بے کے ڈرامے میں جو افرادِ قصہ ہیں ان کی تفصیل یوں ہے:
(۱) ضحاک۔ ایران کا ایک ظالم بادشاہ جس نے شہنشاہ جمشید کی حکومت کا تختہ الٹ کر ایران پر قبضہ جمالیا (۲) قحطان۔ ضحاک کا وزیر (۳) مہرو۔ جمشید کی لڑکی جسے انقلابِ زمانہ نے ضحاک کی خادمہ بنا دیا (۴) خوب چہر۔ (ظاہر میں) ضحاک کی لڑکی، جمشید کی دوسری لڑکی کے بطن سے (حقیقت میں) جمشید کی پوتی (۵) پرویز، (ظاہر میں) قباد زمیں دار کا لڑکا اور ضحاک کا خادم (حقیقت میں) جمشید کا پوتا (۶) فرہاد۔ جمشید کے متعلقین میں سے ایک شخص اور ضحاک کا داروغۂ محلّات (۷) کاوہ ۔ ایک لوہار جس نے ایران کو ضحاک کے پنجے سے آزاد کیا (۸) مہربان۔ کاوہ کی بیوی (۹) بہرام، رستم۔ کاوہ کے لڑکے (۱۰) قباد، خسرو، نوذر، یزد، فریبرز، شیرویہ۔ کاشت کار (۱۱) موبدوں کا سردا رسب سے بڑا موبد۔ مذہبی پیشوا (۱۲) ضحاک کے خادم (۱۳) موبدوں کی جماعت۔ بہت سے مذہبی پیشوا۔ (۱۴) لڑکے اور ایک دیہاتی۔
ڈراما ۵ مناظر اور ۷۱ نظاروں پر مشتمل ہے۔ قصہ اس طرح ہے کہ ضحاک ایک ظالم بادشاہ تھا جس نے جمشید کی حکومت کا تختہ الٹ کر ایران کے تخت پر قبضہ کرلیا۔ وہ سانپوں کا پجاری تھا اور چاہتا تھا کہ ملک کے تمام باشندے سانپوں کی ہی عبادت کریں۔ اس نے تشدد کے زور پر جمشید کے عبادت خانوں کو مسمار کرادیا جہاں آفتاب کی پرستش ہوتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی سلطنت میں جمشید کا کوئی پیرو باقی نہ رہے۔ ایک دن اپنے وزیر قحطان سے مختلف سوالوں کے دوران جب ضحاک کو معلوم ہوا کہ کوہستان کے چرواہے، دیہات کے کاشت کار اور جنگلوں کے خانہ بدوش بدوی اب تک جمشید کے مذہب پر قائم ہیں تو وہ غضب ناک ہواٹھا اور یہ حکم دیا کہ قحطان ایسے تمام لوگوں کے خاتمے کی تدابیر کرے ورنہ اس کی گردن ماردی جائے گی اور اگر اس نے اس فرض کو خوش اسلوبی سے انجام دیا تو وہ اسے اپنی دامادی کا شرف عطا کرے گا۔ قحطان نہایت مسرور ہوا اور تحیر آمیز خوشی کے ساتھ یہ مہم سرکرنے کے لیے روانہ ہوگیا۔ انھی دنوں ضحاک نے یہ خواب دیکھا کہ وہ ایک چرواہا ہے جس کے پاس پہلے دس پندرہ بکریاں تھیں پھر بڑھ کر وہ کئی ہزار ہوگئیں۔ اس کا ایک وفادار کتا تھا جس نے ضحاک سے کہا کہ جب تیرے پاس دس پندرہ بکریاں تھیں تو تو مجھے روٹی دیتا تھا۔ اب تیرے پاس اتنی بکریاں ہیں۔ کیا اب بھی گوشت کے بدلے صرف روٹی پر ہی قناعت کرنی ہوگی؟ اگر تونے مجھے گوشت نہ دیا تو میں تیرے گلّے کی حفاظت نہیں کروں گا اور بھیڑ یا ان سب کا خاتمہ کردے گا۔
موبدوں کے پیشوا نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ یہ دراصل ہمارے معبودوں کی طرف سے ایک شکایت ہے کہ جس وقت آپ ایک مختصر سی جماعت کے حاکم تھے ہمیں بکریوں کا مغز کھانے کو ملتا تھا۔ اب جب کہ حضور فارس جیسی عظیم الشان سلطنت کے شہنشاہ ہیں، بکریوں کا مغز کھلانا حضور کی شان کے خلاف ہے۔ جب حضور والا کے قبضے میں اتنے انسانوں کی جانیں ہیں تو پھر ہمیں آدمیوں کا مغز کھانے کو کیوں نہیں دیا جاتا۔ دوسرے تمام موبدوں نے بھی اس کی تائید کی۔ آخرکار موبدوں کے پیشوا سے صلاح و مشورے کے بعد ضحاک اس بات پر راضی ہوگیا کہ بکروں کے بجاے اب رعایا کے دو لڑکوں کا سر کاٹ کر ان کا مغز سانپوں کو کھلایا جائے گا۔ یہ لڑکے خاص طور سے وہ ہوں گے جو جمشید کے مریدوں کی اولاد ہیں۔ لڑکوں کے انتظام کی ذمے داری فرہاد کو سونپی گئی۔ اسی دوران قحطان نے یہ خوش خبری سنائی کہ :
’’حضور! کل ایک نئی فوج بھرتی کروں گا جس کو نہ تنخواہ دی جائے گی نہ خوراک۔ اس فوج کو کوہستانوں اور دیہات میں منتشر کردیا جائے گا۔ یہ لوگ جہاں کہیں جمشید کے کسی پیرو کو پائیں گے ان کے مویشی چھین لیں گے۔ یہ مالِ غنیمت ان کی تنخواہ اور خوراک کا کافی نعم البدل بھی ہوجائے گا اور ان کی معاش کا ذریعہ بھی۔ حضور! کسانوں کو سیدھا کرنے کے لیے اس سے اچھی کوئی سزا نہیں ہوسکتی۔ یہ لوگ اسی سے ڈرتے ہیں۔ میرا خیال ہے بعض بعض تو فوج والوں کی شکل دیکھتے ہی جمشید کا مذہب چھوڑ دیں گے اور ہمارے معبودوں کی عبادت کرنے لگیں گے۔‘‘(۲)
ضحاک قحطان کی حکمتِ عملی سے بہت خوش ہوا اور موبدوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ کل میری لڑکی خوب چہر کی شادی کی رسم قحطان کے ساتھ ادا ہوگی۔
خوب چہر دراصل جمشید کی پوتی تھی مگر اس راز سے جمشید کی لڑکی مہرو کے سوا کوئی واقف نہیں جسے حالات نے ضحاک کی خادمہ بنادیا ہے ۔ ادھر جب ضحاک ایران کے تخت پر قابض ہوا تو جمشید کے متعلقین میں سے ایک شخص فرہاد نے جمشید کے دو سالہ پوتے فریدوں کو چپکے سے قباد نامی ایک کاشت کار کے حوالے کردیا تاکہ کوئی اس کی حقیقت سے باخبر نہ ہوسکے۔ فرہاد نے جمشید سے نمک حرامی اور ضحاک کے تئیں وفاداری کا ڈھونگ رچایااور داروغۂ محلّات کا عہدہ حاصل کرلیا۔ وہ ہمیشہ پرویز کی دیکھ بھال کرتا رہا اور جب وہ جوانی کی سرحدوںمیں داخل ہوا تو ضحاک کے خادم کی حیثیت سے شاہی محل میں اس کی رسائی کا سامان کردیا۔ فریدوں کی حقیقت فرہاد کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مہرو اور فرہاد دونوں بہت صبر کے ساتھ اپنے راز کو سینے میں دبائے ہوئے ہیں۔ خوب چہر اور فریدوں دونوں چچازاد بھائی بہن ہیں۔ وہ بھی اپنے رشتے کو نہیں جانتے لیکن ایک دوسرے سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔ جب ضحاک نے قحطان کے ساتھ خوب چہر کی شادی کا اعلان کیا تو پرویز کے دل و دماغ پر جیسے بجلی سی گر پڑی۔ خوب چہر بھی اس خبر سے بہت پریشان ہوئی لہٰذا دونوں نے اپنے اپنے مربیوں سے فریاد کی کہ وہ انھیں اس عذاب سے نجات دلائیں لیکن فرہاد اور مہرو ان دونوں کو سمجھانے کے سوا کوئی تدبیر نہ کرسکے یہاں تک کہ نکاح کی گھڑی آن پہنچی لیکن ایجاب و قبول کی رسم ادا ہوتے وقت خوب چہر نے شادی سے انکار کردیا اور ضحاک کے قدموں پر گر کر کہا کہ وہ اسے قتل کردے لیکن اس شادی پر مجبور نہ کرے کیوں کہ وہ اپنا دل کسی اور کو دے چکی ہے۔ لاکھ پوچھنے پر وہ اپنے محبوب کا نام نہیں بتاتی۔ پرویز نے جب یہ دیکھا کہ شادی سے انکار کے جرم میں خوب چہر کی گردن مار دی جائے گی تو اس نے خود ہی آگے بڑھ کر کھلے لفظوں میں یہ کہہ دیا کہ سارا قصور اسی کا ہے۔ اسی نے خوب چہر کو بہکایا ہے۔ یہ سن کر ضحاک نہایت برہم ہوا۔ اس نے فرہاد کو حکم دیا کہ وہ دونوں کو گرفتار کرلے۔ سانپوں کے لیے پہلی قربانی انھیں دونوں کی دی جائے گی۔ یہ واقعات ڈرامے کے پہلے اور دوسرے منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔
ڈرامے کے تیسرے منظر میں قباد ، نوذر، یزد، خسرو، فریبرز اور شیرویہ طلوعِ آفتاب سے قبل پہاڑوں کے درمیان ایک ٹیلے پر بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔ گفتگو کا موضوع ضحاک کا ظلم ہے۔ انھیں اس بات کا دکھ ہے کہ اس ظالم بادشاہ نے ان کے عبادت خانوں کو مسمار کرادیا اور وہ اٹھارہ سال سے پوشیدہ طور پر نوروز کا تہوار منانے پر مجبور ہیں۔ انھیں اسی کا انتظار ہے کہ اس ظلم سے کب نجات ملتی ہے۔ آفتاب کی پہلی کرن کے نمودار ہوتے ہی سب ناچ گانے میں مشغول ہوگئے۔ اسی وقت کا وہ اور اس کے لڑکے کندھوں پر خالی بوریاں رکھے ہوئے وہاں آئے ۔ کاوہ قباد سے باتیں کرنے لگا اور بقیہ بچے ناچنے گانے لگے۔ کچھ دیر بعد کا وہ اپنے بچوں کے ہمراہ وہاں سے رخصت ہوگیا۔ یکایک پرویز بائیں جانب سے نمودار ہوا اور مایوسی کی تصویر بنا ہوا بچوں کو رقص کرتے دیکھنے لگا۔ قباد کی نگاہ جب پرویزپر پڑی تو وہ بہت خوش ہوا۔ دوبرس کی عمر سے ضحاک کے دربار میں جانے تک اس نے پرویز کی پرورش کی تھی۔ قباد کے ذریعے خیریت دریافت کرنے پر پرویز نے خوب چہر سے اپنی محبت کی داستان سنائی اور کہا کہ اسی وجہ سے اس کے قتل کا فرمان جاری ہوا ہے لیکن فرہاد نے قید خانے میں اس کی جگہ اپنے بیٹے کو رکھ کر اسے زبردستی آزاد کردیا ہے۔ یہ سن کر قباد فکر مندہوا اور پرویز کو تسلی دی کہ مایوسی سے امید بہتر ہے۔ آج مبارک دن ہے۔ آئو سب مل جل کر عبادت کریں۔ اسی وقت ایک ٹیلے کی آڑ میں چھپے ہوئے دس پندرہ مسلح سپاہی ان کی طرف بڑھے اور انھیں للکارا کہ جمشیدی مذہب کی عبادت کیوں کررہے ہیں، پھر وہ ان کے تمام جانوروں کو پکڑلے گئے اتنے میں کاوہ اپنے بچوں کے ہمراہ تھکاماندہ وہاں آیا۔ وہ آپس میں بیٹھے صلاح و مشورہ کرنے لگے کہ سپاہی آج جانوروں کو لے گئے، کل اگر جانوروں کے بدلے بچوں کی باری آئی تو وہ کیا کریں گے۔ آخر میں یہ تجویز طے پائی کہ بچوں پر مصیبت آنے پر سب متحد ہوکر اس کا مقابلہ کریں گے۔ اس تجویز کے ساتھ کاوہ نے اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لیا اور سب کو خدا حافظ کہا۔ بقیہ کسان غمگین لہجے میں ترانہ گانے لگے۔ کچھ دیر بعد پھر دس بیس سپاہی نمودار ہوئے اور وہاں موجود سارے بچوں اور پرویز کو حراست میں لے لیا۔ کسانوں کی فریاد کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ سپاہیوں کے چلے جانے کے بعد کسانوں نے مشورہ کیا کہ ہم چل کر کاوہ لوہار سے ملیں اور بچوں کو چھڑانے کی کوشش کریں کیوں کہ ہم اپنی اولاد کو قتل ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔
چوتھا منظر کا وہ لوہار کی بیوی مہربان کی خود کلامی سے شروع ہوتا ہے۔ وہ اکیلی بیٹھی سوچ رہی ہے کہ کاوہ کے کوئلے ختم ہوچکے ہیں۔ رات میں کھانے کو روٹی بھی نہیں ہے اور ابھی تک کوئی کام بھی نہیں آیا۔ اس کے پاس تھوڑی سی دلیا تھی جسے اس نے پکانے کے لیے چڑھا دیا۔ اتنے میں ایک گاہک ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی کلھاڑی لیے ہوئے گھبرایا ہوا آیا۔ مہربان نے اسے سمجھابجھا کر کلھاڑی اس وعدے پر لے لی کہ کاوہ آتے ہی اسے بنادے گا۔ کاوہ جب واپس آیا تو اس نے بیوی سے پوچھا کہ گھر میں روٹی ہے یا نہیں۔ مہربان نے نفی میں جواب دینے کے بعد اسے کلھاڑی بنانے کو کہا، وہ اسے بنانے میں مشغول ہوگیا۔ اس کے دونوں بچے بہرام اور رستم لوہے کے ٹکڑوں کا زنگ صاف کرنے لگے۔ کلھاڑی تیار ہونے پر دیہاتی گاہک نے اسے اجرت کے طور پر دو آنے دیے۔ بہرام اور رستم کا وہ کے کہنے پر بازار سے روٹی لانے چلے گئے۔ وہ بچوں کو جاتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا کہ خدا نھیں ظالم کے ظلم سے محفوظ رکھے۔ مہربان نے حیرت سے پوچھا کہ ظالم کا ظلم کیسا؟ پہلے تو کاوہ نے اسے ٹالنے کی کوشش کی لیکن بیوی کی ضد کے آگے مجبور ہوکر اس نے سانپوں کو بچوں کے مغز کھلانے کا قصہ سنادیا۔ مہربان نے ضحاک کو کوسنا شروع کردیا اور رونے لگی۔ جب بہرام اور رستم روٹی لے کر آئے تو ان سے لپٹ کر پھر رونا شروع کردیا۔ بچوں کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ان کے پوچھنے پر کاوہ اور مہربان انھیں سمجھانے لگے۔ ٹھیک اسی وقت ایک افسر چار سپاہیوں کے ساتھ داخل ہوا اور کاوہ پر یہ الزام لگایا کہ اس نے کسانوں کے ایک غول کے ساتھ جمشید کے مذہب کی رسم ادا کی۔ اس جرم کی سزا کے لیے اس نے سپاہیوںکو حکم دیا کہ وہ اس کے ایک لڑکے کو قربانی کے لیے پکڑلیں۔ کاوہ اور مہربان کے احتجاج اور گریہ و زاری کے باوجود وہ بہرام کو ساتھ لے کر چلے گئے۔ مہربان شدّتِ غم سے بے ہوش ہوگئی۔ ہوش آتے ہی اس نے اپنے شوہر سے پاگلوں کی طرح پوچھا کہ اس کا لڑکا کہاں گیا۔ کاوہ اس خیال کے آتے ہی کہ اس کے بچے کو بکری کی طرح حلال کردیا جائے گا، کانپ اٹھااور اسے کسی طرح سپاہیوں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے چل پڑا۔ ادھر کاوہ گھر سے نکلا، ادھر چار پانچ سپاہی پھر اس کے یہاں آن دھمکے اور زبردستی رستم کو بھی پکڑلیا۔ کاوہ جب مایوس اور نامراد گھر واپس آیا تو دیکھا کہ مہربان بے ہوش پڑی ہے۔ اسے جب یہ معلوم ہوا کہ سپاہی رستم کو بھی پکڑلے گئے تو اس کے دل میں ضحاک کے خلاف نفرت کی چنگاری بھڑک اٹھی۔ اسی وقت قباد، خسرو، نوذر، یزد، شیرویہ اور فریبرز حاضر ہوئے اور کاوہ کو اپنا ماجرا سناکر اسے اس کا وعدہ یاد دلایا۔ کاوہ نے چمڑے اور لکڑی سے بنا ہوا اپنا جھنڈا اور ہتھوڑا اٹھاکر کہا کہ:
’’میں حاضر ہوں، چلو چلیں، اپنے بچوں کو چھڑا لائیں یا دشمنوں سے لڑکے مرجائیں۔‘‘ (۳)
پانچویں اور آخری منظر کی ابتدا میں فرہاد بیٹھا سوچ رہا ہے کہ اس کے فرض نے اسے اس بات پر آمادہ کرہی دیا کہ وہ اپنے لختِ جگر کو جلاد کے حوالے کردے۔ اسے نہایت رنج ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا نورِ نظر قتل کیا جائے گا اور اسے اپنے ہاتھوں سے اس کا مغز نکال کر ان خوفناک کیڑوں کو کھلانا ہوگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے۔مہرونے اس سے بدحواسی کے عالم میں پوچھا کہ کیا خوب چہر اور پرویز کے قتل کا حکم ہوچکا ہے۔ فرہاد کے انکار پر بھی اسے یقین نہیں ہوا اور وہ رونے لگی۔ یکایک پانو کے چاپوں کی آواز سنائی دینے لگی اور ضحاک اپنے خادموں کے ہمراہ نمودار ہوا۔ اس نے پہلے سانپوں کو سجدہ کیا اور ان کے سامنے دوزانو بیٹھ کر کہا کہ ان کے دشمن ان پر قربان کیے جائیں گے۔ اس نے نوکروں کو حکم دیا کہ موبدوں کو جلد بلایا جائے۔ قحطان نے اسی وقت یہ خبر سنائی کہ کل جس دیوانے کے قتل کا حکم صادر ہوا تھا اسے فرار کردیا گیا ہے۔ ضحاک نے فرہاد سے غضب ناک ہوکر پوچھا کہ پرویز کہاں ہے تو اس نے کانپتے ہوئے جواب دیا کہ قید خانے میں۔ اسی وقت قحطان کے اشارے سے سپاہی پرویز کو پکڑے ہوئے داخل ہوئے۔ فرہاد یہ منظر دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ پرویز نے خود ہی تمام واقعات سے ضحاک کو آگاہ کردیا۔ ضحاک نے یہ فیصلہ سنایا کہ فرہاد کو بھی اس جرم کی سزا دی جائے گی لیکن پہلے وہ اپنے لڑکے اور پرویز کے قتل کا پرلطف سماں دیکھ لے۔ چوں کہ قید خانے میں قربانی کے دس پندرہ لڑکے موجود تھے اور قربانی صرف دو کی ہونی تھی اس لیے اس کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے ہوا۔ قرعہ پرویز اور کاوہ کے بیٹے رستم کے نام نکلا۔ خوب چہر پرویز کے نام قرعۂ فال نکلا دیکھ کر بے حال ہوگئی۔ اس نے موبدوں کے پیشوا سے گڑگڑا کر درخواست کی کہ اسے بھی پرویز کے ساتھ قتل کردیں لیکن پیشوا نے اس کی ایک نہیں سنی۔ اس کے حکم سے اس کے ماتحت موبد ہاتھوں میں تیز چھرے لیے ہوئے پرویز اور رستم کو پکڑ کر قربان گاہ کی طرف لے گئے اور چھروں سے ان کی گردن اور سینے کو آہستہ سے چھو کر اپنا بھجن شروع کردیا:
’’جب ہمارے حافظ و ناصر یہ کل معبود ہیں
ہم پہ سب رنج و بلا کے راستے مسدود ہیں
معتقد ان کے ہمیشہ عزت و راحت میں ہیں
اور دشمن سرنگوں لعنت گہہِ ذلّت میں ہیں
اب نہ ……………… غفلت کریں
آئو …………………… عبادت کریں
ہے یہی سجدہ گہہ ہر عام و خاص
آئو مل جل کر کریں سب التماس، التماس‘‘ (۴)
لیکن ابھی موبد پر ویز کا سر کاٹنے ہی کو ہیں کہ باہر کی جانب سے شور و غل کی آوازیں آنے لگیں اور کاوہ لوہار ایک ہاتھ میں جھنڈا اور دوسرے ہاتھ میں ہتھوڑا لیے داخل ہوا۔ پیچھے پیچھے کاشت کاروں کا ہجوم تھا۔ ہجوم نے موبدوں کو چھروں سمیت اپنے قابو میں کرلیا۔ اس خبر کے عام ہوتے ہی کہ ضحاک کو قتل کردیا گیا، موبد بدحواس ہوگئے اور کاوہ سے زندگی کی بھیک طلب کرنے لگے۔ ان مکالموں کو دیکھیے:
’’ہمارے کلیجہ کے ٹکڑوں کو ہماری چھاتی سے الگ کرکے تم ان موذی کیڑوں کا لقمہ بنانا چاہتے تھے؟ آہ! (سانپوں کے پنجرے کو ہتھوڑے مار مار کر چور کردیتا ہے اور ادھر ادھر جو چیز نظر آتی ہے توڑ پھوڑ دیتا ہے) تم ان مردار کیڑوں کی ہمارے بچوں کے مغز سے پرورش کرنا چاہتے تھے؟ کیوں!!
موبد: توبہ ہے ! ہماری توبہ ہے! آج کے بعد ہم سے بڑھ کر ان سے نفرت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔
فرہاد۔ کیوں نہیں! آج سے پہلے تم سے زیادہ ان کی عبادت کرنے والا بھی تو کوئی نہ تھا؟ ان کی خاطر! آہ! ان موذی کیڑوں کی خاطر انسانی جانیں قربان کرنا اور ان کی غذا کے لیے انسانی مغز تجویز کرنا بھی تو تمھارا ہی الہام تھا؟ اب تم کہتے ہو کہ تم سے بڑھ کر ان سے کوئی نفرت نہیں کرے گا۔ خوب!سورج مکھی کے پھول کی طرح کہ جدھر آفتاب ہوتا ہے اسی طرف پھر جاتا ہے۔ کس قدر خوبصورت تخیل ہے۔‘‘ (۵)
لیکن فرہاد ہی کے کہنے پر موبدوں کو قتل نہیں کیا جاتا مگر ان کے گیسو کاٹ کر ان کی داڑھیاں مونڈ دی جاتی ہیں۔ قباد نے کاوہ سے گزارش کی کہ اسی نے سب کو ظالم کے ظلم سے نجات دلائی ہے لہٰذا وہی بادشاہ بننے کا مستحق ہے لیکن کاوہ نے یہ تجویز پیش کی کہ بادشاہ کو جمشید کی نسل سے ہونا چاہیے۔ وہیں فرہاد اور مہرو کے ذریعے ان دونوں رازہاے سربستہ سے پردہ اٹھتا ہے کہ پرویز ہی جمشید کا پوتا فریدوں ہے اور خوب چہرجمشید کی پوتی ہے۔ سبھی نہایت مسرور ہوتے ہیں۔ فریدوں اور خوب چہرہمیشہ کے لیے ایک ہوجاتے ہیں۔ فریدوں کے تخت پر بیٹھنے سے پہلے کاوہ اس سے یہ اقرار کراتا ہے کہ جب تک ایران کا نام و نشان باقی ہے اس جھنڈے اور ہتھوڑے کی عزت کی جائے گی۔ بادشاہ اپنی رعایا کو باپ، بھائی اور اولاد کی طرح سمجھے گا۔ اسے ظلم و ستم سے نفرت ہوگی اور وہ حق و انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑے گا۔ فریدوں کے تخت پر بیٹھتے ہی سبھی یک زبان ہوکر کہتے ہیں:
’’پائندہ باد انصاف ! پائندہ باد نیکی! لعنت برضحاک! لعنت بر ظلمِ ظالم۔‘‘ (۶)
قصہ طویل ہوگیا لیکن اس نزاعی بحث کے خاتمے کے لیے یہ طوالت ضروری تھی۔ سامی بے اور محمد حسن کے ڈرامے کے تقابلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے قصوں میں خاصا فرق ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ مطابقت براے نام ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان دونوں کے تقابل سے واضح ہوتا ہے کہ دونوں کے قصوں میں:
۱۔ محمد حسن کا ڈراما مختصر ہے۔ سامی بے کا ڈراما طویل ہے
۲۔ محمد حسن کا ڈراما انسانی بھیجوں پر زندہ رہنے والے شہنشاہ کی کہانی ہے اور یہاں انسانی ضمیروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ سامی بے کے یہاں ایسی کوئی بات نہیں۔
۳۔ محمد حسن کے یہاں ضحاک کے شانوں پر دو سانپ اگ آئے ہیں جو اپنا پھن مار مار کر اس کی زندگی کو جہنم کا نمونہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس عذاب سے نجات پانے کے لیے بوڑھے کے مشورے پر انسانی بھیجے حاصل کرنے کی مہم شروع ہوئی اور اسی مقصد کے تحت بہت سارے لوگ قتل کیے گئے۔ سامی بے کے یہاں ضحاک کو کسی طرح کا کوئی غم نہیں ہے۔ محض ایک خواب دیکھنے پر موبدوں کی بتائی ہوئی تعبیر کو پورا کرنے کی غرض سے وہ انسانی قربانی کا حکم دیتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ کوئی قتل کیا جائے خود ضحاک قتل کردیا جاتا ہے۔
۴۔ محمد حسن کا ضحاک لوگوں کے سر قلم کراتا، مردوں کو آختہ کراتا اور قلم کاروں کے ہاتھ کٹواتا ہے۔ کافر اور ملحد قبیلوں کو فرقہ وارانہ فساد میں قتل کراتا ہے۔ زیادہ اجرت مانگنے والے مزدوروں اور کسانوں کو گورخرکی کھال میں زندہ سلوا دیتا ہے۔ عورتوں کے رحم نکلواکر پھینکوادیتا ہے۔ اس کے ظلم کا نشانہ کوئی مخصوص طبقہ نہیں بلکہ عام رعایا ہے جب کہ سامی بے کا ضحاک جمشید کے مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو برباد کراتا اور ان کے مویشیوں کو زندہ پکڑوالیتا ہے۔ اس کے ظلم کی تلوار فقط جمشید کے وفاداروں پر چلتی ہے۔
۵۔محمد حسن کے یہاں فریدوں کا وہ لوہار کا بیٹا ہے جو سیستان کی پہاڑیوں کے پار کسانوں کے قبیلے میں مفلسی اور عذاب کے ساے میں پل کر جوان ہوا۔ وہ ایک خود سر، نڈر ، بے باک اور بہادر نوجوان ہے۔ اس کے دل میں خوف کا گزر نہیں اور نہ اس پر کسی کی دھمکیوں کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ ڈرامے میں وہ مزدوروں، کسانوں اور مظلوم طبقوں کا نمایندہ بن کر ابھرتا ہے۔ ضحاک کے ظلم کے خلاف موثر احتجاج کرنے والا وہ پہلا شخص ہے۔ اسی نے ضحاک اور اس کے درباریوں کو پہلی بار یہ احساس دلایا کہ حکمِ شہنشاہی کے منکر ابھی اس دنیا میں موجود ہیں۔ اسی کے ہاتھوں ضحاک اور اس کے ظلم کا خاتمہ ہوا۔ اس طرح وہ مظلوم عوام کانجات دہندہ ثابت ہوتا ہے۔ سامی بے کے یہاں فریدوں جمشید کا پوتا ہے۔ ضحاک کے ذریعے جمشید کی حکومت کا تختہ الٹ دیے جانے پر اس کے فرماں بردار متعلقین میں سے ایک فرہاد نامی شخص نے معصوم فریدوں کو قباد کاشت کار کے حوالے کردیا اور اس کا نام فریدوں کے بجاے پرویز رکھ دیا۔ بڑے ہونے پرہوشیاری سے اس نے پرویز کو شاہی محل میں ملازمت دلوادی اور وہ محل میں ضحاک کے ملازم کی حیثیت سے رہنے لگا۔ اپنی اصلیت کا پتہ چلنے سے پہلے وہ فقط ایک عام انسان اور روایتی عاشق ہے۔ ضحاک کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی اس میں جرأت نہیں۔ عام شاہی ملازمین کی طرح اس کی زندگی بھی خوشامد میں گزرتی ہے۔ اسے دوسروں کی کوئی پروا نہیں اور نہ ظلم و ستم کے متعلق غور و فکر کرنے کی اسے فرصت ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ احسان فراموش نہیں اور خوب چہر سے صدق دل سے محبت کرتا ہے۔ اپنے معشوق کو الزام سے بری کرانے اور اس کی جان بچانے کے لیے وہ ہر الزام اپنے سر لے لیتا ہے۔ اسی طرح اسے یہ بھی گوارا نہیں کہ وہ زندہ رہے اور اس کے بدلے اس کے محسن فرہاد کا بیٹا قتل کردیا جائے۔ اس لیے فرہاد کے ذریعے ضحاک کی قید سے فرار کردیے جانے کے باوجود وہ خود ضحاک کے سامنے حاضر ہونے کو تیار ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے کہ قید سے فرار کے بعد سپاہی کسانوں کے بچوں کے ہمراہ جب اسے گرفتار کرتے ہیں تو وہ ہنسی خوشی خود کو ان کے حوالے کردیتا ہے لیکن ان سب کے باوجود محمد حسن کے فریدوں کے سامنے سامی بے کافریدوں طفلِ مکتب ہے۔
۶۔محمد حسن کے یہاں کاوہ صرف ایک جگہ فریدوں کے باپ کی حیثیت سے آیا ہے۔ ضحاک کا خاتمہ فریدوں کے ہاتھوں ہوتا ہے اور وہی حکومت کی باگ ڈور سنبھالتا ہے۔ سامی بے کے یہاں ضحاک کی حکومت کا خاتمہ کا وہ لوہار کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ ضحاک کو قتل کردینے کے بعد وہ خود تخت پر نہیں بیٹھتا بلکہ نسلِ جمشید ی کے ایک شخص فریدوں کو یہ منصب عطا کرتا ہے۔ اس طرح محمد حسن کے یہاں حکومت ظالم بادشاہ کے ہاتھوں سے نکل کرکسانوں اور مزدوروں کے ہاتھ میں آجاتی ہے جب کہ سامی بے کے یہاں سلطنت ایک بادشاہ سے دوسرے بادشاہ کو منتقل ہوتی ہے۔ انھوں نے ظلم کے خلاف انسان اور انصاف کا ساتھ دیا مگر وہ شہنشاہیت سے آگے نہ بڑھ سکے۔‘‘ (۷)
۷۔ محمد حسن کے یہاں ضحاک کی بیوی نو شابہ ایک کسان کی بیٹی ہے۔ سامی بے کے یہاں ضحاک کی بیوی مہروجمشید کی لڑکی ہے۔ محمد حسن کے یہاں ضحاک اپنی بیوی سے خلوت میں محو گفتگو ہوتا ہے۔ اس سے اپنی محرومیاں اور مصائب بیان کرتا ہے اور اس سے مدد کا خواستگار ہے۔ نوشابہ کا کردار ڈرامے میں بہت اہمیت رکھتا ہے جب کہ سامی بے کے یہاں مہرو رونے دھونے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ ضحاک بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اس کردار کی اہمیت فقط اتنی ہے کہ وہ اس راز کو کہ خوب چہرضحاک کی بیٹی نہیں، راز رکھنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
۸۔محمد حسن کے یہاں ضحاک کا وزیر اپنے آقا کافرماں بردار ہے۔ وہ حقِ نمک ادا کرنا جانتا ہے۔ اپنے آقا کو سانپوں کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر اسے خود کسی کروٹ چین نہیں۔ سانپوں کے لیے انسانی بھیجوں کا نسخہ معلوم ہونے پر وہ لمحہ بھر کے لیے ہراساں ضرور ہوتا ہے لیکن فوراً ہی اپنی گھبراہٹ پر قابو پالیتا ہے اور ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے کہ کوئی بادشاہ کو ظالم تصور نہ کرے۔ اس کے لیے وہ اپنی غیرت و حمیت کو بھی دانو پر لگا دیتا ہے۔ وہ خود غرض، طمع پرور، حریص اور لالچی ہے۔ وہ ایسی حکمتِ عملی سے کام لیتا ہے جس سے اس کی دانش مندی اور ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔ منفی خصوصیات کا حامل ہوتے ہوئے بھی یہ کردار اپنی علاحدہ آن بان اور شان رکھتا ہے اور اس شان و شوکت میں وہ کہیں فرق آنے نہیں دیتا۔ وہ ہر طرح وزیراعظم کہلانے اور اس عہدے کا مستحق ہے سامی بے کے یہاں ضحاک کا وزیر وزارت کے نام پر ایک بدنما داغ ہے۔ وہ فریبی، عیار اور لالچی ہے۔ بادشاہ کے تئیں اس کے دل میں کہیں بھی محبت کی جھلک نظر نہیں آتی اور نہ اسے بادشاہ کی بدنامی کی کوئی فکر ہے۔ ضحاک کا داماد بننے کی خاطر وہ مذموم حرکتیں بھی کرتا ہے اور سازشوں سے کام لیتا ہے۔ اپنے رویے، ذہنیت اور طرزِ گفتگو سے وہ معمولی فلمی ویلن معلوم ہوتا ہے۔ اس کا ذہن بیمار ہے۔ وہ کسی بھی زاویے سے وزیراعظم کے عہدے کا حق دار نہیں۔
۹۔ محمد حسن کے یہاں راہب محض ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈور کا سرا وزیراعظم کے ہاتھوں میں ہے۔ راہب اپنی مرض سے لب بھی نہیں ہلاسکتا۔ وہ وہی کہتا اور کرتا ہے جو وزیراعظم چاہتا ہے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ سانپوں کی غذا کے لیے انسانی قربانی کو مذہبی اعتبار سے جائز قرار دے۔ اس لیے راہب کے کردار کی حیثیت صرف ربراسٹامپ کی ہے لیکن سامی بے کے یہاں موبدوں کا پیشوا مجبورِ محض نہیں ہے۔ شاہی محل میں اس کا کافی اثر ہے، یہاں تک کہ بادشاہ بھی اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتا۔ موبد خواب کی جو تعبیر بتاتا ہے ضحاک اسے کسی ردوقدح، ہچک اور اعتراض کے بغیر قبول کرلیتا اور اسے عملی شکل دینے کے احکام جاری کردیتا ہے۔
۱۰۔ محمد حسن کے ڈرامے میں بوڑھا، فوجی افسر، رقاصہ، شاعر اور جج اہم کردار ہیں۔ انھیں کی وجہ سے تصادم میں شدّت اور کش مکش میں اضافہ ہوتا ہے۔ سامی بے کے یہاں ایسا کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ برخلاف اس کے سامی بے کے ڈرامے میں خوب چہر اور فرہاد اہم کردار ہیں۔ ان کی وجہ سے ڈرامے میں کئی اہم موڑ آتے ہیں محمد حسن کے یہاں اس نام کا کوئی کردار نہیں۔ اس کے علاوہ سامی بے کے یہاں مہربان، بہرام، رستم، قباد، خسرو ،نوذر، یزد، فریبرز اور شیرویہ نامی کردار ہیں لیکن محمد حسن کے یہاں نہیں۔ دونوں ڈراموں میں کرداروں کی اس عدم مطابقت کی وجہ سے بھی ان کے قصوں میں مشابہت نہیں کے برابر ملتی ہے۔
۱۱۔ محمد حسن کے یہاں عاشق و معشوق کا کوئی کردار نہیں لہٰذا یہاں رومان کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سامی بے کے یہاں رومان کا پہلو زیادہ ہے۔ اس ڈرامے میں دو روایتی عاشق و معشوق موجود ہیں جو ایک دوسرے کے عشق میں جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔
۱۲۔ محمد حسن کے ڈرامے میں خود کلامی نہیں ہے۔ سامی بے کے یہاں طویل خود کلامیاں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ کئی ’’نظارے‘‘ خود کلامی سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر محمد حسن اور اختر شیرانی کے ترجمہ کردہ ڈرامے میں بس اس قدر مشابہت ہے کہ دونوں ڈراموں کا نام ’’ضحاک‘‘ ہے۔ دونوں ضحاک ظالم ہیں۔ لوگوں کو قتل کرانے میں دونوں کو کوئی عار نہیں اور آخر میں دونوں کی حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ورنہ دونوں ڈراموں میں پیش آنے والے واقعات و حادثات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ ڈرامے کے کردار بھی ایک دوسرے سے کوئی خاص مماثلت نہیں رکھتے۔ دونوں کا مرکزی کردار بالکل جدا ہے۔ دونوں کے مکالمے ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محمد حسن کے ڈرامے کا پلاٹ جس قدر عمدہ ہے، واقعات کا بہاو جس قدر تیز ہے، کش مکش اور تصادم کی فضا جس طرح پورے ڈرامے کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے، مکالموں میں جیسی تندی اور تیکھاپن ہے، قدم قدم پر جس طرح ڈرامائی موڑ وجود میں آتے ہیں حتیٰ کہ ڈراما اختتام تک پہنچتے پہنچتے جس طرح قاری کے دل و دماغ پر چھاجاتا ہے، سامی بے کے یہاں ان سب چیزوں کا فقدان ہے۔ ڈرامے کا پلاٹ خاصا کمزور ہے۔ واقعات کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتے ہیں۔ فرہاد، مہرو، خوب چہر اور فریدوں کش مکش کا شکار ضرور ہیں لیکن اس کش مکش میں شدت نہیں۔ تصادم براے نام ہے۔ مکالمے عموماً روکھے پھیکے اور بے کیف ہیں۔ ڈراما ختم ہوتے ہوتے دماغ بالکل تھک جاتا ہے محمد حسن کے ضحاک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں شروع سے آختر تک دل چسپی موجود ہے لیکن سامی بے کے یہاں دل چسپی کی یہ فضا برقرار نہیں رہ پاتی۔ ’’آہ‘‘ اور’’ ہاے‘‘ کا استعمال اس کثرت سے کیا گیا ہے کہ کرداروں سے ہمدردی ہونے کے بجاے بدگمانی پیدا ہونے لگتی ہے ، جی اوب جاتا ہے اور مکالموں میں تصنع کی جھلک صاف محسوس ہونے لگتی ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ محمد حسن کے ڈرامے کے قصے کی بنیاد شاہنامے کے قریب ہے۔ مثلاً شیطان کا ضحاک کے شانوں کو چومنا جس کے اثر سے اس کے شانوں پر دو سانپوںکا نمودار ہوجانا پھر سانپوں کا ضحاک کو ہمیشہ ڈستے رہنا اور شیطان کے مشورے سے سانپوں کی غذا کے طور پر انسانی بھیجے حاصل کرنا وغیرہ۔ سامی بے نے تقریباً اپنی تمام نگارشات کا موضوع اسلاف کی قومی تاریخ کو بنایا ہے جس کے سبب وہ حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھیں شاہنامے میں ضحاک کے شانوں پر اگے ہوئے سانپوں جیسے واقعات پر یقین نہیں لہٰذا وہ حقیقت تک رسائی کے لیے واقعات میں تبدیلی کردیتے ہیں جس سے ان کے ڈرامے کا بنیادی قصہ شاہنامے سے دورجاپڑتا ہے اور اِس سے اس کی مماثلت براے نام رہ جاتی ہے۔ سامی بے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’اتفاقات سے میری تمام تر نگارشوں کا موضوع ، اسلاف کی قومی تاریخ سے متعلق رہا ہے۔ اس ڈرامے کو گرچہ تمام و کمال، قومی نہیں کہا جاسکتا تاہم چوںکہ اس کا جزو اساسی تاریخِ اسلاف و ادبیات اسلامیہ میں مشہور و متواتر رہا ہے اس لیے اسے بھی ایک حد تک قومی شمار کیا جاسکتا ہے۔ شاید اکثر اصحاب کو اعتراض ہوگا کہ زیرِ نظر ڈرامے میں ’ضحاک‘ کی جو تصویر کھینچی گئی ہے وہ شاہنامے اور دوسری مشہور و معروف ادبی کتابوں سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی تو میں کیا جواب دوں گا؟ یہ کہ اگرچہ استاد ادباء فردوسی کا شاہنامہ فصاحت و لطافت کے اعتبار سے تمام تر مشرقی و قائع خالص اساطیری رنگ سے لبریز ہیں اس لیے ان میں واقعیت کی جستجو کرنا عبث ہے۔ چنانچہ ضحاک، کاوہ اور فریدوں کا افسانہ بھی جو اس ڈرامے کی ’شمعِ شبستاں‘ ہے سرتا سرواقعی نہیں۔ اگر ایک انسان کے شانوں پر خلاف فطرت کسی قدر گوشت بڑھ بھی جائے تو انسانی وجود سے ، سانپوں کی روئیدگی اور ان کی غذا کی احتیاج کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہوسکتی۔‘‘ (۸)
اور انھیں خلافِ فطرت اور ناقابلِ قبول چیزوں کو عین فطرت اور قابلِ قبول بنانے کے لیے سامی بے واقعات میں تبدیلی کرتے ہیں۔ غیر تاریخی اور فرضی کردارو واقعات کو ڈرامے میں پیش کرنے کے متعلق ان کا جواز یہ ہے کہ ان سے وقائع کی تشریح و توضیح ہوتی ہے۔ ان تمام تبدیلیوں سے سامی بے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے ذریعے ایک مخصوص دور کے سیاسی حالات کی عکاسی ہوسکے۔ ان باتوں کے پیشِ نظر محمد حسن کے اس قول کو تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ:
’’اوّل تو دونوں ڈراموں میں مماثلت بہت کم ہے۔ دوسرے جو بھی ہے وہ صرف اس بنا پر ہے کہ دونوں کا مآخذ شاہنامے کا واقعہ اور اس کے بعض کردار ہیں۔ پھر بھی اگر ضحاک لکھتے وقت مجھے اس قسم کے کسی ڈرامے کا علم ہوتا تو شاید یہ ڈراما لکھا ہی نہ جاتا یا دوسری طرح لکھا جاتا۔ بہرحال مجھے قطعی طور پر سامی بے کے ڈرامے سے اپنی لاعلمی اور ناواقفیت کا اعتراف ہے۔‘‘ (۹)
لیکن ’’ضحاک‘‘ کے مآخذ کے بارے میں خود محمد حسن کے بیانات سے ہی ایک غلط فہمی کا امکان باقی رہ جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’ضحاک کا قصہ فسانہ عجائب والے رجب علی بیگ سرور نے اپنی تصنیف میں بیان کیا۔ ڈراما ضحاک میں اس کہانی کا صرف بنیادی ڈھانچہ ہے یعنی ضحاک کا جمشید کے خلاف بغاوت کرنا اور اسے آرے سے زندہ چروا ڈالنا اور اس جنگ میں فتح یاب ہونے کے سلسلے میں شیطان کی مدد لینا اور شیطان کے اس کے کاندھوں کو بوسہ دینے کی وجہ سے ان شانوں پر دو سانپ اگ آنا یقینا طبع زاد نہیں ہے۔‘‘ (۱۰)
پروفیسر گیان چند کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’میں نے جو کچھ ضحاک کے بارے میں لیا ہے وہ رجب علی بیگ سرور کی کتاب سے ماخوذ ہے اور اس میں نمک مرچ آپ لگایا ہے۔‘‘ (۱۱)
جین صاحب اس خط سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں:
’’اس طرح یہ حقیقت خود مصنف کی زبانی افشا ہوگئی ہے۔ شاہنامے کا فارسی نثری خلاصہ شمشیر خانی ہے۔ رجب علی بیگ سرور نے اس کا ترجمہ سرورِ سلطانی کے نام سے کیا۔ ڈاکٹر محمد حسن کا مآخذ صرف یہ ہے۔‘‘ (۱۲)
ڈاکٹر محمد حسن اور پروفیسر گیان چند کے اقوال پر کسی تبصرے سے پہلے ڈراما ’’ضحاک‘‘ کے پہلے سین میں جو کورس دیا گیا ہے اس کی چند سطور ملاحظہ فرمائیں:
’’ایک زمانے کا قصہ ہے
دور دراز کے کسی دیس میں
ایک جوان نے سازش سے جمشید کو مارا
تخت ہتھیایا تاج اتارا
پھر اس شاہنشاہ کو زندہ آروں سے چروایا
اس سازش میں اس کا ساتھی تھا شیطان
جس نے فتح کے موقعے
اس کے شانوں کو چوما تھا
آخر ان دونوں پر دو زہریلے سانپ اگ آئے
جن کے پھن سے شانے زخمی
راتیں ویراں اور دن بے چین
اور شامیں درد میں ڈوبی۔‘‘ (۱۳)
ڈراما ضحاک کے کورس اور ڈاکٹر محمد حسن کے بیانات سے حسب ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
۱۔ ضحاک نے جمشید کے خلاف بغاوت کی اور اسے زندہ آرے سے چروایا۔
۲۔ اس جنگ میں فتح یاب ہونے کے لیے ضحاک نے شیطان کی مدد لی تھی۔
۳۔ فتح کے موقع پر شیطان نے ضحاک کے دونوں شانوں کو چوما تھا جس سے اس کے کاندھوں پر دو سانپ اگ آئے۔
۴۔ ’’ضحاک‘‘ کی تخلیق میں ڈراما نگار نے جو واقعات مستعار لیے ہیں وہ صرف رجب علی بیگ سرور کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
سرور کی تصنیف ’’سرورِ سلطانی‘‘ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جمشید نے سات سو برس حکومت کرنے کے بعد جب خدائی کا دعوا کیا تو رعایا اس سے برگشتہ ہوگئی۔ اس وقت تمام ایران میں ضحاک کی ہیبت کا غلغلہ مچا ہوا تھالہٰذا تمام وزرا اور امرا جمشید سے کبیدہ خاطر ہوکر ضحاک کے پاس آئے، اسے جمشید سے لڑوایا۔جمشید کی شکست ہوئی اور وہ فرار ہوگیا۔ ملک و مال پر ضحاک کا قبضہ ہوگیا۔ جمشید فرار تو ضرور ہوگیا لیکن دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد آخر کار گرفتار ہوا اور طوق و زنجیر کرکے ضحاک کے روبرو لایا گیا۔گفتگو کے بعد ضحاک نے اسے تختے میں باندھ کر چیر ڈالا۔
جہاں تک جمشید کے خلاف جنگ میں ضحاک کے ذریعے شیطان کی مدد لینے کا سوال ہے ’’سرورِ سلطانی‘‘ سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ ضحاک کو شیطان کی مدد ضرور حاصل تھی لیکن جمشید کو مارنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے باپ کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے۔ جس وقت جمشید نے خدائی کا دعوا کیا اور خلقت اس سے بیزار ہوئی اسی زمانے میں بہ قولِ سرور:
’’تازیوں کا بادشاہ مرتاس تازی تھا۔ چار ہزار شیردار چار پاے اس کے پاس موجود تھے۔ دودھ ان کا محتاجوں پر وقف تھا۔ ضحاک اس کا بیٹا تھا۔دس ہزار تازی گھوڑے اس کے پاس تھے۔ ہیوراسپ (۱۴) اس کو کہتے تھے ہیوراسپ دری زبان میں دس ہزار کو کہتے تھے۔ ایک روز ابلیس پرتلبیس اس کے پاس آیا۔ تقریرِ دل پذیر سے اسے رام کیا، زیرِ دام کیا اور کہا جو تو افشاے راز کی قسم کھائے، کسی کے روبرو وہ کلمہ زبان پر نہ لائے تو ایک نکتہ بتائوں کہ وہ کافی ہو، تیرے کام آئے، بہت لطف دکھائے۔ اس سادہ لوح نے بے تامل عہد کیا، قسم کھائی۔ علیہ اللعن نے کہا، تیرا باپ کثرتِ سن سے ضعیف و زار ہے، شایانِ سلطنت نہیں ، بیکار ہے۔ اس کو قتل کرکے سلطنت کر۔‘ پہلے اس نے انکار کیا۔ وہ بولا ’عہد شکنی تجھے ہلاک کرے گی، زیرِ خاک کرے گی۔‘ یہ مرگ کے خوف سے راضی ہوا۔ قتل کی تدبیر پوچھنے لگا۔ سرتاس کی عادت تھی اخیر شب سے تا صبح عبادتِ معبود کرتا تھا۔ رہنے کے مکان سے نزدیک عبادت خانہ بنایا۔ راہ میں شیطان نے کنواں کھدواکے منہہ پر گھاس رکھوا دی۔ یہ عبادت کی چاہ سے اندھیرے میں اٹھ کے اس مکان کو چلا، کنویں میں گر کے سیدھاجنان کو چلا۔ وہ مرگیا، ضحاک بادشاہ ہوا۔‘‘ (۱۵)
ڈارما نگار کا یہ کہنا کہ جمشید سے جنگ میں فتح یابی کے بعد اس موقع پر شیطان نے ضحاک کے دونوں شانوں کو چوما تھا جس سے اس کی جگہ دو سانپ اگ آئے، بھی ’’سرورِ سلطانی‘‘ سے ثابت نہیں ہوتا۔ شیطان نے بے شک ضحاک کے شانوں کو چوماتھا لیکن کس موقع پر؟ یہ سرورؔ کی زبانی سنیے:
’’ضحاک بادشاہ ہوا۔ شیطان مقرب درگاہ ہوا۔ روز غذائیں لطیف پکا کے کھلاتا تھا، ہر دم ہنساتا تھا۔ روز کے چارے سے بے چارے کو دامِ مکر میں پھنساتا تھا۔ ایک دن اس گندہ خور کو انڈے پکا کے کھلائے، بہت پسند آئے۔ اسی ولولے میں کہا’جو حاجت ہو مجھ سے طلب کر‘، شیطان نے کہا ’تیری عنایت سے سب کچھ مہیا ہے لیکن امید وار ہوں کہ تیرے شانوں کو چوموں، آنکھیں ملوں۔ ضحاک ننگا ہوا۔ وہ شانے چوم کے چل نکلا۔ کچھ دیر نہ گزری کہ دو مار خونخوار وہاں سے نمودار ہوئے۔‘‘ (۱۶)
محمد حسن نے ’’ضحاک‘‘ کی کہانی کے بنیادی ڈھانچے کی جو بات کہی ہے اور جن کے متعلق ان کا دعوا ہے کہ یہ واقعات طبع زاد نہیں ہیں اور انھوں نے رجب علی بیگ سرورؔ کی تصنیف سے ہی استفادہ کیا ہے ان میں صرف پہلا دعوا ’’سرورِ سلطانی‘‘ سے مطابقت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ ضحاک نے جمشید سے بغاوت کی اور اسے زندہ آرے سے چروایا لیکن جیسا کہ اوپر کے اقتباسات سے ظاہر ہے، اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے شیطان کی مدد لینا، فتح کے موقع پر شیطان کا ضحاک کے شانوں کو چومنا، جیسے واقعات ’’سرورِ سلطانی‘‘ میں بیان کردہ واقعات کے مطابق نہیں ہیں۔ ضحاک کا قصہ فردوسی کے شاہنامے میں تفصیل سے موجود ہے (۱۷) اس سلسلے میں شاہنامہ اور سرورِ سلطانی میں عموماً تفصیل اور اختصار کا فرق ہے لیکن محمد حسن جن واقعات کو طبع زاد نہیں مانتے ان میں بھی انھوں نے تبدیلیاں روا رکھی ہیں۔
فردوسی کے شاہنامے کے ابتدائی حصے میں ضحاک کا جو قصہ بیان ہوا ہے محمد حسن کے ضحاک کے قصے کی بنیاد تھوڑی تبدیلیوں کے باوجود اس سے بہت قریب ہے۔ ’’سرورِ سلطانی‘‘ سے استفادے کی بات جزوی طور پر ہی درست کہی جاسکتی ہے لیکن یہ بات سو فی صد درست ہے کہ محمد حسن نے کسی سے کوئی سرقہ نہیں کیا۔انھوں نے ایک ایرانی اساطیر کو اپنے زورِ تخیل سے ایک نئی شکل عطا کرتے ہوئے اسے نئی معنویت سے آشنا کیا ہے۔ اس لیے جن حضرات نے محمد حسن پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے اختر شیرانی سے سرقہ کیا، انھوں نے یقینا اختر شیرانی کی کتاب نہیں دیکھی۔ ان کا اعتراض سراسر بے بنیاد اور غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ اس اعتراض کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں کہ جیسے کوئی امیر خسرو کے بارے میں یہ کہے کہ انھوں نے اپنی مثنوی ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ میں نظامی گنجومی کی ’لیلیٰ و مجنوں‘‘ سے سرقہ کیا ہے۔
حواشی
(۱) اختر شیرانی اور جدید اردو ادب۔ ڈاکٹر یونس حسنی، انجمن ترقی اردو پاکستان۔ اشاعت اوّل ۱۹۷۶ء ص ۳۲۸
(۲) ضحاک۔ مترجم اختر شیرانی ص ۴۴
(۳) ایضاً ص ۱۱۴
(۴) ’’ ص ۱۶۹/۱۷۰
(۵) ’’ ص۱۷۳/۱۷۴
(۶) ’’ ص۱۸۲
(۷) اردو کا پہلا ڈراما۔ اخلاق اثر مضمون’’ ضحاک کا فکری و فنی مطالعہ ‘‘ ۔ پاشا پریس بھوپال اشاعت ۱۹۷۸ء ص ۷۳
(۸) ضحاک۔ مترجم اختر شیرانی ص ۱-۲
(۹) ضحاک۔محمد حسن (دیباچہ) ۔ ادارۂ تصنیف ، ڈی۷، ماڈل ٹائون دہلی ۹ اشاعت ۱۹۸۰ء ص۲۱
(۱۰) ایضاً ص ۲۰
(۱۱) ’’ (پیش لفظ) پروفیسر گیان چند ص ۸
(۱۲) ’’ ص ۹
یہاں ضمناً یہ عرض کردینا بے جا نہ ہوگا کہ توکل بیگ حسینی کی ’’تاریخ دلکشائے شمشیر خانی‘‘ شاہنامے کا خلاصہ ہے۔ ’’سرورِ سلطانی‘‘ ’’شمشیر خانی‘‘ کا محض لفظی ترجمہ نہیں بلکہ اس کی تلخیص ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ ترجمے کے وقت سرورؔ کے سامنے صرف ’’شمشیر خانی‘‘ اور فردوسی کا شاہنامہ ہی نہیں بلکہ کم از کم ۳۶ اور بھی حوالے موجود تھے جن سے سرورؔ نے استفادہ کیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے ’’سرورِ سلطانی ‘‘ رجب علی بیگ سرورؔ۔ مرتبہ آغا سہیل ۔ مجلسِ ترقی ادب لاہور طبع اوّل اکتوبر ۱۹۷۵ء ص ۲۶
(۱۳) ضحاک۔ محمد حسن ص ۲۷
(۱۴) ’’ہیوراسپ‘‘ کے بدلے ’’بیور اسپ‘‘ ہونا چاہیے۔فردوسی کہتا ہے:
جہاں جوے را نام ضحاک بود
دلیر و سبک سار و ناپاک بود
کجا بیور اسپش ہمی خواندند
چنیں نام بر پہلوی راندند
کجا بیور از پہلوانی شمار
بود بر زبانی دری دہ ہزار
بہ حوالہ’’شاہنامۂ فردوسی‘‘ (جلد اوّل) مرتبہ ۔ ی۔ا۔ برتلس۔ ناشر ادارۂ انتشارات ادبیات خاور (ماسکو) اشاعت ۱۹۶۳ء ص۴۴
(۱۵) سرورِ سلطانی۔ رجب علی بیگ سرور۔ مرتبہ آغا سہیل۔ مجلس ترقی ادب لاہور۔ طبع اوّل اکتوبر ۱۹۷۵ء ص ۶۲-۶۳
(۱۶) ایضاً ص ۶۳
(۱۷) دیکھیے ’’شاہنامۂ فردوسی‘‘ (جلد اوّل) تحت نظر ۔ ی۔ا۔ برتلس (ماسکو) ص ۴۳ تا ۷۸