21؍اگست 1912
*ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں نمایاں، فیض احمد فیضؔ کے ہم عصر کلاسیکی شعری روایت کے مشہور شاعر” معین احسن جذبیؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…*
معین احسن جذبیؔ کا شمار ممتاز ترین ترقی پسند شاعروں میں ہوتا ہے۔ لیکن تحریک اور اور اس کے ادبی وسماجی نظریات سے جذبی کی وابستگی مختلف خطوط پر تھی، وہ ان ترقی پسندوں میں سے نہیں تھے جن کا فن نظریاتی پروپگنڈے کی نذر ہوگیا۔ جذبی کی تربیت کلاسیکی شعری روایت کے سایے میں ہوئی تھی اس لئے وہ ادب میں راست اظہار کے بجائے بالواسطہ اور رمزیاتی اظہار پر زور دیتے تھے۔ جذبی نے نظمیں بھی کہیں لیکن ان کے تخلیقی اظہار کی بنیادی صنف غزل ہی رہی۔ ان کی غزلیں نئے سماجی اور انقلابی شعور کے ساتھ کلاسیکی رچاو کی حامل ہیں۔
*جذبیؔ* کی پیدائش *٢١؍ اگست ١٩١٢ء* کو *مبارک پور، اعظم گڑھ* میں ہوئی ۔ وہیں انہوں نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ سینٹ جانس کالج آگرہ سے ١٩٣١ء میں انٹر کیا اور اینگلو عربک کالج سے بی اے کیا۔ جذبی نو سال کی عمر سے شعر کہنے لگے تھے۔ ابتدا میں *حامد شاہجہاں پوری* سے اصلاح لی۔ آگرہ میں *مجازؔ، فانیؔ ؔبدایونی اور میکشؔ اکبر آبادی* سے ملاقاتیں رہیں جس کے سبب جذبی کی تخلیقی صلاحیت نکھرتی رہی۔ قیام لکھنؤ کے دوران *علی سردار جعفری* اور *سبط حسن* سے قربت نے انہیں ترقی پسند نظریۂ ادب سے متعارف کرایا جس کے بعد جذبی علی گڑھ میں ایم اے کے دوران تحریک کے متحرک اور فعال کارکنان میں شمار کئے جانے لگے۔
ایم اے کرنے کے بعد کچھ عرصے تک *جذبی* نے ماہنامہ *’ آجکل ‘* میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی خدمات انجام دیں۔ 1945 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بطور لکچرر تقرر ہوگیا جہاں وہ آخر وقت تک مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
جذبی نے شاعری کے علاوہ کئی اہم تنقیدی کتابیں بھی لکھیں۔ *’حالی کا سیاسی شعور‘* پر انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ملی اور یہ کتاب حالی مطالعات میں ایک اہم حوالے کے طور پر بھی تسلیم کی گئی۔ اس کے علاوہ *’فروزاں‘ ’سخنِ مختصر‘ ’ گدازِ شب‘* ان کے شعری مجموعے ہیں۔
*١٣؍فروری ٢٠٠٥ء* کو *جذبیؔ* کاانتقال ہوا۔
ممتاز شاعر معین احسن جذبیؔ صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
*مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے*
*یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہشِ دنیا کو