بسلسلہ ‘ سیمانچل ادب کا گہوارہ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر پرمود بھارتیہ : سیمانچل کا گوہر نایاب
Dr . PRAMOD BHARATIYA
D O B – 20 September 1965
HOD , Sanskrit Language ,
Municipal Post Graduate College
Mussoorie
P / Address – Thakurganj
Dist – Kishanganj
Mob – 9412973390
A Short Story Writer
Books written by him
1 – Badchalan ( urdu short stories )
2 – Sahpaathini ( sanskrit short stories )
3 – Fourteen Novels of Sanskrit
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام – پرمود بھارتیہ
تاریخ پیدائش – ۲۰ ستمبر ۱۹۶۵ ء
جائے پیدائش – نیا گاؤں ۔ ضلع : کھگڑیا
والد – سورگیہ مانک پرساد یادو
والدہ – شریمتی شیلا دیوی
شریکِ حیات – کیتکی بھارتیہ ( ہندی اور پنجابی زبانوں کی شاعرہ ۔ شعری مجموعہ ‘ اجالوں کا سفر ‘ )
اثمار حیات – بڑے فرزند شالین بھارتیہ پنجاب یونیورسٹی ، چنڈی گڑھ سے انگریزی زبان وادب میں ایم اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ کے لےء کوشاں ہیں ۔ اداکاری اور گلوکاری کا شوق ہے ۔ کئی ریلٹی شوز میں حصہ لے چکے ہیں ۔
چھوٹے صاحبزادے یگین بھارتیہ سینٹ اسٹیفن کالج ، دہلی یونیورسٹی میں بی اے آنرز ( ہسٹری ) کے طالب علم ہیں ۔
مستقل پتہ – کرشن پوری ، ٹھاکر گنج
ضلع : کشن گنج 855116
رابطہ ۔ 9412973390
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی ۔ نیا گاؤں اور ٹھاکر گنج میں
ثانوی ۔ ٹھاکرگنج ہائ اسکول اور شری کرشن ہائی اسکول ، نیاگاؤں
انٹر ۔ ٹی این بی کالج ، بھاگلپور
گریجویشن ۔ بی اے ( آنرز ) علم النفسیات ۔ پٹنہ یونیورسٹی
ایم اے ( سنسکرت زبان وادب ) کروڑی مل کالج ، دلی یونیورسٹی
ایم فل ، پی ایچ ڈی ( سنسکرت زبان وادب ) دلی یونیورسٹی
ایم اے ۔ ہندی
ایم اے ۔ انگریزی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۹۸۹ ء سے ۹۵ ء تک آکاشوانی دلی میں بحیثیت اناؤنسر کام کیا ۔
۱۹۹۵ ء میں تقریباً ایک سال ذاکر حسین دلی کالج میں بطور گیسٹ ٹیچر انسلاک ۔
۱۹۹۶ ء میں مسوری کے میونسپل پوسٹ گریجویٹ کالج میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر بحالی ہوئی ۔
ستمبر ۲۰۰۸ ء میں جمال پور ( مونگیر ) کے جےآر ایس کالج میں بطور پرنسپل جوائن کیا ۔ اس وقت اس کالج کی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔ اپنی محنت ، لگن اور ہمت سے پانچ سال میں کالج کی کایا پلٹ کر دی ۔
فی الحال میونسپل پوسٹ گریجویٹ کالج مسوری میں صدر شعبہ ء سنسکرت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیا گاؤں سے ٹھاکرگنج ہجرت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر پرمود بھارتیہ کا اصل وطن کھگڑیا ضلع کا ایک گاؤں ‘ نیا گاؤں ‘ ہے ۔ ان کے والد صاحب عرصہ قبل ٹھاکر گنج میں آ بسے تھے ۔ زراعت کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا ایک بڑا سا ڈیری فارم بھی کھول لیا تھا جس کی نگہداشت وہ خود سے کیا کرتے تھے ۔
کشن گنج ضلع میں واقع ٹھاکرگنج شمالی مشرقی بہار کا آخری بلاک ہے جس کی سیما صوبہء بنگال سے ملتی ہے ۔ بنگال کی سرحد کے اندر داخل ہوں تو تھوڑے ہی فاصلہ پر بدنام زمانہ گاؤں نکسل باڑی واقع ہے جو ‘ نکسل ازم ‘ کا جنم استھان ہے ۔ نکسل ازم / نکسلائٹ وغیرہ جیسے الفاظ نکسل باڑی نام سے ہی پیدا شده ہیں ۔
ٹھاکرگنج قدرتی خوبصورتی سے مالامال علاقہ ہے ۔ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر دارجلنگ کے راستے میں واقع کرسیانگ نامی قصبہ ایک مشہور تعلیمی مرکز ہے جہاں بہت سارے انگلش میڈیم اسکول قائم ہیں ، شام کے بعد جب یہاں قمقمے روشن ہوتے ہیں ٹھاکرگنج سے یہ منظر نہایت دلفریب نظر آتا ہے ۔
آپ ٹھاکرگنج سے کنچن جنگا کی چوٹی کا آسانی سے نظارہ کر سکتے ہیں ۔ خاص طور پر موسم سرما میں صبح اور عصر کے وقت جب سورج کی کرنیں ایک خاص زاویہ سے ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں پر پڑنے کے بعد منعکس ہوتی ہیں تو دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتی ہیں ۔
ٹھاکرگنج کی مٹی بھی بڑی زرخیز ہے ۔ یہاں چائے کے باغات ہیں ۔ انناس کے کھیت بھی دور تک پھیلے نظر آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اروی اور ادرک کی کھیتی کے لےء بھی اس کی کافی شہرت رہی ہے ۔
ٹھاکرگنج بہت تاریخی علاقہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ مہابھارت کال میں پانڈووں نے اگیات واس کا بڑا حصہ یہیں راجا بیراٹھ کے دربار میں ملازمت کرتے ہوئے اپنی شناخت مخفی رکھ کر گزارا تھا ۔ بھیم تکیہ یہاں مشہور تاریخی جگہ ہے ۔ اس کے علاوہ بھات ڈھالا ، ساگ ڈھالا اور کیچک ودھ نامی تاریخی مقامات بھی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو زبان کی تعلیم اور اردو سے محبت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر پرمود بھارتیہ نے اردو کی باقاعدہ تعلیم کبھی حاصل نہیں کی ۔ چھٹی جماعت میں جب کہ وہ آدرشیہ مدھیہ ودیالیہ ٹھاکرگنج میں زیر تعلیم تھے پروفیسر ابو بکر رضوی (مگدھ یونیورسٹی ) ان کے ہم جماعت ہوا کرتے تھے کیونکہ ان کے والد صاحب ان دنوں ٹھاکرگنج میں اینیمل ہسبینڈری آفیسر
کے عہدے پر فائز تھے ۔ بھارتیہ جی نے اردو کی بنیادی جانکاری اپنے دوست ابو بکر رضوی صاحب سے ہی حاصل کی ۔ اردو زبان سے انسیت بڑھی تو خود بھی محنت کرنے لگے ۔ ٹھاکرگنج ہائ اسکول میں استاد عزیز الرحمن اور نسیم اختر صاحبان سے اردو اور مختار حسین صاحب سے فارسی زبان سیکھی ۔
دراصل ڈاکٹر پرمود بھارتیہ میں مختلف زبانوں کو سیکھنے اور ان میں مہارت حاصل کرنے کا جذبہ اور لگن ہمیشہ سے رہا ہے ۔ لہذا آج وہ ہندی ، انگریزی ، اردو ، فارسی ، سنسکرت ، بنگلہ ، پنجابی کے علاوہ مقامی زبانوں مثلاً سرجاپوری ، بھوجپوری اور انگیکا کے بھی اچھے جانکاروں میں سے ہیں ۔ انہوں نے جرمن زبان میں بھی اچھی مہارت حاصل کرلی ہے ۔
اردو زبان وادب کے دلدادہ بھارتیہ جی کو دوران تعلیم بھاگلپور اور پٹنہ میں بھی نہایت سازگار اور ادبی ماحول حاصل ہوا ۔ ۱۹۸۴ ء میں انہوں نے قیصر رضا کے افسانے کا ہندی میں ترجمہ کیا جو ‘ جیوتسنا ‘ پٹنہ میں شائع ہوا ۔ ۹۲ ء میں ڈاکٹر مظہر احمد کے مضمون ‘ اب سنور کے نکلے گا حسن کارخانے سے ‘ کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا جو ” مانسی ” دلی میں شائع ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ نگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا اردو افسانہ ” خوش نصیب ” ۱۹۹۳ ء میں پرواز ادب ، پٹیالہ میں شائع ہوا ۔
دیگر افسانے تعمیر ہریانہ ، نیا دور لکھنؤ ، ایوان اردو ، پاسبان وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں ۔
آل انڈیا ریڈیو سے بھی کئی افسانے نشر ہو چکے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ کتب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدچلن ( افسانوی مجموعہ )
سال اشاعت ۔ ۲۰۰۳ ء
مشمولات – ۱۲ افسانے
‘ عاجل پریمی پرمود بھارتیہ ‘ از ڈاکٹر ارتضیٰ کریم ۔ ریڈر شعبہ ء اردو ، دہلی یونیورسٹی ۔
اس افسانوی مجموعہ کو اتراکھنڈ کی پہلی اردو کتاب کا اعزاز حاصل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سہ پاٹھنی ( سنسکرت افسانے ) مطبوعہ ۱۹۹۹ ء ۔ پرتاپ نارائن مشر میموریل ایوارڈ ۲۰۰۰ ء حاصل شدہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Fourteen Novels of sanskrit
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعزازات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنسکرت زبان وادب کی خدمت کے لئے ‘ پرتاپ نارائن مشر اسمرتی یووا ساہتیہ کار سمان ‘
کالی داس کل کلادھر سمان
کامیشور سنگھ سنسکرت یونیورسٹی ، دربھنگہ کے ذریعہ بھی اعزاز پیش کیا گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانوی مجموعہ زیر ترتیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدتمیز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاجل پریمی : پرمود بھارتیہ سے ایک اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرمود بھارتیہ نئ کہانی کے دروازے پر ابھی دستک دے رہے ہیں ، اردو کہانی کا دروازہ ابھی ان پر وا نہیں ہوا ہے مگر عنقریب ہو جانے کی توقع رکھنی چاہئے ۔
پرمود بھارتیہ سنسکرت کے راستے اردو کہانی اور ادب میں وارد ہوئے ہیں اس لئے زبان ، کردار ، واقعات اور ماحول ان سب پر اس کا اثر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ کہانیاں قاری کو پکڑتی ہیں ، دیر تک اور دور تک اپنے ساتھ شریک رکھتی ہیں ۔ کئ کردار اپنی انفرادیت اور دلکشی کے باعث یاد رہ جاتے ہیں ۔ یہ ایسی خوبی ہے جو کسی افسانہ نگار کے ہاتھ لگ جائے تو اس کی کامیابی کی ضمانت دی جا سکتی ہے ۔
اردو کہانی کے سفر پر نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر زمانے میں کہانیوں میں دو یا دو سے زیادہ متوازی رجحان نظر آتے ہیں مثلاً اگر خالص سماجی مسائل پر کہانیاں لکھی جاتی رہی ہیں تو اسی زمانے میں رومانی ، اصلاحی اور عام فہم کہانیوں کے لکھنے والے بھی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ دراصل یہ بڑی تعداد والے ہی ‘ کم تعداد ‘ والوں کی شناخت اور معیار بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور یہی بڑی تعداد والے کہانی کار قاری کے حافظے میں اپنی کہانیوں اور کرداروں کے ساتھ قائم اور دائم رہتے ہیں ۔
پرمود بھارتیہ کا شمار افسانہ نگاروں کی اسی برادری میں کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن کیا پتہ ‘ معیار ‘ قائم کرتے کرتے وہ خود ‘ اقلیتی طبقہ کے کہانی کاروں ‘ میں شامل ہو جائیں ۔
پرمود کی کہانیوں کو پڑھتے ہوئے تھوڑی دیر کے لےء ہی سہی قاری تجارتی سماج اور رشتہ سے نکل کر پریم کی وادی میں کھو جاتا ہے جہاں مسائل ہیں بھی تو پریم ڈگر پر چل کر مسکراتے ہوئے حل کیا جا سکتا ہے ۔ ان کی بعض کہانیاں مثلاً بدچلن ، خوش نصیب ، ہوائی چپل اور حیران بہت ہی کامیاب کہانیاں ہیں اور انہوں نے جس منفرد تیور کے ساتھ ان کہانیوں کو تخلیق کیا ہے ان کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر پرمود بھارتیہ اسی طرح دستک دیتے رہے تو بہت جلد اردو کہانی کا دروازہ نہ صرف ان کے لےء وا ہوگا بلکہ اس باب میں وہ اپنے دستخط بھی ثبت کریں گے ۔
ڈاکٹر ارتضیٰ کریم
ریڈر ، شعبہء اردو
دہلی یونیورسٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوائی چپل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں روز کی طرح آج بھی اپنی چھت پر دھوپ کھانے کے ساتھ ساتھ اپنی نئی کہانی کا پلاٹ بھی تیار کر رہا تھا ۔ اسی درمیان سڑک کے اس پار سامنے کی بالکونی میں لگی ہوئی الگنی پر نیلے رنگ کی چیک والی ایک لنگی لہرائ ۔ لگتا ہے ایل پی صاحب آگئے ہیں ۔ نیلے رنگ والی یہ چیک دار لنگی تبھی اس الگنی پر آتی ہے جب ایل پی صاحب دہلی سے یہاں تشریف لاتے ہیں ۔ ویسے یہ لنگی مہینے میں ایک یا دو دن سے زیادہ کبھی نظر نہیں آتی ۔ جب بھی وہ دہلی سے آتے ہیں صبح صبح نہا کر اپنی بھیگی لنگی سکھانے کے لئے اسی الگنی پر ڈال دیتے ہیں ۔
یہ ایل پی صاحب دراصل ہمارے پڑوس میں رہنے والی سپنا جی کے شوہر ہیں ۔ سپنا جی بغل کے ریلوے اسکول میں استانی ہیں ۔ تین سال پہلے جب اس اسکول میں ان کا تقرر ہوا تھا تبھی سامنے والا یہ کوارٹر انہیں ریلوے نے رہنے کے لئے دیا تھا ۔ چھ مہینے قبل دہلی میں ان کی شادی ہوئی ہے ۔ شوہر دہلی میں ہی شاید کسی کالج میں لیکچرر ہیں اور مہینے میں ایک بار اپنی بیوی سے ملنے یہاں آ جاتے ہیں ۔ آج تک کسی کو ان کا نام پتہ نہیں چل پایا ۔ لیکن محلے کے تقریباً سبھی لوگ انہیں ایل پی صاحب کے نام سے جانتے ہیں ۔ کسی نے بھی آج تک انکی صورت ڈھنگ سے نہیں دیکھی ہوگی ۔ بھلا کیسے کوئی ان کی صورت دیکھ پائے ، گھر سے نکلیں تب تو ! ۔۔۔ لیکن چونکہ میں ٹھیک ان کے سامنے والے کوارٹر میں رہتا ہوں اس لئے مجھے ایک آدھ بار ان کے دیدار ہو ہی جاتے ہیں ۔
سپنا جی بڑی پڑھی لکھی اور مہذب قسم کی عورت ہیں ۔ محلے کے تقریباً سبھی لوگوں سے ملتی جلتی ہیں اور ہر طرح کے عام جلسوں میں شرکت بھی کرتی ہیں ۔ بچوں کی استانی ہونے کی وجہ سے محلے کی تقریباً سبھی خواتین انہیں جانتی ہیں ۔ لیکن آج تک کسی کو بھی یہ پتہ نہیں چل پایا کہ یہ آخر کسی بهی جلسے میں اپنے شوہر کو ساتھ لے کر کیوں نہیں جاتیں ۔ ہو سکتا ہے ان کے شوہر بہت ہی سنجیده و شرمیلے انسان ہوں ۔ لیکن یہ بھی بڑا حیران کُن لگتا ہے کہ سپنا جی جیسی شوخ و ترقی یافتہ عورت کا شوہر سنجیدہ و شرمیلا ہو ۔
میں ایل پی صاحب کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں بیگم نے لنچ تیار ہونے کی اطلاع دی ۔ نیچے ڈائننگ ٹیبل پر بھی ایل پی صاحب کی چرچا ہو گئ ۔ میں نے اپنی بیگم سے پوچھا
” سنو ! یہ ایل پی صاحب ایک تو مہینے میں ایک ہی بار اور وہ بھی دن بھر کمرے میں ہی بند رہتے ہیں ۔ کیا انہیں کہیں گھومنے پھرنے کا جی نہیں کرتا ؟
” آخر پروفیسر ٹھہرے ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کمرے میں بیٹھ کر کچھ پڑھنے لکھنے کا سنجیدہ سا کام کرتے ہوں ، تمہاری طرح وہ خالی تھوڑے ہی ہوں گے ۔
” تم پھر مجھے طعنے مار رہی ہو ۔
” طعنے نہیں مار رہی ہوں بلکہ سچ کہہ رہی ہوں ۔ سبھی مرد تمہاری طرح نٹھلے نہیں ہوتے ۔ ذرا ایل پی صاحب کو دیکھو دن بھر کس قدر شریف انسان کی طرح بند کمرے میں اپنا کام کرتے رہتے ہیں ، اور ایک تم ہو جو دن بھر چھت پر بیٹھ کر ادھر سے ادھر آنکھیں ۔۔۔۔۔۔۔
” اچھا ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے ۔۔۔۔ ”
میں نے سوچا بات کہیں بڑھ نہ جائے اس لئے یہیں پر ہتھیار ڈال دیئے ۔ لیکن اس ایل پی صاحب سے ملنے کی خواہش بڑھتی چلی گئی ۔ سوچا جب کل سپنا جی اسکول چلی جائیں گی تبھی ان سے ملنے جاؤں گا اور ان کی عظمت سے کچھ تحریک حاصل کروں گا ۔
دوسرے دن ڈیڑھ بجے دوپہر کا کھانا کھا کر میں ایل پی صاحب سے ملنے چلا گیا ۔ دروازے پر دھیرے سے دستک دی ۔ کئی بار کھٹکھٹانے کے بعد دروازے کے پیچھے تھوڑی حرکت ہوئی ۔ دروازہ کھلنے پر ایک بڑا ہی ڈرا سہما سا چہرہ نظر آیا ۔ ” جی میں رتی کانت چترویدی آپ کے سامنے والے کوارٹر میں رہتا ہوں ۔ پیشے سے افسانہ نگار ہوں اور ایک مقامی رسالے کا مدیر ہوں ۔ آپ شاید سپنا جی کے ۔۔۔۔۔
” تشریف لائیے ” بہت ہی مہذب و پرخلوص لہجے میں انہوں نے اندر بلایا اور پھر اپنا تعارف پیش کیا ۔
” جی ! میں سلیل چودھری ، دہلی کے ایک کالج میں انگریزی ادب کا استاد ہوں اور یہاں آپ کی سپنا جی کا پرماننٹ کرایہ دار ۔”
” آپ کو کئی بار چھت پر سے دیکھا ۔ اپ سے ملنے کی بڑی خواہش تھی ۔ آج سوچا کہ آپ سے مل ہی لوں ۔ اپ سے مل کر اپنی معلومات میں کچھ اضافہ کرنے چلا آیا ۔ ویسے میری بیگم صاحبہ کے بھی آپ کے متعلق بہت ہی عمدہ خیالات ہیں ۔ سمجھ لیجئے کہ آپ کی فین ہیں ۔
” وہ کیسے ؟
” جی ! وہ کہتی ہیں کہ شوہر ہو تو ایل پی صاحب جیسا ۔ کس طرح وہ شریف انسان کی طرح بند کمرے میں اپنا کام کرتے رہتے ہیں ، کبھی باہر نہیں نکلتے ۔
” جی ! یہ تو ان کی ذرہ نوازی ہے ۔” اور یہ کہہ کر ان کے چہرے پر ایک پھیکی مسکان تیر گئی ۔
لیکن اس تعارف سے لگا کہ انہیں کچھ زیادہ خوشی نہیں ہوئی ۔ میں نے اس موضوع پر ان سے کچھ اور کہلوانے کے لےء انہیں اور بھی گدگدایا ۔
” اچھا یہ بتائیے پروفیسر صاحب ! ایک صحت مند ذہن کے لےء باہر کی کھلی ہوا کیا ضروری نہیں ؟ ایک سماجی و مہذب انسان کے لےء دوچار لمحے اپنے پڑوسی اوردوستوں کے درمیان بیٹھنا کیا ٹھیک نہیں ؟؟
یہ سنتے ہی پروفیسر کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں نے ان کی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو ۔ بتیس سال کا یہ نوجوان پروفیسر رونے لگے گا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ میں نے تھوڑی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ ” پروفیسر صاحب ! میں نے آپ کو خواہ مخواہ پریشان کیا ، معافی چاہتا ہوں ۔ لیکن میں آپ کا پڑوسی ہوں ۔ لکھنا پڑھنا میرا مشغلہ ہے اور آپ بھی زبان و ادب کے پروفیسر نکلے ، سوچا آپ کے ساتھ خوب نبھے گی ۔ لہذا تعارف حاصل کرنے چلا آیا ۔ اب چلتا ہوں ۔ پھر کبھی حاضر ہوں گا ۔ ”
یہ کہہ کر میں جیسے ہی چلنے کے لئے اٹھا کہ پروفیسر نے میری بانہہ پکڑ لی ۔ جب ان کے آنسوؤں کا ریلا کچھ تھما تب دھیرے دھیرے انہوں نے اپنی داستان غم سنائی ۔
” رتی کانت جی ! میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں آپ سے کیا کہوں اور کیا نہ کہوں ۔”
” گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے پروفیسر صاحب ۔ کھل کر کہیئے ، آخر میں آپ کا دوست ہوں ۔” ۔۔۔۔ میں نے ان کی جھجھک دور کرنے کی کوشش کی ۔
” میرا نام سلل ہے ۔ آپ مجھے بار بار پروفیسر مت کہیئے ۔ مجھے کوئی پروفیسر کہتا ہے تو مجھے اور بھی شرم آتی ہے ۔
” لیکن اس میں شرم کی کیا بات ہے ؟ آخر آپ ایک استاد ہیں اور آپ کی بیوی ایک استانی ۔ میں تو خود کو بڑا خوش قسمت مانتا ہوں کہ سپنا جی اور آپ جیسے لوگ میرے پڑوسی ہیں ۔ ” نہیں چترویدی جی ایسی بات نہیں ہے اس جہان فانی میں جو چیز جس شکل میں نظر آتی ہے وہ ویسی ہوتی نہیں ۔ آپ نہیں جانتے کہ میں اپنی سپنا سے کس قدر پیار کرتا ہوں ۔ ایک لمحہ بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ دہلی میں اس کے ساتھ پڑھتا تھا اور پہلی ہی نظر میں اس کا ہو کر رہ گیا ۔ آج تک کسی اور کے متعلق سوچا بھی نہیں ، اور آج وہی سپنا شادی ہو جانے کے بعد مجھے دو ڈھائی گھنٹہ سے زیادہ نہیں جھیل سکتی ۔ بات بات پر برا بھلا کہنے لگتی ہے ، جھلانے لگتی ہے ۔ ”
یہ کہہ کر پروفیسر تھوڑا رکا ۔ شاید لگاتار بولنے سے اس کی سانس اکھڑ رہی تھی ۔ میں نے پیار سے ان کی ہتھیلی اپنی ہتھیلی میں لے کر انہیں تھوڑا دلاسہ دیا ۔ پھر انہوں نے کہنا شروع کیا ” آپ جانتے ہیں میں مہینے میں ایک بار ہی یہاں کیوں آتا ہوں ؟۔۔۔۔۔۔۔ مشکل سے ڈھائی تین گھنٹے ساتھ گزریں گے کہ ڈانٹنا شروع کر دےگی ۔ بات بات پر ٹوکنا شروع کر دےگی مثلاً تمہیں ٹھیک سے چلنا نہیں آتا ۔ اتنی زور سے مت ہنسا کرو ۔ ناک میں انگلی مت ڈالو ۔ کرسی پر بیٹھ کر ٹانگیں کیوں ہلاتے ہو ؟ کھاتے وقت چپڑ چپڑ کی آواز نہ کرو ، چائے کو سوسو کرکے مت پیو وغیرہ وغیرہ کہتے کہتے تنگ کر دیتی ہے اور میں تنگ آکر کبھی کبهی تو اسی رات دو تین گھنٹوں میں ہی واپس چلا جاتا ہوں ۔ ”
یہ کہہ کر پروفیسر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ میں نے بغل کے پلنگ سے ان کا تولیہ اٹھا کر آنسو پونچھنے کے لےء دیا ۔ پروفیسر آنسو پونچھ کر تھوڑا نارمل ہوا تو میں نے پوچھا
” اچھا ۔۔۔ سلل بھائی ! آپ دہلی میں کھانا وغیرہ کہاں کھاتے ہیں ؟
” ایک نوکر رکھ لیا ہے ، وہ صبح شام کچھ روکھا سوکھا بنا لیتا ہے ۔
” اور اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
” اس کے بعد کیا ۔۔۔۔۔ بس کتابوں سے دوستی کر لی ہے ۔ اب تو یہی کتابیں میری شریکِ حیات ہیں ۔ میرے جنازے کے ساتھ یہ بھی جائیں گی ۔ ”
اور اس کے ساتھ پروفیسر ایک پھیکی ہنسی ہنسا ۔ مجهے لگا کہ میری ہمدردی کے خزانے میں جتنی بھی ہمدردی باقی ہے وہ اس پروفیسر کے لےء کم ہے ۔ میں سمجھ گیا کہ یہ پروفیسر اول درجے کا بیوقوف انسان ہے ۔ اسے پوری دنیا میں شادی کرنے کے لئے یہی مغرور ماسٹرنی ملی تھی ۔
” اچھا سلل بھائی ! آپ اسمارٹ ہیں ، میٹھا بولتے ہیں اور عالم بھی ہیں پھر بھی سپنا جی آپ کو اس قدر ذلیل کیوں کرتی ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ آپ کو اتنی محبت نہیں کر پاتیں جتنی کہ آپ امید رکھتے ہیں ؟
” وجہ کیا ؟ ۔۔۔۔۔ میں ایک گاؤں میں پیدا ہوا ۔ شہر کے لٹکے جھٹکے نہیں جانتا ۔ سپنا کو ضرورت تھی ایک ماڈرن اسمارٹ جینٹل مین کی اور مل گیا اسے میرے جیسا دیہاتی ۔ آپ کو پتہ ہے لوگ مجھے ایل پی صاحب کیوں کہتے ہیں ؟
” نہیں !
” ایل پی کا فل فارم ہے ” للو پرساد ! ” ۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ایک ٹھنڈی سانس لے کر پروفیسر نے کہا ” اور ایک میں ہوں کہ اسے دیکھے بغیر جی نہیں سکتا ۔ اپنی خودداری کو طاق پر رکھ کر چلا آتا ہوں مہینے میں ایک بار اسے دیکھنے اور دوسرے دن ہی لوٹ جاتا ہوں اپنی خشک دنیا میں ۔ سمجھ لیجئے ایک پارٹ ٹائم ہسبینڈ بن کر رہ گیا ہوں ۔ ”
یہ کہہ کر پروفیسر نے سر پکڑ کر اپنی گردن جھکا لی ۔ میں سمجھ نہیں پایا کہ پروفیسر کی حالت پر کیا تبصرہ کروں ۔ صدیوں سے یہی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ مرد خواتین پر ظلم کرتے رہے ہیں ۔ یہ عورتوں کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں ، لیکن یہاں تو صورتحال بالکل الٹی ہے ۔ یہاں تو پروفیسر کی حالت تو پاؤں کی جوتی سے بھی بدتر ہے ۔ ہوائی چپل سمجھ لیجئے ۔ جوتی تو پیار سے پاؤں میں چپکی رہتی ہے ۔ اسے پہن کر لوگ باہر نکلتے ہیں ۔ لیکن ہوائی چپل پہن کر لوگ باہر نہیں نکلتے ۔ اسے تو صرف گھریلو استعمال کے لئے رکھتے ہیں ۔
ساڑھے تین بج چکے تھے ۔ سپنا جی کے اسکول سے واپسی کا وقت ہو چلا تھا ۔ میں نے پروفیسر سے وداع لی اور اپنے گھر کی جانب ہو لیا ۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
نوٹ :- میں چناب مشتاق گوہر صاحب معلم اور افسانہ نگار ، ٹھاکرگنج کا بے حد ممنون و مشکور ہوں جن کے توسط سے ڈاکٹر پرمود بھارتیہ سے میری واقفیت اور ان تک رسائی حاصل ہو سکی ۔ آپ سلامت رہیں ، شاد رہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصاویر میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور افسانہ نگار ڈاکٹر اقبال حسن آزاد ، موجودہ پرنسپل جے آر ایس کالج جمال پور ( مونگیر ) اپنا افسانوی مجموعہ ” پورٹریٹ ” سابق پرنسپل جے آر ایس کالج جمال پور ، ڈاکٹر پرمود بھارتیہ کی نذر کرتے ہوئے ۔
۔
ٹھاکر گنج ریلوے اسٹیشن سے ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں کا ایک دلفریب منظر ۔
۔
ڈاکٹر پرمود بھارتیہ کی شریکِ حیات شاعرہ کیتکی بھارتیہ صاحبہ ۔