تن کہ آزردۂ تیغ ستمش بود نماند
جاں کہ آویزۂ بند کمرش بود برفت (جامیؔ)
جب سے تاثراتی تنقید کو پس پشت ڈال دیا گیا نئے نئے اسالیب سامنے آلگے، تنقید کسی گونگے کا خواب ہوگئی ۔ شعری مجموعوں پر اظہارِ خیال کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ ’الف ‘ کی جگہ ’ب‘ اور ’ب‘ کی جگہ ’ج‘ لکھ دیجئے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک ہی مضمون کئی مجموعوں کی کفالت کر سکتا ہے۔
دمِ تحریر قمر صدیقی کا شعری مجموعہ ’’شب آویز‘‘میرے سامنے ہے۔اگر مجھے تسمیہ کا حق ہوتا تو میں ’’نواحِ جاں ‘‘ کو ترجیح دیتا ۔قمر خود کہتے ہیں :
نواحِ جاں میں عجب حادثہ ہوا اب کے
بدن کا سارا اثاثہ بکھر گیا اب کے
نواحِ جاں تک آنا اور پُر اسرار ہوجانا
ترا سب کچھ چھپا لینا بہت دشوار ہوجانا
نواحِ جاں میں یہ آزار سا کیا ہے
مرے اندربہت بیمار سا کیا ہے
میں نے اپنا تاثر پیش کیا ہے ضروری نہیں کہ سب متفق ہوں۔ استصواب رائے کا نتیجہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ بہر حال کہنا یہ ہے کہ’’شب آویز‘‘ پکار کرقمر نے اپنے مجموعہ سے کہاں تک انصاف کیا ہے۔ جب سخن فہمی اور غالبؔ کی طرف داری کی کشمکش سے نجات ملی میں نے قمر صدیقی بن کر سوچاتو قمر کا فیصلہ ہی درست لگا۔’’نواحِ جاں‘‘تو ایک محدود داخلی کیفیت ہے جبکہ آویزہ شب کی اضافت مقلوب ’’شب آویز‘‘ میں آفاقیت ہے۔
جب ہم کوئی کتاب پڑھنے کے لیےاٹھاتے ہیں توسب سے پہلے اس کے سر ورق پر نگاہ پڑتی ہے۔جس طرح ادب ، ادیب کے افکار اور شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اسی طرح سر ورق بھی کتاب کا عکس تابناک ہوتا ہے جو بہ زبان بے زبانی بہت کچھ کہتا ہے جسے سمجھنے کے لیے آنکھوں سے دل تک راستہ ہموار ہونا چاہئے۔
شب آویز کرونا کے وحشت اثر اور دہشت خیز زمانے میں شائع ہوئی جب شجر زندگی بے برگ وبار نظر آتا ہے۔نیرنگی و رنگینیِٔ حیات ماضی قریب کا خواب ہوگئی ہے۔حسنِ اتفاق کا ماحاصل ہو یا شعوری کوشش سر ورق کلام قمرؔ کا عکاس ہے،ان کے اشعار کا معتدبہ حصہ سر ورق میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ کرشمۂ سخن طرازی ہو یا لفظوں کی فسوں سازی دامنِ دل اپنی طرف کھینچے نظر آتے ہیں۔ایک بے گیاہ بیابان میں شجر امید اپنا وجود منواتا نظر آتا ہےجس سے قمرؔکے اس مصرع کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
اس دشت بے یقیں میں ایماں مرے محمدﷺ
یہ شجر افکار ماضی کی قوت انجذاب و اکتساب کے ساتھ زمینی روایتوں سے پوری طرح وابستہ ہے اس کی رنگت بتاتی ہےکہ:
ہم اس سے قمر ؔ مل کے بھی اکثر نہیں ملتے
جتنا ہے عیاں یار ، وہ اتنا ہی نہاں ہے
متصوف شاعری کے شائقین بار بار یہ شعر پڑھ کر وجد کریں گے ہی لیکن یہ جذبۂ عامۃ الورود تمام قارئین کے لیے بھی کشش رکھتا ہے۔کہتے ہیں من عرف نفسہ فعرف ربہ ، مجھے قمرؔ کا یہ شعر بھی جلوہ ریز نظر آتا ہے۔
نظر کے واسطے اپنا نظارہ کافی ہے
خود اپنا عکس ہوں خود اپنا آئینہ ہوں میں
اگر آپ غور سے دیکھیں تو کہیں کوئی پھول کوئی پھل نہیں ہے۔ایسا بھی نہیں ہے کہ شاعر کو اسکی خبر بھی نہ ہو:
یہ لمحہ لمحہ زندگی کچھ اس طرح سے کٹ گئی
کہاں پہ خرچ کیا ہوا کوئی حساب بھی نہیں
درہم و دینار ہیں انعام ہجرت کا مگر
گھر سے گر سب ہی چلے جائیں تو گھر دیکھے گا کون
تجربات زندگی کی بیلنس شیٹ اسطرح ٹیلی کرنا کسی ماہر معاشیات ہی کے بس کی بات ہے۔قمر صدیقی ایم کام بھی ہیں ۔
اہل نظر سے اپنا وجود منوانے کے بعد یہ معنی خیز درخت دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ایک شاخ نظم جدید ہے ایک شاخ غزل۔دونوں شاخیں ، شاخ در شاخ تقسیم ہوتی جاتی ہیں مگر ایک دوسرے سے الجھتی نہیں ہیں۔ قمرنے نظمیں ، نظموں کی طرح کہی ہیں اور غزلیں ، غزلوں کی طرح۔ اب ان کا یہ شعر پڑھئے:
میں حرف حرف اسی کو سمیٹنا چاہوں
مگر وہ پھیلتا جاتا ہے داستاں کی طرح
اس اچھوتی تشبیہ کی جرأت وہی کرسکتا ہےجسے اس موضوع پر دسترس ہو۔قمر کاپی ایچ ڈی کا موضوع فکشن ہے۔
شب آویز میں تاریٖکی تو ہے مگر اجالوں کے حصار میں نواحِ جان روشن ہے۔
اجالا پھیلا تھا کچھ تیرگی سے پہلےبھی
میں جل رہا تھا یہاں روشنی سے پہلے بھی
شب آویز کے’الف‘ کا مد قمر کا طائرتخیل ہے۔
اس پرندے میں جان دے اللہ
بال و پر دے اڑان دے اللہ
دے سمندر نیا زمین نئی
اک نیا آسمان دے اللہ
اس منزل کے بعد جب ہم دوسری بار قمرؔ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف تصویر کے رنگوں کی شوخی نہیں دیکھتے انہیں مصور کے خون جگر کی سرخی بھی نظر آتی ہے۔
خاک میں مل گئی ہے خاک مری
آج اترا ادھار مٹی کا
سارے کوزوں میں زندگی بھر کے
ہوگیا خود کمہار مٹی کا
میں اپنے قارئین کو متن سے دور نہیں لے جانا چاہتا ۔ دو ٹوک فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ شب آویز کے اشعارمندرجہ ذیل اٹھارہ اوزان عروضی پر مشتمل ہیں جو اوسط صلاحیت والے شاعر کا کم از کم دیڑھ گنا ہے۔ترتیب وار (فہرست کے مطابق )اوزان ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ بحرمجتث مثمن مفاعلن،فعلاتن، مفاعلن، فعلن/فعلاں فعلاں (مخبون،مخبون،مخبون،محذوف مسکن)
نہیں ہے کوئی مفر لا الہ اللہ
۲۔ بحر خفیف مسدس فاعلاتن،مفاعلن، فعلن /فعلان (سالم ، مجنون،مجنون، محذوف مسکن)
اس پرندے میں جان دے اللہ
۳۔ بحر مضارع مفعول، فاعلاتن ، مفعول وفاعلاتن (اخرب سالم ، المضاعف)
اس دشتِ بے یقیں میں ایماں مرے محمدﷺ
۴۔ ہزج مثمن مفاعی لن ، مفاعی لن ،مفاعی لن ،مفاعی لن (جملہ ارکان سالم)
ہر اک چہرے سے بہتر ہے رسولِ پاک کا چہرہ
۵۔ رمل مثمن فاعلاتن ، فاعلاتن ،فاعلاتن ، فاعلن/فاعلان (سالم،سالم،سالم،محذوف)
پہلے تو اک خواب تھا خاکستر و خاور کے بیچ
۶۔ ہزج مثمن مفعول، مفاعیل ،مفاعیل،فعولن (اخرب ، مکفوف ، مکفوف، محذوف)
یہ مرتبہ کوشش سے میسر نہیں ہوتا
۷۔ متقارب مثمن فعلن ، فعلن، فاع ، فعولن (اثرم، سالم )
ہر آہٹ سے خوف زدہ ہے
پہلا اور دوسرا رکن فعل ، فعولن عمل تجیق یا تخنیق سے فعلن فعلن ہو جاتے ہیں۔
۸۔ متقارب دوازدہ رکنی فعلن ، فعلن ، فاع، فعولن ، فعلن فع
فعل ، فعولن، فاع ، فعولن ، فاع، فعولن
فعلن ، فعلن (محنق یا محبق )، فاع ، فعولن
پانچویں اور چھٹے رکن میں تخیق اور حذف کا عمل ایک ساتھ کریں تو عو ، فع ہو جاتا ہے،فع کو زحاف بتر سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سبزہ صحرا پیاس سمندر آتے ہیں
۹۔ متقارب /شانزہ رکنی مقبوض اخرم فعول فعلن۔ہر مصرعے میں چار بار
اس کا سب سےآسان طریقہ یہ ہے کہ اخفش کی تقلید کرتے ہوئے اخرم زخاف کو عام مان لیا جائے۔
ہر ایک لمحہ میں قید سوچوں ، نفس نفس بس بہار دیکھو
۱۰۔ مجت مثمن مفاعلن، فعلاتن، مفاعلن، فعلن
میں اپنے پائوں بڑھائوں مگر کہاں آگے
اس غزل میں مجنون محذوف مسکن کا اجتماع ہے۔
۱۱۔ رمل مثمن فاعلاتن، فعلاتن ، فعلاتن فعلن /فعلان (ان تینوں کا اختلاط جائز ہے)
ہم اگر سوئی ہوئی یادیں جگانے لگ جائیں
۱۲۔ ہزج مسدس مفاعی لن ، مفاعی لن ، فعولن (سالم ، سالم، محذوف)
کبھی گل ہے کبھی شمشیر سا ہے
جن شعرانے اس بحر میں طبع آزمائی کی ہےوہ میری تائید کریں گے کہ اس شعر میں مصرع اولیٰ حشو و زائد کے بغیر کہنا مشکل ہوتا ہے۔
۱۳۔ ہزج مثمن مفاعلن ، مفاعلن ، مفاعلن، مفاعلن (تمام ارکان مقبوض ہیں)
اس میں مربع المضاعف کہنے کی گنجائش بھی ہے اس لیے ایک حرف ساکن کی گنجائش ہوتی ہے۔
ہماری نیند میں کوئی سراب خواب بھی نہیں
اس وزن میں شکست ناروا کی موجودگی اچھی نہیں سمجھی جاتی ۔ قمر صاحب بھی دو مقامات پر چوک گئے ہیں۔
۱۴۔ بحر متقارب فاع ، فعولن، فعلن، فعلن، فعلن، فعلن، فاع ، فعل
اس میں عمل تخنیق کی وجہ سے آخری دو رکن فعلن ، فع ہوجاتے ہیں۔ان دشوار منزلوں سے بھی قمر پورے اعتماد سے گزرے ہیں۔
۱۵۔ مضارع مثمن مفعولُ، فاعلاتُ، مفاعیلُ، فاعلن (اخرب، مکفوف، مکفوف، محذوف )
گویا کہ بے نوشتہ تقدیرہوگئے۔
۱۶۔ بحر ہزج مربع المضاعف مفعولُ، مفاعی لن، مفعولُ ، مفاعی لن (اخرب، سالم)
مشہور ہیں ہم دونوں اسطرح زمانے میں
۱۷۔ متدارک شانزدہ رکنی فعِلن،فعِلن ،فعِلن ،فعِلن ،فعِلن ،فعِلن ،فعِلن ،فعِلن
اس میں فعلن مجنون مسکن ہے اور فعلن صرف مجنون
یہ بحر تو اتنی خطرناک ہے کہ اس میں لاشعوری طور پر شعرا غرق ہوجاتے ہیں۔
آنسو یہ مرے ہیرے موتی آنکھوں میں رہے نایاب ہوئے
اس بحر میں یگانہ بھی ڈوب چکے ہیں۔
ایک خاص بات یہ رہ جاتی ہے کہ قمر اپنی شعوری روایتوں سے مربوط رہ کر بھی راہِ رفتگاں پر بے تیشۂ نظر نہیں چلتے۔ صنعت لزوم مالا یلزم میں ان کی غزل۔
دشمن و شمن نیزہ و یزہ خنجر و نجر کیا
عشق کے آگے مات ہے سب کی لشکر وشکر کیا
چونکہ قمر کے سامنے زیب غوری کی غزل تھی انھوں نے محسوس کیا کہ مصرع اولیٰ اور مصرع ثانی دونوں میں توابع کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے اور بڑی خوبی سے اسے برتا ۔ اس غزل میں قمر صدیقی نے الفاظ اس طرح برتے ہیں جیسے کوئی ماہر انجنیئر کسی مشین کے کل پرزے فٹ کرتا ہے۔مشین کے چلنے کا ترنم تو محسوس ہوتا ہے لیکن حشو و زائد کی کھڑ کھڑاہٹ بار سماعت نہیں بنتی۔
تیرے روپ کے آگے پھیکے چاند ستارے بھی
بالی والی کنگن ونگن زیور ویور کیا
خاص بات یہ ہے کہ وزن پورا کر نے کے لیے کوئی لفظ خلاف لغت نظم نہیں ہوا یعنی ہرپرزہ اپنی جگہ فٹ ہے یہ کام انجینئروں کی گود میں پلا ہوا شاعر ہی کرسکتا ہے۔
اگر۲۵سالہ شعری سفر کا جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ چلتے چلتے قمر صدیقی شاہراہ سخن پر آگئے ہیں ۔ ان کی اکثر غزلوں میں استادانہ رنگ جھلکتا ہے۔
مشہور ہیں ہم دونوں اسطرح زمانے میں
تم آگ لگانے میں ہم آگ بجھانے میں
کیا ملک کی حالت ہے، مصروف سیاست سے
آنگن میں ہمارے پھر دیوار اٹھانے میں
سجع مطرف و متوازی میں شکست ناروا سے بچنا شاعر کی عظمت بڑھاتا ہے۔
فیض احمد فیض کی مشہور زمین میں ان کی یہ غزل
لہو سے اپنے گلستاں کو اتنا سینچاہے
خزاں کے دور میں بھی با دِنو بہار چلے
شکست مان لی پاس وفا میں ورنہ قمر
بساط عشق پہ ہر چال شاندار چلے
ان کی اس غزل کو اساتیذ عصر نظر انداز نہیں کرسکتے۔
تھا جتنا اعتبار اتنے ہی وہ نا معتبر نکلے
بہت ہی کم نظر اس دور کے اہل نظر نکل
بیاباں چھوڑ کرآتو گیا ہے اے دل مضطر
کہاں جائے گا تو گلشن اگر وحشت اثر نکلے
کسے امید ہوگی اپنی منزل پر پہنچنے کی
گرفتار طلسم این و آں گر راہبر نکلے