مغربی بنگال کا معاصر ادبی منظرنامہ (پہلی قسط) از: حقانی القاسمی

0
286

ادب میں ناانصافیاں صرف افراد نہیں سرزمینوں کے ساتھ بھی ہوئی ہیں۔ ادبی تاریخوں اور تذکروں میں بہت سے افراد کا عمداً، عداوتاً یا عادتاً ذکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ مولوی محمد حسین آزاد کی مثال سامنے کی ہے حنہوں نے ’’آب حیات‘‘ میں حکیم مومن خان مومن کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھا، اسی طرح بہت سی سرزمینوں کے ساتھ بھی متعصبانہ اور معاندانہ سلوک روا رکھاگیا ہے۔ انہی میں ایک سرزمین بنگال بھی ہے جسے اردو ادب کی تاریخوں میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ رام بابو سکسینہ کی تاریخ ا دب اردو ہو یا سید اعجاز حسین کی مختصر تاریخ ادب، سلیم اختر کی اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ہو یا عظیم الحق جنیدی کی اردو ادب کی تاریخ، نسیم قریشی کی اردو ادب کی تاریخ ہو یا ضیاء الرحمن صدیقی کی بالکل تازہ ترین اردو ادب کی تاریخ۔ کسی بھی صنف کے ضمن میں بنگال کے ادیبوں اور شاعروں کا ذکر تک نہیں ملتایا بہت کم ملتا ہے۔ حتی کہ شاعری اور افسانوں کے جو انتخابات شائع ہوتے رہے ہیں، ان میں بھی مغربی بنگال کی نمائندگی نہیں ہے۔ مرزا حامد بیگ نے ’اردو افسانے کی روایت‘ میں1903ء۔2009ء تک کے افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوںکا ایک عمدہ انتخاب پیش کیا ہے مگر اس میں بھی مغربی بنگال سے کسی بھی افسانہ نگار کی شمولیت نہیں ہے۔ دوسری اصناف کے انتخابات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ فکشن اور شاعری کی مجموعی صورت حال اور سمت و رفتار کے تعلق سے بھی جو تحقیقی اور تنقیدی کتابیں، مقالات ، مضامین لکھے جاتے ہیں ان میں بھی مغربی بنگال کے تخلیق کاروں کا ذکر خال خال ہی ملتا ہے۔ آخر ایسا کیوں؟کیا مغربی بنگال کو نظر انداز کرنے کا کوئی منطقی جواز ہے؟ کیا یہ سرزمین ادبی معاملات میں کسی سے کمتر ہے؟ جس کا دامن مرشد آباد اور مٹیا بُرج کی موتیوں سے مالا مال ہو اسے کمتر کیسے کہا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کے باب میںجتنی اولیات، اس سرزمین کو حاصل ہیں، شاید ہی کسی اور کو نصیب ہو۔

اردو زبان کا پہلا ہفت روزہ اخبار جام جہاں نما 27؍مارچ 1822ء کو یہیں سے جاری ہوا۔
اردو زبان کا پہلا روزنامہ ’’اردو گائیڈ‘‘1856ء میں اور پہلا ماہنامہ نور بصیرت جولائی 1884ء کو عبدالغفور شہباز البہاری کی ادارت میں یہیں سے شائع ہوا۔
اردو زبان کا پہلا پریس بھی 1801ء میں یہیں قائم ہوا۔
اردو کی پہلی قواعد، لغت یہیں سے شائع ہوئی۔
اردو محاورات اور روزمرہ پر سب سے پہلی کتاب مرزا جان طپش کی ’شمس البیان فی مصطلحات ہندوستان‘ یہیں مرشدآباد سے شائع ہوئی۔
اردو صرف و نحو اور جدید لسانیات کی پہلی کتاب انشاء اللہ خان انشاء مرشدآبادی کی دریائے لطافت ہے جو مولوی مسیح الدین خاں بہادر کے مطبع آفتاب عالمتاب واقع مرشد آباد میں شائع ہوئی اور بقول عابد پیشاوری یہی کتاب جدید لسانیاتی شعور کا نقطہ آغاز ہے۔
اردو کے پہلے سفرنامہ کا نقطہ آغاز بھی یہی سرزمین ہے کہ عجائبات فرنگ کے مصنف یوسف خاں کمبل پوش نے اسی دارالامارۃ کلکتہ سے بیت السلطنت انگلستان کا عزم سفر کیا تھا۔
اردو کے سب سے پہلے سانٹ کی اشاعت کا شرف بھی کلکتہ کو حاصل ہے۔ ڈاکٹر عظیم الدین احمد کا سانٹ ’فریادِ عظیم‘ رسالہ نگار بزم کلکتہ، بابت ماہِ اکتوبر 1913ء میں شائع ہوا۔(بحوالہ: ڈاکٹر حسن الدین احمد، انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، ص۔320)
شیکسپئر کا پہلا اردو ترجمہ کرنے کا شرف بھی اسی سرزمین کو حاصل ہے۔ جان گلکرسٹ نے ہیملیٹ کا ترجمہ کیا۔(بحوالہ: شیکسپئر کے اردو تراجم، از: خاطر غزنوی، اردو نامہ، کراچی، جولائی۔اکتوبر1959-،
اردو کا پہلا منظوم ترجمہ ’انشاء کی مثنوی فیل ‘ ہے۔ جس کا تعلق مرشد آباد سے ہے اور دوسرا منظوم ترجمہ بھی کلکتہ کے راجہ کالی کرشن بہادر کا ہے۔
اردو نثر کو فورٹ ولیم کالج کے ذریعے نئی سمت اسی سرزمین سے ملی۔
یہی وہ سرزمین ہے جس نے میر امن دہلوی کے باغ و بہار کی صورت میں زندہ نثر کا عمدہ نمونہ دیا بلکہ بقول ظفر اوگانوی اردو کو ایک بڑا فکشن دیا۔

اتنی ساری اولیات کے باوجود مغربی بنگال کو اردو کے باب میں مرکزیت حاصل نہیں ہے۔یہ صریحاً ناانصافی ہے اور شاید اسی ناانصافی کے احساس نے مغربی بنگال کو زیادہ متحرک، فعال اور مستعدبنا دیا ہے۔کیوںکہ ناانصافی ایک خاص حد تک ہی نقصان پہنچا سکتی ہے مگر کبھی کبھی اس کے فوائد بہت دوررس ہوتے ہیں۔ پروفیسر اختر اورینوی کو اگر علاقہ بہار کے ساتھ ناانصافی کا احساس نہ ہوتا تو بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء جیسی وقیع کتاب وجود میں نہ آتی۔ اسی طرح کی نا انصافی کا مثبت ردعمل مغربی بنگال پر مرکوز تحقیقی و تنقیدی مطالعات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ مغربی بنگال کے ادبی منظرنامے اور نمائندہ شخصیات کے حوالے سے ادھر جو کتابیں شائع ہوئی ہیں ان سے مغربی بنگال کے تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی مزاج و منہاج کو سمجھنا مشکل نہیں رہا۔ ادب کی جملہ اصناف میں اہل بنگال کی جو خدمات ہیں وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
وفا راشدی کی بنگال میں اردو (1935) جاوید نہال کی انیسویں صدی میں بنگال کا اردو ادب (1969) شانتی رنجن بھٹاچاریہ کی بنگال میں اردو زبان و ادب (1963) آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو (1973) بنگال میں اردو صحافت کی تاریخ (2003) سالک لکھنوی کی بنگال میں اردو نثر کی تاریخ (1998) یوسف تقی کی بنگال میں اردو ناول، ایم نصر اللہ نصر کی بنگال میں اردو نظم نگاری، مشتاق احمد کی بیسویں صدی میں مغربی بنگال کے شعراء، جاوید ارشد چودھری کی مغربی بنگال میں اردو غزل آزادی کے بعد، مضطر افتخاری کی 696 صفحات پر محیط مغربی بنگال کا ادبی منظرنامہ، فرحت آرا کہکشاں کی اردو مثنوی (بنگال کی مثنویوں کے تناظر میں) عاصم شہنواز شبلی کی مغربی بنگال میں بچوں کا اردو ادب،نکہت جہاں کی بنگال کا اردو اب، شاہد ساز کی مغربی بنگال کا شعری و نثری ادب، عشرت بیتاب کی مغربی بنگال میں اردو افسانے، محمد عمران قریشی کی بنگال میں اردو افسانہ، الف انصاری کی شعرائے بنگالہ، اول دوم، نثر نگاران بنگالہ، شاعرات بنگالہ، فریدہ انور کی مغربی بنگال میں اردو صحافت، شمیم انجم وارثی کی مغربی بنگال میں ماہیا نگاری، نعیم انیس کی آزادی کے بعد مغربی بنگال کا اردو ادب، نوشاد مومن کی ’ادب بنگالہ‘ ، حلیم حاذق کی ’مغربی بنگال میں صومیہ نگاری‘ اور شہناز نبی کی ’منثورات بنگالہ‘ وغیرہ۔ یہ ایسی کتابیں ہیں جن سے مختلف اصناف کے حوالے سے مغربی بنگال کی پوری ادبی لسانی اور ثقافتی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ان کے علاوہ مغربی بنگال کے مختلف علاقوں پر مرکوز تاریخیں اور تذکرے بھی لکھے گئے جن میں مشتاق احمد حامی کی ہگلی اور اردو ادب، الف انصاری کی دبستان مٹیا برج کی ادبی خدمات، ڈاکٹر سید محمد رضا علی خاں کی مرشد آباد اردو کا ایک قدیم مرکز، محبوب انور کی چہرہ چہرہ (آسنسول کا تذکرۃ الشعراء)، سیدہ جینیفر رضوی کی ’دبستان مرشد آباد کے قدیم و جدید شعراء‘ یہ کتابیں بھی ناانصافی کا ردعمل ہیں۔ ان میں سے کچھ ناانصافیاں مغربی بنگال کے محققین اور ناقدین سے بھی ہوئی ہیں۔ ان تمام کتابوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مغربی بنگال کا ادبی منظرنامہ نہایت تابناک اور تابندہ ہے۔
شعری و نثری ادب کی کوئی بھی صنف ایسی نہیں ہے جس میں یہاں کے تخلیق کاروں نے طبع آزمائی نہ کی ہو اور اپنے تخلیقی جوہر کا ثبوت نہ دیا ہو۔ بس ضرورت ہے کہ دہلوی اور لکھنوی رنگ کی طرح رنگ بنگالہ کی بھی شناخت کی جائے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہاں چھوٹی موٹی تجارت کرنے والے، فیکٹریوں میں ملازمت کرنے والے، محنت کشوں اور مزدوروں نے بھی اپنے لہو سے اردو زبان و ادب کو سینچا اور سنوارا ہے۔ اپنی تخلیق کے ذریعہ عام آدمی کے دکھ درد اذیت اور محرومی کو بیان کیا ہے۔ ان لوگوں نے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کرب کتھا نہیں لکھی ہے، ان کا دکھ بھی حقیقی ہے اور اظہار بھی حقیقی۔ صارفیت اور مادیت کے عہد میں یہ بڑی بات ہے کہ تجارت سے وابستہ ایک بڑا طبقہ بھی شعر و سخن سے جڑا ہوا ہے۔ ایسے بہت سے نام مغربی بنگال کی ادبی تاریخ میں ملتے ہیں جن کا مشغلہ تجارت ہے اور تخلیق ان کا جنون، مگر یہ ادب کی تجارت نہیں کرتے جبکہ باضابطہ ادب سے جڑے ہوئے لوگوں کا ذہن تاجرانہ ہوتا جارہا ہے— تجارت سے یہاں کی تخلیق کو توانائی ملتی رہی ہے کہ دراصل تخلیقی طور پر مغربی بنگال کے آباد ہونے کا رمز بھی اسی تجارت میں مضمر ہے۔ کلکتہ تجارتی شہر نہ ہوتا، یہاں کے اطراف میں تجارت کے مراکز نہ ہوتے تو شایدارباب فضل و کمال کا قافلہ دلی، لکھنؤ اور عظیم آباد سے یہاں آکرسکونت اختیار نہ کرتا۔ فکر معاش نہ ہوتی تو نواب مرشد قلی خاں سرشار کا شہر مرشدآباد، دلی اور لکھنؤ کے آفتاب و ماہتاب سے نہ جگمگارہا ہوتا، نہ میرا مانی اسد آتے اور نہ ہی خواجہ میر درد کے بیٹے میر الم، نہ قدرت اللہ قدرت، نہ شاہ رکن الدین عشق گھسیٹا اور نہ ہی انشاء اللہ خاں انشاء اور مٹیابرج بھی کبھی ثانی لکھنؤ نہ کہلاتا۔ مجھے اب یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مغربی بنگال کے زبان و ادب میں بَہار باہری فن کاروں کی وجہ سے ہے۔یہ سرزمین مہجری ادب کا سب سے بڑا گہوارہ ہے کہ اب تو مہجوری کا احساس ذرا سی دوری پہ بھی ہونے لگتا ہے۔ پھر تو یہ لوگ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔ یہاں وطن ثانی، والے ایسے ارباب قلم کی تعداد زیادہ ہے۔ جن کا تعلق یوپی، بہار اور دیگر علاقوں سے ہے اور شاید مختلف علاقوں کے لوگوں کے اختلاط اور میل جول کی وجہ سے ہی یہاں لسانی اور ثقافتی سطح پر یک رنگی نہیں تنوع ہے۔
یہ سبھی لوگ اپنے اپنے علاقوں کے موسم اور ماحول کے ساتھ یہاں آئے تھے مگر کلکتہ کا ماحول ان کے ذہنی موسم پر اس قدر اثرانداز ہوا کہ کلکتہ کی سوچ ان کی تخلیقی سائیکی کا حصہ بن گئی۔ کلکتہ کی تہذیبی و ثقافتی حسیت(Sense and sensibility) ان کے شعور کا جزو بن گئی۔ کلکتہ کے صنعتی انقلاب نے تو غالب کے انداز نظر کو بھی بدل دیا تھا۔میں یہاں بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ غالب کے جدید ذہن کی تشکیل میں کلکتہ کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ غالب کو فیوچروژن اسی سرزمین سے ملا تھا۔ غالب کلکتہ نہ آتے تو سرسید احمد خان کی آئین اکبری پر نہایت خوش دلی سے تقریظ تحریر کرتے اور سرسید احمد خان کو قطعی یہ نہ لکھتے کہ:
’’ابھی آپ پرانے آئین جہاں بانی کی ترتیب و تصحیح میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ زندگی کا نیا آئین کلکتہ تک پہنچ گیا۔‘‘
غالب کی طرح اس سرزمین نے باہر کے ادیبوں کے طرز احساس کو بھی تبدیل کیا۔ کلکتہ ان کے تخلیقی وجود میں اس طرح جذب ہوگیا کہ کلکتہ ان کی تخلیق میں ایک کولاژ کی صورت نظر آتا ہے۔

وہی انقلاب، وہی جوش، ولولہ، باغیانہ، مزاحمتی رویہ ان کی تخلیقات میں ہے جو ٹیگور اور نذرل کی سرزمین کی سرشت میں ہے اورجو شہر کی شناخت ہے؟ ان لوگوں نے ایسی بھی شاعری کی جو صرف اسی سرزمین پر کی جا سکتی ہے۔انہوں نے ہبلی اور ہگلی، کلکتہ اور کرنال کے فرق کو برقرار رکھا۔ کلکتہ کی امتیازی شناختdistinct Identity کو قائم رکھا۔
یہاں کی شاعری کچھ اس طرح کی سوچ میں ڈھلتی ہے :
ان پڑھ آندھی گھس پڑتی ہے توڑ کے پھاٹک محلوں کے
اندر آنا منع ہے لکھ کر لٹکانے سے حاصل کیا
(پرویز شاہدی)
ہمارے گھر جلیں ہم قتل ہوں مجرم بھی ہم ٹھہریں
جہاں میں ناتوانوں کا یہی انجام ہوتا ہے

اگر ہیں بیڑیاں باقی تو ہیں پائے جنوں حاضر
اگر دیوار زنداں ہے تو ہے شانوں پہ سر باقی
(سالک لکھنوی)
یہ شہر یہ خوابوں کا سمندر نہ بچے گا
جب آگ لگے گی تو کوئی گھر نہ بچے گا
مقتل کی سیاست نہ ہماری نہ تمہاری
تفریق کروگے تو کوئی سر نہ بچے گا
(اعزاز افضل)
ہمارے جسم کو موجیں نگل گئیں قیصر
کہ ساعتوں کا سمندر بڑے جلال میں تھا
(قیصر شمیم )
زندگی بھٹکتی ہے شب گزیدہ راہوں میں
شہر یہ مشینوںکا، آدمی کا مقتل ہے
(علقمہ شبلی)
بھوک غریبی کیا جانیں گے شہروں کے سلطان
شیش محل میں رہنے والے ہوتے ہیں انجان
(جمال احمد جمال)
شرم آتی ہے مزدوری بتاتے ہوئے ہم کو
اتنے میں تو بچوں کا غبارہ نہیں ملتا
(منور رانا)

اب اپنے دھڑ کو کس پہ کروں گا سوار میں
لکڑی کے پاؤں تھک گئے بس کی قطار میں
(اشرف چنگیزی)
چمکتی ریت پر پانی کا کوئی گھر نہیں ملتا
ہمارے شہر میں ایسا کوئی منظر نہیں ملتا
(عاصم شہنواز شبلی)
مفلسی نے چھینے ہیں خواب تک نگاہوں کے
خواہشوں کی لاشیں ہیں بے بسی کے آنگن میں
(اشفاق احمد اشفاق)
کابل ہو کربلا ہو کہ گجرات کی زمیں
ہر سو مرے لہو کا ہی دریا دکھائی دے
(مشتاق جاوید)
ہمارے خون کی بو دست قاتل میں کہاں ہوگی
وہ بعد از قتل اپنے ہاتھوں میں مہندی رچا لیں گے
(شمیم انور)
گلوں کے جسم پہ شمشیر دیکھنے کے لئے
چلوگے وادی کشمیر دیکھنے کے لئے
(مشتاق افضل)
نہ کل تک کربلا بن جائے دنیا
زمیں بغداد ہوتی جا رہی ہے
(عمران راقم)
سرمقتل مجھے سینہ سپر چلنے کی عادت ہے
کماں سے تیر جو نکلیں گے میرے دل سے گزریں گے
(حامی گورکھپوری)
سرحد دشت سے آبادی کو جانے والو
شہر میں اور بھی خوں ریز نظارے ہوں گے
(حبیب ہاشمی)
بس انتہا ہے کہ اک بدنصیب بیٹی نے
حیا کو بیچ دیا باپ کے کفن کے لئے
(محمود طرزی)
پرچم درد اٹھاؤ کوئی فریاد کرو
اتنا چیخو کہ پہاڑوں کا جگر کٹ جائے
(خالق عبداللہ)
مکاں بھی جلتے ہیں ہوتا ہے قتل بھی ان کا
عدالتوں سے انہیں ہی سزائیں ملتی ہیں
(ضمیر یوسف)
اب رقص خاک و خوں پہ کوئی بولتا نہیں
جیسے یہ میرے ملک کا دستور ہوگیا

اب دست طلب مجھ کو بڑھانا بھی نہیں ہے
حق اپنا مگر چھوڑ کے جانا بھی نہیں

اڑانیں ختم کردیں ہم کبھی ایسا نہیں کرتے
ہوا بھی تیز ہوتی ہے تو سمجھوتہ نہیں کرتے

روشن چراغ کرنا غریبوں کے خون سے
کوئی خطا نہیں ہے خطاؤں کے شہر میں
(شہود عالم آفاقی)
اس ہاتھ سے انصاف کہاں تم کو ملے گا
وہ ہاتھ تو قاتل کو بچانے کے لئے ہے
(مرتضیٰ حسین مرتضیٰ)
سرپھری ظالم ہوائیں حوصلہ دیتی رہیں
آگ اک گھر میں لگی تھی گھر کے گھر جلتے رہے
لگ گئی کس کی نظر اس روشنی کے شہر کو
قمقمے بجھتے رہے، نور نظر جلتے رہے
(عبداللہ سنجر)
رچی گئی ہے یہ سازش بھری عدالت میں
خطا کسی کی ہو میرا قصور نکلے گا
(فیض احمد شعلہ)
تکتا رہا میں پیاس کی شدت لئے ہوئے
اور لے گیا وہ سارا سمندر خرید کر
(احمد کمال حشمی)
وقت نے شعلہ زنی کا کھیل کھیلا شہر میں
جس طرف نظریں اٹھیں جلتے ہوئے منظر ملے
(افضال عاقل)
اونچی عمارتوں میں یہ جوہر نہ ملے گا
ملنا ہو زندگی سے تو فٹ پاتھ پہ آؤ
(معید رشیدی)

یہ مغربی بنگال کا مخصوص شعری مزاج ہے۔ مختلف ادوار میں یہاں کے شعری مزاج کے حوالے سے پروفیسر مظفر حنفی نے جو نکات و اشارات بیان کئے ہیں ان سے مغربی بنگال کے شعری منظرنامے کی تفہیم میں بہت مدد مل سکتی ہے اور اس سے مغربی بنگال کا حقیقی چہرہ بھی نظر کے سامنے آجاتا ہے۔ زنداں، حلقہ زنجیرکی بات ہو، جبر و ا ستحصال کے خلاف احتجاج ہو۔ بے بسی، مفلسی کا درد ہو، مجبوروں کی دادرسی ہو۔ ایسی شاعری پڑھتے ہوئے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہم اس شہر کا چہرہ پڑھ رہے ہوں۔مجھے تو اس شہر کا شور بھی شعر انگیز لگتا ہے۔
اس دھرتی نے سونا، ہیرے موتی نہ اگلے ہوں مگر ایسے شعر ضرور اگلے ہیں جو سونا، ہیرے موتی سے زیادہ قیمتی ہیں۔ خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اس سرزمین کے بہت سے شعروں کی گونج گنجینۂ عالم میں ہے۔ شعر و ادب کی تہذیب سے ناآشنا بستیوں تک میں ہے۔ ان ننھے منے بچوں کی زبان پر یہ شعر ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ شاعری کیا بلا ہے۔
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد
سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اسے ملی جو وطن سے نکل گیا
7برس کی عمر میں یہ اشعار ہم بچوں کی زبان پر تھے۔ 37 برس بعد پتہ چلا کہ ان اشعار کا تعلق کلکتہ کے شاعر مست کلکتوی سے ہے۔ ان شعروں کو جتنی عوامی مقبولیت ملی ہے، شاید ہی اردو میں کسی کو ملی ہو۔ خواص میں بہت سے شعر مقبول ہو سکتے ہیں مگر عوام میں مست کے شعروں کی شہرت قریہ قریہ نگر نگر تک ہے۔

اسی طرح یہ شعر بھی جو زباں زد خاص و عام ہے:
نہ گھبراؤ مسلمانوں خدا کی شان باقی ہے
ابھی اسلام زندہ ہے ابھی قرآن باقی ہے
اس کا تعلق بھی اسی سرزمین بنگال سے ہے۔ یہ شعر جرار لکھنوی کا ہے جو برسوں تلک ہگلی میں مقیم رہے۔ پتہ نہیں کتنے اور شعر اس سرزمین سے ابر کی صورت اٹھے اور جانے کہاں کہاں جا کر برسے۔یہ مغربی بنگال کے لئے فخر کی بات ہے کہ جہاں بہت سے اچھے شعروں کی پوری عمر مخصوص علاقوں کی سیاحت میں گزر جاتی ہے وہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے سہارے کے بغیر یہاں کی شاعری ورد زباں ہو گئی ہے۔
مغربی بنگال کے اور بھی بہت سے شعروں میں اتنی کشش اور قوت ضرور ہوگی کہ انہیں بھی شہرت دوام مل جائے بس جستجو شرط ہے۔
مغربی بنگال میں شاعروں کی بہتات ہے۔ ان میں بہت سے ملک گیر شہرت کے حامل بھی ہیں۔ جن کی شناخت مستحکم ہو چکی ہے ۔ان پر کتابیں اور بہت سے مقالے بھی لکھے جا چکے ہیں۔ایسے ناموں میں وحشت، سید حرمت الاکرام، پرویز شاہدی، علقمہ شبلی، مظہر امام، اعزاز افضل، قیصر شمیم، اشک امرتسری وغیرہ ہیں۔ مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں اپنی شناخت کے لئے بہت سے مرحلوں سے گزرنا ہے، ان کے یہاں بے پناہ امکانات تو ہیں مگر ان امکانات کی جستجو کرنے والے جوہری انہیں نصیب نہیں ہیں۔ کلکتہ اور اس کے مضافات میں بہت سے شعراء ہیں جن کے ہاں فنی پختگی ہے۔جن کے کلام میں تازگی اور تمازت ہے، تاب و توانائی ہے، گہرائی اور گیرائی ہے۔ خیال کی تازگی اور اسلوب کی نادرہ کاری بھی ہے مگر وہ ناقدین کی نگاہوں سے ابھی تک دور ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جن کے یہاں فنی لوازمات کا اتنا التزام نہیں ہے پھر بھی مشق سخن جاری ہے۔ ایسے شعراء کی اصلاح و تربیت کے ساتھ حوصلہ افزائی یوں بھی ضروری ہے کہ یہ صرف قلم کار نہیں قاری بھی ہیں اور ہمارے عہد میں قاری کا بڑا بحران ہے۔ دہلی کے البیلے اور طرح دار شاعر شجاع خاور کا ایک بہت مشہور شعر ہے:

جدھر دیکھئے اک قلم کار ہے
نہیں ہے تو قاری نہیں ہے میاں
جہاں تک فنی خامیوں کی بات ہے ،کمی کس کے کلام میں نہیں ہوتی۔ استاد شاعروں کے کلام میں بھی فنی اسقام کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے۔ ابراحسنی گنوری اور سیماب اکبرآبادی کی اصلاح الاصلاح اور دستور الاصلاح میں اساتذہ کے کلام میں بھی اصلاحات کی گئی ہیں۔ عہد حاضر کے منفرد اور تیکھے تیور کے شاعر مظفر حنفی کا ایک شعر ہے:
ایطائے خفی میری غزل میں بھی نکالی
ظالم نے کمی تاج محل میں بھی نکالی
غالب جیسے استاد سخن کو عبدالصمد صارم ازہری نے بے بحرا قرار دیتے ہوئے ان کے بیشتر کلام کو عروضی تقطیع کے ذریعہ ساقط الوزن اور خارج از بحر بتایا ہے۔ جب کہ غالب اردو شعریات کے باب میں ایک میزان اور کینن کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مغربی بنگال میں ایسے بہت سے حاشیائی فنکار ہیں جنہیں ان کی تخلیقی ریاضت کا صلہ نہیں ملا۔ ذرا سی فنی لغزش پر ان کے پورے تخلیقی وجود پر خط تنسیخ کھینچ دینا، مناسب رویہ نہیں ہے۔ مغربی بنگال کے ایسے شعراء بھی تنقید کی نظر عنایت کے منتظر ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں:
آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
مری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں
صرف غزل نہیں شعری اظہار کی دیگر صورتوں میں بھی یہاں کے شعراء نے اپنی ندرت فکر وبیان کا ثبوت دیا ہے۔ رباعیات ہو یا قطعہ نگاری، مثنوی ہو یا مرثیہ ان تمام اظہارات میں یہاں کے شعراء نے فنی بلندی اور فکری پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ خالص زبان کے شعر بھی کہے گئے ہیں۔جب کہ دہلی اور لکھنؤ کے اہل زبان اہل بنگال کو زبان دانی کے معاملے میں مطعون بھی کرتے رہے ہیں۔ ناسخ و نساخ کی معرکہ آرائی اس ضمن میں قابل ذکر ہے۔ مگر نساخ اور انسخ نے اہل زبان سے ٹکر لے کر یہ ثابت کر دیا کہ زبان کسی کی میراث یا جاگیر نہیں۔

مغربی بنگال میں نظمیہ شاعری کی روایت بھی بہت مستحکم ہے۔ اس میں بہت سے ایسے نام ہیں جن کی نظموں میں مغربی بنگال بالخصوص کلکتے کی آواز اور صورت دکھائی دیتی ہے۔ سید حرمت الاکرام کی شاہکار نظم ’’کلکتہ ایک رباب‘‘، قیصر شمیم کی یہ صبح، نصر غزالی کی جاب چارنک کا شہر، عین رشید اور شمیم انور کی نظمیں ایسی ہیں جن میں کلکتہ کے داخلی اور خارجی کردار کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ یہاں نظم گو شعرا کی ایک بڑی تعداد ہے جس میں بدر کلکتوی، ف س اعجاز، رونق نعیم، اقبال کرشن، مضطر حیدری، سہیل واسطی، نصر غزالی، شاہین بدر، رفیق انجم، علقمہ شبلی، اشہر ہاشمی، عبدالسلام عاصم ، مصطفی اکبر، جاوید ہمایوں، نسیم فائق، نعیم انیس، مشتاق انجم، احمد معراج، ارشد جمال حشمی، تسلیم نیازی جیسے سینکڑوں نام ہیں ۔یہاں کی بہت سی نظموں میں وہ موضوعات بھی ہیں جن کے لئے بنگال کی زمین خاص طور پر جانی پہچانی جاتی ہے۔ ایم نصر اللہ نصر نے اس خصوص میں ’’بنگال میں اردو نظم نگاری‘‘ کے زیر عنوان بہت وقیع کام کیا ہے اور نظم نگاروں کے تعارف کے ساتھ ساتھ نظموں کا بھی ایک عمدہ انتخاب پیش کیا ہے۔
شعری اظہار کی ایک صورت طنزیہ مزاحیہ شاعری بھی ہے۔ اس میں بھی یہاں کے شاعروں نے نکتہ آفرینیاں کی ہیں۔ سماجی ناہمواری، زمانے کی کج روی اور زندگی کے مضحک پہلوؤں کو بہت ہی عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔طنز و مزاح کا الگ آہنگ و اسلوب ہوتا ہے۔ مزاح نگار ہمیشہ ایک نیا جزیرہ، ایک نیا زاویہ تلاش کرتا ہے اور ایک معمولی احساس کو بھی ایک غیرمعمولی اظہار میں بدل دیتا ہے۔ طنز و مزاح کے میدان میں بھی یہاں بہت سے شعرا ہیں جنھوں نے اپنی ذہنِ رسا کا ثبوت دیا ہے۔ بازغ بہاری، فیروز راغب، بدرالدین خادم، شرف الدین ظرف، انور بارود، ارم انصاری وغیرہ نے یہاں کے طنز و ظرافت کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے۔
بازغ بہاری ملک گیرشہرت کے حامل ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’من خوب می شناسم‘، ’خندہ برگ نیم‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ ان کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیں:
جنگ میں عجب دیکھی مشیت یہ خدا کی
تھی بیٹھی ہوئی باغ ارم میں میری بیوی
چالیس برس تک مجھے دنیا نے رلایا
ماں باپ کے ایما پہ مجھے خوب ستایا
تسلیم نہیں میں نے کہا مجھ کو یہ جنت
للہ مجھے کیجیے دوزخ ہی عنایت

پھر گیٹ کے دوزخ کے جو پہنچا تو میں ٹھٹکا
افتاد نئی دیکھ کے ماتھا میری ٹھنکا
تقدیر کی گردش میرے پیچھے یوں پڑی تھی
دروازۂ دوزخ پہ میری ساس کھڑی تھی
اسی طرح فیروز راغب کے اشعار ملاحظہ فرمائیں جو آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے تناظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ بہت گہرا طنز ہے ان اشعار میں:
دھندا سفر علاج دوا آن لائن سے
اب سارا کام ہونے لگا آن لائن سے
سنتے ہی بیگموں نے کیا جھٹ سے یہ سوال
بچے بھی جنم لیں گے کیا آن لائن سے
بدرالدین خادم کی رگِ ظرافت پھڑکتی ہے تو اس طرح کے شعر کہتے ہیں:
جانے کس یاد میں کھوئی ہوئی رہتی ہے
پینٹ مانگوں تو تھما دیتی ہے شلوار مجھے
یہ کس طرح سے پکاتی ہیں جانِ من کھانا
نمک ہے دودھ میں اور بھات میں مسالہ ہے
شرف الدین ظرف نے بھی اپنی ظرافت کا یوں مظاہرہ کیا:
مہمان بھاگتے کہاں گھر سے مرے مگر
کھٹمل میرے پلنگ کے بہت کام کرگئے
انور بارود کے مزاحیہ اشعار بھی بہت لطف دیتے ہیں:
دعوتِ مفلس میں کیوں آنے سے کتراتے ہیں آپ
جارہا ہوں شیخ جی مرغا چرانے کے لیے
چار بچے کم سے کم ہر شخص کو درکار ہیں
دال چاول تیل کی لائن لگانے کے لیے
اور بھی بہت سارے شعرا ہوں گے جنھوں نے مغربی بنگال میں طنزیہ مزاحیہ شاعری کو فروغ دیا ہے۔

(جاری)

Previous articleمولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ
Next articleانشائیہ ‘‘سوچنا ‘‘ از : جہانگیر اُنس (سیوان )

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here