کتاب: منٹو، میرا دوست میرا دشمن
ترتیب و تدوین: احمد سلیم
سعادت حسن منٹو جو لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے اور بے چین روح کی طرح امرت سر، بمبئی، لاہور، اور کشمیر کے منٹو خاندان کے مشہور محلہ” وکیلاں کوچہ” میں بھی رہ کر سانسیں مکمل کی۔۔۔
سعادت حسن ایک امیر باپ کے غریب بیٹے اور دو بڑے بیرسٹر بھائیوں کے اکلوتے مشہور سوتیلے بھائی تھے۔ دوستوں کا کہنا ہیکہ گر” صفیہ بیگم “منٹو کی زندگی میں نا آتی تو منٹو شاید آج صرف” سعادت حسن” ہی ہوتے۔
وہ اپنی بیوی اور بچیوں سے بے حد محبت کرتے تھے ۔جب انہیں احساس ہوچلا کہ آخری وقت ہے گویا چھ ماہ قبل ہی انہوں نے بیوی کو خود سے دور کرلیا اور بچیوں کو یتیم۔
منٹو کی تحریروں میں قاری کو جتنی “عریانی “اور” گندگی” نظر آتی ہے وہ خود اتنے ہی نفیس شخصیت کے مالک تھے۔ وہ جہاں بھی رہے صاف ستھرے رہے کبھی داغ دار سوٹ نا پہنا۔لکھنے کیلیے نفیس اور مہنگے کاغذ ، اچھے نام والی قیمتی قلم ، خوبصورت کلپ بورڈ استعمال کرتے۔پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے اردو لکھنے والا ٹائپ رائٹر خرید لیا۔ انکو دیکھ کر ” اوپندر ناتھ اشک” جیسے بڑے لکھاریوں نے بھی ٹائپ رائٹر خریدے۔ شراب جب تک حالات اچھے رہے اچھے ماحول میں پی۔
“بکواس” اور ” فراڈ” لفظ انکا تکیہ کلام تھا۔منٹو کہتے تھے ” لوگوں کی ہر بات جھوٹی ہے، اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو”
بلاکے ضدی واقع ہوئے۔اندازہ کیجیے جب حکومت نے ” کالی شلوار”، ” ٹھنڈے گوشت” جیسے افسانوں پر پابندی لگائی تو انہوں نے اپنی انفرادیت ہی جنسی افسانوں کو بنالیا۔ منٹو کا کہنا تھا کہ ” ایک وقت میں کم سے کم ایک دشمن ہونا ضروری ہے”
منٹو نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھا لیکن افسانہ نگاری میں وہ بے تاج بادشاہ تھے۔ان کہ کہنا تھا کہ ” میں بر صغیر کا سب سے بڑا افسانہ نگار ہوں” جو کہ غلط بھی نا ہے۔۔
مرنے سے قبل انہوں نے کہا کہ ” میری جیب میں ساڑھے تین روپے پڑے ہیں۔ ان میں کچھ اور پیسے ملا کر تھوڑی سی وسکی منگوا دو۔۔۔”۔
زندگی کی تنگی کے باعث انکی بیشمار معصوم خواہش ادھوری رہ گئیں. جیسا کہ مرنے سے کچھ وقت قبل انہوں نے ایک جگہ ذکر کیا۔” حامد جلال کو واپس آجانے دو۔میں اسکے ساتھ ٹیسٹ میچ میں حنیف کا کھیل دیکھنے جاؤں گا”.
منٹو کے منہ میں جیسے ہی وسکی کا ایک قطرہ گیا منٹو نے دم دے دیا۔وہ سعادت حسن منٹو کے حوالے سے کہتے تھے کہ ” مرتے وقت گر زمیں پر گرا بھی تو اس لیے گروں گا کہ گراوٹ کی مایوسی ختم ہو جائے “۔سعادت حسن آج لاہور میانی صاحب میں دفن ہیں اور منٹو آج بھی زندہ ہے جس کے بارے میں اسفند جاوید لکھ رہا ہے اور آپ پڑھ رہے ہیں ۔۔۔
Zabardas asfand bhai