’’چشم حیراں‘‘ایک سو انیس صفحات پر مبنی احمد جمال پاشا کے تیس طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ اسے پہلی بار مکتبۂ نئی آواز(جامعہ نگر نئی دہلی)نے ۱۹۷۸ء میں طبع کیا۔ اس کو انھوں نے اپنے ہم شغل و ہم عصر مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے نام سے معنون کیا۔ اس کے موضوعات ان کی ذات اورکائنات کی رنگا رنگ حیرانیاں ہیں جو بہ انداز طنزومزاح فن کے جامہ میں جلوہ گر ہیں۔کمال یہ ہے کہ بدعنوانیوں ، ناہمواریوں اور مکروہ مناظر کی مصوّری میں پاشا کی برہمی احتجاج کی حد تک ہی رہتی ہے۔ ایک تخلیقی احتیاط کے سبب کہیں اس کا سایہ تک نہیں دکھائی دیتا جو بجا طورپر ایک مشّاق مزاح نگار کا طریقۂ کار ہے۔
وہ تحریر جس کا عنوان’’چشم حیراں‘‘ ہے جسے مضمون نما تعارف یا کتاب کا دیباچہ کہہ لیجیے ، عام دیباچوں سے الگ اورا نفرادی انداز کا حامل ہے۔ اس میں انھوں نے ادبی سنگینیوں کو ہدفِ مزاح بنایا ہے۔ نہایت فلسفیانہ اور مسرت آمیزانداز میں نشاندہی کی ہے کہ جس دور کا انھیں سامنا ہے وہ طنزیہ و مزاحیہ شعور کے فروغ کے لیے موزوں اور سازگار تو ہے مگر اس میں معنیٰ خیز تبسم کے مقابلے زہر خند کے امکانات زیادہ ہیں۔ ملاحظہ کریں:
’’یقین جانیے دوروہ کہ آنکھوں سے کام لوں تو سلائی پھرجائے۔ سننے پر آئوں تو سماعت زائل ہوجائے۔ منھ کھولوں تو بند ہوجائوں۔ پھربھی ممکنہ دیدنی و گفتنی سے گرکچھ سمجھ یا سمجھا سکتا ہوں تو یہ کہ برے کو دیکھوں یا اچھے کو حیرانی نہیں جاتی۔ سب دھان بائیس پنسیری‘‘ ص:۷۔
اس میں اس بے ہنگم صورتِ حالات کی طرف بھی اشارہ ہے جس کی وجہ سے حسن و قبح ، اچھائی و برائی میں تمیز کرنا بقول ان کے بد تمیزی کے مترادف ہے۔ زندگی اور زمانے کی بے اعتدالی و ناہمواری پر ان کی گرفت بڑی اچھی اور مضبوط ہے۔ان کی نگاہیں دور رس اور باریک بیں ہیں۔ وہ موضوع کی تہہ میںمستور کبائر تک بہت جلد پہنچ جاتی ہیں اور خام مواد فراہم کرلیتی ہے۔ انھیں حیرانی اس امر پر بھی ہے کہ اکثر لوگ دوسروں کا مال اغواکرلیتے ہیں اور نیا رنگ و روغن چڑھاکر ذاتی بنالیتے ہیں:
’’پرانی تعریفیں پھینٹ کر نئی تعریف تصنیف کرلی جاتی ہیںجس کے چکر میں اچھا بھلا مزاح نگار راشد الخیری بن سکتا ہے مگر جانشینِ پطرس نہیں ہوسکتا‘‘ ص:۷
غرض ادبی دھاندلیوں پر کاری طنز کیا ہے۔ طنز یہ و مزاحیہ ادب پر تنقید کے بارے میں ان کی باتیں مسرت و تبسّم سے لبریز ہیں۔ بقول ان کے ادب میں استفادہ کے نا م پر قے ہورہے ہیں جو قابل مذمّت ہے۔’’ہم نے ریسرچ کی‘‘ کا موضوع بھی ادب ہے۔ ریسرچ کا معیار گذشتہ وقتوں میں روبہ زوال تھا آج اس کی حالت بقول ان کے دگرگوں ہے:
’’ہمیں مشورہ دیا کہ عربی فارسی یا انگریزی میں جس موضوع پر کام ہوچکا ہے اسی موضوع پر اردو میں تم بھی کام کرو۔اس کے لیے کوئی پرانی گمنام یا کمیاب تھیسس تلاش کرلی جائے گی۔ بس تم ایک اچھا سا مترجم تلاش کرلو۔ ڈاکٹریٹ پیسے کا کھیل ہے‘‘ ص:۷۷۔
ادبی موضوعات پر یہ مضامین بہ انداز تحریف و ہجو ملیح مزاح کی اچھی مثالیں ہیں۔
ادب ، سیاست، محکمہ جاتی جرائم اور روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعے پاشا کے محبوب موضوعات ہیں۔ ادبی بدعنوانیوں کی پردہ دری میں تو آپ طاق ہیں۔ صحافت کے ماہر کھلاڑی ہونے کے سبب فلاحی محکموں، سرکاری اداروں مثلاً پی ڈبلو ڈی، میونسپلٹی ، کارپوریشن وغیرہ کی کارگزاریوں پر بھی بڑی اچھی نگاہ ہے۔ ان کی نثر نگاری کے نمائندہ حربوں میں تحریف، تمثیل، مکالمہ، ہجو ملیح، منظرنگاری ، قصّہ طرازی اور لطیفہ گوئی کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے سہارے انھوں نے اردو کو معیاری تخلیقات دی ہیں۔ ’’چشم حیراں‘‘ کے تمثیلی و محاکاتی مضامین میں ’’سڑک کے گڈھوں سے انٹر ویو‘‘،’’چند لمحے آل پین کے ساتھ‘‘، ’’کرسی‘‘، ’’چیونٹی‘‘ اور ’’جوتا کانفرنس‘‘وغیرہ خاصے اہم ہیں۔سڑک کے گڈھوں سے انٹر ویو پڑھتے وقت کرشن چندرکے معرکہ آرا ناول ’’ایک گدھے کی سرگذشت‘‘ کی طرف توجہ منتقل ہوتی ہے۔ پاشا کا موضوع محکمۂ تعمیرات اور میونسپلٹی کے ملازمین و آفیسروں کی رشوت خوری ، خود غرضی اور مفاد پرستی ہے۔ سڑک کے مختلف النوع گڈھوں سے انٹرویو لطف و لطافت سے پر اور حددرجہ فنکارانہ ہے۔ ایک سنِ رسیدہ گڈھے سے بات چیت کے دوران معلوم ہواکہ محکمہ اس کو پاٹنے پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اس لیے اس کا رقبہ بتدریج بڑھ رہا ہے اور و ہ دن دور نہیں جب اس میں مگر مچھ تک پالے جائیں گے۔ بعد کے معاملے ملاحظہ کریں:
’’اَے پی ڈبلوڈ ی کے گڈھے مگر تم میں مگر مچھ پالنے کی کیا ضرورت پڑسکتی ہے؟ گڈھے نے کہا: یہ جو گڈھے پیداکر نے والے لیڈرسڑکوں کی حالتِ زار پر مگر مچھ کے آنسو بہایا کرتے ہیں ان کے لیے آنسو فراہم کرنے کے واسطے‘‘۔ ص: ۱۰
ایک دوسرے آدم خو ر سرنگ نماگڈھے سے ان کی گفتگو ملاحظہ ہو:
’’کیا تمھاری بھی مرمّت نہیں ہوئی۔ گڈھے نے کہا: بہت مرمّت ہوئی۔ تو کیا تم اتنے بڑے ہوچکے ہو کہ پاٹے نہ پٹ سکو۔گڈھے نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں۔ میں تو ایک اشارے میں پٹ سکتا ہوں،پھر؟گڈھے نے جواب دیا:دراصل میں وہ گُڑ نہیںجسے چیونٹے کھاسکیں۔ میں کوئی ایریا غیر یا گڈھا تو نہیں ہوں۔ میں نگر مہاپالیکا کا گڈھا ہوں، آخر میونسپلٹی تم کو پاٹتی کیوں نہیں؟ میونسپلٹی تو جناب ہر سال پابندی سے پاٹتی ہے مگر صرف اپنی فائلوں میں‘‘ ص:۱۱
مذکوہ بالا تمثیلی بیانات سے ہندستان کے دفتر شاہی نظام کا منظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے۔ ملازمین سے لے کر حکام اعلا تک اس حمام میں برہنہ دکھائی دیتے ہیں جن کی کارکردگیوں نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ اس نظام کی بدحالی و بے اعتدالی ہر حسّاس طبع کے لیے واقعی موجب حیرانی ہے:
’’گڈھے نے کہا بھائی جان میں مہابھارت سے بھی پرانا ہوں ۔ میں نے پوچھا : یہ سب ٹھیک ہے مگر تم کو پاٹاکیوں نہیں جاتا؟ اس نے کہا: مجھ کو بھلا کون پاٹ سکتا ہے۔ جس انجینیر کا علاقہ ہے وہ مجھ میں مچھلیاں پالتا ہے۔ اس لیے اس نے نقشہ ہی بدل دیا ہے اور اب میں سرکاری طورپر بجاے گڈھے کے جھیل ہوں۔اب دنیا میں کوئی فائل نہیں جس میں میرا وجود محض سڑک کے ایک گڈھے کی حیثیت سے ہو۔ میں نے کہا: یہ تو کھلی ہوئی چار سو بیس ہے۔ گڈھے نے کہا: تو کیا ہوا آخر زمانہ بھی تو فورٹونٹی کا ہے‘‘ ص:۱۳۔
یہ انکشاف بھی اپنے آپ میں مضحکہ خیز ہے کہ انٹرویو عالم بیداری کا نہیں بلکہ مین ہول میں گرکربے ہوش ہونے کے بعد کا ہے۔ مین ہول میں جب دوسرا آکر گرا تو ان کو ہوش آیا۔ میونسپلٹی کی کارستانیوں پر زبردست احتجاج ہے جس کے عملوں کی مہربانی سے مین ہول ہمیشہ حادثوں کو دعوت دیتا رہتا ہے۔ ڈھکن ملازمین کے گھر یا کباڑ خانے پہنچادیا جاتا ہے۔ زندگی سے جڑے یہ چھوٹے و مختصر واقعے جو پوری زندگی اور سماج میں بھونچال لاسکتے ہیں ، پاشا کی مزاح نگاری کے بہترین مواد ثابت ہوتے ہیں۔ واقعہ نگاری اور زبان و بیان کا کمال دیدنی ہے۔ کرشن چندر سے استفادہ کے باوجود موضوع کی پیش کش میں پاشا کامیاب ہیں ۔دونوں کے موضوعات میں کشادگی ہے۔ دونوں نے ہندوستان کے دفتری نظام کے استحصال رویوں کی نقاب کشائی کی ہے۔ اس قبیل کے دیگر مضامین میں ’’چند لمحے آل پین کے ساتھ‘‘،’’کرسی‘‘ ، ’’چیونٹی‘‘ وغیرہ میں بھی سیاسی و دفتری جرائم پر ان کا احتجاج فنی پیکروں میں جلوہ گر ہے۔ بظاہر یہ حقیر و بے ثبات اشیاء ہیں مگر ہماری زندگی میں ان کی کارکردگی بڑی اہم ہے۔ چیونٹی اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے تو کرسی اقتدارو استحصال ، مفاد پرستی ، حرص و ہوس کی۔ ان مضامین کا نمایاں وصف تمثیلی انداز ہے۔
’’چشم حیراں‘‘ میں چند خاکے بھی ہیں۔ ’’زہر کے سوداگر‘‘، ’’ڈھل مل بھائی‘‘،’’ مسٹر ہاں ہاں‘‘وغیرہ ۔زہر کے سوداگر میں کھوٹومل کا خاکہ فنی اعتبار سے کامیاب ادبی کاوش کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔انسانی معاشرے میں زہر کی سوداگری و جرائم کی تجارت ان دنوں زوروں پر ہے اور ستم بالاے ستم یہ کہ ایسے ہی لوگ سماج میں معتبر کہلاتے ہیں۔ پاشانے ان چہروں کو ہدف بنایاہے کھوٹومل ایسا ہی کردار ہے۔ وہ اپنے جرائم کے بل پر شہر کاوی آئی پی ہے۔ اہم تقاریب میں شریک ہوتا ہے اور لوگ اس کی شرکرت کو اپنی عزت و شان کی علامت سمجھتے ہیں۔ اس کے ارد گرد سفید پوشوں کا مجمع ہوتا ہے۔ ان ظاہری اوصاف کے پس پردہ وہ زہر کا بیوپار بڑی جرأت اور فراخدلی کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ دوا کی بڑی کمپنی کا مالک ہے جس میں ناقص دوائیں اور مصنوعی انجکشن تیار ہوتے ہیں جن کے استعمال سے لوگ پابندی سے بڑی تعداد میں مرتے ہیں۔ تحقیق ہوتی ہے تو یہ صاف نکل جاتا ہے۔ دوسرے بے گناہ پکڑے جاتے اور ناکردہ گناہوں کی سزا پاتے ہیں۔ اس نوع کا ایک اور جعلیہ وسیہ کار کردار دولت بخش ہے۔ یہ دودھ میں پانی ملاکر کروڑوں کا آدی بن جاتا ہے:
’’اس کے بڑے بڑے کارخانے ہیں جن میں مکھن گھی اور پنیر وغیرہ کے ڈبے تیار ہوتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بِک جاتے ہیں۔ پھر سیٹھ دولت بخش کے ڈیری کے دودھ میں ساٹھ فی صد پانی ہوتا ہے۔ بیس فیصد دودھ کا رنگ اور پندرہ فی صد کیمیائی اشیاء، بقیہ پانچ فی صد دودھ کا ایسنس ہواکرتا ہے‘‘ ص: ۱۶
اس ملاوٹ کا ردِّ عمل تخریبی ہوتا ہے۔ بچے انواع و اقسام کے امراض کی زد میں آکر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کا لے کرتوتوں میں حکام برابر کے حصّے دار ہیں۔ پاشا کے اس بیانیہ میں جو تازیانے ہیں ، جو طنزیہ کیفیت ہے وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ ملاوٹ کا یہ زہر ہر شے میں موجود ہے۔ سیٹھ تاملوٹ دال کا بیوپاری ہے جسے کھاکر ہٹّے کٹّے لوگ زمین پکڑ لیتے ہیں ۔ ان ملاوٹ پیشہ لوگوں نے عوامی زندگی تلخ کردی ہے اور سنگینیوں کے دام بچھارکھے ہیں جس سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہ سلگتے مسائل مگرآفاقی تناظر رکھنے والے موضوعات ہیں جن کی عکاسی میں وہ کامیاب ہیں۔ ’’ڈھل مل بھائی‘‘ اور ’’مسٹر ہاںہاں‘‘ لااُبالی اور متلون مزاج اشخاص ہیں جو ’’خوجی‘‘کی طرح اپنے اقوال اورکردار کی فطری ناہمواریوں سے ہماری توجہ کھینچتے ہیں۔ ڈھل مل بھائی کسی ایک ارادے یا فیصلے پر نہیں رہتے۔ یہی سبب ہے کہ مختلف پیشوں اور ڈگریوں کے باوجود وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ ان کی اس فطری بے اطمینانی سے مزاج کی شکلیں بنتی ہیں۔ مسٹر ہاں ہاں کا تکیہ کلام ہاں!ہاں!ہے ۔ یہ مشورے کثرت سے لیتے ہیں مگر غیر ارادی طورپر عمل اس کے برعکس کرتے ہیں:
’’انھوں نے صبح اٹھنے کے فوائد پر جس دن مشورہ لیا تھا شام تک پلنگ پر خراٹوں کے ساتھ اس پر غورکررہے تھے ۔جس سال امتحان میں ڈراپ کرنے کا مشورہ لیا تھا اس سال امتحان میں بیٹھے ہی نہ تھے‘‘ ص: ۱۱۷
غرض یہ کردار ہمارے سماجی مشاہدے کا حصہ ہیں جو اپنی فطری کجی کے سبب تفریح طبع کا سامان بنتے ہیں۔ اپنی بے اعتدالیوں سے پُر اعتدال زندگی پر نظر ثانی پر مجبورکرتے ہیں جس سے ہمارے اندر اعتدال و توازن میں مزید استحکام پیدا ہوتا ہے۔
ہندوستان کے سیاسی حالات کی ستم شعاری پر پاشاؔ کا قلم بہت بے باک تبصرہ کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے معروف حربوں سے گندم نما جو فروشی، اچھائیوں کی آڑ میں برائیوں کی کاشت ، لیڈروں کی ایمان فروشی، مفاد پرستی اور مکرو فریب کی مزاحیہ تصویر کشی کی ہے۔ ایسے مضامین میں ’’رشوت ٹیکس‘‘ ،’’زیرو سے ہیرو‘‘،’’وزیر قحط‘‘،’’حالات قابو میں ہیں‘‘،’’تھرڈ کلاس گڈبائی‘‘ وغیرہ سماجی و دفتری جرائم کے نت نئے جلوئوں سے سجے ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں رشوت پر بھی اعلا حکام اور متعلقہ محکمہ کے وزراکو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ ٹیکس کے محکمے کا وزیر اس کے تدارک کے لیے نیا ٹیکس لگانے کی تجویز رکھتا ہے مگر سکریٹری اپنے دلائل سے اس منصوبے کی دھجی اڑا دیتا ہے۔ دونوں کی گفتگو ، تجویز سازی اور اس کے نفاذ کے طریقے سے عیاں ہوتا ہے کہ منتری سے سنتری تک کوئی اس روگ سے مبرّا نہیں۔ اس لیے رشوت کے انسداد کا کوئی قانون ایسے ماحول کی تاب کب لاسکتا ہے۔
نوجوانوں کی فراریت اور انتشارِ حیات کی تصویر کشی ’’زیروسے ہیرو‘‘ میں قرینے سے کی گئی ہے۔ کامیابی کا راز بقول ان کے کسی نہ کسی حادثے سے دوچار ہونے میں ہے۔ اس قول کی ہمایوں، تیمور اور بائرن کی زندگی کے حادثوں سے تصدیق ہوتی ہے۔ مضمون کا موضوع موجودہ نوجوان نسل کی خود فریبی اور ذہنی ناہمواری ہے۔ انسان کی آرزوئوں اور ان کی تکمیل کے بیچ جو خلیج یا بُعد ہے وہ پاٹے نہیں پٹتی۔ اس عمل میں ناکام ہونے کے بعد انسان خوابوں ، خیالوں کی دنیا میں (فرضی)اڑانیں بھرتا یا گم راہ ہوکر تشدد کی راہ اپنا لیتا ہے۔ عینی طور پر دونوں صورتیں زندگی سے فرار کا اشاریہ ہیں۔
استفادہ ادب میں ایک مستحسن رویّہ ہے۔ پاشا اپنے پیش روئوں میں کرشن چندر سے کافی متاثر نظرآتے ہیں۔ ’’وزیرقحط‘‘ میں قحط کے دوران حکومت، حکام اور وزراء کے ناپاک استحصالی عزائم کی انھوں نے ترجمانی کی ہے۔ کرشن چندر کے ’’ان داتا‘‘ میں بنگال کے تاریخی قحط اور قحط زدوں کی کربناک داستان ہے جس سے انسانیت شرمندہ ہے۔ پاشا صاحب کا انداز ’’ان داتا‘‘ سے مختلف ہے ۔ و ہ قحط کے پس منطر میں حکومت کی بدعنوانیوں کی زیادہ اجاگر کرتے ہیں:
’’قحط اس لیے پڑگیا کہ کئی سال سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ ایک آدھ چھینٹا پڑا بھی تو وہ وزیروں کے وعدوں کی طرح ۔ وعدوں اور چھینٹوں پر کون کب جیا ہے‘‘ ص:۲۸
قحط میں حکومتیں بیانات جاری کرتی اور وقت گزارتی ہیں ۔ لوگ اس عرصے مرکے کھیت ہوجاتے ہیں۔ امداد کے علان پر عمل کرتے کرتے قحط ختم ہوجاتا ہے۔ امداد بھی یوں دی جاتی ہے کہ متاثرین سے وعدۂ فردا پر دستخط کرالیے جاتے ہیں اور رسد کی بوریاں حکام ،مکھیا، سر پنچ یا پٹواری کے گھر چلی جاتی ہیں:
’’وہ پیٹ تو بھرتے ہیں مگر فائلوں کے رجسٹروں کے اور اپنے‘‘ص:۲۹
’’بڑے بڑے انجینئر نہروں، تالابوں اور کنوئوں تک کی کھدائی کاغذ پر کرتے ہیں اور زمین کھیتی کے لیے چھوڑ دیتے ہیں‘‘ ص: ۲۹
پاشا نے حکومتی نمائندوں کے خمیر کی خباثتوں کی عکاسی کی ہے۔ بھوکے ننگے جسموں سے وہ اپنی ہوس کی تسکین کرتے فاقہ زدہ عورتوں سے بھانت بھانت کے کام لیتے اورخوش ہوتے ہیں۔ اس قبیل کا ایک اور مضمون ’’حالات قابومیں ہیں‘‘ ہے۔ اس کا موضوع فرقہ وارانہ فسادات اور حکومت کی پالیسیاں ہیں۔ فساد کے مواقع پر حکومت کا بیان دنگائیوں کے حوصلے بڑھاتا ہے ۔ نتیجتاً بستیاں تباہ کردی جاتی ہیں۔ زہر میں بجھا ہوا پاشا کا یہ انداز بھی ملاحظہ کریں :
’’حالات کس حد تک قابوں میں ہیں اس کا سمجھنا اب ہمارے لیے بہت آسان ہوگیا ہے کیوںکہ حالات کی جدید لغت میں قابو کے معنیٰ بالکل بے قابو ہیں اور مجمع منتشر کرنے کے معنیٰ مجمع لگانا اور پتھرائو کرنا کے معنیٰ لوٹ، مار، آتش زنی، آنسو گیس استعمال کرنے کے معنیٰ فائرنگ، لاٹھی چارج کے معنیٰ کرفیو آڈر اورکرفیو کے معنیٰ فوج کی طلبی اور جہاں فوج کا لفظ استعمال ہوا ہم سمجھ جائیں گے کہ فوج پہنچنے سے پہلے وہ علاقہ سپر د خاک کیا جاچکا ہے‘‘
غرض کہ فساد پر حکومت کی جانبداری اور اس کی یک طرفہ کارکردگی پر پاشا صاحب کی اچھی پیش کش ہے۔شعبۂ ریل کی مبینہ دھاندلیوں پر ان کا مضمون ’’تھرڈکلاس گڈبائی‘‘ ایک کمزور تخلیق ہے۔ اس موضوع پر شوکت تھانوی کی ’’سودیسی ریل‘‘ کے بعد بچا بھی کیا ہے۔ دیگر عوامی مسائل پر ان کے مضامین ’’سڑک کا گھیرائو‘‘ اور ’’جس محلے میں ہے ہمارا گھر‘‘ وغیرہ بھی بھرتی کے ہیں۔ البتہ ’’پورٹ فولیو‘‘ اور نفسیاتی موضوع پر ان کی تحریر بہ عنوان ’’بھولنا‘‘ نسبتاً اچھی چیزیں ہیں۔ بیگ اپنے آپ میں اک پورٹ فولیو ہے۔ پاشا نے اسے جملہ جرائم کے ساتھ ساتھ کارہاے نمایاں کی علامت کے طورپر پیش کیا ہے:
’’بیگ تاریخ ہے ۔ ایک وہ بیگ تھا جس میں سے کاغذ نکال کر ہندوستان کی آزادی کا اعلان کیا گیا تھا۔ اگر بیگ نہ ہوتا تو کولمبس امریکہ اور فاہیان ہندوستان نہ پہنچتا اور اگر یہ سب بلابیگ کے کہیں پہنچ جاتے تو آج ہمارے پاس نہ ابن بطوطہ کا سفرنامہ ہوتا اور نہ مارکو پولو کے سفرپارے۔جن کے نوٹس انھوں نے بیگ ہی میں محفوظ رکھے تھے‘‘
ص:۷۷
’’بیگ اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی ،چوربازاری، رشوت ستانی اور جرائم کی علامت بھی ہے۔ کسی بھی بیگ میں ہیرے سے لے کر افیون تک نکل سکتی ہے اور رشوت کے مال سے لے کر پستول تک نکل سکتا ہے۔ اس لیے ہر شریف آدمی کے بیگ پر ہر پولس والے اور رہزن کی نظر ہوتی ہے‘‘
’’بھولنا‘‘ میں حافظے کی کمزوری یا انسان کی فطری بدحواسی اور اس کے مضحکہ خیز نتائج کو خوب اجاگر کیا ہے۔ لطیفہ گوئی اور واقعہ طرازی سے قاری کی اچھی تفریح ہوتی ہے۔ملاحظہ ہو:
’’ایک دن میں بھی دودھ ڈبل روٹی لینے نکلا۔ ہر شخص مجھے دیکھ کر ہنسنے لگا۔ جلا بھنا میں گھر میں گھسا تو گھروالی کا ہنسنا کھل گیا لیکن میرے آپے کے اندر ہونے سے پہلے یہ بتاکر شرمندہ کردیا کہ میں ان کا پائجامہ پہنے ہوئے ہوں‘‘ ص:۵۶
اس ضمن میں ’’اُدھار کا چسکا‘‘ کا ذکر دل چسپی سے خالی نہیں۔ چھوٹے چھوٹے واقعوں اور لطیفوں کے ذریعہ مزاح کے عمدہ نمونے معرضِ وجود میں آئے ہیں۔ ملاحظہ کریں:
’’قرض لینے اوراس کے ادا نہ کرنے میںخوفِ خدا کی بھی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اس کی ساری خدائی بھی تو آخر قرض ادھار پر ہی چل رہی ہے جس کی ایک شکل عذاب، ثواب، جنت اور دوزخ ہے اس لیے وہ یقینا نمرود کی خدائی ہوگی جس میں ادھار پر پابندی ہوگی‘‘ ص:۴۵
علاوہ ازیں پاشا کے لیے تعلیم کا سیاست کی باندی بن جانا ایک سانحے یا صدمے سے کم نہیں ۔ خواہ اس کی وجوہات کچھ ہوں، ہمارے پورے تعلیمی نظام پر سیاست کا پہرہ بڑا سخت ہے۔ تعلیم اور تعلم سے جڑا کوئی بھی مرحلہ یا معاملہ ہو سیاست کے جاوبے جا عمل دخل سے مبرّا نہیں۔ اس عنوان پر ’’بھوندومیاں‘‘ کی شکل میں پاشا کا احتجاج موجود ہے۔ گو بہت کامیاب تو نہیں کہا جاسکتا تاہم ان کے پیش کردہ افکار غیر معمولی اورسنجیدہ ہیں۔ ’’جانبداری‘‘ کو بھی اسی زمرے میں رکھا جائے گاجو بیش تر اوقات اقربا پرستی یا قبیلہ پرستی کی محرّک ہوتی ہے۔ معاشرے کے لیے یہ بھی زہر ہے۔
حاصل مطالعہ یہ کہ ’’چشم حیراں‘‘ میں دورِحاضرہ کے سلگتے عوامی، سیاسی اور ادبی موضوعات و مسائل کا تسلسل ملتا ہے۔ مکروہ اور ناہموارنظاروں کو فنکارانہ سنجیدگی کے ساتھ پاشانے ضبط تحریر میں لیا ہے۔ اس عمل میں ان کا نمایاں وصف اختصار اور جامعیت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ زمانے کی غلط روی ، بے اصولی اور بے ضابطگی کو حسنِ بیان اور خوش سلیقگی کے ساتھ اجاگر کرنا انھوں نے اپنی حیات کا موقف بنالیا تھا۔ وہ بلا کسی تصنّع ، مصلحت یا مفاہمت کے اپنے موقف کے اظہار پر ڈٹے رہے اور سماجی ، سیاسی و ادبی پس منظر میں ان ’’داغی‘‘ چہروں پر نشانے سادھتے رہے جو سماجی تعمیرات کے منصب پر مامور ہیں۔ ’’چشم حیراں‘‘ حیات و کائنات کے چیدہ چیدہ مسائل پر ایک بہترین تخلیقی احتجاج ہے۔(یہ بھی پڑھیں!مضامینِ اکبر الٰہ آبادی : از قطب الدین اشرف)