پیروڈی پر اہم تاریخی مصادر (حصہ دوم)از:امتیاز وحید

0
122

شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی

نثری پیروڈیاں مقابلتاً ہمارے ادب میں کم ہیںلیکن فضل جاویدکو اس میں امکانات کی ایک وسیع دنیاآباد نظر آتی ہے۔البتہ وہ طوالت کو نثری پیروڈی نگار کے لیے ایک مسئلہ تصور کرتے ہیں،جس سے دلچسپی بھی متاثر ہوتی ہے۔نثری پیرڈی نگاروں میں انھوں نے یوسف ناظم، طغرل فرغان، خضر تمیمی،وارث علوی، پطرس بخاری،شفیق الرحمٰن، ملارموزی،چراغ حسن حسرت، فرقت، شوکت تھانوی، نریندرلوتھراور احمد جمال پاشاکی پیروڈیوں کے امتیازات پر اجمالی گفتگو کی ہے اور یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ بعض اچھے مزاح نگاروں اور شعرا نے اپنے ادبی سفر کا آغاز اسی شوخ صنف سے کیا ہے۔کنھیالال کپور نے کرشن چندر کی تحریک پر لکھنے کی ابتدا کی تو سب سے پہلے انھی کے افسانہ ’یرقان‘ کو’خفقان‘ کے عنوان سے پیروڈی کا جامہ پہنایا۔اسی طرح دکنی اردو کے مزاحیہ شاعر علی صائب میاں نے بھی اپنی شاعری کی ابتدا غالب،مومن،جگر اور فانی کے کلام کی پیروڈیوں سے کی ۔پیروڈی نہ صرف ناہمواریوں کے خلاف ایک کارآمد حربہ ہے بلکہ یہ نوواردا نِ شعر و نثر کے لیے بھی مسطح زمین ہے،جہاں سے وہ اپنے ادبی سفر کے لیے اڑان بھر سکتے ہیں۔

پیروڈی کے اہداف کے تعین کے سلسلے میں کہ آیا اسے اصلاحی اور تعمیری مقاصد کے حصول کے تابع ہونا چاہئے یا اسے محض تفریح یا تفنن طبع کا ذریعہ سمجھنا چاہئے ،فضل جاوید نے اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے ایک گروہ کو اصلاحی تنقید اور گروہِ ثانی کو تفریحِ محض کی شرط چھوڑنے کی صلاح دی۔اس مباحثہ کا حاصل مقالہ نگار کا یہ مدعا ہے کہ ’’ادبی نظریات کے کمزور پہلوئوں کو پیروڈی کے ذریعہ ابھارا جائے تاکہ ادب میں داخل ہوتی ہوئی ناہمواری، شدت پسندی اور بے اعتدالی کے تیز دھارے کا رخ بدل جائے اور ادبی نظریات ان عیوب سے پاک رہیں‘‘قابل توجہ ہیں۔ فاضل مقالہ نگار کا عندیہ غالباً یہ ہے کہ ادبی،تاریخی، تہذیبی،تحقیقی ، سماجی اور معاشرتی غیر صحت مندی کے دھارے کا رخ پیروڈی کے ذریعہ بہ آسانی موڑا جا سکتا ہے۔اس سے نہ صرف پیروڈی کے لیے امکانات کے نئے دروازے کھلیں گے بلکہ یہ معاصر منظرنامے میں عدم ہم آ ہنگی سے نمٹنے کا براہ راست پیش خیمہ بھی ثابت ہوگی۔

خواجہ عبدالغفور کا مضمون’تحریف نگاری‘اردو میں لفظِ پیروڈی کو اپنائے جانے سے عدمِ موافقت کا اعلان کرتا ہے اور’ تحریف نگاری ‘ کو موزوں ترین خیال کرتا ہے جبکہ اردو میں انگریزی کی بہت ساری اصطلاحیں بعینہٖ اپنالی گئی ہیں،دوسری اہم بات یہ کہ لفظِ’ تحریف‘ سے پیروڈی کی صنفی جامعیت کی نمایندگی بھی نہیں ہوپاتی۔خواجہ صاحب نے پیروڈی کو ایک شوخ صنف کی حیثیت تو دی ہے تاہم اسے کوئی ادبی مقام دینے سے وہ گریزاں نظر آتے ہیں، ’’اس لیے کہ اس میں اوریجنل خیال ہوتا ہے اورنہ طرزِ تحریر،جدت ضرور ہے لیکن کسی اور کے سہارے‘‘۔خواجہ صاحب کی ان آرا کو حقیقت بیانی سے پرے محض سادہ لوحی پر محمول کیا جاسکتا ہے کیونکہ پیروڈی صنفی طور پر کسی فن پارہ کی پرتو ہونے کے باوصف پروفیسر رشید احمد صدیقی جیسے بلند پایہ ادیب کے بقول: ’’اعلا پائے کی پیروڈی اتنی ہی قابلِ قدر ہوتی ہے جتنی کہ وہ عبارت یا شعر جس کی پیروڈی کی گئی ہے‘‘۔

خواجہ صاحب نے پطرس، کنھیالال کپور، راجا مہدی علی خاں اور عربی کے بے ربط اور غیر سلیس اردو ترجمے کی نقالی پر مبنی ملارموزی کی گلابی اردو کی مثالوں سے اپنی معروضات پیش کرنے کی کوشش کی ہے،جو فضل جاوید کے مقالے کے مقابلتاً پستہ قد اور سطحی ہے۔

خصوصی نمبر میں شامل نثری پیروڈیوںمیں’’فلمی قاعدہ(کرشن چندر)، تزکِ جہانگیری (شفیق الرحمٰن)، قصہ پہلے درویش کا(اے حمید)،قصہ درویشاں(شاہد صدیقی)،اردو کی پہلی کتاب(بھارت چند کھنّہ)،انگریز ہندوستان میں(یوسف ناظم)،کپور ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (احمد جمال پاشا)،قصہ پہلے درویش کا(مجتبیٰ حسین)،حیدرآباد کا تغرافیہ(نریندر لوتھر)،اردو دانی (ایم اے حنّان)‘‘ قابل ذکر ہیں۔
داستانوی رنگ ہمارے ادبی مذاق اور حافظے پر نقش کاالحجر ہے۔اس رعایت کا بھر پور فائدہ نثری پیروڈی نگاروں نے اٹھایا ہے۔ قدیم داستانوی طرزِبیان اور اسلوب کی کارفرمائی سے آراستہ قصہ پہلے درویش کا(اے حمید)،قصہ درویشاں (شاہد صدیقی) اور قصہ پہلے درویش کا(مجتبیٰ حسین) میں نئے مواد، ماحول اور فضا بندی کی کارفرمائی ہے۔قدیم فریم ورک میں رہتے ہوئے جدت،تازگی اور نئے پن کا احساس ان پیروڈیوں کا طرئہ امتیاز ہے۔تزکِ جہانگیری ‘عرف سیاحت نامۂ ہند ایک شاہکار پیروڈی ہے۔یہ دراصل قدیم تزکِ شاہی کی مضحک تقلید ہے،جو تاریخی معنویت کے حامل نادر شاہ کے شب و روز کے حالات سے واقف کراتی ہے۔اس میں تزک نویسی کا بلند و بانگ طنطنہ ہے۔اس میں بادشاہ کے مظالم کو محض لاٹھی چارج بتاکر اس کی پردہ پوشی کی شعوری کوشش کی گئی ہے،جو تزکِ شاہی کا مزاج رہا ہے۔’اردو کی پہلی کتاب‘ مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی اردو کی پہلی کتاب کا مضحک تتبع ہے،جسے طرزِ کہن میں رہتے ہوئے نئی فضا سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔’اردو دانی‘ کو بھی اسی قبیل کی پیروڈی کہہ سکتے ہیں۔’انگریز ہندوستان میں‘ یوسف ناظم کی قابلِ ذکر پیروڈی ہے،جو بڑی مہارت سے اٹھارہویں صدی کے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکومتی کاروبار کا محاسبہ کرتی ہے۔اس میں کمپنی کے حکام اور اراکین پر مضحک روشنی پڑتی ہے۔یہ قدیم شاہی روزنامچہ کے انداز میں لکھی گئی ہے۔اسلوبیاتی اور طرزی پیروڈی میں ’کپور ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ‘ کا مقام نہایت ارفع اور اعلا ہے۔علوِمعیار کی ایسی پیروڈی شاید و باید دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اس شاہکار پیروڈی کے بعد خود احمد جمال پاشا اس کی کوئی دوسری نظیر نہیں پیش کرسکے۔’حیدرآباد کا تغرافیہ‘قدیم اور روایتی جغرافیہ نویسی کے اسلوب اور خدوخال کا تقلیدی پیراہن ہے۔اس میں جغرافیہ نویسی کے پس منظر کو لے کرپیروڈی کے گل بوٹے کھلائے گئے ہیں۔
منظوم پیروڈیاں دو خانوں میں منقسم ہیں:

(ا)’’مالِ مسروقہ‘ ‘کے تحت جو پیروڈی نگار شامل ہیں ،ان میں چراغ حسن حسرت، مجید لاہوری، شوکت تھانوی، عاشق محمد غوری، سید محمد جعفری، راجہ مہدی علی خاں، طاہرہ سلطانہ، جوش ملیح آبادی، ضمیر جعفری، علامہ حسین میر کاشمیری، گوپی ناتھ امن، دلاور فگار، شاہد صدیقی، کنھیالال کپور، سلیمان خطیب، رضا نقوی واہی،فرقت کاکوروی،قاضی غلام محمد، این بی سین ناشاد، صادق مولیٰ،عابد نظامی، سرپٹ حیدرآبادی، خضر تمیمی،گلام صحرائی ،سعید اختر، سید حسن تقی، راہی قریشی، ریحانہ رضوی،منظور احمد، عظیم عباسی، جعفر منصور، زبیر قریشی، اسلم عمادی اور محمد افضل خاں قابل ذکر ہیں جبکہ (۲)’’چورن(تازہ بہ تازہ)‘‘ کے تحت رضا نقوی واہی، راہی قریشی، مناظر عاشق ہرگانوی، اسمٰعیل ظریف، پاگل عادل آبادی، جوہر سیوانی، اسرار جامعی، ہاشم عظیم آبادی، یوسفی مختار احمد، نظام الدین نظام،فیاض افسوس، امام رائچوری، محمد امیراڈ پیکر،فیض الرحمٰن فیض، مشتاق یوسفی ، ادریس بانگے کا، ان بڑھ بھونگیری وغیرہ کے اسما شامل ہیں۔

منظوم حصے میں تقریباً پچاس فنکاروں کی پیروڈیاں شامل کی گئی ہیں۔ بسا اوقات ایک فن کار کی ایک سے زائد پیروڈیاں اور علی ہٰذالقیاس ایک نظم یا غزل پر بھی ایک سے زائد پیروڈی نگاروں نے طبع آزمائی کی ہے۔ گویا اس طرح یہ خصوصی نمبر بھی طبعاً خالص نظری نہ ہوکر اطلاقی اور عملی زیادہ ہے۔ اپنی مقبولیت کے سبب غالب اورکلامِ اقبال کو پیروڈی نگاروں نے خوب آزمایا ہے۔غالب کی مقبولِ عام غزلوں میں غالب پر راجہ مہدی علی خاں کی تمثیلی پیروڈیوں کا جواب نہیں،اسمٰعیل ظریف،راہی قریشی،اسلم عمادی،محمد افضل خاں،ریحانہ رضوی، محمد منظور احمد وغیرہ کی پیروڈیاں تازگی اور دلکشی سے پُرہیں۔کلامِ اقبال خاص طور پرشکوہ اور جوابِ شکوہ،لاالٰہ الا اللہ، فرمان ابلیس،لیڈر کی فریاد،اسٹوڈنٹ کی دعا،خودی پر مبنی مناظر عاشق ہرگانوی کی پیروڈی،لیڈر کی دعا وغیرہ توجہ طلب پیروڈیاں ہیں۔اختر شیرانی کی مشہورِ زمانہ نظم،نظیراکبرآبادی کی نظم’جب لاد چلے گا بنجارہ‘ ، صادق مولیٰ،قاضی غلام محمد،ماچس لکھنوی،واہی،کنھیالال کپور،سلیمان خطیب، دلاور فگارگوپی ناتھ امن، جوش ملیح آبادی وغیرہ کی پیروڈیاں خصوصی نمبر کی تمازت اور حسن میں اضافے کی باعث ہیں۔

پیروڈی کا فنی حسن یہ ہے کہ اس پر نظر پڑتے ہی قاری کا ذہن اصل فن پارے کی طرف منعطف ہوجاتا ہے جس کی پیروڈی کی گئی ہے،ان میں شامل پیروڈیوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے کہ چشمِ زدن میں یہ پیروڈیاں ان کے اصلی سیاق میں پہچان لی جاتی ہیں۔البتہ مواد اور فکر کے ساتھ تعرض پیروڈی کا ہنر ہے۔لہٰذا یہاں یہ پیروڈیاں عیاری کا شیوہ اپناتی ہیں،یہ دیکھ کہ حیرت ہوتی ہے کہ راجہ مہدی کی پیروڈیوں میں غالب باٹا شوکمپنی میں سیلز مین بنے ہوئے ہیں،تو کہیں غالب آئوٹ ڈور شوٹنگ میں دیکھے جارہے۔غالب کے گھر کے سامنے رشتے کی بات چیت چل رہی ہے اور غالب یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ع

رشتہ کرنے میں نہ اب دیر لگا اے ظالم
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

پیروڈی گو کہ کسی فن پارہ کی مقبولیت کی اساس پر چلتی ہے تاہم یہ فن پارہ کو نئے پیراہن میں پیش کرکے اسے فرسودہ ہونے سے بھی بچاتی ہے۔ماہنامہ شگوفہ کایہ خصوصی پیروڈی نمبر دراصل کلاسیکی فن پاروں کی بازیافت کا عمل ہے۔
تینتالیس (۴۳) برسوں کے طویل وقفے کے بعد مدیرِ شگوفہ کو پیروڈی کی پھر یاد آئی۔اس دفعہ اس یاد آوری کا سبب جناب فضل جاوید ٹھہرے۔موصوف کی خدمات کے اعتراف میں شگوفہ نے اپریل ۲۰۱۹ کا شمارہ(جلد:۵۲؛شمارہ :۴) ان کے فضل و کمالات اور پیروڈی کے ایک منظوم انتخاب کے لیے مختص کیا ہے۔انٹھاون صفحات پر مشتمل اس خصوصی اشاعت کے مندرجات میں ’’پیروڈی کی تعریف اور اس کے چند نمونے(فضل جاوید)،پیروڈی کا نقش گر محقق:فضل جاوید (امتیاز وحید)،فضل جاوید کی تحقیق’اردو پیروڈی‘ پر ایک نظر(ڈاکٹر محمد بہادر علی) اور محبی پروفیسر آفاق احمد کا ایک خط‘‘قابلِ ذکر ہیں۔

فضل جاوید کے مضمون میں پیروڈی کے صنفی دائرۂ کار،معانی ومفاہیم ،تنقیدی شعور کی کارفرمائی،تخلیقی طور پرپیروڈی نگار کے لیے درکار مہارت اور فنی ہم آہنگی ،ہجو اور پیروڈی کا بنیادی فرق،دل شکنی سے گریز اور جذبۂ ہمدردی کا التزام جیسے فنی نکات اورصنفی حدود و قیود کا جائزہ شامل ہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ ’’کسی شاعر یا ادیب کے مشہور و مقبول شہ پاروں کی اس طرح مزاحیہ نقل اتارنا کہ اصل کے خیالات بدل جائیں اور اصل تخلیق کا تار بھی برقرار رہے،پیروڈی ہے‘‘۔

پیروڈی کے اولین ناقد کی حیثیت سے فضل جاوید کی تلاش وتحقیق ، تنقید اور جائزے پر گفتگو کرتے ہوئے امتیاز وحید نے اپنے مضمون میں پیروڈی کے ضمن میں موصوف کے تین بنیادی حوالے:(۱)اردو پیروڈی مطبوعہ ۲۰۱۷،شگوفہ پیروڈی نمبر(۱۹۷۶) اور پیروڈی پر نصابی مضمون کی تیاری برائے ایم اے اردو، سالِ آخر(۲۰۱۷) کا اجمالی جائزہ لیا ہے ۔ یہ مضمون فضل جاوید کو پیروڈی کے ایک ناقد اور ماہر کی حیثیت سے سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔

’ فضل جاوید کی تحقیق’اردو پیروڈی‘ پر ایک نظر‘دراصل ایک تبصراتی مضمون ہے،جس میں مبصرڈاکٹر محمد بہادر علی نے محقق کی تلاش و تحقیق ،یافت اور اس کے امتیازات کی نشاندہی کی ہے۔ اس ضمن میں مبصر نے شگوفہ کی پچاس سالہ زریں خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے مزاح کے لیے دکن کی سرزمین کو لکھنو کی طرح زرخیزبتایا ہے۔ دکن کے اس کارنامہ کا سرخیل بلاشبہ شگوفہ کو کہا جاسکتا ہے۔
اس خصوصی شمارہ میں ’پروفیسر آفاق احمدمرحوم کا ایک خط‘بھی شامل ہے۔پروفیسر موصوف جناب فضل جاوید کے استاد تھے۔پیروڈی کا مقالہ انہی کی نگرانی میں لکھا گیا،موضوع بھی ان کا دیا ہوا تھا اور پھر فضل جاوید صاحب انہی کے مشورے سے شگوفہ کے مہمان مدیدبھی بنائے گئے تھے۔ اس خط میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ’’ فضل جاوید پیروڈی کے عہد بہ عہد ارتقاپرکا م کریں اور اسے پرانے اور نئے پیروڈیوں کے ایک انتخاب کے ساتھ شایع کریں۔دیکھنا یہ ہے کہ استادِ گرامی کی یہ تحریک کیا رنگ لاتی ہے‘‘۔

منتخب منظوم حصے میں شامل پیروڈیاں بنیادی اعتبار سے ۱۹۷۶ کے شگوفہ پیروڈی نمبر کی تذکیر ہے۔تقریباًزائد از چار دہائی بعد ان پیروڈیوں کا اعادہ بھی فرضِ کفایہ کی ادائیگی کے مترادف ہے۔ان پیروڈیوں میں آج بھی فرحت بخش ہوائیں چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔غالب اور اقبال یہاں بھی سب سے پسندیدہ شعرا کے طور پر پیروڈی نگاروں کا ہدف بنے ہیں۔یہ ان کی عظمت اور عوامی مقبولیت کی دلیل ہے۔اس میں میر، داغ،پنڈت ہری چند اختر،سودا،ابن انشا،مولانا حسرت، میراجی، مخدوم محی الدین،ضمیر جعفری،فیض، اکبر الہ آبادی،ساحر لدھیانوی جیسے شعرا کے کلام کی پیروڈیاں کی گئی ہیں۔جوش ملیح آبادی نے فیض صاحب کی نظم ’چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز‘ کی پیروڈی کی ،گوپال متل نے ’سریتا‘ میں اس کا جائزہ بھی لیا ہے۔یہ جوش کا نیا رنگ ہے،جس کی شمولیت نیک شگون ہے۔عاشق محمد غوری کی جملہ پیروڈیاں خوب ترین ہیں۔خاص طور پر ان کی پیروڈی ’کتا‘ فن اور انبساط کا حسین مرقع ہے ۔یہ اپنا جواب آپ خود ہے۔پیروڈی ترکی بہ ترکی اصل کی پرچھائی بن کرچلتی ہے اور اپنا خودمکتفی وجود منواتی ہے، حدِ اعتدال سے بڑھے ہوئے رویے پر برق و رعد بن کر ٹوٹتی اوراصل فن پارہ کو تار تار کردیتی ہے۔پیروڈی گڑھنے میں غوری صاحب یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ اسلوبیاتی تتبع کی سلامت روی کا کمال یہ ہے کہ کہیں پائوں میں لغزش نہیں آنے پاتی اور تقلید‘ کورانہ تقلید کے تنگنائے سے نکل کر تخلیقیت کی سرحد میں داخل ہوجاتی ہے۔

اسکالر اورشگوفہ کے دو خصوصی پیروڈی نمبروں کے درمیان زمانی بعد توضرور ہے تاہم اس اثنا میں پیروڈی کا باب کلیتاً خاموش بھی نہیں۔۲۰۰۴ میں منظوم پیروڈی کا انتخاب از ڈاکٹر مظہر احمد، ۲۰۱۲،۲۰۱۳ اور ۲۰۱۷ میں بالترتیب راقم کی تحقیقی و تنقیدی کتاب’پیروڈی کا فن، پیروڈی: نقد و انتخاب(اول، دوم) اوراردو پیروڈی از فضل جاویدسے اردو پیروڈی کا مطلع پہلے سے زیادہ صاف ہوا ہے۔اس پر مستزاد ماہنامہ ’شگوفہ‘ ایک مستقل سرچشمہ ہے،جو اس صنف کی آبیاری کررہا ہے۔ پیروڈی کے متذکرہ دستاویزی شماروں کے بغیر اس صنف کے تاریخی ارتقا کو نہیں سمجھا جا سکتا۔(یہ بھی پڑھیں!پیروڈی پر اہم تاریخی مصادر (حصہ اول) از: امتیاز وحید)

مصادر
۱۔ اسکالر’پیروڈی نمبر‘،ایڈیٹر:احمد جمال پاشا،۱۹۵۷
۲۔ ماہنامہ شگوفہ ’پیروڈی نمبر‘ایڈیٹر:سید مصطفیٰ کمال؛مہمان مدیر: فضل جاوید، جلد:۹،شمارہ: ۹، ستمبر ۱۹۷۶
۳۔ ماہنامہ شگوفہ ’پیروڈی نمبر‘ایڈیٹر:سید مصطفیٰ کمال، جلد:۵۲،شمارہ:۴،اپریل ۲۰۱۹

Dr. Imteyaz Waheed
A-8, Calcutta University Teachers’ Quarters
P1/7, CIT Scheme, vii-M,
Kankurgachi, Maniktala
Kolkata- 700054

Previous articleبہار بی ایڈ کونسلنگ،تاریخ کا ہوا اعلان،للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ
Next articleپیغام آفاقی کی نظموں میں شہر، جنگل اور انسان از: ڈاکٹر ابوبکرعباد

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here