فارسی دانی اور زبان دانی

0
252

—پروفیسر سید امیر حسن عابدی

شیخ علی حزیںؔ(۱) اپنے زمانے کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ان کا دیوان ۱۳۱۱ھ/ ۱۸۹۳ء میں مطبع نول کشور لکھنؤ سے شایع ہوا۔ نیز خاتمہ، منشی شیو پرساد، منیجر مطبع اور تاریخ طبع ابو ناظم مولوی حامد علی خاں حامدؔ مصحح مطبع نے کہی ہے۔
یہ دیوان، ایران میں نایاب تھا۔ مشہد میں کسی صاحب کو اس کا کم یاب نسخہ ملا جس سے ایک ایک کر کے وہ حزیںؔ کی غزلیں اپنے نام سے شایع کرتے رہے۔ نیز ایرانی حضرات اس سے بے حد متاثر ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک اور صاحب کو بھی وہ مطبوعہ نسخہ مل گیا جس سے بڑی لے دے ہوئی۔ یہ سب چیزیں اخبار میں بھی آئیں۔
دیوانِ حزیں کے ایک قلمی نسخے کا عکس ممتاز حسن صاحب نے شایع کروایا تھا(۲) جس پر خود حزیںؔ کی تصحیح ہے۔ یہ نسخہ ان کے دوست والہ داغستانی کے پاس تھا جس پر ان کی مہریں نیز حاشیوں پر ان کی اپنی غزلیں ہیں۔ ایران کے ایک سفر میں، ممتاز حسن صاحب مرحوم اور میں ساتھ تھے۔ کراچی میوزیم کے بنانے میں انھوں نے بڑی فراخ دلی سے کام لے کر بے شمار قلمی نسخوں کو جمع کروا دیا تھا۔
دہلی میں دوارکا داس شعلہؔ ان کے بڑے عزیز دوستوں میں سے تھے۔ نیز شعلہ صاحب مرحوم، قاضی عبدالودود صاحب مرحوم اور میرے دوستوں میں سے تھے۔ وہ شعر بھی کہتے تھے۔ ان کا دیوان بھی شایع ہو چکا ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا کلام سنایا۔ اس پر علامہ نے کہا کہ کیا ضرور ہے کہ آپ شعر کہیں۔
شعلہ صاحب، حفیظ جالندھری کے شاگرد اور بڑے اردو دوست تھے۔ انھوں نے اپنی شادی شدہ ایک ہی لڑکی کا اردو کا مکتب مرحوم نورالدین بیرسٹر صاحب کے گھر پر کروایا۔ وہ بھی میرے کرم فرما تھے۔ میں اکثر دن دن بھر ان کے کمرے میں قاضی صاحب مرحوم سے محو گفتگو رہتا تھا۔ ان کے خسر قاضی رشید اللہ صاحب، شوکت اللہ انصاری کے سوتیلے بھائی تھے۔ پٹنہ میں سسرال کی وجہ سے قیام کیا اور اعلیٰ درجے کے وکلامیں شمار ہوتے تھے۔ یہاں یہ بھی بتا دیا جائے کہ شوکت اللہ انصاری صاحب مرحوم، اصلاً شاہ شوکت اللہ تھے۔ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے انھوں نے اپنے کو بجاے شاہ کے انصاری لکھنا شروع کیا تھا نیز وہ میرے ہم وطن تھے۔
(دیوانِ حزیں کی) ان دو اشاعتوں کے علاوہ سب سے اہم اشاعت تہران میں ہوئی۔ وہاں بیژن ترقی صاحب نے حزیںؔ کے دیوان کو باقاعدہ طریقے سے ایڈٹ کر کے دو مرتبہ شایع کروایا ہے(۳)۔
کئی سال پہلے ایران میں حزیںؔ پر ایک بین الاقوامی سمینار ہوا تھا جس کے لیے میں نے ایک مقالہ ’شیخ علی حزین و ہندوستان‘ کے عنوان سے لکھا تھا جو ’قند پارسی‘ میں شایع ہو چکا ہے(۴)۔ یہاں میں ان تفصیلات کی تکرار نہ کروں گا بلکہ صرف ایک نکتے کی طرف اشارہ کروں گا جو اس مقالے کے عنوان سے ظاہر ہے۔
خالص ہندوستانی نژاد شعرا و ادبا فارسی داں تھے مگر زبان داں نہ تھے۔ غالبؔ زبردست فارسی داں تھے مگر زبان (داں) نہ تھے بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کیا کہ ایک فرضی ’عبدالصمد ایرانی‘ کو اپنا استاد بتلایا جس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ انھوں نے فارسی کسی ہندوستانی سے نہیں بلکہ ایرانی سے پڑھی اور یاد کی ہے۔
علامہ اقبال فارسی داں تھے مگر زبان داں نہ تھے۔ ایک مرتبہ ایرانی علما کا ایک وفد استاد فروز انفر کے ساتھ ان سے ملنے گیا تو وہ ان سے فارسی میں بات نہ کر سکے۔
سراج الدین علی خاں آرزو(۵) ہمارے فارسی ادب میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ابھی حال میں ان کے تذکرہ ’مجمع النفایس‘ کی پہلی جلد شایع ہو کر آ گئی ہے(۶)۔ اس میں
’’دیوان مذکور۔۔۔۔۔۔۔ بہ آن درجہ کہ مظنون و متعین شیخ و جملہ نصیریان اوست، نیست ۔۔۔۔۔ اکثر تربیت طلبان و کاسہ لیسان ھند، اعتقادی بیش از پیش در خدمت این عزیز دارند و او خود ھم مثل حکیم و سلیم وغیر ھما را مطلقاً وجود نمی گذارد۔۔۔۔۔ می گویند کہ شیخ مذکور فاضل است و صاحب تصانیف لیکن ھیچ تصنیفی ازو در علم حکمت و کلام بہ نظر نیامدہ۔۔۔۔۔ آری شعر کی می گوید۔‘‘(۷)
پروفیسر شریف حسین قاسمی نے بڑی محنت سے والہ داغستانی(۸) کا تذکرہ ’ریاض الشعرا‘ ایڈٹ کر کے گورنمنٹ رضا لائبریری رام پور سے شایع کروایا ہے۔ والہ اگرچہ حزیںؔ کے بڑے گہرے دوست تھے لیکن انھوں نے بڑی دیانتداری کے ساتھ آرزو کی ’تنبیہ الغافلین‘ اور محمد عظیم ثباتؔ کے اعتراضات کو اپنے تذکرے میں نقل کر دیا ہے۔
میرے دوست مرحوم ڈاکٹر سدا رنگانی نے اپنی کتاب ’پارسی گویانِ ہند و سِند(۹) میں اس قضیے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’سراج الدین علی خان آرزو برسخن وی اعتراض کردہ و بعد محمد عظیم ثباتؔ ۵۰۰ بیت از دیوان شیخ بر آوردہ کہ مضامین آنہا از دیگران است۔ ولی بہ عقیدۂ والہ داغستانی، باوجود این حال، بیان واقع است کہ شیخ حزینؔ در این جزو زمان سر آمد سخنورانِ عالم است۔‘‘
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے ایک مقالے (تذکرۂ گلشن ہند اور علامہ شبلی نعمانی) میں لکھا ہے:
’’سراج الدین علی خاں آرزو نے شیخ محمد علی حزیںؔ ایرانی کی شاعری پر ایک تنقیدی کتاب ’تنبیہ الغافلین‘ لکھی تھی۔ مولف تذکرۂ گلشن ہند نے آرزو کے تذکرے میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ آرزو نے ناحق اپنی طبیعت محجوب کی اور دیوان شیخ کے بہت سے اشعار سقیم ٹھہرائے۔ علامہ شبلی نے حاشیے میں مزید وضاحت کی ہے کہ آرزو کی تنقید کے جواب میں مولوی امام بخش صہبائی نے ایک رسالہ ’قولِ فیصل‘ کے نام سے لکھا ہے جس میں خان آرزو کے اکثر اعتراضات کے جواب دیے ہیں۔‘‘(۱۰)

حواشی:—
۱۔ ۱۱۰۳-۱۱۸۰ھ/ ۱۶۹۲-۶۷-۱۷۶۶ء
۲۔ دیوان حزیں، نسخہ تصحیح کردۂ مصنف و علی قلی والہ داغستانی، اکتوبر ۱۹۷۱ء بامقدمہ ممتاز حسن، ترجمہ: علی رضا نقوی، لاہور، ناشر: نیشنل پبلشنگ ہائوس، کراچی
۳۔ دیوان حزیں لاہیجی، بہ ضمیمہ: تاریخ و سفرنامۂ حزیں، حاوی شرح احوال و تاریخ زمان وی، باتصحیح و مقابلہ و مقدمہ: بیژن ترقی، انتشارات کتاب فروشی خیام، اردیبہشت ۱۳۵۰، چاپ دوم ۱۳۶۲ شمسی، چاپخانۂ سعدی
۴۔ قند پارسی، دہلی، مارچ-جون ۱۹۹۹ء، مرکز تحقیقات فارسی
۵۔ ۱۰۹۹-۱۱۶۹ھ/ ۸۸-۱۶۸۷-۵۶-۱۷۵۵ء
۶۔ تذکرہ مجمع النفایس، جلد اول، بکوشش: دکتر زیب النسا علی خان (سلطان علی)، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، ۲۰۰۴ء
۷۔ تذکرہ مجمع النفایس جلد اول، صفحہ ۳۷۹-۳۸۰
۸۔ ۱۱۲۴-۱۱۷۰ھ/ ۱۷۱۲-۵۷-۱۷۵۶ء
۹۔ دکتر ھرو مل سدا رنگانی: پارسی گویان ہندو سند، انتشارات بنیاد فرھنگ ایران، ۱۳۳۵
۱۰۔ ہماری زبان، دہلی، یکم تا ۷ فروری ۲۰۰۵ء، صفحہ ۲

Previous article’باغ وبہار‘ کی ادبی اہمیت
Next articleمتقدمین شعراے بہار کی مرثیہ گوئی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here