ایک زمانہ تھا جب ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے نعرے بلند کیے جاتے تھے چونکہ ادب ایک صحت مند اور باشعور معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ادیب،شاعر اور ادبی شخصیات کو معاشرے میں ایک منفرد مقام حاصل ہوتا ہے کارل یونگ نے اپنی کتاب”modern men is search of civil“ میں لکھا ہے کہ شاعر اور ادیب کا کام ہے کہ وہ معاشرے کی روحانی ضروریات کو پورا کرے اگر ہم روحانی ضروریات کو وسیع تر مفاہیم میں پھیلا کر دیکھیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کی نفسیاتی صحت کا دارومدار اس قوم کے شاعروں ادیبوں اور فنکاروں کی سچائی اور سماجی انصاف سے وابستگی پر ہے روحانیت کی کنجی ہی سچائی ہے، لکھاری کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اس کی تحریریں ہوتی ہیں، جس سے وہ اپنی جنگ لڑتا ہے۔ قلم کی طاقت ہی وہ طاقت ہے جس کے سامنے شمشیر و ستاں،تیر و تفنگ،گولی بارود سب کو شکست کا منھ دیکھنا پڑتا ہے ادیب،شاعر،ناقد مبصر سب اپنے اپنے فرائض کو انجام دیتے رہے ہیں۔
قلم کی حوصلہ مندی اور شجاعت نے بڑی بڑی تحریکات کی تشکیل کی ان تحریکات کی کامیابی میں ادب شانہ بہ شانہ ساتھ چلتا رہا قلم کی ہمت اور طاقت نے بڑی سے بڑی جنگ میں فتح یابی حاصل کی،ایک وقت ایسا بھی آیا جب قوم کا شیرازہ بکھر رہا تھا، ملک پستی کی طرف مائل تھا،ملت تاریکیوں میں ڈوبی جہالت کے اندھیرے میں گم زوال پزیر نظر آ رہی تھی وطن کا سفینہ بھنور میں تھا، ایسے مشکل وقت میں ملک اور قوم کو تاریکیوں سے اجالے میں لانے کے لیے اللہ رب العزت نے سرسید کے قلم کو وہ صلاحیتیں، ہمت اور شجاعت عطا فرمائی۔ انہوں نے ملک اور قوم کی ڈوبتے ہوے سفینے کو ساحل پر لانے کے لیے جان کی بازی لگا دی،سرسید نے لوگوں کی گالیاں سنیں،پتھر کھائے،سب کی مخالفت برداشت کی لیکن اپنے ارادے پر مستحکم رہے،اپنے یقین کو نہیں ڈگمگانے دیا اور اپنے قلم کے ذریعے تاریکیوں سے جنگ لڑتے رہے۔ انہوں نے اپنے قلم سے ایسے اصلاحی مضامین رقم کیے جنہوں نے آہستہ آہستہ افراد، معاشرہ کے ذہنوں کو کشادہ کیا۔لوگ تعلیم کی طرف مائل ہوئے اور مشرق کے ساتھ ساتھ مغربی تعلیم کی اہمیت بھی سمجھ میں آنے لگی۔
سرسید کی محنت لگن اور ہمت سے ایسا وقت بھی آیا کہ سرسید قوم کے اس بکھرے ہوئے شیرازے کو یکجاں کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ قوم سے تاریکیاں دور ہوئیں، سورج کی ضوباریاں افق پر چھانے لگیں اور ملک میں تعلیم کا آفتاب طلوع ہوا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے اصلاحی ناولوں کے ذریعے معاشرے میں پھیلی بے پناہ برائیوں اور تعلیم نسواں کے لیے معاشرے کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔اکبر آلہ آبادی نے اپنی خوبصورت نظموں کے ذریعے ہندوستانی معاشرے کی بہترین عکاسی نہایت دلکش انداز میں کی۔جوش ملیح آبادی کی انقلابی شاعری نے لوگوں میں جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ ملک اور قوم کے دل خراش مناظر دیکھ کر فیض احمد فیض بھی کہہ اٹھے”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“۔
غرض یہ کہ ادب معاشرے کا رہنما ہوتا ہے معاشرے میں پھیلی ناہمواریوں کو سدھارنے اور سنوارنے کی صلاحیتیں ادب میں موجود ہوتی ہیں۔ معاشرے کو خوف و ہراساں،مایوسی اور پریشانی سے نکالنے کے لیے دیگر تدابیر کے ساتھ ساتھ ادب بھی اپنے فرائض انجام دیتا رہا ہے۔ تخلیق کاروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی تخلیقات رقم کریں جو افراد معاشرہ کو حوصلہ بخشیں تاکہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہیں ادب ان میں بہادری اور جرات پیدا کرکے درست سمت میں افراد معاشرہ کی رہنمائی کر سکے۔ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے، لیکن کسی معاشرے کے ادب پر ہی کہرے کی ردا پھیلی ہوئی ہو تو پھر آئینے میں تصویر کس طرح صاف اور شفاف نظر آئے گی۔ لیکن جب ادباء ہی قلم کے کمزور،حوصلوں کے پست،جھوٹ کی اوڑھنی میں لپٹے ہوئے، فریب کی چاشنی میں ڈوبے ہوئے، خود نمائی کا لبادہ پہنے ہوئے، تنزّل کی طرف مائل ہوں گے تو پھر کس طرح معاشرے کے تابناک مستقبل کی امید کی جا سکتی ہے؟
موضوع یہ زیر بحث ہونا چاہیے کہ آج بھی ادب موجود ہے، ادبی شخصیات اپنے فرائض کی ادائیگی کے دعوے کر رہی ہیں پھر کیا وجہ ہے ملک اور قوم پسماندگی کی طرف مائل ہے؟ معاشرے میں پھیلی برائیاں اپنے عروج پر ہیں، قوم تنکا تنکا بکھرتی نظر آ رہی ہے۔اسی درمیان ایک چھوٹا سا سوال یہ ہے کیا ہمارے ملک کے شاعر و ادیب معاشرے میں اپنا صحیح اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب میں نیم نفی میں دوں گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بیشتر لکھاری ادب اور ادبی ترفع کے بجائے اپنی تحریروں کے ذریعے ذاتی مفادات،انعام و اکرام، شہرت اور ناموری کو حاصل کرنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی سعی میں مصروف عمل ہیں۔مسابقت کی جگہ حسد نے لے لی ہے۔ اس کی بہت بڑی وجہ ادب کا گرتا ہوا معیار ہے۔
آج فیس بک پر ایک پوسٹ پر نظر پڑی۔ عنوان دیکھ کر لگا شاید کسی نے مزاق کیا ہے لیکن ہماری غلط فہمی تھی۔ پوسٹ کا عنوان تھا”متفرق اشعار برآے فروخت“،اس کے بعد لکھا تھا”دو سطری خوبصورت اور معنی خیز اشعار ہم سے خریدیں۔فی شعر 100 روپیہ۔ یہ متفرق اشعار آپ اپنے نام سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر سکتے ہیں،جتنے شعر آپ خریدیں گے وہ آپ کی ملکیت ہوگی۔ہر شعر باوزن معنی خیز اور علم وعروض کے معیار پر پورا اترے گا۔اس آفر سے فائدہ اٹھائیں۔ مکمل رازداری برتی جائے گی“۔یہ پڑھ کر تو مجھے لگا کہ اگر ادب برائے ادب کی جگہ ادب برائے فروخت،ادب برائے خود نمائی،ادب برآئے زر،ادب برائے سیاست کا نعرا بلند کیا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ آج ادب اتنا سستا ہو گیا ہے کہ چند سکوں میں سیاست نے قلم کو خرید لیا۔ادیب اور شاعر اپنی خودنمائی میں اس قدر ڈوبے ہیں کہ انہیں اپنی توقیر کے افسانے اپنے منھ سے سنانے اور دوسروں کو کمتر ثابت کرنے میں کوء ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل لینا چاہتی ہیں۔ نئے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو شاعر جس بینر کے نیچے کھڑے ہوتے ہیں اسی کی تعریف اور حمایت میں اپنی تمام شعری صلاحتیں صَرف کردیتے ہیں۔عوامی مشاعروں کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ وہ ادب کی محفل کے بجائے موسیقی اور رقص کی محفل معلوم ہوتی ہیں۔کچھ شاعر اور شاعرات صرف ناموری اور مال و زر کی چاہت میں کسی بڑے شاعر کا کلام پڑھ کر مشاعروں میں اہل فن کے ساتھ صف اول میں نظر آتے ہیں، بھلے ہی شاعری کے نام پر ردیف قافیہ تو دور تلفظ کی ادائیگی بھی درست نہ ہو۔دوسروں کی صلاحیتوں پر انگشت نمائی عام مشغلہ ہو گیا ہے۔
ان حالات میں پھریہ کس طرح ممکن ہے کہ ادب بہترین معاشرے کی تشکیل کرکے زندگی کا ترجمان بنے اور قلم کی طاقت سے معاشرے میں پھیلی ناہمواریوں کو دور کیا جائے۔خود ہمارا ذہن یہ کہتا ہے کہ ہماری اس تحریر سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ لوگ خودنمائی کی چادر تانے غفلت کی نیند سو رہے ہیں لیکن دل یہ کہتا ہے حق لکھو، سچ لکھو اور پوری ایمانداری کے ساتھ لکھو۔ سو ہم نے ؎
دل رکھ دیا ہے سامنے لاکر خلوص سے
اب اس کے آگے کام تمہاری نظر کا ہے
اس امید کے ساتھ کہ جلد ہی یہ شب بھی گزر جائے گی، لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور افق پر صبح کی روشنی ہوگی۔چونکہ آج کے ان نامساعد حالات میں بھی کئی حوصلہ مند خوددار اور حق پرست قلمکار موجود ہیں جو صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ادب کو خودنمائی کا ذریعہ بنانے کی بجائے اپنے فرائض کی ادائیگی پر غور فکر کریں۔اگر ہم نے صالح ادب رقم کرنے کی جانب ایمانداری کے ساتھ توجہ دی تو معاشرے کی اصلاح کے لیے راہیں خود بہ خود ہموار ہو جائیں گی۔ان شاء اللہ۔(یہ بھی پڑھیں!’’قلم کا سپاہی ‘‘ ایک مطالعہ از : عارفہ مسعود عنبر)
٭٭٭