مسلم معاشرہ میں غیر ضروری رسومات کی بہتات از : ڈاکٹر کہکشاں عرفان الہ آباد

0
202

مشہور یونانی فلسفی ارسطو نے کہا کہ” انسان ایک معاشرتی جاندار ہے “۔اورمعاشرے کا آغاز سب سے پہلے ایک چھوٹے سے کنبہ سے شروع ہوتا ہے اور شادی ایک معاشرتی بندھن ہے جو دو متضاد انسانوں یعنی مرد اور عورت کو مذہبی، قانونی ،اور معاشرتی طور پر ایک ساتھ ہم بستری کرنے کی اجازت دیتی ہے مرد اور عورت کو معتبر بناتی ہے۔دو نا محرم انسانوں کو محرم بناتی ہے۔ پاک صاف اور نیک نسل افرازی کا بہترین ذریعہ بھی شادی ہے۔نکاح سنت ہے ۔

جب رسول اکرم ﷺ کی دختر نیک اختر حضرت فاطمۃالزہرہ کا عقد مبارک حضرت علی سے طے پایا تو سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان سے پیاری بیٹی کی کوئ منگنی
کی رسم نہیں کی نہ آپ نے حضرت علی مرتضی کو (منگنی ،روکا،چھیکا،یا شادی کی تاریخ )کے نام پر کوئ کیش کوئ اونٹ یاگھوڑا، یا جوڑا جامہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیا نہ ہی حضرت علی نے فاطمہ زہرہ کو دیا ،نہ پھلوں کے ٹوکرے بھیجواے نہ سونے یا چاندی کی انگوٹھیاں پہنائ گئیں تو پھر یہ رسم اتنی ضروری اور اہم کب اور کیسے بن گئ؟ شادی سے پہلے کی رسمیں ہوں یا بعد کی منگنی وغیرہ کی جو بےجا روایت اور رسم ہے وہ سراسر غیر شرعی ہے گیسٹ ہاؤس میں سینکڑوں مہمانوں اور سینکڑوں میزبانوں کی موجودگی میں پھل مٹھائیوں ملبوس ملبوسات زیورات اور تحائف کے علاوہ لاکھوں کی گاڑی اور کیش دے کر رشتہ پکا کیا جاتا ہے اس سے بات آئینہ کی طرح صاف ہے کہ اب رشتہ نہیں سودا ہوتاہے،بے جا نمود و نمائش بھی کی جاتی ہے ۔غریب سے غریب لوگوں کے یہاں بھی شادی سے پہلے منگنی ایک اہم اور ضروری رسم بن گئ ہے منگنی میں ایک گود بھرائ کی رسم ادا کی جاتی ہے میں نے یہ رسم غیر مسلم سہیلیوں کے یہاں د یکھی تھی مگر یہ رسم اہل اسلام کے یہاں بھی نبھائ جاتی ہے یقینا یہ تہذیبوں کے لین دین کا نتائج ہیں، کچھ ٹیلی ویژن سے نشر ہوتے ڈراموں اور فلموں کی اثر انگیزی ہے ۔نگوٹھی پہنانے کی رسم بھی ترقی کر گئ ہے پہلے والدین لڑکی اور لڑکے کو الگ الگ انگوٹھی پہنانے کا فرض انجام دیتے تھے اب تو ساتھ ساتھ لڑکا اور لڑکی سجی سجائ کرسیوں پر بیٹھے ہوتے ہیں اور خود ہی ایک دوسرے کو قیمتی انگوٹھیاں پہنا کر منگنی کی ایک غیر شرعی رسم خوشی و انبساط کے ساتھ فخریہ ادا کرتے ہیں ۔ اگر مرد عورت کا نکاح سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے ہو تو افضل ہے۔نکاح سادگی سے ہو تو بہتر ہے مگر معاشرے کے ہر فرد نے نکاح کو تطہیر کا نہیں تشہیر کا ذریعہ بنا لیا ہے اس لئے نکاح کرنے سے پہلے بارات کی شرط رکھی جاتی ہے کوئ سو افراد لے آنا چاہتا ہے تو کوئ دوسو بلکہ پانچ سو اور ہزار بھی باراتی آتے ہیں ۔اس کے بعد ایک ہوٹل کا انتظام جسے عرف عام میں( جن واسا) کہا جاتا ہے۔یہاں باراتی آکر ٹھہرتے ہیں ۔شاندار ناشتہ کرتے ہیں ۔جم کر تیار ہوتے ہیں ان کو ایک خاص قسم کا پروٹوکول ملتا ہے۔ دھوبی، استری کرنے والا، موچی ،نائی، مالی، بیرے وغیرہ ان کی خدمت میں مستعد کر دئے جاتے ہیں ۔ائر کنڈیشنڈ کمروں میں بار آتی استراحت فرما تے ہیں ۔اس کے بعد دولہا تیار ہوکر باراتیوں کے ساتھ شادی گھر کے لئے کوچ کر تا ہے آہستہ آہستہ ،خراماں خراماں، شادی گھر پہنچتا ہے ۔آتش بازیوں کے شور سے لوگ سمجھ جاتے ہیں بارات آگئ ۔ شادی میں سینکڑوں قسم کے کھانے بلکہ ہندوستان کی تمام ریاستوں کی تہذیبی نمائش مع لباس رہن سہن اور کھانا پینا بھی پیش کیا جارہا ہے ۔شادیاں نمائش بن گئ ہیں ۔شادی سے پہلے (مانجھے ، مایوں،ابٹن ،مہدی ) کا بھی کی فنکشن ہوتا ہے۔زرق برق ملبوسات اور پھولوں کے زیورات سے نہ صرف تمام خواتین آراستہ رہتی ہیں پورا گھر پیلے پھولوں سے سجا ہوتا ہے مرد حضرات بھی پیلے کرتے اور ریشمی شیر وانیوں میں نظر آتے ہیں ۔شادی کے نام پر نمائش اور فضول اخراجات بھی معاشرے کا ہر طبقہ اپنی حیثیت کے مطابق خوشی خوشی پورے کر رہا ہے۔ آدھی شادی منگنی کے نام پر ہوتی ہے ،لڑکے لڑکی کو تنہائ میں رومان پرور باتیں کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے،شادی کے دوران بھی بہت سی فضول رسمیں ہوتی ہیں اور بڑھتی جارہی ہیں رتجگے کے نام پر ڈی جے ، کی دھماکہ خیز موسیقی اور موسیقی کی دھن پر تھرکتے گھر والے دوست احباب نہ والد کا احترام نہ سسر کا لحاظ شیطان کو خوش کرنے والی تمام رسمیں مسلمانوں کے گھر میں سکہ جما کر بیٹھ گئ ہیں اور رسموں کے ساتھ جہیز کی لعنت ناسور بن گئ ہے مگر اس ناسور کو ہر طبقہ خواہ امیر ہو یا غریب برداشت کر رہا ہے مگر اس سے جان چھڑا نا کوئ نہیں چاہتا بلکہ جہیز لینے اور دینے دونوں معاملوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ہوڑ لگی رہتی ہے سادگی سے نکاح کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور جہیز نہ ملنا بہت بڑا گناہ جس کی سزا لڑکی ساری عمر کاٹتی ہے۔شادی کے بعد منہ دکھائ کی رسم ،دلہن خوبصورت ہوئ تو تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادینگے کوئ چاند کہےگا کوئ گلاب کا پھول کوئ پری وش کہے گا مگر ماشااللہ کوئ نہیں کہتا ہے والدین کا صاحب ثروت ہونا، ظاہری خوبصورتی اور پروفیشنل تعلیم ہی رشتہ کا معیار بن چکے ہیں، میڈیکل اور آئ ٹی کی ڈگریاں لوگوں کو اپنی طرف زیادہ کھینچ رہی ہیں لڑکی یا لڑکا دیکھنے والے لوگ کبھی دین سے متعلق سوالات نہیں کرتے کلمہ ،نماز، قاعدہ ،یسرن القرآن ،قرآن ،روزہ زکوۃ، حجج اور دینی تعلیم کے بارے کبھی پوچھتے ہی نہیں کیونکہ آج ترقی کے دور یہ فرسودہ اور دقیانوسی باتیں ہیں اس لئے دیندار ، شریف اور غریب والدین کی خوبصورت اور خوب سیرت بیٹیوں کے بالوں میں گھر بسانے کے خواب دیکھتے دیکھتے والدین گھر ہی چاندی اتر آتی ہے۔ پہلے منگنی پھر تاریخ پھر شادی پھر چوتھی کی رسم غریب والدین کی کمر توڑنے کے لئے کافی ہے ایک بار منگنی کے نام سو لوگوں کو کھلایئے پھر شادی میں پانچ سو لوگوں کو بارات کھلایئے اور جوڑے کپڑے اور کوئ بڑا سامان پھر تحفہ میں دیجئے ،سلام کرائ ، جوتا چھپائ کی رسم ، مانگ بھرائ کی رسم ،ڈولی روکائ کی رسم، انگوٹھی ڈھونڈائ کی رسم ،کھیر چٹائ کی رسم ،شادی کی پہلی صبح کپڑا دھلائ کی رسم، چند روز بعد ہانڈی چھلائ کی رسم ، آج کل ایک رسم اور سر ابھار رہی ہے کیک کاٹنے کی یہ رسم بچے کی عمر کی سالگرہ سے شروع ہو کر شادی کی سالگرہ ،دوستی کی سالگرہ سے ہوتی ہوئ مسلمانوں کی تہذیب میں داخل ہوگئ ہے اکثر متمول گھرانے کی شادیوں میں نکاح کےبعد اور دعوت ولیمہ کے موقع پر بھی کیک کاٹنے کی رسم ادا کرتے میں نے دیکھا ہے۔ میرے بچپن کا ایک واقعہ ہے میری والدہ کے چچازاد بھائ کی شادی تھی ۔بارات اتر پردیش کے ضلع مؤ ناتھ بھنجن کے ایک گاؤں چاندپور سے بہار کے کے چھپرا ضلع میں گئ تھی میرے ماموں ایک فوجی سپاہی تھے نکاح اور طعام کے بعد رخصتی سے پہلے دولہے کی سلام کرائ کی رسم ہونی تھی لڑکی کے بڑے بھائ صاحب نے کہا دولہے کے ساتھ کوئ نوجوان اور بالغ لڑکا سلام کرائ کی رسم میں گھر کے اندر خواتین کے بیچ نہیں جاےگا مگر میرے ماموں تو اپنے نوجوان خالہ زاد بھائ کو ساتھ لےجانے کے لئے اڑ گئے کہ کزن نہیں جاےگا تو میں بھی نہیں آخر لڑکی والوں کو دولہے کی ناجائز شرط ماننی پڑی ایک اور واقعہ میرے والد کی خالہ زاد بہن کی شادی تھی اپنی حیثیت سے زیادہ لڑکی والوں نے بارات کی خاطر مدارات کی نکاح ہوا طعام نوشی بھی ہوئ اب سلام کرائ کی باری آئ دولہا اپنی پھوپھی جان ،بہنوں چھوٹے بھائیوں اور بہت سے عزیز واقارب بچوں کے ساتھ آنگن میں بچھے پلنگ پر آکر بیٹھا، سب سے پہلے ساس صاحبہ نے اپنا رنگین آنچل دولہے کے سر ڈالا پھر دولہن کی بڑی بھابھی رس گلّوں سے بھری پلیٹ اور دودھ سے لبریز گلاس لائیں دولہے کو میٹھا کھلاکر دودھ پلایا گیا ساس صاحبہ نے سلام کرائ کی رسم کا آغاز کیا دولہے کو سونے کی انگوٹھی پہنائ سسر نے گلے میں سونے کی زنجیر پہنائ جبکہ سونے زیورات پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں دولہن کی بھابھی کلائ میں گھڑی پہنائ اور لوگوں نے روپئے روپئے دئے سلام کرائ اختتام کو پہنچی دولہا خاموش بیٹھا رہا لوگ حیرت زدہ تھے کہ سلام کرائ کے بعد دولہا جا کیوں نہیں رہا ہے ،دولھے کی پھوپھو نے کہا کہ” کوئ یہ نہیں پوچھ رہا کہ دولہے کو کیا چاہیے” پتہ چلا کہ دولہے کو سلام کرائ میں موٹر سائیکل چاہئے ورنہ دلہن رخصت نہیں ہوگی ،یہ واقعہ بھی تیس بتیس سال پرانا ہے اب موٹرسائیکل کار کی فرمائش ہوتی ہے،

خدا کے لئے شادی کے نام پر فضول رسموں سے نجات دلانے کا کوئ راستہ بتائیں اور معاشرے سے جہیز سمیت فضول رسومات کو ختم کر نے کا آغاز ہر بشر اپنے گھر سے شروع کرے ۔بے جا رسومات اور ہر رسم پر لین دین نے ازدواجی زندگی کو زہر آلود کر دیا ہے پاک رشتے ناپاک رسموں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ اب رشتہ نہیں سودا ہوتا ہے ۔جتنی زیادہ غیر ضروری رسومات میں ہمارا مسلم معاشرہ ملوث ہے اور گمراہی کی طرف گامزن ہے کاش اپنے دین کی سادگی کی طرف دیکھتا تو ہماری ،آپ کی بلکہ سب کی زندگی آسان ہوتی اور رشتوں میں محبت ،لحاظ اور احترام ہوتا تلخیاں اور بدلحاظیاں نہ ہوتیں۔اللہ ہم سب کو کہنے سننے سے زیادہ عمل کی توفیق عطا کرے ۔آمین

Previous articleقانونِ شریعت ، سراپا رحمت وسلامتی! از :مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
Next articleشریعت کے مطابق صلاحیت کے ساتھ انصاف میں عزت ہے از: مدثر احمد قاسمی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here