شعبۂ اردو
دہلی یونیورسٹی، دہلی۔
پیغام آفاقی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔وہ اہم فکشن نگار،اچھے شاعر اورمنفرد ناقدتھے۔ مجلسی آدمی تھے، دوستوں کے دوست، مہمان نواز اور خوش گفتار تھے۔سیمناروں اور کانفرنسوں میںاپنے خیالات کا بیباک اظہار کرتے،ملنے والوں سے بے تکلفانہ باتیں کرتے،طالبعلموں کا علمی تعاون کرتے ، عمدہ مشورے دیتے اور علمی مباحث میں اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھلاتے تھے۔ ان کا تعلق ان چندادیبوں میں تھاجو وضعدار، با اخلاق اور کشادہ قلب ہیں۔ ان کے ناول ’پلیتہ ‘کا موضوع نیا، دلچسپ اور تجسس آمیز تھاتاہم اسے زیادہ مقبولیت نہ ملی۔ غالباًاس کے لیے کہ وہ اپنے خالق کی نظر ثانی اور اس کے فائنل تنقیدی ٹچ سے پہلے اشاعتی مرحلے سے ہم کنار ہو گیا۔ البتہ ان کا پہلاناول ’مکان ‘ شہرت کے جس بام عروج تک پہنچا ویسی پذیرائی اس عہد کے کسی اور ناول کو نصیب نہ ہو سکی ۔ افسانوی مجموعے ’مافیا‘ کو بھی خاصی توجہ سے پڑھا گیا اور اردو حلقوں نے اسے بھر پور داد و تحسین سے نوازا۔ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ان کی فکشن کی اسی شہرت کی چمک نے ان کی شخصیت اوران کی دوسری فنی خوبیوں پرایک ایسی رنگین ردا ڈال دی جس کی وجہ سے ان کی غیر افسانوی صلاحیتوں کی دمک علمی و ادبی دنیا میں اس توانائی اور تواتر کے ساتھ نہیں پہنچ سکی جس کی وہ متقاضی تھی۔ان کی ایسی ہی صلاحیتوں میں سے ایک شاعری ہے۔ اور فی الوقت گفتگو اُن کی نظمیہ شاعری سے ہی مقصود ہے۔
کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پیغام آفاقی ایک شاعر بھی تھے ۔ شاعر بھی برائے نام نہیں ، بلکہ اچھے ،اہم اور بے حد حساس۔ ’درندہ ‘ان کے مجموعے کا نام ہے۔ جس پہ شعری مجموعے کے نام سے کہیں زیادہ ان کے ناول یا افسانے کے عنوان کا گمان ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے بھی روایتی شاعری کے بیس پچیس مجموعے پڑھے، دیکھے یا ان کے نام سنے ہوں گے، ان میں سے بعضوں کو ’درندہ‘وحشت زدہ، کچھ کو حیرت زدہ کرے گا، جو بہت جیالے ہوں گے وہ بھی چونکیں گے ضرور۔لیکن جو حضرات پیغام آفاقی کی جدت پسند طبیعت اورانحراف پسندی سے واقف ہیں، یا جن لوگوں نے ’درندہ‘ کا مطالعہ کیا ہوگا انھیں مطلق حیرت ، وحشت اور تعجب نہ ہوگا۔ کہ شاعری کے حاوی مضمون اور شاعر کے مشارالیہ تصورسے جو بے حد موزوں اسم تشکیل پاتاہے وہ ’درندہ ‘ ہی ہے۔ مجموعے میں باسٹھ نظمیں شامل ہیں جب کہ غزلیں محض چار ۔ اور حق تو یہ ہے کہ منضبط اور مربوط خیال و فکر کے خالق کے لیے منتشرالخیال اور مختلف المضامین جیسی صنف میں چارفن پارے کی تخلیق بھی بڑے دل گردے کا کام ہے۔
پیغام صاحب نے طویل نظمیں بھی لکھی ہیں، مختصر بھی اور مختصر ترین بھی۔ طویل نظموں میں بے حد روانی ہے، غنائیت ہے، خوبصورت منظر کشی ہے اور کل کل بہتی ندی کا سا مدھم مدھم خوشگوار شور ہے۔ جو قاری کی نظروں کو ، دل کو اور اس کی تمام تر توجہ کو اپنے اوپر مرکوز کرلیتی ہیں۔ ان میں فکر کی ترسیل سے زیادہ ذہن کا بہائو ہے اور دماغ سے زیادہ دل کو اپیل کرتی ہیں یہ نظمیں، اور سوچ و فکر کا دروازہ وا کرنے سے پہلے طبیعت کو گنگنانے کی ترغیب دیتی ہیں۔اس نوع کی نظموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغام صاحب کو گاؤں ، جنگل، قدرتی مناظر اور فطرت سے حددرجہ لگاؤ تھا۔ اس کے مقابلے میں شہر، شہری زندگی اوریہاں کی عیاریوں سے انھیں خاصی نفر ت تھی۔ان تصورات کا اظہار انھوں نے چھوٹی چھوٹی نظموں میں بھی انتہائی ہنرمندی کے ساتھ کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی ایک چھوٹی سی نظم ’بس جنگل میں آزادی ہے‘ ملاحظہ کیجیے:
کھیتوں میں جو چاند اگے ہیں؍ان کی کرنیں؍ دھاگوں کی مانند؍ہمارے گرد لپٹتی جاتی ہیں؍شہروں میں جو آگ لگی ہے؍اس کی لپٹیں ؍شعلوں کی مانند لپٹتی جاتی ہیں؍بس جنگل میں آزادی ہے۔
لیکن یہ آزادی زیادہ دنوں تک نہیں رہتی کہ شہر کی وسعت، اس کی برق رفتاری اور اس کی مادیت پرستی جنگل، جنگل کی آزادی اور اس کے حسن وسکون کی سب سے بڑی دشمن ہیں۔ جس کا اظہار پیغام صاحب نے اپنی نظم ’کڑی دھوپ سے پہاڑوں تک ‘ میں کیا ہے۔ نظم فطرت کی پناہ سے شروع ہوتی ہے اور اس کی گود میں انسان کی آزادی، بے نیازی اور اس کے سکون کا بیان کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچتی ہے :’آکے لیٹا ہوا ہوں گھاس پہ میں؍جیسے لوری سنا رہا ہے کوئی ؍جیسے ہر غم سے پا چکا ہوں نجات؍جیسے ہر فکر ساتھ چھوڑ چکی۔‘ اس کے بعد یہ دو مصرعے گریز کے آتے ہیں:’پھر کسی نے اٹھا دیا آکر ؍اس جگہ سے بھگا دیا آکر۔‘اس کے بعد شاعر خیال یا ماضی کی دنیا سے واپس حال میں آجاتاہے اور بتاتا ہے کہ یہ سب تو تب کی باتیں ہیں جب انسان کو فطرت ماں کی گود کی طرح پالتی پیار کرتی تھی۔نظم کا آخری بند پانچ مصرعوںپر مشتمل ہے ،جن میں در اصل اس فکر کو گوندھنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے لیے شاعر نے پوری نظم تشکیل کی ہے۔ بندملاحظہ کیجیے:
’آج یہ چین یہ سکون کہاں ہے؍ آج تو جنگلوں کے اندر بھی ؍شہر کے کاروبار چلتے ہیں؍آج جنگل کی زندگی کے لیے ؍شہر سب سے بڑا درندہ ہے۔‘گویا شاعر کے خیال میں صورت حال بر عکس ہو گئی ہے۔ یہ کہ اب شہر اور مہذب سماج کے لیے جنگلی جانور درندہ کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ جنگل اور جنگلی جانوروںکے لیے آج شہر اور شہر کا مہذب انسان درندہ بن چکا ہے۔ اپنے معمولی مفاد کے لیے لوگ کس طرح جنگل کو تباہ وبرباد کررہے ہیں اس کا اندازہ کچھ ان رپورٹوں سے ہوتا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ جانورں کی بہت سی نسلیںمحض جنگل کٹنے کی وجہ سے ختم ہوگئی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جنگل، اس کی سادگی اور معصومیت کے مقابلے میں ہی پیغام صاحب نے شہر ، اس کی جدید تہذیب اوراس کے جبر کو درندہ سے استعارہ کیا ہے۔یہ نظم اپنے فنی حسن کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نقطہ نظر سے بھی بے حد اہم ہے۔
ان کی ایک اور چھوٹی سی نظم ہے ’’صبح سے شام تک‘‘۔ملاحظہ کیجیے :’صبح سے شام تک اک عجب سلسلہ؍لڑکیاں، میز ، کرسی ، کتابیں؍تھکن، مسکراہٹ؍دھڑکتے ہوئے دل اداسی؍سرشام؍پھر میں اسی گرد میں؍اب دھنسا جا رہا ہوں۔‘ اس نظم کی قرأت کے بعد میرا جی کی نظم ’ایک کلرک کا نغمۂ محبت‘ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ نظم بھی مشغلے اور کام کی یکسانیت، تصنع، اکتاہٹ ، بوریت اور ایک جیسی بھاگ دوڑ کی زندگی کا خوبصورت بیانیہ ہے۔ آزاد منش غالب نے کہا تھا: ’کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل؍ انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔‘
انسان فطرتاً تنوع پسند ہے ۔ وہ کبھی کام کرنا چاہتا ہے ، کبھی آرام، وہ کبھی جاناں اور کبھی دوراں کے عشق میں گرفتا ر ہونا چاہتا ہے اور کبھی مکمل آزادی کا خواہاں ہوتا ہے۔ لیکن جدید عہد نے تنوع پسند انسان کو ایک thought lessمشین میں بدل کر رکھ دیا ہے جو ایک سورج کے اگنے سے لے کر دوسرے دن کے سورج کے طلوع ہونے تک ایک منضبط اور غیر مبدل نظام کا حصہ بن کر محض نظام الاوقات کی پابندی یا کہیے غلامی پر مجبور ہے۔ ایک ہی ماحول، ایک ہی کام، وہی جگہیں،وہی سارے لوگ، ویسے ہی اعمال و افعال اور ان کے لوازمات، جن سے انحراف یا فرار آسان نہیں۔اور اگر ہے ،تو پھرزندگی آسان نہیں۔
مجموعے میںاسی نوع کی ایک اورخوبصورت نظم ’’یہ اندھی رفتار‘‘ کے عنوان سے ہے ۔چاہیں تو اسے پہلی نظم کی توسیع اور شاعر کے فکر کی توثیق سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ نظم دیکھیے:’یہ اندھی رفتار اور اس میں؍بھاگتی سڑکیں چلتے پاؤں؍ پتھر کے بے جان سے کان؍کتنی تیز ہوا ہے جس میں؍سناٹا ہے؍کچھ بھی نہیں ہے؍ایک ترنم؍ایک ہیولا؍ایک سماں؍ اک سپنا ہے۔‘ کہنے کی ضرورت نہیں کہ زمانے کی تیز رفتاری نے گوشت پوست کے انسان کو مشین سے بھی آگے کی منزل یعنی ایک ہیولے میں بدل دیا ہے، جس کی نا آسودہ خواہشات اور برق رفتا زندگی کو شاعر محض ایک سپنے سے تعبیر کرتا ہے۔
اس تسلسل میں ان کی ایک اور قابل ذکر نظم ’’بے چہرہ انسان ‘‘ ہے۔ یہ نظم بھی صرف آٹھ مصرعوں کی ہے ۔لیکن کہیے کہ یہ صاحب فہم و شعوراور فکر و ادراک کے مالک حضرت انسان کا نوحہ ہے تو شاید غلط نہ ہو۔ وہ انسان جو غور و تدبر ، اپنی دانش مندی اور انفرادی صلاحیتوں کے باعث مسندِ اشرف المخلوقات پر جلوہ افروز ہواتھا، اسے جدید عہد نے جانداروں کے ایک ایسے انبوہ میں تبدیل کر دیاہے جس کی اپنی کوئی رائے ، کوئی پسند و نا پسند اور امتیازی شناخت باقی نہیں رہی ۔ وہ اپنی ذاتی رائے اور پسند و نا پسند کے فیصلے تک سے محروم کر دیا گیا ہے۔ میڈیا اسے بتاتا ہے کہ کون سا لیڈر اچھا اور کون برا ہے۔کون نیک نیت اور بد نیت ہے۔یہی نہیں بلکہ وہ یہ بھی طے کرتا ہے کہ آپ کو کس برانڈکا بنیان اور انڈر ویئر پہننا چاہیے۔کپڑے دھونے اور نہانے کے لیے کون کون سے صابن استعمال کرنے چاہیے اور آپ کون سے تیل اور مشروبات استعمال کریں۔ یعنی آپ کی عقل، آپ کے شعور، آپ کے تجربات اور آپ کی پرکھ کی کوئی حیثیت نہیں۔ گویا آپ کے اعمال و افعال کی ڈور آپ کے دست شعور میں نہیںسرمایہ دار گھرانے کے ہاتھوں میں ہے۔ سرمایہ دار اپنی بانسری کی جس دھن پر جب جب اور جیسے چاہیں نچائیں اور آپ حکم بجا لانے پر مجبور ہوں۔ نظم ’بے چہرہ انسان‘ فی الواقع اسی المیے کابیان اور امتیازی صلاحیتوں سے محرومی کا نوحہ ہے۔ اب نظم بھی ملاحظہ کر لیجیے:
’رفتہ رفتہ ہمیں اس طرح زندگی میں سجایا گیا؍ہم چمکنے لگے، جگمگانے لگے؍جوق در جوق؍بے آنکھ، بے کان، بے چہرہ انساں؍کہاں کون ہے کون جانے؟؍مگر ہم سبھی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے؍کسی اجنبی دھن کے؍ رقاص ہیں۔‘
ُپیغام کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی نظمیں جدیدیت پسندوں کی سی پیچیدگی اور ابہام سے پاک،سہل،سادہ، مترنم اور سریع الفہم ہیں۔ پیغام ٓفاقی بے حد آسان الفاظ اور انتہائی مختصر ارکان سے نظموں کی تعمیر کرتے ہیں۔ اصطلاحوں کا برجستہ اور سکتے ؍وقفے کا بر محل استعمال کرتے ہیںاور انفرادی تجربات کے ساتھ ساتھ اجتماعی فکر و خیال کو بھی اظہار کی زبان عطا کرتے ہیں۔
یہاں پہنچنے کے بعد شاید اس بات کے اعادے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ یہ ساری چیزیںعمدہ شاعری کی دلیلیں اور شاعر کی کامیابی کا ثبوت ہیں۔اور یہی ساری صفات پیغام آفاقی کی شاعرانہ حیثیت کومزید روشن اور توانا کرتی ہیںاورانھیں اچھے ،اہم اور ذہین شاعروں کی صف میں لا کھڑا کرتی ہیں۔
٭٭٭
Abu Bakar Abbad
bakarabbad@yahoo.co.in