عین الحق امینی قاسمی
نائب صدر جمعیہ علماء بیگوسرائے
امارت شر عیہ پھلواری شریف پٹنہ کا قیام 20/شوال 1339ھ میں جن اعلی مقاصد کے پیش نظر عمل میں آیا تھا ،ان میں دیگر مقاصد کے علاوہ تحفظ مسلمین اور نظام بیت المال کا قیام و استحکام بھی شامل تھا ،اسی لئے قیام امارت شرعیہ کے اول دن سے” وفود “کا نظام جار ی ہے ،امارت شرعیہ نے اپنے ان وفود کے ذریعے دور دیہات تک میں مسلمانوں کے نہ صرف جان ومال کو تحفظ فراہم کیاہے ،بلکہ ان غریب مسلمانوں کو ایمان واعمال پر جمانے اور انہیں صراط مستقیم پر قائم رکھنے کی بھی ہمیشہ فکر کی ہے ۔امارت شرعیہ اپنے مخلص اور خدا رسیدہ علماء کرام پر مشتمل وفود کے ذریعے ملت اسلامیہ کی جان ومال کے تحفظ ،ایمان وعقائد میں استحکام اور سماجی و فلاحی حقوق کے لئے جد وجہد کرنا شروع دن سے اپنی ذمہ داری سمجھتی رہی ہے ۔
بہار کی مسلم آبادی جس انداز سے مختلف حصوں میں مخلوط رہ کر بسی ہوئی ہے ، بعض بعض مقامات پر مشکل سے چند گھر ہیں ،جس کے افرادغیر وں کے درمیان غیروں کے مزاج وانداز اوران کے مذہبی تقریب و رسوم میں شریک رہ کر زندگی جی رہے ہیں ، جائے وقوع اور سکونت کی جو صورت حال ہے ،ایسے میں ایمان واعمال کے ساتھ ساتھ جان ومال پر بھی خطرات کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں اور ایک غیرت مند مسلمان کو ہر وقت یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت یہ لوگ اپنے ایمان کا سودا کر پلٹی مارسکتے ہیں۔یہی وہ بے چینی تھی جب بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ نے اپنے روءسااور اہل ثروت سے اپیل کی تھی کہ “غیروں کے بیچ بسنے والے کمزور مسلمانوں کو اپنی آبادی میں منتقل کران کی مدد کرو ، اس سےوہ بھی محفوظ ہو جائیں گے اور تم بھی محفوظ رہوگے ”
اس کے علاوہ عام مسلمانوں کی عملی صورت حال بھی بہت خوش آئند نہیں ہے ، دینداری میں غفلت برتنے اوراحکام اسلام پر مضبوطی سے قائم رہنے میں لاپرواہی یا شب وروز کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کو دانستہ یا نادانستہ نظرا انداز کرنے کے بڑھتے رجحان نے مبلغین اسلام اور داعیان اسلام کی ذمہ داری بڑھا دی ہے ۔آج باطل طاقتیں مسلم آبادیوں کو جس تیزی کے ساتھ ٹاگیٹ کررہی ہیں ،اس سےمعصوم بچے ہی متاثر نہیں ہورہے ہیں ،بلکہ مسلمانوں کی بچیاں سمیت غریب خاندان کے دیگر افراد بھی نشانے پر ہیں،اسی طرح عملا اپنی آبادی میں بھی مسلما نوں کی معاشرتی صورت حال بھی بہت اچھی نہیں ہے ،عبادت، معاشرت ، اخلاقیات اور معاملات وغیرہ میں ہم غیر معمولی بے راہ روی کے شکار ہوچکے ہیں ۔
ان جیسی ناگفتہ بہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہی ملت اسلامیہ کے مخلص رہنما مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ نے اپنی تحریک کے روز اول سے اس سلسلے میں حساس ہوکر نہ صرف نوٹس لیا ،بلکہ امارت کے پلیٹ فارم سے دینی و اصلاحی بیداری کے لئے مختلف حلقوں میں “وفود “روانہ کرنے کا نظام مرتب فرمایا ،تاکہ مسلم آبادیوں کی دینی ،ملی ،شرعی،دعوتی تعلیمی ،تربیتی اور اصلاحی رہنمآئی ہوتی رہےاور مسلمان اپنے امیرکی سمع وطاعت کے ساتھ آئندہ گناہوں سے بچنے ،دینی امور کی پابندی کرنے اور اللہ ورسولہ کی تعلیمات ورضا کے مطابق بقیہ زندگی گذارسکیں۔ امارت شرعیہ کےناظم اول حضرت مولانا محمد عثمان غنی رحمہ اللہ نے “وفود امارت ” کی افادیت پر یوں روشنی ڈال ہے : ” دفتر امارت شرعیہ اور بیت المال کے قیام کے بعد محررین ، مبلغین ، عمال اور محتسب مقرر کیے گئے ۔ وفد امارت نے صوبہ میں دورہ کر کے امارت شرعیہ کی ضرورت واہمیت کی اشاعت کی تبلیغ واصلاح کے فرائض انجام دیئے اور مسلمانوں سے امیر شریعت کی سمع وطاعت کی بیعت لی ۔ وفد امارت کے دوروں میں خود حضرت نائب امیر شریعت شریک رہتے ، اور وفد کا دورہ سال کے اکثر حصوں میں برابر ہو تا تھا ۔ مسلمانوں کو وفد کے دورہ سے جس میں خود حضرت مولانا شریک رہتے تھے ، دینی و دنیوی فائدے حاصل ہوتے تھے ، مذہبی باتیں معلوم ہوتی تھیں، دینی معلومات میں اضافہ ہوتا تھا ، مراسم قبیحہ اور عقائد فاسدہ کا ازالہ فرماتے تھے ، لوگوں کے باہمی جھگڑوں کو طے کر کے ان کو باہم ملادیتے تھے ، اس سے لوگ باہمی بغض و خصومت سے بچتے اور اخراجات کی زیر باری سےمحفوظ ہوجاتے تھے ”
ایک دوسرے موقع سے وفد کی اہمیت وضرورت کے حوالے سے بھی انہوں نے واضح کیاہے کہ ہنگامی طور پر سماج کے اصلاحی پہلو پر قابو پانے میں بھی وفد کی خدمات ناقابل انکار ثابت ہوتی ہیں ۔چنانچہ وہ اسی پس منظر میں لکھتے ہیں :
” تحریک خلافت کے زوال کے بعد ملک میں جو فتنہ وفساد پھیلا اور شدھی سنگٹھن کی تحریک شروع ہوئی اور ملک کے مختلف حصوں میں ارتداد کی وبا پھیل گئی ، اس کے روکنے میں حضرت مولانا (محمد سجاد)نے امارت شرعیہ کے کارکنوں سے کام لینے کے علاوہ خود بھی حصہ لیا ، ملکانہ (گاؤں )میں خود دورہ کر کے تبلیغی کام انجام دیئے ، امارت کے متعدد مبلغین کو وہاں متعین کر کے ان سے دفع ارتداد اور تبلیغ و اصلاح کا کام انجام دلایا ۔ صوبہ بہار کے گدیوں اور بھانٹوں میں جب ارتداد کی وبا پھیلی تو ضلع چمپارن میں گدیوں کی اصلاح کے لیے اور ضلع سارن میں بھانٹوں کی اصلاح کے لیے(وفد کے ساتھ) خود بھی دورہ کیا “( مفکر اسلام مولانا محمد سجاد ….. ۔ص:240/41)
امارت شرعیہ کے اراکین وفد کےذریعے اس کے دور اول میں ہنگامی طور پر جو اصلاحی کام ہوئے ، اس کی ایک مختصررپورٹ سے بھی وفد کی آمد وخدمات سے اس کی اہمیت وضرورت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے :
امارت شرعیہ کے کارکنوں کی تبلیغ واصلاح سے کم سے کم تین ہزار اشخاص کفر کے حلقہ سے نکل کر دائرہ اسلام میں داخل ہوۓ ۔ کم سے کم پچیس ہزار افرادار تداد کی لعنت سے محفوظ ہوگئے ۔ ہزاروں مسلمانوں نے مراسم شرک سے نجات پائی ، ہزاروں مسلمان عقائد فاسدہ سے تائب ہوۓ ۔ ہزاروں مسلمانوں کے جھگڑوں کو مٹاکر ان کو متحد کر دیا ۔ مدارس ومکاتب قائم کر کے علم کی روشنی پھیلائی اور تعلیم دے کر نجات کا راستہ بتایا ۔ سیلاب ، زلزلہ اور دوسری مصیبتوں کے وقت مسلمانوں کی امداد واعانت فرمائی”(حوالہ بالا،ص:253)
بہر حال ! امارت شرعیہ کے موجودہ اکابرین نے “وفود ” کی روانگی کی روایت آج سو سال بیت جانے کے بعد بھی قائم رکھا ہوا ہے ، امارت کا یہ طریقہ بے مثال بھی ہے اور منفرد بھی امارت بہر صورت ملی وسماجی کام کے اپنے ا س انداز کو مضبوطی سے تھام کر ملت اسلامیہ کے تحفظ واستحکام کے لئے مبارک خدمات انجام دے رہی ہے ۔سماج ومعاشرے کی انہیں ضرورت واہمیت کے پیش نظر کمزورو غریب اور آفات سے متاثر ین کی امداد کے لئے امارت شرعیہ میں قیام کے ابتدائی دور سے ہی بیت المال کا نظام قائم ہے ،تاکہ ہماری رقوم بھی وہاں جمع ہوں اور مصیبتوں میں انسانیت کی مدد کے لئے ہمارا یہ مال کام آسکے ، ان وفود کے ذریعے ہی نظام بیت المال کو مستحکم کرنے کا سلسلہ بھی رہتا ہے ،تاکہ علاقوں میں پہنچ کر امیر وغریب ایک ایک بندے تک امارت کے پیغام کو پہنچایا جائے ،وہاں کی زمینی صورت حال سے واقفیت حاصل کر امارت شرعیہ کے اعلی ذمہ داران کو مطلع کیا جائے اور صاحب حیثیت احباب سے بیت المال کے لئے تعاون اکٹھا کیا جائے جس سے،مکاتیب دینیہ کے فروغ، ضرورت مندوں کے تعاون او سماج کی مختلف جہتوں سے فلاح وبہبود کی راہ میں مدد ملتی ہے۔
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے وفد کاپرجوش استقبال کریں ،ان کے پیغام کو سنیں ،ان سے جڑیں ،بیت المال کو مستحکم کر نے ،ایمان وعقائد کی اصلاح کی دعوت دینے اور امارت شرعیہ کے پورے نظام کو مضبوطی فراہم کرنے کے لئے جان مال وقت اور افرادی قوت کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا ہمیں عزم مصمم کرناچاہئے ۔
امارت شرعیہ کا یہ امتیاز ہے کہ وہ سال بھر مسلمانوں کے رابطے میں رہتی ہے ،جب جہاں کا تقاضا سامنے آتا ہے وہاں اپنے مبلغین ،محصلین اورنقباء و وفود بھیج کر مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی پوری کوشش کرتی ہے ،یہاں کے اکابرین اور وابستہ افراد ،اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتے ہوئے ہنگامی حالات میں اضافی امور کو بھی باعث خدمت وسعادت سمجھ کر انجام دینا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور اسی جذبے سے وہ دوران سفر کہیں کسی سے الجھے بغیر مشکلات کو صبر وتحمل سے برداشت بھی کرتے ہیں اور مقاصد کی برآوری میں کہیں سے کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔
موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب اور نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی صاحب مدظلہما ، جہاں دیدہ ،قابل اور سنجیدہ ،ذکی وفہیم شخصیت کے مالک ہیں ، معاملے کو پرکھنے ،افراد کو سمجھنے اور مسائل سے روبرو ہونے میں تجربہ رکھتے ہیں ، فکر سجاد براہ راست ورثے میں ملا ہے ،اس لئے دینی ، ملی،شرعی وسماجی امور میں امارت شرعیہ کے فکری وعملی مزاج و منہاج ان کے شب وروز کی جد وجہد سےجھلکتا ہے ،حال میں مبلغین کرام کی بڑی تعداد میں بحالی،دارالقضاء کا قیام ،مکاتب دینیہ اور دینی ماحول میں امارت اسکول کا قیام، اندرون امارت نظم ونسق پر گرفت اوراپنے خورد وکلاں عملہ کے ساتھ سنجیدہ برتاؤ،یہ ساری چیزیں بتاتی ہیں کہ امارت کا دائرہ دن بدن پھیلتا جارہا ہے اور خوب خوب پھیلے گا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ امارت شرعیہ کی مرکزیت کو قائم رکھے اور عام مسلمانوں کا جو اس ادارے پر بھروسہ ہے ،اللہ پاک ملت اسلامیہ کو اس پر مضبوطی بخشے ۔