مسرتیں تمہیں عید کی مبارک ہوں !

0
265

ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی
پرسا، پریہار، سیتامڑھی، بہار
موبائل:9199726661

رمضان المبارک کا یہ مہتم بالشان مہینہ نہایت سرعت کے ساتھ گزرتا جارہا ہے۔ عنقریب ہی یہ ماہ ہمیں داغ مفارقت دینے والا ہے اور عید سعید کی دید ہونے والی ہے۔ جس طرح مسلمانانِ عالم کو رمضان المبارک جیسے عظیم مہمان کی آمد کا شدت سے انتظار تھا اور اس کے استقبال کے لیے وہ اپنی آنکھیں فرش راہ کئے ہوئے تھے بعینہ انہیں عید سعید کی آمد کا انتظار ہے اور وہ اس کی دید کے لیے اپنی آنکھوں کو فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے یہ عید سعید اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہیں ایک مہینے تک روزہ رکھنے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے، صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کے ذریعہ غریبوں، بے کسوں و ضرورت مندوں کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور دوسرے اعمال صالحہ کا کثرت سے اہتمام کرنے کے عوض بطور انعام عطا کیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” الصوم لی و انا اجزی بہ” ہمارے پیارے نبی نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے ” لكل قوم عيد و هذا عيدنا ” کہ ہرقوم کے لیے عید ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ عید کا دن مغفرت اور انعام کا دن ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکم شوال المکرم 2/ ہجری، مطابق 27/مارچ 624 عیسوی کو عید الفطر کی نماز باجماعت اداکی تھی ۔ تب سے اب تک پوری دنیا کے مسلمان ہر سال رمضان المبارک کے اختتام کے بعد یکم شوال المکرم کو عید گاہ میں جاکر باجماعت دورکعت نماز ادا کرتے آرہے ہیں۔

پوری دنیا کے مسلمان عید سعید کا عظیم الشان تہوار منانے کی تیاری رمضان المبارک کے اوائل سے ہی شروع کردیتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی بچے تو بچے جوان اور بوڑھے بھی خوشیوں سے اچھل پڑتے ہیں۔ مسلم آبادی میں خوب چہل پہل ہوجاتی ہے۔ شہر سے لے کر گاؤں تک ہر جگہ رونق بڑھ جاتی ہے۔ بازاروں میں لوگوں کا ازدہام لگ جاتا ہے۔ رات بھر جم کر شاپنگ کی جاتی ہے۔” الله اکبر الله اکبر لاالہ الا الله ، والله اکبر اللّهُ اکبر وللہ الحمد ” کی تکبیرات سے فضا گونجنے لگتی ہے۔ مسلمان یکم شوال المکرم کو صبح صبح غسل کرکے عیدگاہ جاتے ہیں جہاں دوگانہ ادا کرتے ہیں۔ ہر کوئی مسرور اور فرحاں وشاداں ہوتا ہے۔ کیا مرد، کیا عورت، کیا بچہ، کیا جوان، لاٹھی ڈنڈوں کے سہارے چلنے والے بوڑھے بھی عید سعید کو پاکر نہایت پر جوش نظر آتے ہیں۔اگر کسی کو دوسرے سے کوئی تنازع یا جھگڑا ہوتا ہے، لڑائی یا ناچاقی ہوتی ہے، کسی بھی طرح کا اختلاف ہوتا ہے یا مہینوں سے گفت وشنید بند ہوتی ہے پھر بھی وہ عید سعید کے دن اپنے تمام طرح کے تنازعات، تلخیوں اور گلے شکوے سب کو بھلا کر ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں، سوئیاں اور انواع واقسام کے پکوان کھاتے وکھلاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے پرجوش علیک سلیک کرتے ہیں، ایک دوسرے سے مصافحہ و معانقہ کرتے ہیں، صمیم قلب سے ایک دوسرے کو مبارکباد و تہنیت پیش کرتے ہیں اور ہر کوئی ایک دوسرے کی محبت میں سرشار ہوتے ہیں۔

حسب سابق رواں برس میں بھی عید سعید منانے کی تیاریاں جم کر کی جارہی ہیں۔ بچے، جوان ، بوڑھے سبھی پرجوش نظر آرہے ہیں، بازاروں کی رونقیں ایک بار پھر سے بحال ہوچکی ہیں۔ کپڑوں کی دکانیں، صرافہ دکانیں، سوئیوں کی دکانیں سب سج دھج چکی ہیں۔ وہاں خریداروں کا سیلاب بھی امڈتا نظر آرہا ہے۔ اس بار عید کی تیاریاں اس لیے بھی زور و شور سے کی جارہی ہیں چونکہ 2020 میں لاک ڈاؤن کے سبب مسلمانوں پر پورے رمضان المبارک میں مساجد کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔ وہ مساجد میں نہ نماز پنج گانہ ادا کر سکے، نہ تراویح پڑھ سکے،نہ نماز جمعہ کا اہتمام کر سکے اور ناہی عید گاہ جاکر نماز عید پڑھ سکے۔ مساجد میں کی جانے والی تمام طرح کی عبادتیں کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی نذر ہوگئیں جس کا سخت ملال پوری دنیا کے مسلمانوں کو تھا۔ مگر انہوں نے یہ سوچ کر صبر کیا تھا کہ چلو اس سال ہماری عید سعید عالمی وبا کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی نذر ہو گئی۔ شاید آئندہ انہیں اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، مگر مشیت الہی کہیے یا ہماری بد اعمالیوں کے باعث ابتلاء وآزمائش یا کوئی اور سبب۔ اس کا بہتر علم صرف اور صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کو ہے۔2021 میں بھی عید الفطر کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی نذر ہوگئی۔ نہ صرف عید الفطر بلکہ پورا رمضان المبارک، تراویح، پنجوقتہ نمازیں اور نماز جمعہ کا بھی اہتمام مسلمان مساجد میں نہیں کر سکے تھے۔ اس لیے کہ حکومت نے دوبارہ سے مساجد کے دروازوں پر تالے جڑ وا دییے جس کی وجہ سے دوبارہ دنیا کے مسلمانوں میں پھر سے اداسی چھاگئی۔ ہر کوئی مغموم تھا۔ بوڑھے تو بوڑھے جوان اور بچے تک افسردہ، غمزدہ اور مایوس تھے۔ کچھ لوگوں نے نئے کپڑے سلوائے تھے، زیادہ تر نے سلوانا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم پورے رمضان المبارک میں مساجد میں جاکر نمازیں نہیں ادا سکے، تراویح نہیں پڑھ سکے، حد تو یہ ہے کہ عید گاہ جاکر باجماعت دوگانہ ادا کرنے کی بھی حکومت کی جانب سے انہیں اجازت نہیں مل سکی تو ہم نئے کپڑے زیب تن کیوں کریں ۔ نئے کپڑے پہننے کا مزہ تو تب آتا ہے جب عید گاہ جاکر باجماعت دوگانہ ادا کرتے ہیں۔ عید سعید کی خوشیاں بھی تبھی ملتی ہیں جب اجتماعی طور پر نماز عید ادا کرتے اور ایک دوسرے سے مصافحہ ومعانقہ کرتے ہیں۔ ابھی تو ایک دوسرے سے مصافحہ ومعانقہ پر بھی قدغن لگا ہوا ہے۔ جب ہمیں اپنے اپنے گھروں میں ہی قید وبند رہنا ہے تو پھر عید کی تیاری کیا کرنی ہے؟ یقیناً گزشتہ دو برسوں سے عالمی وبا کورونا وائرس کے سبب لگے لاک ڈاؤن میں مسلمانوں کو عید الفطر کی خوشیاں نصیب نہیں ہوسکی تھیں جس کا ملال مسلمانانِ عالم کو تھا لیکن تھوڑی دیر ہم لوگ غور کریں اور اپنا احتساب کریں کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ کہیں اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کے سبب ہم سے ناراض تو نہیں ؟ کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ تو نہیں؟ اس لیے کہ دنیا کا کون ایسا گناہ ہے جو ہم مسلمان نہیں کرتے ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مساجد کے دروازے جب کھلے ہوتے ہیں تو ہم وہاں جانا گوارہ نہیں بھی نہیں کرتے، پنجوقتہ نمازوں کا ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔ امام صاحب اور مؤذن صاحب کے علاوہ چند لوگ ہی سب کی طرف سے کفارہ ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ فجر میں تو بعض مساجد میں صرف امام اور مؤذن کے ہی ہو نےکی خبریں ملا کرتی ہیں۔ رمضان المبارک سے کچھ قبل میں اپنی بستی پرسا، پر یہار ، ضلع سیتامڑھ کی ایک مسجد میں نماز فجر ادا کرنے گیا تو صرف پانچ لوگوں کو وہاں پایا۔ قرآن کریم سے بھی مسلمانوں کا رشتہ بڑا کمزور ہے۔ بہت سارے مسلمان تو قرآن کریم پڑھنا بھی نہیں جانتے ہیں۔اکثر مسلمانوں میں حلت اور حرمت کی تمیز بھی مٹ چکی ہے۔ حصول دولت کو ہی اپنی سب سے بڑی کامیابی گردانتے ہیں۔ اگر اللہ نے کچھ نواز رکھا ہے تو اس کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اپنے ماتحتوں اور ملازموں کو کمتر سمجھتے ہیں، ان کے ساتھ نہایت شرمناک رویہ اختیار کرتے ہیں۔ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھنا، ان سے مشفقانہ برتاؤ کرنا، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا،صلہ رحمی کرنا یا ان کی کسی بھی طرح سے حوصلہ افزائی کرنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ خواہ مخواہ ان کاحوصلہ توڑنے اور ان پر اپنی برتریت جتانے کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ ہربات میں جھوٹ بولنے اور ایک دوسرے کو فریب دینے کو چلاکی سمجھتے ہیں۔ نہ اللہ کے حقوق ادا کرتے ہیں اور ناہی ماں باپ بھائی بہن، قرابت دار، رشتہ دار ودیگر لوگوں کے ہی حقوق ادا کرتے ہیں۔ ہم دیندار بننے کے بجائے پورے طور دنیا داربن چکے ہیں۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہم مسلمانوں سے ناراض ہو اور
عالمی وبا کورونا اسی کی سزا رہی ہو۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر اپنے تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے توبتہ النصوح کرنی چاہیے اور پھوٹ پھوٹ کر ،رو رو کر دعائیں کرنی چاہیے کہ پاک پروردگار ہمیں اسلامی زندگی گزار نے، گناہوں سے بچنے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے کی توفیق بخشے۔

ہمارے ذہن میں یہ بات بھی راسخ ہونی چاہیے کہ عید سعید کا یہ عظیم الشان تہوار روزہ خوروں اور روزہ چوروں کے لیے نہیں ہے اور ناہی نئے نئے زرق و برق کا لباس زیب تن کرلینے نیز نوع بنوع لذیذ پکوان کے اہتمام کا نام ہے۔کتاب سنت کی روشنی میں عید اس شخص کے لیے خوشی اور مسرت کا دن ہے جس نے رمضان المبارک کے مکمل روزے رکھے اور بغیر عذر شرعی کے کوئی روزہ نہیں چھوڑا جیساکہ بخاری اور مسلم شریف میں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جس نے حالت ایمان میں اللہ سے حصول ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کردییے جاتے ہیں۔ ایک شخص عید کے دن حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ خشک روٹی اور زیتون کھارہے ہیں۔ اس شخص نے کہا :امیر المومنین اور عید کے دن خشک روٹی؟ تو حضرت علی نے فرمایا کہ عید اس کی نہیں جس نے نیا لباس پہنا اور ثرید(عمدہ کھانا) کھایا، بلکہ عید تو اس کی ہے جس کے روزے قبول ہوگئے، جس کا قیام اللیل قبول ہوگیا، جس کے گناہ معاف کردییے گئے اور جس کی جدوجہد کی قدر کی گئی اور یہی اصل عید ہے۔ اور ہمارے لیے آج کا دن بھی عید ہے، کل کا دن بھی عید ہے اور ہر وہ دن عید ہم اللہ کی نافرمانی نہ کریں وہ ہمارے لیے عید کا دن ہے۔اسی طرح عمر بن عبد العزیز کہتے ہیں کہ عید اس کی نہیں جو عمدہ لباس پہن لے، بلکہ عید تو اس کی ہے جو قیامت کے دن سے ڈرتا ہے۔ گویا عید کی اصل خوشیاں روزہ داروں کے لیے ہیں اور اس دن انہیں کی بحشش ہوتی ہے اور انہیں رمضان المبارک کے مکمل روزے رکھنے اور ایمان و احتساب کے ساتھ قیام اللیل کرنے کے عوض انہیں منجانب اللہ انعام سے نوازا جاتا ہے۔ اس عید سعید میں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انعام پانے والوں میں شامل کر لے، آمین!

الغرض! الحمد للہ و بفضلہ دو سالوں بعد امسال رمضان المبارک میں کسی حد تک ہمیں خوشگوار حالات ملے ہیں۔ اس ماہ میں روزے رکھنے ، قرآن کریم کی تلاوت کرنے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ذکر و اذکار کرنے اور مساجد میں تراویح و دیگر عبادتوں کے اہتمام کا سنہرا موقع بھی ہاتھ آیا ہے۔ اس لیے اس کو ہم سب غنیمت سمجھیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ان اعمال کی قبولیت کی دعائیں کریں اور عید سعید کے پیغام کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ نیز غریبوں، ضرورت مندوں، بے کسوں، محتاجوں اور لا چاروں کا مکمل خیال رکھیں، خیرات، صدقات و عطیات سے ان کی بھر پور مدد کریں۔ تاکہ انہیں بھی عید سعید کی مکمل خوشیاں نصیب ہو سکیں۔ خوشیوں کے اس بیش بہا موقع پر ہم اپنے تمام اعزہ، اقرباء، احباب، محبین، متعلقین، منسوبین، منسلکین اور مسلمانان عالم کو صمیم قلب سے عید سعید کی تہنیت و مبارکباد ان اشعار کے ساتھ پیش کرتے ہیں :

تحفہ دعاؤں کا تمہیں پہنچے میرا
سدا رہے تمہارے گرد خوشیوں کا گیھرا

مسرتیں تمہیں عید کی مبارک ہوں
تمہاری زیست میں نہ آئے کبھی غموں کا پھیرا

Previous articleآسان عربی تفسیر کا آسان اردو ترجمہ
Next articleفرضی مدارس کی ملی شکایت: سی ایم نے دیا چانچ کا حکم

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here