کتاب سے وابستہ افراد جانتے ھیں کہ کتاب کی تیاری میں شامل کاتب اور ڈیزائنر سے لے کر پرنٹر، جلد ساز اور پبلشر تک تمام لوگ اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر لیتے ھیں۔اگر کچھ نہیں ملتا تو صرف مصنف کو نہیں ملتا۔پبلشرز کا یہ کہنا کہ کتاب فروخت نہیں ھوتی، درست نہیں۔میں جب سے لاھور آیا ھوں(27 سال) یہاں کتابوں کی صرف ایک معروف دکان کو بند ھوتے دیکھا ھے جب کہ گزشتہ چند برس میں لاھور اور دوسرے شہروں میں متعدد نئی دکانیں اور پبلشرز وجود میں آ چکے ھیں اور کامیابی سے اپنا کاروبار کر رھے ھیں۔اگر کتاب فروخت نہیں ھوتی تو لاکھوں کی سرمایہ کاری کس لیے؟ اب تو یہ رسم چلی ھے کہ پبلشر کتاب کا خرچ بمع منافع مصنف سے ایڈوانس میں ھی وصول کر لیتا ھے۔
یہی چلن اب یونیورسٹیوں کے تحقیقی جرائد نے بھی اختیار کیا ھے(سب نےنہیں) کہ دس، بیس، تیس ھزار روپیہ دیں اور مقالہ چھپوائیں، مقالہ خواہ جیسا بھی ھو، پے منٹ کر دی ھے تو ضرور چھپے گا۔پی۔ایچ ۔ڈی کے خواھش مند سکالرز اور ترقی کے خواہاں پروفیسر یہ رقم خوشی سے ادا کر رھے ھیں۔یونیورسٹیاں طلبہ سے بھاری فیسیں وصول کرتی ھیں، سرکارکی طرف سے بھاری گرانٹ بھی ملتی ھے اور آمدن کے دیگر ذرائع بھی ھوتے ھیں۔پارکنگ، کنٹین کے ٹھیکوں اور دکانوں کے کرایے سے بھی آمدن ھوتی ھے، کچھ یونیورسٹیاں گندم اور شہد بھی بیچتی ھیں۔یہ رقم ملازمین کی بھاری تنخواہوں، مراعات، رھائش گاھوں اور دفاتر کی تزئین و آرائش(کیمرے بھی لگنے چاھییں) اور ھاؤسنگ سوسائٹیز پر تو خرچ ھوتی ھے لیکن نہیں ھوتی تو صرف اس کام پر جس پر ھونی چاھیے یعنی ریسرچ پر(یہ بات بری لگے تو عالمی رینکنگ چارٹ دیکھ لیجیے)۔
عام کاغذ پر، محدود تعداد میں، مناسب ضخامت کے ایک رسالے پر پچاس،ساٹھ ھزار روپیہ خرچ آتا ھے۔اگرایچ ای سی نے رسائل کے لیے گرانٹ روک بھی دی ھے توکیا سرکاری یونیورسٹیاں سال میں دو بار یہ خرچ نہیں اٹھا سکتیں کہ مقالہ نگاروں سے بیس، تیس ھزار روپیہ فی مقالہ وصول کیا جا رھا ھے؟ اس عمل سے کرپشن کا دروازہ تو کھلے گا ھی، تحقیق کا معیار بھی زمین بوس ھو چکا ھے۔غضب خدا کا پانچ صفحے کے ایک آرٹیکل پر چار مصنفین کا نام اور مصنف بھی وہ جو ملک کے مختلف کونوں میں بیٹھے ھیں اور ایک دوسرے کو بھی نہیں جانتے۔
دوسری طرف ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ھے، لمز(LUMS) جس کا تحقیقی جریدہ “بنیاد”اپنے ھر ریویور کو ایک معقول رقم ادا کرتا ھے اور اب نئے مدیر کی خواھش اور کوشش سے انتظامیہ نے حالیہ شمارے سے مقالہ نگاروں کو بھی بطور اعزازیہ ایک گفٹ پیک بھیجنا شروع کیا ھے۔جو مصنفین کو عزت کا احساس دلانے کے لیے کافی ھے۔لیکن”بنیاد “میں مقالہ کن کڑے مراحل سے گزرنے کے بعد شائع ھوتا ھے ،یہ بات ھروہ مقالہ نگار جانتاھے، جو اس رسالے میں شائع ھو چکا ھے۔
کہا جا سکتا ھے کہ لمز ایک “امیر”یونیورسٹی ھے، تو کیا لمز سے زیادہ قدیم اور دس گنا بڑی سرکاری جامعات غریب ھیں؟دباؤ تو یقیناََ “بنیاد”کے مدیر پر بھی ھوتا ھو گا لیکن سوال یہ ھے کہ دباؤ کیوں اورکیسا؟ کیا یہ آئین پاکستان میں لکھا ھے یا ایچ ای سی کی طرف سے لازمی شرط ھے ھے کہ دوسری یونیورسٹیوں میں مقیم پروفیسروں اور ان کے زیر نگرانی کام کرنے والے سٹوڈنٹس کے مقالات لازمی شائع کرنے ھیں؟ اگر پی ایچ ڈی کا ایک سکالر آٹھ، دس صفحے کا ایک معیاری تحقیقی مضمون نہیں لکھ سکتا تو کیا وہ ڈگری کا حقدار ھے؟ اور اگر یونیورسٹی میں بیٹھا کوئی پروفیسر سال میں دو اچھے مضمون خود سے نہیں لکھ سکتا تو اس کا یونیورسٹی میں ھونا بنتا ھے؟
کچھ دن پہلے “بنیاد”کے مذکورہ شمارے پر لکھتے ھوئے ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے تجویز دی تھی کہ کسی بھی ناجائز شرط کو اکیڈمک کونسل کے ذریعے انکار کیا جا سکتا ھے۔
بیشتر تحقیقی جرائد کے مدیران ھمارے قابل احترام سینیر دوست ھیں۔یہ سب قابل اساتذہ، صاحب علم اور اپنی الگ ادبی پہچان رکھنے والے لوگ ھیں اگر نقار خانے میں طوطی کی آواز سن سکیں تو:
*کسی دباؤ، سفارش اور مصلحت کے بغیر صرف میرٹ پر معیاری تحقیقی مقالات شائع کریں۔
*مقالہ نگاروں سے پیسے لینے کے بجائے،انتظامیہ کو آمادہ کریں کہ مقالہ نگاروں کو کچھ اعزازیہ دیا جائے۔
*مقالہ صرف اس مصنف کے نام سے شائع کریں، جس نے خود لکھا ھو۔
تمت بالخیر