مدثر احمد قاسمی
اسلامی تعلیمات کا منبع قرآن وحدیث ہیں اور ان دونوں سے یہ بات صاف واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کسی خاص قوم زمان اور مکان کے لئے مبعوث نہیں کی گئی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سب کے لئے، سب جگہ کے لئے اور قیامت تک آنے والے ہر وقت کے لئے ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:’وہ ذات بڑی بابرکت ہے جس نے یہ فیصلہ کن کتاب اپنے بندے( محمد ) پر نازل کی ہے ؛ تا کہ وہ تمام دنیا والوں کو خبر دار کر دے‘‘ (الفرقان:۱ ) اسی طرح ایک حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’مجھ سے پہلے ہر نبی کو خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا گیالیکن میں تمام انسانوں کے
لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘ ( بخاری) مذکورہ بالا آیت وحدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیریت و آفاقیت کو سمجھنا ایک عام انسان کے
لئے بھی بہت آسان ہے۔
ایک منصف مزاج محقق و تجزیہ نگار جب کبھی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا مطالعہ کرے گا تو وہ ذیل میں مذکور نکات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر زمان ومکان اور تا قیامت تمام انسانوں کے لئے نبی ہیں۔ وہ نکات یہ ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی گزارنے کے جوطریقے اور اصول بتاۓ وہ تمام انسانوں کے لئے یکساں کارآمد اور مفید ہیں۔اسی
طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ،سب کے خیر ، بھلائی اور کامیابی کے لئے سرگرم عمل رہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو راہ راست پر لانے کے لئے انتھک کوششیں کی اور اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حد تک صعوبتوں کے پہاڑ اٹھاۓ کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں آپ سے فرمایا:’’ تو اگر یہ لوگ اس بات (یعنی : توحید ) پر ایمان نہ لائیں تو شاید آپ مارے غم کے ان کے پیچھے اپنی جان دے دیں
گے!‘‘(الکہف:۲ ) یہ آیت دوسروں کی بھلائی کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیقراری کا بین ثبوت ہے۔ایک اور زبردست نکتہ جس سے نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی عالمگیریت اور آفاقیت ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہر زمانے کے لئے رہنما اور قابل عمل ہیں۔
مذکورہ دلائل سے یہ واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب کے نبی ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ
خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادقولا نہیں تو عملا یہ سمجھتی ہے کہ آپ صرف مسلمانوں کے نبی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ہمیشہ یہ نکلتا ہے کہ غیر مسلم آپ کوصرف اور صرف مسلمانوں کے نبی کے طور پر دیکھتے ہیں۔جب معاملات کی کڑی اس طرح آگے بڑھتی ہے تو ظاہر ہے کہ غیر مسلمین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور تعلیمات کو سننے، پڑھنے اور سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج حائل ہو جاتی ہے اور ایک ناپسند یدہ دوری قائم ہو جاتی ہے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ مسلمان وہ کیا اقدامات کریں جن سے ہمارے غیر مسلم بھائی یہ سمجھ جائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ان کے لئے بھی ہے۔اس سوال کا بالکل آسان جواب وہی ہے جو عملا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتلایا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب نبی اکرم نبوت سے سرفراز ہوۓ تو آپ نے اس حقیقت کو بتلانے کے لئے کہ آپ سب کے نبی ہیں اور سب کی بھلائی چاہتے ہیں، مکالمہ یعنی بات چیت کا راستہ اپنایا؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انفرادی بات کی تو کبھی اجتماعی ۔ جوں جوں لوگوں کو بات سمجھ میں آنے لگی وہ آپ کے گرویدہ ہوتے گئے اور دامن اسلام میں پناہ لینے لگے۔
اسی سلسلے کی وہ ایک خوبصورت کڑی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور سب سے اونچے پتھر پر چڑھ کر یہ آواز لگائی: یاصباحا۔ ہاۓ صبح! ( عرب میں خطرے کے وقت لوگوں کو اس جملے سے بلایا جاتا تھا) اس کے بعد آپ نے قریش کی ایک ایک شاخ اور ایک ایک خاندان کو آواز لگائی: اے بنی فہر ! اے بنی عدی ! اے بنی فلاں اوراے بنی فلاں ! اے بنی عبدمناف!اے بنی عبدالمطلب! جب لوگوں نے یہ آواز سنی تو کہا: کون پکار رہا ہے؟ جواب ملا محمد ہیں، اس پر لوگ تیزی سے آۓ ۔ اگر کوئی خود نہ آسکا تو اپنا آدمی بھیج دیا کہ دیکھئے کیا بات ہے۔ یوں قریش کے لوگ آگئے۔جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا: یہ بتاؤ اگر میں خبر دوں کہ ادھر اس پہاڑ کے دامن میں شہسواروں کی ایک جماعت ہے جو تم پر چھاپہ مارنا چاہتی ہے تو کیا تم لوگ مجھے سچامانو گے؟
لوگوں نے کہا: ہاں ! ہاں! ہم نے آپ پر کبھی جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا ، ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے اور آپ کو ہمیشہ سچ ہی بولتے ہوۓ پایا ہے۔
آپ نے فرمایا : اچھا تو میں ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں خبر دار کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ میری اور تمہاری مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی نے دشمن کو دیکھا پھر اس نے کسی اونچی جگہ چڑھ کر اپنے خاندان والوں پر نظر ڈالی تو اسے اندیشہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے پہنچ جاۓ گا،
لہذا اس نے وہیں سے پکار لگانی شروع کر دی یا صباحاہ! ہاۓ صبح! اس کے بعد آپ نے لوگوں کو حق کی دعوت دی اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور خاص کو بھی خطاب کیا اور عام کو بھی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش کے لوگو! اپنے آپ کو اللہ سے خریدلوں جہنم سے بچالو۔ بنوکعب بن لؤی! بنومرہ بن کعب! بنوقصی ، بنوعبد مناف ! بنوعبدشمس! بنو ہاشم ! بنوعبد المطلب اپنے آپ کو جہنم سے بچالو…( بخاری)
مذکورہ حدیث میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی بھلائی کی بات کی وہیں بالواسطہ یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کوسب کے لئے نبی بنایا ہے، اس وجہ سے آپ نے سب کو بلایا ہے۔
مختصر یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین کے امتی ہونے کی وجہ سے ہم سب کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم غیر مسلموں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے واقف کرانے کے لئے مکالمہ (ڈائیلاگ) کے تمام قدیم و جدید ذرائع استعمال کریں اور انہیں بہت ہی حکمت سے اور موثر انداز میں یہ بتائیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے بھیجے گئے تھے۔