پیدائش:30 جولائی 1822ء
لکھنؤ
وفات:21 ستمبر 1887ء
کولکاتا
رہائش:لکھنؤ
شہریت:ریاست اودھ
برطانوی ہند
زوجہ:بیگم حضرت محل
اولاد:برجیس قدر
والد:امجد علی شاہ
مناصب
نواب اودھ
دفتر میں
۔ 13 فروری 1847- 11 فروری 1856
واجد علی کو معزولی کے بعد 12 لاکھ روپے سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ انہوں نے مٹیا برج کو چھوٹا لکھنؤ بنانے کی کوشش کی اور لکھنؤ کی طرز کی عمارتیں بنوائیں۔ امام باڑہ سبطین،رئیس منزل، تمام باغات اور عمارتیں جن سے لکھنؤ کی یادیں وابستہ تھیں، مٹیا برج میں نمودار ہوئیں۔ مٹیا برج میں ان کی راتیں مشاعروں، مجلسوں اور محفلوں کے لئے وقف تھیں۔ واجد علی شاہ کے آخری پانچ برسوں کی کمائی ان کی مثنوی ثبات القلوب ہے جس میں ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئی ہیں۔ واجد علی بنیادی طور پر مثنوی کے شاعر تھے۔ ان کا دوسرا کام کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے مثنوی کے مقابلہ میں کمتر ہے۔
اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ اختر ایک پیچیدہ شخصیت کے مالک تھے اور شخصیت کی اسی پیچیدگی نے ان کو متنازعہ بنا ئے رکھا ہے۔ اگر ایک طرف انگریزوں نے اودھ پر قبضہ کرنے کی غرض سےانھیں ایک نا اہل اور عیاش حکمراں قرار دیتے ہوئے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تو دوسری طرف ان کے طرفدار بھی ان کی شخصی کمزوریوں پر پردہ ڈالتے ہوئے ان کی شخصیت کا وہی رخ دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کو پسند ہے۔ واجد علی شاہ کے بارے میں صرف ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہےاور وہ یہ کہ اگر وہ بادشاہ نہ ہوتے تب بھی تاریخ ان کو ادب اور فنون لطیفہ کی سرپرستی اور ان میں ان کی عملی شمولیت کے لئے یاد رکھتی جبکہ دوسری طرف اگر وہ ادیب و فنکار نہ ہو کر صرف بادشاہ ہوتے تو تاریخ کے صفحات میں ان کے لئے صرف چند سطروں سے زیادہ جگہ نہ نکل پاتی۔واجد علی شاہ کا نام مرزا محمد واجد علی اور تخلص اختر تھا جسے وہ ا اپنی ٹھمریوں وغیرہ میں ”اختر پیا“ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ وہ 30 جولائی 1822ء کو پیدا ہوئے۔ اس وقت غازی الدین اودھ کے بادشاہ تھے۔ واجد علی کی تعلیم و تربیت کا خاص انتظام کیا گیا۔ ان کے استاد و اتالیق امین الدولہ امداد حسن تھے جن کے نام پر لکھنؤ کا خاص بازار امین آباد آج بھی موجود ہے۔ تحصیل علم کے زمانہ میں واجد علی نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی اور ذاتی مطالعہ سے اسے بڑھایا۔ ان کی شعر گوئی کی ابتدا 18 سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور انھوں نے تین مثنویاں اور پہلا دیوان اپنی ولی عہدی کے زمانہ میں ہی مرتب کر لیا تھا۔ والد امجد علی کی تخت نشینی کے بعد 1842 میں وہ ولی عہد نامزد کئے گئے تھے حالانکہ ان کے ایک بڑے بھائی میر مصطفی حیدر موجود تھے۔ واجد علی کی ادبی اور ثقافتی زندگی کا آغاز اسی وقت سے ہوگیا تھا جب ان کے بادشاہ بننے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا۔ بادشاہ بننے سے بہت پہلے وہ ادیب اور موسیقار بن چکے تھے۔ حسن پرستی ان کی سرشت میں تھی اور رقص و موسیقی سے ان کو فطری مناسبت تھی۔ نازنینان پری چہرہ ان کی کمزوری تھیں اور مزاج میں جدّت پسندی تھی جو ان کی نظم و نثر، ڈراموں اور تعمیرات میں نمایاں ہے۔ واجد علی کی شادی 15 سال کی ہی عمر میں نواب یوسف علی خان بہادر صمصام جنگ کی بیٹی سے ہوگئی تھی ۔ولی عہدی کے زمانہ میں شاہی قلمدان کی خدمت ان کے سپرد تھی اور ان کا کام داد خواہوں کی عرضیاں پڑھنا، شاہی احکام نافذ کرنا، شہر اور دوسری مقامات کی خبروں پر نظر رکھنا اور غلؔہ و دیگر اجناس کے نرخ معلوم کرنا تھا۔ باقی وقت وہ نجی مشاغل میں گزارتے تھے۔ ولی عہدی اور اس سے پہلے کا دور ان کی خانگی زندگی کا دور تھا جس کی زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں۔ انھوں نے بہرحال خود کو سیاست سے دور رکھا تھا۔ 1847 میں والد کے انتقال کے بعد وہ بادشاہ بنے اور ابو المظفر ناصرالدین سکندر جاہ بادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم کا لقب اختیار کیا۔ بادشاہ کی حیثیت سے واجد علی شاہ نے عدل و انصاف سے کام لیا اور کوئی قدم ایسا نہیں اٹھایا جس سے رعایا میں کوئی خوف و دہشت پھیلے۔ انھوں نے عام دستور کے برعکس اپنے والد کے زمانہ کے بیشتر عہدیداروں کو ان کے عہدوں پر قائم رکھا بلکہ ان کی تنخواہیں بڑھائیں اور مراعات میں اضافہ کیا اور رعایا سے قریب ہونے کی کوشش کی۔ سلطنت کے دو ہی سال ہوئے تھے کہ وہ سخت بیمار ہوگئے اور ان کے شفایاب ہونے میں دس ماہ لگ گئے۔ معالجین نے ان کو تاکید کی کہ وہ انتظام سلطنت کی مصروفیات ترک کر کے اپنا زیادہ وقت سیر و تفریح میں گزاریں۔اس طرح وہ امور سلطنت اپنی نئی بیوی روشن آرا بیگم کے والد نواب علی نقی کو سونپ کرکتب بینی، شاعری،تصنیف و تالیف اور فنون کی سرپرستی میں مشغول ہوگئے اور اتنے مشغول ہوئے کہ وقت نے ان کو وہ بنا دیا جس کے لیے وہ مشہور یا بدنام ہیں۔ ان کے ہمعصر عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں۔”واجد علی کا علمی مذاق نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کا تھا در اصل ان کے دو ہی ذوق تھے۔ ایک ادب و شاعری کا اور دوسرا موسیقی کا۔ عربی کے عالم نہیں تھے مگر فارسی میں دم بھر میں دو دو چار چار سطور کی نثر لکھ ڈالتے۔ یہی حالت نظم کی تھی۔ طبیعت میں اس قدر روانی تھی کہ سیکڑوں مرثیے اور سلام کہہ ڈالے اور اتنی کتابیں نثر و نظم میں تحریر کر ڈالیں کہ ان کا شمار بھی آج کسی کو نہ ہو گا“۔ شرر کا یہ بیان اپنی جگہ لیکن تاریخی واقعات گواہ اور ان کے اپنے بیانات شاہد ہیں کہ واجد علی شاہ مریضانہ حد تک خوبصورت عورتوں کے رسیا تھے۔ بعض حسینوں پر وہ اس قدر مرتے تھے کہ اپنی معزولی کے دنوں میں جب وہ ان سے مل نہیں سکتے تھے، ان کی خاص خاص چیزیں منگوا بھیجتے تھےدلدار محل سے ان کی مسی مانگی وہ انہوں نے بھیج دی،اختر محل سے ان کی زلفوں کے بال مانگے انہوں نے بھیج دئےجن کو وہ ہمیشہ اپنے سرہانے نظر کے سامنے رکھتے اور سونگھتے۔ تمام مہ جبینیں اور ناز آفریں دلربائیں متعہ کے ذریعہ حلال کر لی تھیں۔ بھشتن تک نواب آب رساں بیگم اور مہترانی نواب مصفیٰر بیگم تھی۔ یہ باتیں ایسی تھیں جن کے لئے وہ مذمّت کے نہیں بلکہ علاج کے حقدار تھے لیکن اُس زمانہ میں ان کا علاج کون کرتا اور وہ کیوں کرواتے لیکن آج تو ان سے ہمدردی برتی ہی جا سکتی ہے۔
واجد علی شاہ پر الزام ہے کہ نھہوں نے ساری توجہ رہس بازی،پری خانہ محلات اور رقص و سرود کی محفلوں پر مرکوز کر دی تھی لیکن ان کے پاس کرنے کو تھا ہی کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پوری طرح ان کو باندھ رکھا تھا۔ وہ بس برائے نام بادشاہ تھے۔ ان کو چھوٹی سے چھوٹی بات کے لئے بی ریزیڈنٹ کی منظوری حاصل کرنی پڑتی تھی۔ لوگوں کی نظر میں ریزیڈنٹ کی خوشنودی بادشاہ کی خوشنودی سے بڑھ کر تھی۔ سلطنت کے سیاسی اور اقتصادی حالات انگریزوں کی طرف سے جان بوجھ کر خراب کئے جا رہے تھے اور واجد علی پر الزام تھا کہ ان کو گویّوں اور خواجہ سراؤں کی صحبت پسند ہے۔ امن و قانون کی حالت ابتر تھی۔ انگریز صرف وقت کے منتظر تھے اور اختر پیا کی سرگرمیوں نے ریزیڈنٹ کو موقع دے دیا کہ وہ بد انتظامی کا الزام ان پر تھوپ کر انھیں معزول کر دے۔ اس طرح 1856 میں واجد علی شاہ کو معزول کر دیا گیا وہ کسی مزاحمت یا خون خرابہ کے بغیر حکومت سے دست بردار ہو گئے۔اور اپنی زندگی کے آخری 31 سال مٹیا برج میں گزارے۔ 1887 ء میں ان کی موت ہوئی۔ معزولی کے بعد واجد علی شاہ ایک بجھے ہوئے انسان تھے لیکن زندگی کا یہ دور تخلیقی اعتبار سے ان کے لئے نعمت ثابت ہوا۔ وہ اس زمانہ میں زیادہ تر وقت تصنیف و تالیف میں صرف کرتے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر چھوٹی بڑی تقریباً سو کتابیں لکھیں جن میں عروض جیسے خشک علم پر بھی ان کے دو رسالے موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اکسٹھ نئی بحریں ایجاد کیں اور ان کے نام رکھے لکھنؤ کے زمانہ میں۔ روایتی منظوم کلام کے ساتھ ساتھ انھوں نے سینکڑوں گیت بنائے جو گھر گھر گائے جاتے تھے۔کلاسیکی موسیقی کو آسان اور عام پسند بنانا ان کا ایک بڑا کارنامہ ہےاور لکھنوی ٹھمری اور بھیرویں کی مقبولیت ان ہی کی مرہون منت ہے۔ان کی بھیرویں ٹھمری ”بابل مورا نیہر چھوتو ہی جائے“ ان گنت گلوکاروں نے گایا ہے لیکن کندن لال سہگل نے اس میں جو درد بھرا ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ ناٹک کے فن پر ان کا احسان موسیقی سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے اس فن کو جو ملک میں بالکل ذلیل ہوگیا تھا، گلیوں سے اٹھا کر محلوں تک پہنچایا۔ ان کے زمانہ تک اردو ڈرامے کا کوئی وجود نہیں تھا۔ انہوں نے ولی عہدی کے زمانہ میں ہی ایک ناٹک رادھا-کنہیّا لکھا تھا جسے اردو کا پہلا ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی مثنویوں ”افسانہ عشق“، ”دریائے تعشق“ اور ”بحر الفت“ کے رہس تیار کئے اور ان کو دکھنے دکھانے کے لئے قیصر باغ، رہس منزل اور دوسری عمارتیں تعمیر کرائیں۔ واجد علی کی علم دوستی کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ انہوں نے شاہی کتب خانہ کی فہرست بنوائی اور اس میں اضافہ کے لئے اشتہار دے دے کر نئی کتابیں منہ مانگے داموں میں خریدیں۔
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
دریا کا نہ جنگل کا سما کا نہ زمیں کا
اقلیم معانی میں عمل ہو گیا میرا
دنیا میں بھروسہ تھا کسے تاج و نگیں کا
تقدیر نے کیا قطب فلک مجھ کو بنایا
محتاج مرا پاؤں رہا خانۂ زیں کا
اک بوریے کے تخت پہ اوقات بسر کی
زاہد بھی مقلد رہا سجادہ نشیں کا
اخترؔ قلم فکر کے بھی اشک ہیں جاری
کیا حال لکھوں اپنے دل زار و حزیں کا
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن رکھو اسے دل کا لگانا نہیں اچھا
دنیا یہ بری ہے یہ زمانہ نہیں اچھا
سب لوٹ لیا ایک نظر دیکھ کے مجھ کو
اے دزد نگہ دل کا چرانا نہیں اچھا
کیوں جھینپتے ہو غیروں میں ہاں پھر تو کہو وہ
گالی ہی تو تھی بات بنانا نہیں اچھا
عریاں بدنی پر نہ حبابوں کی پڑے آنکھ
دریا میں مری جان نہانا نہیں اچھا
افسوس کی صورت نہ بناؤ نہ رلاؤ
دل پستہ ہے ہونٹوں کا چبانا نہیں اچھا
روتے ہیں ہنساتے ہو بھری بزم میں صاحب
چپ بیٹھے رہو دھیان بٹانا نہیں اچھا
کوچے سے چلے جائیے اخترؔ کہیں اب اور
مضمون بہت عشق کا چھانا نہیں اچھا
غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاک چاک اپنا گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا
وحشت دل کا جو ساماں نہ ہوا تھا سو ہوا
یا خدا دیر میں ساماں نہ ہوا تھا سو ہوا
کافر عشق مسلماں نہ ہوا تھا سو ہوا
رخ انور سے میں حیراں نہ ہوا تھا سو ہوا
کبھی اے زلف پریشاں نہ ہوا تھا سو ہوا
ظلم و جور اے شب ہجراں نہ ہوا تھا سو ہوا
خانۂ گور میں مہماں نہ ہوا تھا سو ہوا
چشم انصاف سے طوفاں نہ ہوا تھا سو ہوا
دل اخترؔ چمنستاں نہ ہوا تھا سو ہوا
اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
دریا کا نہ جنگل کا سما کا نہ زمیں کا
یہی تشویش شب و روز ہے بنگالے میں
لکھنؤ پھر کبھی دکھلائے مقدر میرا
بے مروت ہو بے وفا ہو تم
اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
کمر دھوکا دہن عقدہ غزال آنکھیں پری چہرہ
شکم ہیرا بدن خوشبو جبیں دریا زباں عیسیٰ
یاد میں اپنے یار جانی کی
ہم نے مر مر کے زندگانی کی
گلوری رقیبوں نے بھیجی ہے صاحب
کسی اور کو بھی کھلا لیجئے گا
آج کل لکھنؤ میں اے اخترؔ
دھوم ہے تیری خوش بیانی کی
تراب پائے حسینان لکھنؤ ہے یہ
یہ خاکسار ہے اخترؔ کو نقش پا کہیے
مجھی کو واعظا پند و نصیحت
کبھی اس کو بھی سمجھایا تو ہوتا
برائے سیر مجھ سا رند مے خانے میں گر آئے
گرے ساغر لنڈھے شیشہ ہنسے ساقی بہے دریا
اخترؔ زار بھی ہو مصحف رخ پر شیدا
فال یہ نیک ہے قرآن سے ہم دیکھتے ہیں