حضرت ابراہیم علیہ السلام اور عید الاضحی’ کی اہمیت از: احسان قاسمی ( پہلی قسط )

0
322

عید الاضحی’ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔ اس سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے ہم عید الاضحی’ کی نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ تعالی’ کے بتائے ہوئے طریقے سے جانوروں کی قربانی پیش کرتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لختِ جگر حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ساتھ ایک مشہور واقعہ پیش آیا جس کی یادگار یہ عید الاضحی’ کا تیوہار ہے ، اس واقعہ سے کم و بیش تمام مسلمان واقف ہیں ۔

غور طلب بات ہے کہ اللہ تبارک تعالی’ نے دنیا میں لوگوں کی رہنمائی کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد انبیاء کرام کو بھیجا ۔ ان میں سے کئ انبیاء کرام کو صحیفوں اور کتابوں سے بھی نوازا اور کئ انبیاء کرام کے ماننے والے اور ان کی پیروی کرنے والے آج بھی دنیا میں اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں ۔ انبیاء کرام کے بہت سے واقعات قرآن کریم میں درج ہیں مثلا” حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت موسی’ علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت یونس علیہ السلام ، حضرت عیسی’ علیہ السلام وغیرہم کی زندگیوں میں پیش آنے والے واقعات جگہ بہ جگہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں اور یہ تمام واقعات نہایت اہمیت کے حامل ہیں ، لیکن کسی بھی نبی کی زندگی میں پیش آنے والے مخصوص واقعہ کی بنیاد پر اسلام میں کسی تیوہار کو منانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے سوائے عید الاضحی’ کے ۔ آخر اس واقعہ میں ایسی کون سی خاص بات پوشیدہ ہے کہ اللہ رب العزت نے عہدِ ابراہیمی کے سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنتِ ابراہیمی پر چلنے کا حکم صادر فرمایا ؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے میں آفرنیش آدم ؐ کے واقعہ کی جانب چلتا ہوں ۔ سورۃ البقراء کا ترجمہ ۔۔۔۔ ” اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا ، میں زمین میں اپنا نائب بناؤں گا ۔ انہوں نے کہا کیا تو اس کو اپنا خلیفہ بنائے گا جو زمین میں فساد کرے گا اور خون خرابہ کرے گا، اور ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ اور آپ کو بے عیب جانتے ہیں ۔ اللہ تعالی’ نے فرمایا یقینا” میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ ”

اب آگے کیا بیان ہے ۔۔۔۔۔۔ ” اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کے سامنے سجدہ کرو ، تو وہ سب سجدہ میں گر پڑے مگر ابلیس نے نہ کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا ۔ ”
دیکھئے ! تخلیقِ آدمؑ پر سوال فرشتوں نے بھی کیا اور ابلیس نے بھی ۔ اللہ رب العزت نے جواب میں کہا کہ میری حکمت سے تم واقف نہیں اور نہ اس بات کی تمہیں کوئی خبر کہ انسان کو پیدا کئے جانے کے پیچھےکون سا راز مخفی ہے ۔ اللہ تعالی’ کی اس بات سے فرشتے مطمئن ہو گئے اور انہوں نے بلا تامل آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ۔ لیکن ابلیس جو کہ قومِ جنات کا ایک فرد تھا اس کا نفس سجدے پر آمادہ نہ ہوا ۔ ہم سے گناہ سرزد ہوتے ہیں تو ہم فورا” اس کا سارا الزام شیطان کے سر ڈال دیتے ہیں لیکن وہاں کون سا شیطان تھا جس نے ابلیس کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہء تعظیمی سے باز رکھا ؟ ظاہر سی بات ہے کہ یہ خود اس کا اپنا نفس تھا جس نے اس سے یہ کہا کہ وہ ایک جن ہے جس کی تخلیق آگ سے کی گئی ہے جبکہ آدم کی تخلیق مٹّی سے کی گئی ہے ۔ لہذا وہ آدم سے بہتر اور اعلى’ ہے ۔ اعلى’ ادنی’ کو سجدہ ء تعظیم کس طرح کر سکتا ہے ؟ اب اللہ تعالی’ کو ابلیس کے اس خیال کے ردّ کرنے کے واسطے آدم ؐ کی برتری ثابت کرنی تھی ۔ آئیے دوبارہ سورۃ البقراء کی جانب چلتے ہیں ۔۔۔۔۔ ” اور اللہ نے آدم کو کل چیزوں کے نام سکھا دیئے ، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ پھر کہا ، اب تم بتاؤ مجھ کو ان چیزوں کے نام اگر تم سچے ہو تو ۔ تو وہ بولے تو پاک ذات ہے ۔ ہم تو کچھ نہیں جانتے بس جو تونے ہمیں سکھا دیا ہے ۔ بلاشبہ تو ہی خوب جاننے والا حکمتوں والا ہے ۔ اللہ تعالی’ نے فرمایا ، اے آدم ! تم بتا دو ان کو ان چیزوں کے نام ۔ پھر جب آدم نے ان چیزوں کے نام بتا دئیے تو اللہ نے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو ، وہ سب جانتا ہوں ۔ ”
احباب ! میں مضمون کو مختصر رکھنا چاہتا ہوں مگر درمیان میں کچھ ایسی باتیں آ جاتی ہیں جن پر غور و خوض کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کو سوچ سمجھ کر پڑھنے کی تلقین کی ہے ۔ اچھا ! آپ یہ تو سوچئے کہ اللہ تعالی’ نے کون کون سی چیزیں آدم علیہ السلام اور فرشتوں کے سامنے پیش کی ہوں گی ؟ اُس وقت سچویشن کیا تھی ؟ باری تعالی’ کی ذات پاک وہاں خود موجود تھی ۔ فرشتے موجود تھے اور آدم ؐ موجود تھے ۔ یہ دنیا عالمِ وجود میں آ چکی تھی ۔ یہاں پیڑ پودوں ، چرند پرند کے علاوہ جناتوں کا واس تھا جن کے سردار کا بیٹا ابلیس اُس محفل میں خود موجود تھا ۔ ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت نے اس محفل میں ہاتھی گھوڑے ، جنت اور جہنم پہچان کے لئے نہیں پیش کئے ہوں گے کیونکہ وہ چیزیں دنیا اور آسمان میں پہلے سے موجود تھیں جن سے ابلیس اور فرشتے اچھی طرح واقف تھے ۔ تو پھر کون سی چیزیں پیش کی گئیں ؟ اس سے نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی چیزیں پیش کی گئیں جن کی ایجاد حضرتِ انسان کو دنیا میں آکر سینکڑوں ہزاروں سال بعد کرنا تھا ۔ ہل ، چکّی ، تلوار ، موٹر ، ٹرین ، جہاز ، راکٹ ، کمپیوٹر ، روبوٹ ، ایٹمی طاقت اور دیگر بہت ساری ایسی اشیاء جن کی ایجاد ہنوز باقی ہے ۔

اللہ تعالی’ نے انسان کو دنیا میں اپنا نائب مقرر کیا ۔ آپ اس بات پر غور فرمائیں کہ اگر ہم اپنے کاروبار کو چلانے کے لئے کسی نائب کا انتخاب کرتے ہیں تو اسے رفتہ رفتہ اپنے کاروبار سے متعلق تمام چھوٹی بڑی جانکاریاں دیتے ہیں تاکہ وہ ہمارے کاروبار کو بہتر ڈھنگ سے چلا سکے اور اسے ترقی دینے میں ہمارا معاون و مددگار ثابت ہو ۔ قوم جنات پہلے سے دنیا میں موجود تھی لیکن اللہ تعالی نے اسے اپنا نائب نہیں بنایا بلکہ حضرتِ انسان کو بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو ذہن رسا عطا فرمایا ، اسے گوناگوں تجربات سے حاصل شدہ علم
Experience based knowledge
عطا فرمایا ۔ قومِ جنات نے دنیا میں کوئی ایجاد کی ہو ایسی کوئی بات نہ قرآن میں اور نہ ہی احادیث میں ملتی ہے اور انسان کے تجربے میں بھی نہیں ۔
سورۃ البقراء کی ان آیات پر دوبارہ غور فرمائیں ۔۔۔۔۔ ” پھر جب آدم نے ان چیزوں کے نام بتا دئیے تو اللہ نے فرمایا کہ کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو ، وہ سب جانتا ہوں ۔ ”
مندرجہ بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت انسانوں پر آسمانوں اور زمین کے بہت سارے راز منکشف کرنا چاہتا ہے ۔ اپنی حکمت یعنی سائنس کے جن اصولوں کی بنیاد پر کائناتی نظام کی تخلیق کی گئ ہے ان سے واقف کروانا چاہتا ہے ۔ لہذا ابھی مزید ایجادات ہوں گے ، مزید انکشافات ہوں گے ۔ لیکن جس دن نائب نے خود کو مالک تصور کر لیا وہ دن حیاتِ انسانی کا سب سے بُرا دن ہوگا ۔ اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ جب تک اس دھرتی پر ایک بھی مسلمان باقی رہے گا یعنی ‘ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘ پر یقین رکھنے والا ایک بھی شخص روئے زمین پر موجود رہے گا قیامت کے قدم رکے رہیں گے ۔
ہم اگر قرآن مجید میں بیان کردہ لوح و قلم اور انسان کی ایجاد کردہ کمپیوٹر کا موازنہ کریں تو کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ تعالی نے انسان کو لوح و قلم کا ایک چھوٹا سا نمونہ عطا کر دیا ہے ؟
جس فیس بک پر آپ میرے اس مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں اس فیس بک پر روزانہ پوری دنیا کے لوگ کتنا سارا میٹیریل ڈال رہے ہیں ؟ اور یہ سارا مواد محفوظ بھی ہے ۔ آج بھی آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ تین یا چار سال قبل آپ نے کون سا پوسٹ ڈالا تھا ۔
ایکسرے ، الٹرا ساؤنڈ ، موبائل فون وغیرہ جیسی ایجادات وہی کر سکتا تھا جسے اللہ رب العزت نے ‘ اشرف المخلوقات ‘ کا لقب دیا اور اسی قومِ بنی نوع آدم میں اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو پیدا فرمایا جو ‘ رحمت اللعالمین ‘ یعنی صرف دھرتی کے لئے یا مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام دنیاؤں کے لئے رحمت ہیں ۔
الغرض کہ آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد کو اللہ کی تمام مخلوقات پر برتری حاصل ہے یہ ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالی’ نے حضرت آدم ؑ کو علم عطا کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ علم غیب عطا فرمایا ، کیونکہ انہیں ایسی چیزوں کا علم عطا کیا جن کا تخلیقِ آدم علیہ السلام کے وقت کوئی وجود ہی نہیں تھا اور ان اشیاء کو ہزاروں سال بعد دنیا میں عالمِ وجود میں آنا تھا ۔ اللہ رب العزت جسے چاہتا ہے اور جس قدر چاہتا ہے یعنی بقدر ضرورت علم عطا کرتا ہے ، خواہ غیب کا علم ہی کیوں نہ ہو ۔
بہرحال جب ابلیس کا غرور اس پر حاوی ہوا اور وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہء تعظیمی ادا نہ کرنے اور اپنی ضد میں اللہ رب العزت کا حکم بجا لانے کا منکر ہوا تو دربار الہی کا معتوب ٹھہرا اور اسے اللہ کا باغی اور ملعون قرار دیا گیا ۔ اس وجہ سے شیطان نے حضرتِ انسان کو اپنا دشمنِ ازلی جانا اور اس سے بدلہ لینے کا جذبہ اس کے اندر بیدار ہوا ۔
اس نے اللہ تعالی’ سے مہلت مانگی ، کس بات کے لئے ؟ اپنی غلطی پر نادم ہونے اور توبہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کو صراط مستقیم سے بہکانے کے لئے ۔
اللہ رب العزت نے اس کا یہ چیلینج بھی قبول کر لیا اور کہا کہ لو ! میں تمہیں قیامت تک کے لئے پوری آزادی دیتا ہوں انسانوں کو بہکانے کی اور صرف تمہیں آزادی ہی نہیں دیتا بلکہ انسان کے اندر طرح طرح کی خواہشات اور نفس بھی ڈال دیتا ہوں ، وہی نفس جس نے تمہیں صراط مستقیم سے بےراہ کر دیا ۔ نفس ایسی شئے ہے کہ اگر فرشتے کے قالب میں ڈال دی جائے تو اس کے قدم بھی بہک جائیں ( ہاروت و ماروت اس کی بہتر مثال ہیں ) گویا کہ انسان کو دو محاذوں پر بیک وقت لڑنا ہے ، ایک تو اس کا اپنا نفس اور دوسرا شیطان ملعون جو انسانی ذہن میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس کے جذبات کو طرح طرح سے بھڑکا کر اسے گناہ پر آمادہ کرتا ہے ۔
غور طلب بات ہے کہ شیطان اپنے نفس سے ہار گیا تھا اور یہاں انسان کو مات دینے کے لئے دو دو دشمن مستعد ہیں ۔ اس کے باوجود اللہ رب العزت کو انسان پر کتنا بھروسہ ہے کہ شیطان سے کہہ دیا کہ جاؤ اپنے سارے حربے آزمالو لیکن میرے چند نیک بندے تمہیں ایسے بھی ملیں گے کہ میرے ذریعہ انھیں بہت ساری آزمائشوں میں مبتلا کئے جانے اور تمہارے ذریعہ بار بار بہکائے جانے کے باوجود نہ ان کی بندگی میں کوئی فرق آئے گا ، نہ ان کے صبر کا پیمانہ چھلکے گا ، نہ ان کی زبان پر حرفِ شکایت آئے گا اور نہ ہی وہ تمہارے جھانسے میں آئیں گے ۔ یہی وہ برگزیدہ شخصیات ہیں جو مالکِ حقیقی کے محبوب بندے ہیں اور جو واقعی اشرف المخلوقات کہے جانے کے مستحق ہیں ۔
اللہ تعالی’ کے ایک ایسے ہی خاص نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں جن کی پوری زندگی طرح طرح کی آزمائشوں اور امتحانات کا سامنا کرتے گزری ، شیطان ملعون نے بھی انھیں صراط مستقیم سے ہٹانے کی اپنی ساری کوششیں کر دیکھیں لیکن ان کے آئینہء ایمان پر ایک بال تک نہ آیا ۔

( جاری )

Previous articleامیر شریعت اول: بدرالکاملین حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری رح از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Next article“فریاد ہے اے کشتئ ملت کے نگہباں” امارت شرعیہ کے تناظر میں از: انوار الحسن وسطوی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here