آخر وہی ہوا، جس کا دھڑکا لگا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے استاذِ حدیث حضرت مولانا عبدالخالق سنبھلی 30 جولائی کو مسافرانِ آخرت میں شامل ہو گئے۔ کیا بتاؤں دل پر کیا گزری! مولانا اگرچہ عمرِ طبعی پا چکے تھے، مگر اپنی جسمانی ساخت سے، چستی پھرتی سے، اپنی ظاہری صحت سے بالکل نہیں لگتے تھے کہ ابھی جانے والے ہیں۔ رمضان کے بعد طبیعت بگڑی، بگڑتی ہی چلی گئی۔ پھر نوبت بایں جا رسید۔
مولانا سے مجھے عقیدت بہت تھی، مگر تعلق کوئی گہرا نہیں تھا۔ کبھی کبھار ملاقات کی سعادت حاصل ہوتی تو وہ کھل اٹھتے۔ ایک سال قبل محلہ خانقاہ میں پھسل کر گر پڑے تھے، جس میں انہیں کافی چوٹیں آئی تھیں۔ کئی دن اسی میں بستر سے لگے رہے۔ پھر وہی صبح و شام اور علم و مطالعہ کا وہی بادہ و جام۔ ایک ماہ قبل جب شدید علالت کی وحشت ناک خبر پھیلی تو عیادت کے لیے حاضر ہوا۔ مولانا بستر پر دراز تھے۔ یرقان کے تابڑ توڑ حملے سے نیم جان۔ چہرہ بشرہ، آنکھیں، تن و توش سبھی زرد زرد۔ گویا فصلِ بہار پر موسمِ خزاں نے اپنا تسلط جما لیا ہے اور فصلِ گل کی ساری نشانیاں ایک ایک کر کے کھرچ دی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اب خیریت ہے؟ کہنے لگے کہ جی پہلے سے بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ لبوں پر وہی مسکراہٹ تھی، وہی روایتی انداز تھا، وہی ادائے دل نوازی تھی۔ تھوڑی دیر کی عیادت کے بعد اٹھ کر چلا آیا۔ کیا معلوم تھا کہ یہ ملاقات اس ناسوتی زندگی میں آخری ملاقات ثابت ہوگی:
سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
آدمی آتا ہی ہے جانے کے لیے۔ سدا کے لیے آیا کون ہے؟ دارا و سکندر بھی موت کے چنگل سے نہ بچ سکے۔ کل شئ فان۔ مولانا بھی چلے گئے۔ مگر ان کا جانا تڑپا گیا۔ رلا گیا۔سکون چھین گیا:
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
مولانا کے اوصاف و کمالات اور ان کی شخصیت کے پاکیزہ پہلوؤں پر تبصرہ کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی ابتدائی زندگی پر بھی تھوڑی روشنی ڈال دی جائے۔ یہ مردِ قلندر 4 جنوری 1950 میں پیدا ہوا۔ وطن سنبھل تھا، جہاں سے مولانا محمد منظور نعمانیؒ بھی تعلق رکھتے تھے۔ والد کا نام نصیر احمد۔ مکتبی تعلیم اپنے گھر سے متصل مدرسہ خیر المدارس میں پائی۔ مفتی آفتاب علی اس دور میں وہیں پڑھاتے تھے۔ اپنے نام کی طرح آفتاب و ماہتاب۔ علم و فن میں مثالی۔ مقبولیت میں بہتوں سے بڑھے ہوئے۔ مولانا ان سے بہت قریب تھے۔ مفتی صاحب وہاں سے نکل کر مدرسہ شمس العلوم گئے، تو مولانا بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔ یہیں حافظ فرید الدین کے پاس قرآنِ کریم کو حفظ کیا۔ پھر عربی تعلیم کا سفر شروع کیا۔ ابتدائی کتابوں سے لے کر شرح جامی تک مفتی آفتاب علی صاحب سے پڑھی۔ 1968 میں دارالعلوم دیوبند پہونچے اور وقت کے عظیم اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا۔ جن میں شیخ الحدیث مولانا فخر الدین مراد آبادیؒ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ، مفتی محمود حسن گنگوہیؒ، مولانا شریف الحسنؒ اور مولانا نصیر احمد خاںؒ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ 1972 میں فراغت پائی اور تیسری پوزیشن سے کامیاب رہے۔
فراغت کے بعد ایک سال بعنوانِ تکمیلِ ادب لگایا۔ اس وقت مولانا وحید الزماں کیرانویؒ دارالعلوم کے جز و کل پر حاوی تھے۔ عہد آفریں اور آدم ساز۔ خاک کو کیمیا بنانے میں طاق۔ تراش خراش کا وہ ملکہ کہ بے ہنگم اور ہیچ پوچ پتھر بھی اپنی قسمت پر ناز کرے۔ مولانا سنبھلیؒ نے عربی زبان و ادب میں انہیں سے زلہ ربائی کی۔ پھر رسمی طالب علمی ختم ہو گئی۔
تدریس کے میدان میں داخل ہوئے تو مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ کو اس کے لیے منتخب کیا۔ 1974 سے 1979 تک وہیں رہے۔ جم کر پڑھایا۔ طلبہ میں مقبول رہے۔ ان کی نیک نامیاں ادارے سے باہر نکلیں اور دائرہ بڑھاتی چلی گئیں۔ 1979 میں مدرسہ جامع الہدیٰ مراد آباد نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہاں کامیابی کے تین ہی برس ابھی گزرے تھے کہ 1982 میں دارالعلوم دیوبند نے نئی کروٹ لی۔ اسلام کے اس مرکز نے نیا دور اور اس دور کی نیرنگیاں دیکھیں۔ اس دوران اس ادارے نے کئی نئے مدرس رکھے۔ مولانا بھی اسی کارواں کے ایک پیادے بنائے گئے۔ تب سے لے کر تا حینِ حیات اس سے وابستہ رہے۔ تدریس میں نام کمایا۔ تصنیف و تالیف میں اپنا حصہ ڈالا۔ وعظ و خطابت کے لیے ملکوں ملکوں پھرے۔
کتابی چہرہ۔ فراخ پیشانی۔ بیضوی رنگ۔ سنہرے فریم کا چشمہ۔ چشمے کے عقب میں بڑی بڑی آنکھیں، جو ان کی دور بینی اور فراست کو بتاتیں۔ دراز قد۔ اکہرا بدن۔ دھان پان۔ چھوئی موئی کی طرح نرم و نازک۔ ہلکی آندھی بھی انہیں فضا میں اچھال سکتی تھی۔ ہمیشہ کرتے اور پاجامے میں ملبوس۔ سر پر سفید کپڑے کی دو پلی ٹوپی اور ٹوپی پر اسی رنگ کا رومال۔ سر سے پاؤں تک ہر چیز سفید۔ یہ تھا ان کا سراپا۔
مولانا پڑھانے میں بہادر تھے۔ تفہیم کی صلاحیت سے مالا مال۔ بڑی پابندی سے آتے۔ ناغے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ان سے میں نے صرف ایک کتاب، دیوانِ متنبی پڑھی ہے۔ یہ 1996 تھا۔ میرا داخلہ عربی ششم اولیٰ میں ہوا تھا۔ اس ترتیب کی درس گاہ نودرے میں جنازہ گاہ سے متصل کمرے میں تھی۔ مولانا سبک بار و سبک سار درس گاہ میں داخل ہوتے اور آتے ہی حاضری شروع۔ نام پکارا جاتا۔ محمد صادق، عبدالوارث، فضیل احمد، ایک ہی سانس میں کئی کئی نام۔ کبھی ٹھہر ٹھہر کر نام پکارتے اور کہتے کہ آج تشخص سے حاضری ہوگی۔ پھر نام کے ساتھ گردن بلند اور مسمیٰ پر ایک گہری نگاہ۔ طلبہ خوب محظوظ ہوتے۔ حاضری کے دوران بعض طلبہ ذرا دیر سے آتے تو کہتے کہ غیر حاضری چلے گی، نہ دیر حاضری چلے گی۔
مجھے ان کا پہلا سبق اچھی طرح یاد ہے۔ متنبی کے ابتدائی اشعار انہوں نے اتنی بار پڑھا اور گنگنایا کہ سنتے سنتے ہی یاد ہو گئے:
یا لائمی کف الملام عن الذی
اضناہ طول سقامہ و شقائہ
عذل العواذل حول قلب التائہ
وھوی الاحبۃ منہ فی سوادئہ
اس طرح لہرا کر پڑھتے کہ طلبہ کے لبوں پر پورے گھنٹے تبسم رہتا اور مجلس زعفران زار۔ تحقیقِ لغات لکھواتے تو اس کا مزا بھی طُرفہ ہوتا۔ کسی کسی لفظ کا مادہ بھی لکھواتے۔ مادے سے مشتق کوئی اہم لفظ آتا تو اس کی نشان دہی کرتے ہوئے آواز بلند کرتے اور ومنہ کے ساتھ اسے بیان کرتے۔ موقع محل سے اردو کے اشعار بھی استشہاداً پیش کرتے۔ چند اشعار انہیں سے سن کر یاد ہیں:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
پایا کو ذرا کھینچ کر پڑھتے۔ ایک شعر یہ بھی یاد آ گیا:
اگرچہ عشق میں آفت بھی ہے، بلا بھی ہے
مگر برا نہیں، یہ درد کچھ بھلا بھی ہے
اشعار عربی کے ہوں یا فارسی کے، یا پھر اردو کے ہوں۔ قافیہ ردیف والے حصے کو جھٹک کر پڑھتے۔ ان کی زبان سے یہ انداز دل کو بڑا بھاتا تھا۔ اشعار خوانی میں ان کی یہ ادا میری طبیعت میں کچھ اس طرح رچ بس گئی کہ اب میں بھی گنگناتا ہوں تو انہی کے پیرائے میں۔
متنبی پڑھاتے ہوئے دورانِ گفتگو ایسے جملے لاتے کہ درس کا مزا دو آتشہ ہو جاتا۔ ہم قافیہ الفاظ کا ان کے پاس خزانہ تھا۔ فرمایا کرتے کہ رواں دواں آئیے، کشاں کشاں تشریف لائیے! مولانا کبھی کبھی الفاظ کی ایسی تقطیع کرتے کہ ان سے نیا مفہوم نکلتا۔ وہ ہر نام کی ایسی وجہ بتاتے کہ ذہن و دماغ مزید تازہ دم ہو جاتا۔ کمرہ کی وجہِ تسمیہ بتاتے ہوئے کہتے کہ در اصل یہ لفظ دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ پہلا لفظ کم ہے اور دوسرا لفظ رہ۔ یعنی وہ گھرا ہوا مقام جہاں کم رہا جائے۔ پھر فرماتے کہ کمرہ میں کم ہی رہنا چاہیے، مگر آپ لوگ زیادہ وقت وہیں ضائع کرتے ہیں۔ اسی طرح گھر کا سببِ تسمیہ تراشتے ہوئے کہتے کہ اصل میں گِھر تھا، کیوں کہ اس میں آدمی گِھر جاتا ہے، مگر کثرتِ استعمال سے گاف کا کسرہ فتحہ سے بدل گیا۔
موقع کی مناسبت سے وہ چٹکلے بھی بیان کرتے، ایک مرتبہ فرمایا کہ مشہور شاعر مرزا اسداللہ خاں دہلوی اپنے دوست سے ملاقات کے لیے الہ آباد گئے۔ دوست نے بڑی ضیافت کی۔ آرام کا وقت ہوا تو غالب نے کہا کہ میں کھٹیا پر سوؤں گا۔ میزبان کو سخت وحشت ہوئی۔ اجی! یہ کیا کہہ دیا؟ غالب نے پوچھا: کیا ہوا؟ دوست نے کہا کہ تم نے کھٹیا کہا تو میرے دماغ پر کھٹ سے چوٹ لگی۔ آئندہ ایسا نہ کہا کرو! غالب نے پوچھا کہ پھر کیا کہوں؟ میزبان نے کہا: چارپائی۔ دہلی کے مردِ دانا نے سرد آہ بھری اور دل ہی دل میں کہا کہ ادیب اور شاعر مَیں، اور مجھ پر ہی لسانی تنقید! انتقام تو لے کر رہوں گا۔ رات زیادہ ہوئی۔ وقت زیادہ نکل گیا۔ تو میزبان نے دیکھا کہ غالب دہلوی لالٹین ہاتھ میں لیے کسی عمل میں مصروف ہیں۔ پوچھ لیا کہ کیا بات ہے! اس وقت اور لالٹین! اور مصروف! خیریت تو!! کہنے لگے: اجی چرمل مار رہا ہوں۔ بڑا پریشان کر رکھا ہے۔ پوچھا کہ یہ چرمل کیا بلا ہے؟ پہلی دفعہ سن رہا ہوں۔ شعر و سخن کے اس ہمالے نے کہا کہ لفظِ کھٹ سے آپ کے دماغ پر ضربِ شدید پڑتی ہے، اسی لیے میں نے کھٹمل کے بجائے چرمل کہا ہے۔ میزبان اس شیریں انتقام پر مسکرا کر رہ گئے۔
مولانا کے والد کا نام نصیر احمد تھا۔ اس وقت وہ اپنے فرزند کے ساتھ دارالمدرسین میں رہتے تھے۔ انتہائی خاکسار۔ تواضع و بے نفسی کے پیکر۔ سراپا سادگی و شرافت۔ دیہاتی و ضع قطع۔ شاعری سے بڑا لگاؤ رکھتے۔ اللہ جانے شاعر تھے یا نہیں، مگر ہزاروں اشعار ان کی نوکِ زبان پر تھے۔ عصر کے بعد کی سیر میں دیکھتا کہ دروازے سے باہر زمین پر پنڈلیوں کے سہارے بیٹھے ہیں۔ چند طلبہ ان کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اور سب کے اشعار کا جواب دینے میں مگن۔ روز کا یہی معمول۔ تمام طلبہ میں شور تھا کہ کیسا بھی شعر لے جاؤ، کسی کا بھی لے جاؤ، وہ بہر صورت جواب دیں گے اور جواب دہی میں سکنڈ بھی نہیں لگائیں گے۔ ایک دن ہمت کر کےمیں نے بھی اپنی تک بندی پیش کی:
پرِ جبریل جب تم اس زمانے میں جلاتے ہو
جوانی میں بتاؤ کیا غضب ڈھاتے رہے ہوگے
یہ بالکل تازہ ہی تک بندی تھی۔ میں نے سمجھا کہ شاید وہ جواب نہیں دے پائیں گے، مگر یہ کیا! ہاتھوں ہاتھ جواب دے دیا۔ وہ یہی کرتے تھے۔ وزن رہے یا نہ رہے، اس انداز سے جواب دیتے کہ گویا شعر ہو گیا۔ اس میں کوئی تردد نہیں کہ زبان پر ان کی بڑی گرفت تھی۔
مولانا کی شخصیت میں والد صاحب کی بھی کچھ جھلکیاں تھیں۔ سنجیدگی، ٹھہراؤ، فروتنی، تلطف، انکسار سب کچھ ان میں جلوہ گر۔ بانکپن، نہ نخوت و نخرہ۔ کوئی تام جھام، نہ خرامِ ناز۔ اپنی رفتار یا گفتار سے کبھی کج کلاہی نہیں جتائی۔
مولانا کی خاص بات ان کی سلامتِ طبع تھی۔ مرنجاں مرنج۔ لا ضرر ولا ضرار۔ نہ ان سے کسی کو شکایت، نہ ان کی زبان پر حرفِ شکوہ۔ کسی جھمیلے میں نہ پڑے، نہ کانٹوں سے الجھے۔ طلبہ بھی خوش۔ اساتذہ بھی شاد۔ کئی نظامتیں بھی انہوں نے سنبھالیں، جن میں نظامتِ امتحان جیسا حساس شعبہ بھی شامل ہے۔ 2008 سے نائب مہتمم رہے۔ دارالاقامہ اور مسجد کے امور ان سے وابستہ۔ مہتمم صاحب کی غیر موجودگی میں کارِ اہتمام بھی۔ مگر کیا مجال کہ کسی کا دل بھی دکھایا ہو۔
اپنی فطری افتاد اور خلقی نہاد میں وہ جس قدر ابریشم واقع ہوئے تھے، بابِ عقائد میں اسی قدر سخت اور متصلب۔ نہایت زیرک و دانا۔ کوئی انہیں طرح نہیں دے سکتا تھا۔ ردِ باطل میں انہیں خاص دل چسپی تھی۔ مودودیت کا آپریشن بطورِ خاص کرتے۔ دارالعلوم دیوبند میں مودودیت پر محاضرے مولانا ہی پیش کرتے۔ ان کی یہ کاوش بنام محاضرہ بر ردِ مودودیت مکتبہ دارالعلوم سے 5 حصوں میں چھپ چکی ہے۔ ابطالِ باطل کے لیے کئی دورے بھی انہوں نے کیے۔
مولانا کا قلم بھی بڑا پختہ اور ٹھوس تھا۔ بڑا شستہ اور شگفتہ لکھتے۔ فصاحت و بلاغت کا خاص خیال رکھتے۔ سقیم اور بے وزن الفاظ کا ان کے یہاں گزر نہیں تھا۔ ان کی نوکِ خامہ سے کئی کتابیں نکلیں، جن میں سے بیش تر ترجمے سے متعلق ہیں۔ فتاویٰ عالمگیری کے 51 ویں جز کا اردو ترجمہ لکھا۔ عبدالمجید عزیز الزندانی الیمنی کی مشہورِ زمانہ کتاب: التوحید کا ترجمہ کیا، جو 500 صفحات میں چھپ کر مقبولِ عام ہوا۔ تحسین المبانی فی علم المعانی کا ضمیمہ بھی قلم بند کیا۔
غرض وہ ایک عظیم انسان اور مثالی شخصیت کے مالک تھے۔ افسوس کہ اب وہ بھی وہیں چلے گئے، جہاں سے واپسی کا تصور بھی محال ہے۔ اب ہمارے اور ان کے درمیان ایک خلیج پڑ چکی ہے اور ہم آپس میں یہ باتیں کر رہے ہیں:
زمزموں سے جن کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ آواز اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟
مولانا ہمارے درمیان سے ضرور چلے گئے، مگر وہ زندہ رہیں گے۔ اپنے حلقۂ تلامذہ میں، اپنے احباب میں، اپنے شناساؤں میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔ زوال پیکرِ خاکی کو ہے، خلقِ مجسّم کو نہیں۔ اللہ بس، باقی ہوس۔(یہ بھی پڑھیں!شاخِ زیتون پر کلہاڑا نہ چلائیں!حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب ہمارے سروں کے تاج ہیں از: سید فضیل احمد ناصری)