صیرم نشاط کی نمایاں کامیابی- دخترانِ ملت کے لیے مشعلِ راہ۔۔ از مظفر نازنین، کولکاتا

0
221

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدور پیدا
حکیم الامت ، شاعرِ مشرق ڈاکٹر سر علامہ اقبال کا یہ مشہور شعر ملت کی اس بچی پر صادق آتا ہے جو انتہائی محنت، سچی لگن، جدوجہد اور کوششوں سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہوئیں اور منزل کو پالیا۔ اعلیٰ تعلیم کے تناظر سے یہ تلخ حقیقت ہے کہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچنے کے لیے بہت struggle کی ضرورت ہوتی ہے۔ کامیابی کی زینے کو طے کرنے کے لیے راہ کی خاردار جھاڑیوں، گھنے جنگلوں کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ سنگلاخ زمین سے نکل کر کسی لالہ زار پر پہنچنے کے لیے کس کس طرح کے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وہی جانتے ہیں۔ جنہوں نے فرش سے عرش تک کا سفر پورا کیا ہوگا۔ کٹھن مشکلات کا سامناکرتے ہوئے ذرے سے آفتاب کا سفر پورا کیا۔ اسی طح ایک نام سرزمین کولکاتا کے مایہ ناز ، باعث افتخار، مشہور و معروف ڈاکٹر نیر نشاط صاحب جو اپنے زمانے کے ہونہار طالب علم اور نیشنل اسکالر تھے ۔ان کی صاحبزادی صیرم نشاط کا ہے۔ جنہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ واقعی اگر سچی لگن ہو تو منزل مل سکتی ہے۔

صیرم نشاط دراصل ڈاکٹر نیر نشاط کی سب سے بڑی دختر نیک اختر ہیں۔ جنہوں نے 2006 ء میں لاریٹو ڈے اسکول دھرمتلہ، کولکاتاسے class X (ICSE) کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور 92% مارکس انگلش میں ملے تھے۔ پھر Our Lady Queen’s of Mission (Salt Lake) سے 2008 ء میں class XII (ISC) کا امتحان پاس کیا۔ اور اس میں بھی امتیازی نمبرات حاصل کیے۔ اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان کے excellent result کی وجہ سے شہر کولکاتا کے reputed colleges میں history (hons), english (hons) ملے۔ لیکن والدین کے اصراف پر Lady Brabourne College کولکاتا میں B.A (Hons) انگلش میں داخلہ لیا۔ اور 2011 ء میں BA (Hons) in English دراصل Calcutta University کے تحت کیا۔ اور پوری یونیورسٹی میں Rank holder تھیں۔ میرٹ کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر تھیں۔ اور پھر تعلیمی سفر یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ درج ذیل اشعارکے تحت انہوں نے اپنی تعلیمی سفر جاری رکھی اور 2013ء میں MA کا امتحان University of Calcutta سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ 2014 ء میں اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحان National Eligibility Test (NET) کوالیفائی کیا جو اس وقت UGC کے ماتحت تھی۔ اور NET کو الیفائی کرنے کے ساتھ ساتھ JRF بھی ملا۔ یہ اعلیٰ کامیابی کسی مسلم طلبہ کے ذریعہ حاصل کیا گیا نایاب ریکارڈ ہے۔ دل میں اگر سچی لگن ہو تو منزل خود بڑھ کے قدم چوم لیتی ہے۔
یہ بزم مئے ہے یہاں کوتاہ دستی سب سے محرومی
جو بڑھ کے خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

UGC NET کا امتحان بہت competitive ہے۔ اس امتحان میں تقریباً کئی لاکھ امیدوار شریک ہوتے ہیں۔ جن میں چند ہزار ہی qualify کر پاتے ہیں اور صرف 5 ہزار کو JRFملتا ہے۔ 2015 ء سے مکمل طور پر Ph.D کر رہی ہے۔ پہلے JRF پھر SRF مکمل کیا۔ ان کے Thesis کا مقالہ Black British Playwright تھا۔
اس ضمن میں یہ بتاتی چلوں کہ صیرم نشاط اس سے قبل AJC Bose College کولکاتا اور Surendranath Evening College کولکاتا میں بحیثیت لکچرر کام کر چکی ہیں۔ جب ذہن میں یہ خمار اٹھتا ہے کہ کچھ کر گذرنا ہے تو بڑی سے بڑی روکاوٹیں بھی راہ میں حائل نہیں ہوتیں۔ یہ سر زمین بنگال ہے۔ اور بنگال علم و فن گہوارہ ہے۔ اور یہاں علم و فن کے شیدائی ، تہذیب اور اخلاق کے پیکر، شعر و شاعری کے دلداہ پیدا ہوئے۔ بنگال کی مٹی ادب کے لیے بہت زرخیز ہے۔ خواہ وہ انگریزی ادب ہو ، اردو ادب ہو بنگلہ یا ہندی ادب ہو۔ یہاں نہایت genius student کے ذہن میں علم کی اس قدر تشنگی ہوتی ہے اور ذہن میں اس قدر طوفان اٹھتا ہے جو خلیج بنگال سے اٹھنے والے طوفان فنی ، آئیلا ، بلبل یا امپھان سے بھی زیادہ تیز رفتار بلکہ برق رفتار کہا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی ماحول میں صیرم نشاط نے آنکھ کھولی تھی۔ کہتے ہیں سچی لگن ہو تب ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے اور کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر عظیم تعلیم کا مظاہر کیا جا سکتا ہے۔ بقول شاعر :
لٹا دو اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہو
کہ دانا خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
دریا کی روانی، سمندر کی لہریں ہمیشہ آگے کی طرف ہی بڑھتی ہے۔ آگے کی جانب بن جاتی ہیں۔ اس سچے قول کے مطابق صیرم نشاط اپنی منزل کی طرف قدم بڑھائی ہوئی ہیں۔ خدائے پاک رب العزت سے دعا گوہوں کہ خدا ان کو ان کی مقصد میں کامیابی اور کامرانی عطا کرکے Lockdown کے دوران بھی کسی کی ذہانت ، فطانت پر Lockdown نہیں ہے۔ وہ ماشاء اﷲ خود کو home quarantineکر کے پڑھائی میں مصروف ہیں۔(یہ بھی پڑھیں!آسمانِ صحافت کا درخشاں و تابندہ ستارہ : راشد احمد از قلم مظفر نازنین ، کولکاتا)
اس ضمن میں یہ بتاتی جملوں کو گذشتہ سال 2019 ء میں ایک معروف ادارہ (call for papers) انگریزی ادب english literature کا ایک بڑا قومی سیمینار (national seminar) ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ میں منعقد ہوا۔ جہاں صیرم نشاط نے اپنا مقالہ پڑھا اور جس کی ادبی حلقے میں خوب پذیرائی ہوئی۔ یہ سیمینار St. Bede’s College شملہ میں منعقد ہوا تھا۔ اور انگریزی کے distinguished professor نے صیرم نشاط کے مقالے کو خوب سراہا اور انگریزی ادب کے حلقے میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ان کا مقالہ قابل ستائش ہے۔ قابل داد و تحسین ہے۔
بنگلہ زبان میں ایک مشہور مقولہ ہے ’پوڑا سنا دھرمو‘ یعنی پڑھنا، لکھنا دھرم ہے۔ چوں کہ صیرم نشاط کا تعلق بنگال کی سر زمین کولکاتا سے ہے تو ظاہر ہے ان کے ذہن میں بنگلہ تہذیب bengali culture کا پورا پورا اثر ہے۔ اور شہر کلکتہ کو اشماء ہندوستان کا greatest educational hub میں ہوتا ہے۔ شاید ایسے ماحول میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے بچپن سے ہی صیرم نشاط کا ذہن حصول علم کے جذبے سے سرشار تھا۔ اور وہ علم کی اتھاہ سمندر سے سیراب ہونا چاہتی تھیں۔ بچپن سے ہی انگریزی ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ جس کا ذکر ان کے اسکول کی استانیاں بھی کرتی ہیں ۔ اور انہوں نے اپنے لیے انگریزی ادب کا انتخاب کیا۔ بقول شاعر :
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
صیرم نشاط نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر سچی لگن اور جدوجہد ہو تو قسمت نے ساتھدیا تو منزل یقینا ملے گی۔Conservative family میں ہر طرح کی بندشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اس طرح کی کامیابی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بقول شاعر :
اگر کوشش کرے گا تو خدا اس کا ثمر دے گا
تیرا دامن وہی امید کے پھولوں سے بھر دے گا
صیرم نشاط کی نمایاں کامیابی دختران ِ ملت کے لیے مشعل ِ راہ ہے۔ آج صیرم نشاط کی دلی خواہش ہے کہ وطن عزیز ہندوستان سے illiteracy کا خاتمہ کریں۔ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کے تحت دخترانِ ملت کے لیے ان کا یہی پیغام ہے کہ جوش، جذبہ اور سچی لگن ہو تو ملت کی بچیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ کر عظیم تعلیم کا مظاہر کریں۔ دختران ملت کے لیے ان کی یہی خواہش ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں کیوں کی تعلیم نسواں کے ذریعہ ہی صحت مند معاشرے اور سماج کی تشکیل ممکن ہے۔ آئندہ مستقبل کے لیے ان کا یہی مشن ہے کہ محترمہ اپنی علمی اور ادبی صلاحیتوں کے ذریعہ اپنے فرائض انجام دیں گی۔ اور بحیثیت انگریزی پروفیسر کام کرنا پسند کریں گی۔
ان کی امتیازی کامیابی درحقیقت ان کی خدا داد ذہانت، غیر معمولی صلاحیت، سچی لگن ، جدو جہد اور ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ بچپن میں ان کے دادا جان کی کہی شعر ان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا ہے :
گلشن میں سرو فوج میں مثل نشاں رہیں
عالم میں سر بلند رہے ہم جہاں رہیں
آخر میں بارگارہِ ایزی میں سجدہ ریز ہو کر دعا کرتی ہوں کہ خدا صیرم نشاط کو لاکھوں حیات بخشے۔ اور مزید کامیابی اور کامرانی عطا کرے۔ ملت کے اس انمول گوہر کو ان کے مشن میں کامیابی سے ہمکنار کرے۔ اس ضمن میں صیرم نشاط کو ان کے والد عالی جناب الحاج ڈاکٹر نیر نشاط کو، ان کی والدہ رخسانہ نشا، شوہر محمد عمران صاحب کو دن کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اور یہ مصرعہ صادق آتا ہے۔
مجھ کو جانا ہے بہت اونچا حدِ پرواز سے
انشاء اﷲ جلد ہی مستقبل قریب میں وہ دن آئے جب صیرم نشاط اپنے وطن عزیز ہندوستان کی نمائندگی بین الاقوامی سطح پر کریں :
جہاں رہتا ہے روشنی لٹاتا ہے
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
Mobile + Whatsapp : 9088470916
E-mail : muzaffarnaznin93@gmail.com

Previous article’’ضرورت ہے براہیمی اولو العزمی کی مومن کو‘‘ از: عبدالوہاب قاسمی
Next articleگوشت خوری مذہب اور قانون فطرت کی روشنی میں ! از:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here