ڈاکٹر معصوم شرقی سخن کے آئینے میں از: عظیم انصاری

0
68

اردو ادب کی بات کریں تو بات اردو شاعری تک آ جاتی ہے اور اردو شاعری کا ذکر چھڑ جائے تو بات صنفِ غزل تک پہنچ جاتی ہے اس کا سبب یہ ہے کہ غزل اردو شاعری کی سب سے جاندار اور مقبول ترین صنف ہے ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ اردو شاعری کی دوسری تمام اصناف کسی نہ کسی طور سے عروج و زوال کی کیفیات سے دوچار ہوئی ہیں لیکن اردو غزل ابتدا سے لے کر زمانہ حال تک کامیابی سے اپنا سفر طے کر رہی ہے ۔

زمانے کے ساتھ غزل کی زندگی میں بھی ڈھیر ساری تبدیلیاں آئیں لیکن اس کی خوبی دیکھیں کہ اس نے ہر زمانے میں خود کو اس زمانے کی فکر کے ساتھ ساتھ اپنی زمین کو زرخیز کرتی رہی اور کبھی قحط سالی کا احساس نہیں ہونے دیا ۔ روایت، جدید یت اور مابعد جدیدیت کے دور سے گزرتے ہوئے بھی اس کے حسن میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ قدیم زمانے کی غزل ہو یا آج کی جدید غزل اس کی اپنی
ایک الگ تہذیب ہوتی ہے اور
جو بھی شاعر فنِ غزل کے ان رموز سے واقفیت رکھتا ہے یقیناً اپنی ریاضت اور تخلیقی ذہن سے ایک انفرادی پہچان بنا لیتا ہے ۔ آئیے آج ہم ایک ایسے ہی شاعر سے روبرو ہوتے ہیں جو پانچ دہائیوں سے اردو غزل کے گیسو سنوارنے میں منہمک ہے جسے اردو دنیا ڈاکٹر معصوم شرقی کے نام سے جانتی ہے ۔

بقول علقمہ شبلی

” یوں تو ہر شاعر نے غزل کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا ہے مگر کامیابی ا سی کے حصے میں آئی ہے جس نے غزل کی ادبی فکری تہذیبی روایت کو سامنے رکھ کر مطالعہ و مشاہدہ کی رہنمائی میں آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے اور معجزۂ فن کے نمود کے لیے خون جگر صرف کیا ہے ۔ اس روشنی میں معصوم شرقی
کی شاعری ہمیں دلچسپ اور خوشگوار نتائج سے دوچار کرتی ہے ۔ ”

میر کی شاعری اپنے زمانے میں بھی مقبول رہی ہے اور آج بھی مقبول ہے ۔ ڈاکٹر معصوم شرقی بھی میر کے دلدادہ ہیں تبھی تو کہتے ہیں

غزل کا حسن ذرا ہم بھی دیکھ لیں اے دل
دیارِ میر میں پیدا کوئی رسائی کر

میں میر کے در کا ہوں ادنی سا گدا شرقی
ہر راہِ سخن اس کے ہی در سے نکلتی ہے

ظاہر سی بات ہے کہ جو شاعر میر سے متاثر ہو، اس کی شاعری میں حزنیہ شاعری کا نمونہ ملےگا ہی ۔ ڈاکٹر معصوم شرقی کی غزلوں میں ڈھیر سارے اشعار اس قبیل کے ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان اشعار میں جدید دور کے تقاضے بھی شامل ہیں ملاحظہ کریں ۔

غیروں کی کیا بات کریں، غیروں سے کیسا شکوہ
اپنے ہی لوگوں سے بے حد گھبراتے ہیں مثلاً ہم

فرصت کہاں کہ ڈھونڈے غمِ دہر کا علاج
ہر شخص اپنے غم کے حسابوں میں قید ہے

مجھ کو آتی ہے تری سادہ مزاجی پہ ہنسی
تو جو اس دور میں جینے کی دعا دیتا ہے

اس حصارِ یاسیت میں گھر گئے ہیں آج ہم
بچ نکلنے کا جہاں سے راستہ کوئی نہیں

مفلسی دیکھتی ہے آنگن میں
نامکمل مکان کی صورت

جو مجھے دیتا تسلی، میرے آنسو پوچھتا
میرے اپنوں میں کوئی بھی مہرباں ایسا نہ تھا

حسرت و یاس و غم و درد و خلش، آہ و فغاں
شبِ تنہائی میں اک حشر بپا کرتے ہیں

جانے کس وقت یہ ٹوٹ جائے
اک کھلونا مری زندگی ہے

ظہیر غازی پوری نے ڈاکٹر معصوم شرقی کے شعری مجموعہ ‘ عکس تاب ‘ کی تقریظ میں لکھا ہے

” جب غزل کے مزاج، موضوعات، زبان اور لب و لہجہ سے عام سامعین و قارئین واقفیت اور مناسبت رکھتے ہیں تو ہر غزل نگار شاعر جس نے ڈیڑھ دو دہائیوں تک اس ہردلعزیز صنف کے تار و بود، اس کے تقاضوں،اس کی عوام پسند اور خواص پسند صلاحیتوں، خصوصیتوں اور خود کار کیفیتوں پر توجہ مرکوز کرکے فکر فرمائی ہو اس کی غزل میں ایسے جوہر ضرور ہوں جو اسے کسی حد تک یا بہت حد تک اعتبار اور امتیازی پہچان عطا کرسکیں ۔ ”

اس روشنی میں اگر ہم ڈاکٹر معصوم شرقی کی غزلوں پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ وہ لسانی خوبیوں اور خامیوں سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ اور لفظوں کو سلیقے سے برتنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ وہ نئی نئی تراکیب اور لفظیات سے اپنی شاعری کو معنی خیز بناتے ہیں اور قاری یا سامع سے براہ راست جڑتے ہیں ۔ ان کے اسلوب بیان میں دل کشی کے ساتھ ساتھ ندرت خیالی بھی ہے ۔ کرب و خلش کی آمیزش کے ساتھ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ ان کی شاعری کو اس قابل بناتا ہے جہاں ان کا انفرادی رنگ جھلک اثھتا ہے ۔ یہ امتیازِ خاص ہی ان کی پانچ دہائیوں کی کمائی ہے ۔ انہوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا ہے لہذا ان کے اشعار میں گہرائی بھی ہے اور معنویت بھی ملاحظہ کریں

ابرِ رواں، بارش کے قطرے، شبنم، دھوپ ، ہوا ، پانی
سب کی پیاس تو بجھ جاتی ہے، رہ جاتے ہیں مثلاً ہم

لفظ برتے ہیں تو احساس ہوا ہے مجھ کو
کتنا دشوار ہے لفظوں کا تصرف بھائی

کھنگا لو شوق سے تم وقت کے گہرے سمندر کو
ہوس کی سیپ میں اخلاص کا گوہر نہیں ہوتا

بسا اوقات رہتا ہے وہی محروم سائے سے
کہ جو آنگن میں اپنے نخلِ سایہ دار رکھتا ہے

جسے کہنے کی جرأت اچھے اچھوں کو نہیں ہوتی
اشارے و کنائے میں سخنور بول اٹھتا ہے

تمھارے رشتے کی اب پرورش نہیں ممکن
کہ میرے دل میں یہ کانٹا کھٹک چکا ہے بہت

تہذیبِ نو کے نور سے روشن ہوا جہاں
پھر اس کے بعد ایسا اندھیرا ہوا کہ بس

جس زاوئے سے دیکھو دنیائے رنگ و بو کو
ہر شئے میں زندگی کی تصویر بولتی ہے

ڈاکٹر معصوم شرقی کی غزلوں میں رومانی شگفتگی کی عمدہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا لہجہ و اسلوب بھی ہمیں اپنی طرف راغب کرتا ہے اور ایک خوشگوار فضا میں لے جاتا ہے ۔ تخیل اور تاثر کی یہ ہم آہنگی بہت کم شعراء کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے ۔

اس روشنی میں مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں

دریچے دل کے کھلے ہیں حسیں بہاروں میں
اس انجمن میں بھی اک شب گزارئیے صاحب

شریکِ خامشی ہوتے، شریکِ داستاں ہوتے
میں ان کا رازداں ہوتا، وہ میرے رازداں ہوتے

رفاقت کی یہ کس منزل پہ آ پہنچے ہیں ہم دونوں
محبت آئینہ ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے

دیکھا پلٹ کے اس نے کسی کی طرف نہ پھر
معصوم اس طرح وہ ہمارا ہوا کہ بس

میں اس کو دیکھتا تھا بڑے اشتیاق سے
لیکن کبھی وہ میری طرف دیکھتا نہ تھا

یہ لطافت، یہ کشش اور یہ ترا حسن و جمال
تیری جانب دیکھ کر سوئے قمر دیکھے گا کون

ڈاکٹر معصوم شرقی بنیادی طور سے بڑے مخلص اور خلیق انسان ہیں ۔ درس وتدریس سے جڑے رہنے کے سبب یہ خاصیت اور مہمیز ہوئی ہے ۔ شخصیت کے اس پہلو کا اثر ان کی شاعری میں بھی نمایاں ہے ۔ ملاحظہ کریں

اب ملاقات میں باقی نہیں پہلا سا تپاک
گفتگو بھی ہے بہ اندازِ تکلف بھائی

چاہے تو کوئی پیار سے کرلے مجھے اسیر
نفرت سے زیر کر نہ سکے گا مگر مجھے

میری ہر گفتار سے ٹپکے خلوصِ بیکراں
میرا ہر نغمہ پیامِ امن کا پرچم لگے

اٹھنے کو ہے تہذیب و تمدن کا جنازہ
اخلاق کے لاشے پہ کفن دیکھ رہے ہیں

اے عہدِ نو ! میں تیرا مخالف نہیں، مگر
تہذیب کو نہ جھونک نمائش کی آگ میں

اپنا ضمیر بیچ کر خوش ہورہے ہیں لوگ
اس دورِ مصلحت کی تجارت بھی خوب ہے

کچھ بھی کشش نہ باقی رہے گی حیات میں
دل میں خیالِ ترکِ محبت خدا نہ دے

بطنِ قدیم سے ہی نئے خیالات جنم لیتے ہیں ۔ شاعری اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق رد و قبول کے مرحلوں سے گزرتی ہے اور پھر اپنے لئے ایک نیا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے ۔ ارتقائی عمل کا یہ انداز انسانی زندگی کا اہم جزو ہے ۔ شاعری کی بھی ابتدا سے ارتقائی عمل جاری و ساری ہے ۔ آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولیج کا روپ دھارن کر چکی ہے ۔ آج کا شاعر پہلے کے مقابلے میں زیادہ باخبر ہے ۔ لہذا اس کی شاعری میں عصری آگہی کے موضوعات و واردات کا ذخیرہ کچھ زیادہ ہی نصیب ہے ۔ زمانے کی اس تغیر پذیری کا اثر ڈاکٹر معصوم شرقی کی غزلوں میں بھی نمایاں ہے ۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں

میری حیاتِ شوق کا ہر لمحۂ رواں
آلامَ روزگار کے بابوں میں قید ہے

چشمِ عبرت سے دیکھئے مجھ کو
اپنی تہذیب کا جنازہ ہوں

جسے بھی دیکھئیے آمادہ ہے مطلب پرستی پر
یہ دنیا واقعی اب مطلبی معلوم ہوتی ہے

نہ جانے کتنے زمانے میں انقلاب آئے
ہمارا حال جو پہلے تھا آج بھی ہے وہی

تھک گیا ہے چلتے چلتے کاروانِ ماہ و سال
وقت کی رفتار اب پہلے سے کچھ مدھم لگے

کچھ اور ہی اب نظمِ وطن دیکھ رہے ہیں
ہر گام پہ ہم دارو رسن دیکھ رہے ہیں

مکار رہبروں کی قیادت بھی خوب ہے
اس دور پرفتن کی سیاست بھی خوب ہے

مندرجہ بالا اشعار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ڈاکٹر معصوم شرقی اپنے زمانے کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔

فنی و فکری اعتبار سے ڈاکٹر معصوم شرقی غزل کے مزاج داں لگتے ہیں اور انھوں نے اپنی غزلوں میں وسعت فکر کے ساتھ نئے پن کو بھی اپنایا ہے ۔تراکیب و استعارے کا استعمال بھی وہ سلیقے سے کیا کرتے ہیں ۔ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں اور نہایت ہی فنکاری کے ساتھ اپنے مشاہدات و تجربات کی پیکر سازی کرتے ہیں ملاحظہ کریں

ہماری مٹھی سے ذرے بھی اب پھسلتے ہیں
کبھی تو چاند ستارے بھی دسترس میں رہے

اتر جاتا ہے مستقبل کا چہرہ
میں جب ماضی کا البم دیکھتا ہوں

آج پابندیاں زباں پر ہیں
کیجئے بات استعاروں میں

خبر اِ س کی نہیں ہوتی کبھی ساحل نشینوں کو
پسِ سیلِ بلا کیا ہے سمندر بول اٹھتا ہے

ہوتا ہے رازِ ہستی جب آشکار خود پر
قندیلِ آگہی کی تنویر بولتی ہے

صحنِ گلشن میں اگر ڈیرہ لگے صیاد کا
کوئی طائر پھر گلستاں میں بسیرا کیا کرے

کبھی اس کی رفاقت کا پرندہ
مری دیوار پہ بیٹھا نہیں تھا

اجڑے گلشن کی خبر تو نے نہیں دی تو کیا
میری چٹکی میں کسی تتلی کا پر تو آیا

علم و ہنر کا تحفہ لیے آیا دہرِ نو
لیکن یہ تیرگئ جہالت نہیں مٹی

ڈاکٹر معصوم شرقی کی غزلوں میں وہ تمام عوامل شامل ہیں جو اچھی شاعری کے لیے ضروری ہیں ۔ معروف شاعر و ادیب اختر شاہجہان پوری نے اپنے ایک مضمون ” ڈاکٹر معصوم شرقی کی لازوال شاعری ” میں لکھا ہے

” کلکتہ کے ادبی افق میں ان کا نام اہمیت کا حامل ہے ۔ انھیں ادب میں جو مقام ملا اس پر ان کے ہم عصر فخر کرسکتے ہیں ۔ ان کی تخلیقات لازوال ہیں ۔انھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ”

ہردلعزیز شاعر و ناقد ایم نصراللہ نصر نے اپنی کتاب ” افہام ادب ” میں لکھا ہے کہ

” ان کی غزلوں میں غزل کے وہ تمام لوازمات، شعری ضروریات اور فنی کمالات موجود ہیں جو ایک اچھی اور معیاری شاعری کے لیے ضروری ہیں ۔”

میری دعا ہے کہ اللہ ڈاکٹر معصوم شرقی کو صحتمند و توانا رکھے تاکہ وہ اردو ادب کی مزید خدمت کرسکیں

Previous articleحیرت انگیز اور ہمہ گیر شخصیت: مولانابرکت ا للہ بھوپالی از: داؤداحمد
Next articleنظم “الفت حسین کی” از: ڈاکٹر نصیر احمد عادل کمھرولی۔دربھنگہ۔بہار

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here