(بزم تعمیر ادب ذخیرہ, جموئ کے زیر اہتمام زہرہ حسن ویلفیئر ٹرسٹ کے مرکزی دفتر جموئ میں یادگاری تقریب منعقد )
جموئ 31 اگست( پریس ریلیز ) بزم تعمیر ادب ذخیرہ, جموئ کے جنرل سکریٹری امان ذخیروی نے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ بزم تعمیر ادب ذخیرہ کے زیر اہتمام شہر جموئ میں , زہرہ حسن ویلفیئر ٹرسث کے فاونڈر سکریٹری جناب تنویر احمد خان کی صدارت میں پنجابی زبان و ادب کی رومانی شاعرہ و ادیبہ امریتا پریتم کے یوم پیدائش پر ایک یادگاری تقریب کا انعقاد عمل میں آیا. صدر تقریب جناب تنویر احمد خان نے اپنی تعارفی تقریر سے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ امریتا پریتم اپنی تحریروں میں تا قیامت زندہ و پائندہ رہینگیں. امریتا پریتم کی نظموں کے حسن کا جادو اب بھی قارئین کو اپنی جانب کھینچتا ہے. وہ ایک درد مند اور محبت سے لبریز دل رکھنے والی شاعرہ تھیں. انہوں نے اپنی زندگی میں ساحر لدھیانوی کو ٹوٹ کر چاہا. ان کی داستان محبت ادبی دنیا میں ہمیشہ لازوال رہیگی. صدر تقریب کی اجازت سے بزم تعمیر ادب ذخیرہ کے جنرل سکریٹری اور معروف شاعر امان ذخیروی نے امریتا پریتم کی حیات و خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریتا پریتم کا شمار دنیا کی خوش فکر رومانی شاعرات میں ہوتا ہے. ان کی تحریروں میں درد بھی ہے اور مداوائے درد بھی ہے. محبت کی لازوال داستان رقم کرنے کے لئے وہ ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں جلوہ نما رہینگیں. اپنے محبوب کے نام لکھا گیا ان کا خط دنیا کی شاہکار تخلیقات میں شامل ہے, جسے پڑھ کر کوئ بھی آنکھ روئے بغیر نہیں رہ سکتی. ان کی تصنیفات کا ترجمہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ہو کر مقبول ہو چکا ہے. جناب ذخیروی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امریتا پریتم کی پیدائش 31اگست 1919ء کو گوجرانوالہ میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئ تھی. محض 16 سال کی عمر میں ان کی شادی پریتم سنگھ سے ہوئ تھی. اسی مناسبت سے وہ اپنے نام کے ساتھ پریتم لگاتی تھیں.اس شادی میں ان کی مرضی شامل نہیں تھی. محبت کے بغیر شادی نے امریتا کو لفظوں سے کھیلنے کا ہنر دے دیا. شادی شدہ ہوکر محبت کرنا جرم قرار دیا جاتا ہے, لیکن یہ جرم ان سے سرزد ہو گیا. وہ محبت کر بیٹھیں اور وہ بھی اردو ادب کے ایک عظیم شاعر اور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی سے. امریتا پریتم کے والد کا نام سردار کرتار سنگھ تھا, جو سنیاسی بن گئیے تھے. جب وہ گیارہ سال کی تھیں تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا. شادی بھی ان چاہے شخص سے ہوئ, دنیا کے طعنوں کی پروا کئے بغیر جسے ٹوٹ کر چاہا اور اسی کی خاطر شوہر کو چھوڑا, وہ کسی دوسری کے عشق میں گرفتار ہو گیا. ان تمام وجوہات نے انہیں ایک عظیم فنکار بنا دیا. ان کی تحریروں نے قارئین کو بہت متاثر کیا اور لوگ ان کے دیوانے ہوگئے. انہیں ان کی زندگی میں ہی بہت شہرت و مقبولیت ملی. ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں بہت سارے اعزازات و انعامات سے نوازا گیا جن میں…..
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ- 1956ء
پدم شری ایوارڈ- 1969ء
گیان پیٹھ ایوارڈ-1981ء
پدم ویبھوشن ایوارڈ-2004
اور ساہتیہ اکادمی فیلو شپ ایوارڈ- 2004ء وغیرہ قابل ذکر ہیں.ان کی کتابوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے. ہم یہاں ن کی کچھ مشہور کتابوں کے نام بیان کرتے ہیں جن سے آنے والی نسلیں استفادہ کر سکیں. …
“آج اکھاں وارث شاہ نوں” “پنجر” (ایک واحد ناول”
“ڈاکٹر دیو” “ساگر اور سیپیاں” “رنگ کا پتہ” “دلی کی گلیاں” “تیرہواں سورج”
“کہانیوں کے آنگن میں” ” کاکج تے کینواس” اور ان کی خود نوشت “رسیدی ٹکٹ” خصوصیات کے ساتھ قابل ذکر ہیں. اس معروف شاعرہ کا انتقال 31 اکتوبر 2005ء میں دہلی میں ہوا. یادگاری تقریب کے شرکاء میں جناب ماسٹر محمد آفتاب انصاری, جناب پردیپ کمار, جناب امان ذخیروی, جناب تنویر احمد خان, جناب جمیل احمد خان, اور دیگر محبان امریتا پریتم خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں. آخر میں صدر تقریب نے تقریب کے خاتمے کا اعلان کیا
Bhut khob masa Allah