ترجمہ: مولوی ولی اللہ محمد آبادی (سیوان)
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے درمیان تصوف اسلامی نے جو خاص شکلیں اور صورتیں اختیار کیں، اس کی وجہ سے خاص الخاص قسم کا تصوف وجود میں آیا جو اسلامی شعائر اور فلسفے کے اصولوں کا آمیختہ اور مرکب ہے۔ اس کا اقرار دوسرے محققین نے بھی کیا ہے۔ لیکن اس امر میں سب کا اتفاق ہے کہ اس کے بنیادی اصول اور مسائل قرآن و احادیث سے مستنبط ہیں اور اسلامی تعلیمات نے خود مستقل طور پر ایک خاص قسم کا عرفان پیش کیا ہے۔ لیکن اس دور میں یونانی، ایرانی اور ہندی فلسفہ تصوف نے بھی اس کو متاثر کیا ہے اور ان کے کچھ اصول و مبانی اسلامی تصوف میں داخل ہو گئے۔ محققین اور مورخین تصوف نے تصوف اسلامی میں غیر اسلامی تصوف کے اجزا کی آمیزش کے بارے میں مختلف خیالات و نظریات کا اظہار کیا ہے اور ہر جماعت نے اسلام میں تصوف کی پیدائش کی خاص علتیں اور وجہیں بیان کی ہیں اور اس کے ماخذ کی بھی نشاندہی کی ہے۔ ان میں سے چند اہم مآخذ کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
اسلامی تصوف اور یونانی افکار:
محققین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ اسلامی تصوف کا اصل سرچشمہ یونانی تصوف کے افکار و تصورات ہیں جس کا بانی یونان کا مشہور فلسفی فلاطینوس (۲۷۰-۲۰۵م) تھا۔ اسلام میں یونانی افکار و فلسفہ کے نفوذ کے بعد اس کا تصوف جس کی بنیاد ’وحدت وجود‘ پر تھی مرکز توجہ بنا۔ اس کی جڑیں دھیرے دھیرے پھیلیں اور برگ و بار لائیں۔ یونانی فلسفی فلوطین مقیم مصر رومی الاصل تھا جو تیسری صدی کے نصف اول میں گزرا ہے۔ وہ امونییس سیکاس (Ammonius Saccas) کی شاگردی اور صحبت میں رہ کر تصوف و عرفان کی طرف مائل ہوا۔ مشرق کی طرف سفر کیا اور ایران و ہندوستان کے عقلمندوں اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں اور ان سے علم و دانش حاصل کیا۔ آخر کار زہد، فقر، قناعت و توکل کو اختیارکیا۔
افلاطونین جدید یا نو فلاطونی اسکندریہ کی علمی مجلس کے سب سے زیادہ معتبر فلسفی اور اہم فلاسفہ کی سب سے آخری کڑی شمار ہوتے تھے۔ انھوں نے فلسفہ و عرفان کا خاص دبستان شروع کیا تھا۔ وہ فلاطینوس کے پیرو تھے۔ فلاطینوس اس بات کا معتقد تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب ایک چیز ہیں، اور وہ خدا ہے۔ اور دوسری چیزیں خدا سے جدا ہوئی ہیں۔ اس لیے ہمیشہ اس دنیا اور اس کی مسرتوں سے گریزاں رہنا چاہیے اور اپنے وطن اصلی اور سرچشمہ سے پیوستہ ہونے کا آرزو مند رہنا چاہیے۔ چشم ظاہر کو بند اور چشم باطن کو کھولنا چاہیے۔ اس وقت نظر آتا ہے کہ ہم جس حقیقت کی تلاش و جستجو میں سرگرداں ہیں وہ ہم سے دور نہیں ہے بلکہ خود ہمارے اندر موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وصال انسان کو بیخودی سے ہم کنار کرتا ہے۔ اس حالت میں انسان ہر چیز حتیٰ کہ اپنی ذات سے بے گانہ ہو جاتا ہے۔ جسم و روح سے بے خبر اور زمان و مکان سے بے تعلق۔ فکر سے علاحدہ عقل سے آزاد، عشق میں مست اور اپنے اور معشوق یعنی نفس اور خیر مطلق (خدا) کے درمیان کوئی واسطہ نہیں دیکھتا اور نہ کوئی فرق محسوس کرتا ہے۔ یہ وہ حالت ہے جو عشق مجازی دنیوی میں عاشق و معشوق اس خیال کی پیروی کرتے ہیں اور یہ ربوبیت کا مخصوص عالم ہے اور نفس انسانی جب تک بدن سے تعلق رکھتا ہے اس حالت کی بقا کا متحمل نہیں ہوتا۔ اور اس کو فانی یا معدوم باور کرتا ہے۔ وہ (بے خودی کی) کیفیت مدتوں کے بعد حاصل ہوتی ہے(۱)۔
فلوطین کے انھیں مذکورہ خیالات سے اشراقی فلاسفہ اور اسلامی صوفیہ کے اقوال کی مشابہت کو دیکھ کر مورخین اور محققین کی ایک جماعت نے اسلامی تصوف کے مقصد کو فلوطین اور نوفلاطینیوں کے فلسفہ کا نتیجہ قرار دیا ہے یا کم از کم اسلامی تصوف میں انھی فلاسفہ کے افکار کو موثر قرار دیا ہے(۲)۔
اسلامی تصوف اور ہندوستانی فلسفہ:
محققین کی ایک جماعت اسلامی تصوف اور ہندوستانی ادیان و مذاہب اور افکار و خیالات کے درمیان بہت سی مشابہتیں اور مماثلتیں دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچی کہ اسلامی تصوف ہندوستانی افکار کا زائیدہ ہے۔ اور کہتے ہیں کہ ہندی تصوف کے مختلف مکاتب اسلامی تصوف کی پیدائش میں اہم کردار کے مالک ہیں۔ اسی مناسبت کی وجہ سے اسلامی صوفیہ اور ہندوستان کے بعض مذاہب کے عقیدوں میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں تصوفات کا مقصد و منشا ایک ہے۔ اس لیے اس کے آغاز کی کڑی کو ہندوستان میں تلاش کرنا چاہیے۔(۳)
الفرڈوون کریمر (Alfordvon Kremer)، میکس ہورٹن (Max Hoortan)، ہرٹ مین (Hart Man) اور گولڈزیہر (Goldsiher) وغیرہ مشہور مستشرقین اسی نظریہ کے حامل ہیں۔ ہرٹ مین کا خیال ہے کہ زرتشتیت، بدھ مت اور اسلام کا محل اتصال وسط ایشیا ہے۔ ہندو زہد و تصوف کا اثر وہیں سے ایرانیوں کے ذریعہ اسلام میں داخل ہوا(۴)۔
کریمر کا نظریہ ہے کہ اسلامی تصوف نے دو متضاد و متفاوت عناصر کو اپنے اندر جذب کیا۔ پہلا عنصر زہد مسیحی ہے جو آغاز اسلام کے دور میں ہی اس پر شدید طور پر اثرانداز ہوا اور دوسرا عنصر آخری عہد میں مکاشفات بدھ ہیں جو اسلام میں ایرانیوں کے روز افزوں اثراندازی کے باعث اسلامی تصوف میں داخل ہوئے۔ گولڈزیہر نے کریمر کے نظریہ کو ادنیٰ تغیر کے ساتھ قبول کیا ہے۔ گولڈزیہر کے خیال میں زہد و ترک لذات اسلام میں مشرقی عیسائیوں کی رہبانیت کے اثر سے پیدا ہوا اور وہی اس کا سرچشمہ ہے۔ حالانکہ عرفان و تصوف کی بنیاد عقلی و نقلی فلسفے پر ہے یعنی اپنے پہلے دور میں نو فلاطونی فلسفے پر اور اس کے بعد بدھ ازم کے فلسفے پر مبنی ہے(۵)۔
لیکن ایڈورڈ برائون نے کہا ہے کہ یہ ظاہری مناسبت سطحی ہے اور اساسی مشابہت ان کے درمیان نہیں پائی جاتی۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ بنو امیہ کے دور خلافت میں اسلامی کشور کشائی اور فتوحات چین کی سرحد تک پھیل گئی تھیں، اسی وقت مسلمانوں اور ہندوئوں کے درمیان تہذیبی، تجارتی اور اقتصادی رشتے استوار ہوئے۔ اس طرح ہندوئوں کی بہت بڑی جماعت اسلام میں داخل ہو گئی۔ ہندوئوں کے بہت سے افکار و خیالات نے بھی مسلمانوں کو متاثر کیا۔ ہندو مذہب کی زاہدانہ اور صوفیانہ تعلیمات و آداب نے معاشرت و اختلاط کے ذریعہ (خصوصاً ادب کے میدان میں ہندی کتابوں کے تراجم اور مذہبی معارف نے) مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں رسوخ پیدا کیا۔ ان مترجم کتابوں میں ادب الصغیر اور ادب الکبیر ہیں جنھیں ابن مقفع نے ترجمہ کیا ہے۔ اسی طرح ’مہاتما بدھ اور بلوہر‘ کتاب کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جو ہندو پنڈتوں کے ذریعہ ترجمہ کی گئی ہے۔ آخری کتاب درحقیقت مہاتما بدھ کے حالات زندگی اور ان کے فقر و فنا کے فلسفہ اور صوفیانہ طریق کی تشریح و توصیف پر ہے، داستان کے طرز پرلکھی گئی ہے۔ یہ داستان اس پر مبنی ہے کہ مہاتما بدھ نے بغیر کسی استاد اور مرشد کے تنہا خدا داد ذہانت اور الہام و الطاف خداوندی کی روشنی میں حقیقت کی جستجو کی اور معرفت تک رسائی حاصل کی(۶)۔ یہی اصول کشف و شہود ہے جو اسلامی تصوف میں آیا ہے اور اسلامی کتابوں میں مختلف پیرایوں اور شکلوں میں منعکس ہوا ہے اور پہلی بار اس داستان کو شیخ صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بایو یہ قمی معروف بہ باین بابو یہ (متوفی ۳۸۱ھ) اپنی مشہور کتاب ’کمال الدین و تمام النعمۃ فی اثبات الغیبہ‘ میں لائے اور مہدویت کے اثبات کے لیے استعمال کیا ہے۔ انھوں نے اس کو محمد بن زکریا رازی (متوفی ۳۱۱ھ) سے نقل کیا ہے۔ ازاں بعد ملا محمد باقر بن محمد تقی مجلسی (متوفی ۱۹۱۱ھ) نے بھی اپنی مشہور کتاب ’بحارالانوار‘ میں نقل کیا ہے۔(۷) اپنی دوسری فارسی کی کتاب ’عین الحیات‘ میں بھی اس داستان کو لکھا ہے۔(۸)
علما و محققین کی اس جماعت کے نظریہ کے مطابق یہ تمام افکار و آثار اسلامی تصوف کی تکمیل، تشکیل اور پیدائش میں بہت زیادہ موثر ہوئے ہیں اور اپنے عقیدہ و نظریہ کی تائید میں دوسرے شواہد و قرائن بھی پیش کیے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دوسری صدی ہجری کے نصف اول خصوصاً خلافت عباسیہ کے عہد میں جب کہ مناظرے کی مجلسیں اور علمی و مذہبی مباحثے ہوا کرتے تھے۔ اور مختلف مذاہب و ادیان کے پیرو اس میں جمع ہوتے تھے اور آزادانہ مباحثہ و مناظرہ میں شریک ہوتے تھے۔ ہندی اور بودھ مذہب کے ماننے والوں کی کچھ تعداد بھی ان میں حصہ لیا کرتی تھی اور اپنے دینی عقائد و افکار کو دوسروں کے سامنے پیش کرتی تھی۔ اس طرح انھوں نے اپنے عقائد سے مسلمانوں کو آشنا کیا۔ اسی کے ذریعے صوفیوں کے افکار مروج ہوئے اور اسلامی معاشرے پر اثرانداز ہوئے۔
دوسری شہادت یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ صوفیہ کے طبقہ اول کے مشایخ اور بزرگوں کی ایک جماعت مثلاً فضیل بن عیاضؒ (متوفی ۱۸۷ھ)، شقیق بلخیؒ (متوفی ۱۷۴ھ) اور دائود بلخی (متوفی ۱۷۴ھ)بلخ کے رہنے والے تھے اور بلخ اسلامی تصوف کی اشاعت کا عظیم اور اہم مرکز رہ چکا ہے۔ تصوف اسلامی پہلے وہیں سے پھر خراسان کے علاقے سے ظہور پذیر ہوا۔ اس کے بعد دوسرے اسلامی ملکوں اور علاقوں تک وسیع ہوا۔ بایزید بسطامیؒ (متوفی ۲۶۱ھ) اور ابو سعید ابوالخیر (۳۶۷-۳۴۰ھ) یہ دونوں بزرگ جو طبقہ اول کے صوفیہ میں شمار ہوتے ہیں، خراسان میں پیدا ہوئے تھے۔ ابراہیم ادہمؒ (متوفی ۱۶۱ھ) بھی جو تصوف کے اولین مشایخ میں شمار ہوتے ہیں، اور صوفیہ کے تذکروں میں ان کے حالات زندگی کو مہاتما بدھ کے حالات زندگی کی طرح تحریر کیا ہے، وہ اصلاً بلخ کے شہزادہ تھے۔ بایزید بسطامی اپنے شاگرد ابو علی سندھی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں ابو علی سے توحید میں علم فنا کا درس لیتا تھا اور ابو علی مجھ سے الحمد اور قل ہو اللہ کا سبق پڑھتے تھے۔(۹) ان میں اول نواح بخارا کے اور دوسرے سندھ کے باشندے تھے۔ اس بنا پر اس امر کو دیکھتے ہوئے کہ اسلام کے آغاز سے بہت پہلے بودھ مذہب مشرقی ایران یعنی بلخ و بخارا اور ماوراء النہر میں شایع اور رائج تھا اور ان کی عبادت گاہیں اور صومعے اس علاقے میں موجود تھے۔ خاص طور پر بلخ کی بدھ عبادت گاہیں بہت مشہور تھیں۔(۱۰) کہہ سکتے ہیں کہ اولین بزرگ صوفیہ جو ان علاقوں سے تعلق رکھتے تھے بدھ مت کے صوفیانہ افکار، دنیوی زندگی کے ترک اور دوسرے ہندی مذہبی فرقوں سے اثر پذیر ہوئے۔ اس طرح ہندی صوفیانہ تعلیم کو اسلامی تعلیمات میں آمیزش کا موقع فراہم ہوا اور اسلامی تصوف وجود میں آیا۔
حسین بن منصور حلاج (مصلوب ۳۰۹ھ) نے سفر ہندوستان سے ایران واپسی کے بعد تصوف میں ایک انقلاب اور تغیر پیدا کر دیا تھا اور اس میں عجیب و غریب تبدیلی کا باعث ہوئے تھے۔ ان کے یہاں بھی اسلامی تصوف میں ہندوئوں کے عقیدۂ وحدت وجود اور زاہدانہ تعلیمات کی تاثیر پر دوسری شہادت پیش کی گئی ہے۔ شیخ فرید الدین عطار نے حلاج کے حالات کے ضمن میں ان کی چین و ہندوستان کی سیاحت کا ذکر کیا ہے۔(۱۱)
وان کریمر نے بیان کیا ہے کہ صوفیہ نے تسبیح کا استعمال بدھوں سے لیا ہے اور بلاتردید و شک اسلامی تصوف میں وجود کلی میں فنائے ذات کے تصور کا سرچشمہ بودھ اور ہندی افکار ہیں۔ اسی طرح سالک کے مقامات کی ترتیب اور تربیت میں مسلمان صوفیہ اور بودھ بھکشوئوں کے درمیان کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔ دونوں طریقہائے تصوف میں ایک ہی طرح کا مرکز فکر ہے جس کو صوفیہ ’مراقبہ‘ اور بودھ ’دھیان‘ کہتے ہیں۔ اور دونوں طریقے خرقہ پوشی، ریاضت و مجاہدہ اور خانہ بدوشی کے معتقد ہیں۔ بالآخر تصوف کا آخری مقصد محو و فنائے ذات ہے۔ یہی ’نروان‘ کا اصول بودھ تعلیمات میں بھی ہے۔
اسلامی تصوف اور آریائی فلسفہ:
ریچرڈ ہورٹمین (Richard Hort Man) اور میکس ہورٹن (Max Hortan) وغیرہ محققین نے کہا ہے کہ اسلامی تصوف، عربی و سامی اسلام کے مقابلے میں ایرانی آریائی فلسفے کے رد عمل میں واقع ہوا ہے۔ اس نظریے کی تائید میں محققین کہتے ہیں کہ مسلمان عربوں سے ایرانیوں کی قادسیہ، جلوی اور نہاوند کی جنگوں میں شکست اور ایران پر عربوں کے غلبہ اور اس کے سیاسی و اجتماعی نظام پر تسلط کے بعد ایرانیوں نے بظاہر اسلام کو قبول کر لیا۔ لیکن باطنی طور پر اپنے فکری طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی۔ خصوصاً اس بنا پر کہ عربوں نے ایران پر فتح پانے کے بعد ایرانیوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ حضرت معاویہ اور ان کے جانشینوں کے زمانے میں خاص طور سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور ناروا معاملہ کیا جاتا تھا۔ ان رویوں نے ان کو مجبور کیا کہ وہ جنگ کے لیے تیار ہوں اور یہ مقابلہ آرائی فکری مبارزہ کی شکل میں شروع ہوئی کیونکہ وہ میدان جنگ میں مقابلہ میں پسپا ہو چکے تھے۔ ان کی فکری اور علمی جنگ کا ایک مظہر تو تشیع یا شیعیت ہے اور دوسرا تصوف ہے۔ جو اسلام کی طویل تاریخ میں مبارزہ کے قطبین کی صورت میں موجود ہیں۔ ایرانیوں کے توسط سے اسلام میں جو تصوف ظہور پذیر ہوا وہ ’مانی‘ کے افکار و نظریات پر مبنی ہے۔(۱۲)
اولین صوفیہ نے ’کلمہ صدیق‘ کا خدا کی طرف سفر میں اپنے شیوخ پر اطلاق کیا ہے۔ اس کو انھوں نے معتقدین مانی سے حاصل کیا ہے۔ صوفیائے متاخرین کا یہ عقیدہ کہ اشیاء کے ظاہری اختلاف کو نور و ظلمت کے اختلاف کا نتیجہ قرار دیتے ہیں مانی کی ثنویت سے مربوط ہے۔(۱۳)
اسی طرح یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلامی تصوف کے دور نہضت و وسعت میں صوفیہ اور عارفین کے بزرگ مشایخ اور مرشدین ایرانی النسل تھے۔ مثلاً ابراہیم ادہمؒ بایزید بسطامی اور سہل تستری وغیرہ اسلامی تصوف کے مسلک کے پیشوا اور رہبر شمار ہوتے ہیں۔ یہ امر اس بات پر خود دلیل ہے کہ تصوف اسلامی کی اساس و بنیاد قدیم ایران کے افکار و نظریات سے سیراب ہوئی ہے اور یہ ایرانی صوفیہ کا پروردہ ہے۔ ایرانی صوفیہ کے فکری اثر و نفوذ کو اسلامی تصوف کے عرفانی تغیر میں اچھی طرح مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایرانی افواج اپنے ملک کی سرحدوں کا دفاع شمسیر و سنان سے نہ کر سکیں اور نہ اپنے سیاسی استقلال کی حفاظت کر سکیں تو کیا ہوا؟ ایران کا تصوف و عرفان عربوں کے مقابلے کے لیے کھڑا ہوا اور اپنے علمی و فکری اسلحے کے ذریعے اپنے معنوی استقلال و استقرار کے لائق مسلک اور مذہب کو وجود میں لایا۔ مانویوں اور مزدکیوں کے کچھ لوگ بھی مسلمانوں سے خلط ملط ہونے کے بعد صوفیوں کے لباس میں ظاہر ہوئے اور اپنے عقاید و افکار کو اسلامی تصوف کے نام سے مروج کیا(۱۴)۔
اسلامی تصوف اور مسیحی رہبانیت:
ڈی بی میکڈونلڈ (Duncan Blak Macdonald) ایسن پیلیسی اس (Asin Palacious) مارگریٹ اسمتھ (Margret Smith) وغیرہ محققین کی دوسری جماعت اس نظریہ کی حامی ہے کہ اسلامی تصوف کا سرچشمہ عیسائیت اور مسیحی رہبانیت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انجیل مقدس کے مطالعہ و تحقیق سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سب سے زیادہ بنیادی تعلیم زہد و رہبانیت ہے اور صوفیانہ زندگی مسیحیت کی روح اور اس کے عارفانہ اور زاہدانہ افکار و عقائد سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔(۱۵)
علما نے تحریر فرمایا ہے کہ اسلام سے صدیوں پہلے یہود و نصاریٰ میں عرفان و تصوف کے افکار شایع و رائج تھے۔ یہودی عالم فیلو (Philo) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایک صدی کے اول میں تو رات اور اس کے احکام کی جو تفسیریں اور تعبیریں کی تھیں تقریباً ویسی ہی تعبیریں اور تاویلیں اسلامی صوفیہ نے اسلامی دور حکومت میں قرآنی آیات و قرآن کی کیں۔(۱۶)
فیلوکا فلسفہ اور نوفلاطونی افکار جن کی اساس ’وحدت وجود‘ پر ہے۔ دونوںعیسائیت کے مذہب میں بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ عیسائیوں میں کچھ لوگ مرتاض، تواب اور تارک دنیا ہر جگہ ہوئے ہیں۔ عرب کے دور جاہلیت کے اشعار و اخبار میں زاہدوں کی جماعت کا ذکر ملتا ہے۔ جیسے امیہ بن الصلت اور صوفہ(۱۷) اور مسیحی عبادت گزاروں کی عادات و آداب کا ذکر کیا گیا ہے۔ عہد اسلام میں بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مصر، شام اور عراق کی فتوحات کے بعد ان علاقوں میں رہنے والے عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کے روابط و اختلاط کی وجہ سے زہد و رہبانیت کے افکار و آداب نے مسلمانوں میں فروغ پایا۔ اسی بنا پر جن لوگوں نے خاص شرائط اور عوامل کے زیر اثر ترک دنیا، تزہد اور صوفیانہ روش اختیار کی تھی۔ عیسائیوں سے قربت اور رابطہ رکھنے کی وجہ سے بہت جلد ان کی عادات و رسوم کے زیر اثر آ گئے اور ان کی عارفانہ و صوفیانہ زندگی کے گرویدہ ہو گئے اور ان کی تقلید میں صوف پوشی، تجرد، خانقاہ نشینی، حیوانی غذائوں کا ترک وغیرہ اعمال کو اختیار کر لیا اور پشمینہ پوشی کی وجہ سے انھوں نے اپنا نام صوفی رکھا۔
صوم وصال یا دائم الصیام رہنا، اسی طرح ذکر، توکل، عشق و محبت، خرقہ پوشی، دلق پوشی وغیرہ عادات و آداب اسلامی تصوف کے شیوخ سابق اور زاہدوں میں مسیحیت کی تعلیمات کے زیر اثر آئے۔
اسلام کی اولین صدیوں کے صوفیہ کے تذکروں اور کتابوں میں مسلمان عبادت گزاروں اور عیسائی عابدوں کے درمیان جو مکالمے اور مباحثے ہوئے اور تحریر میں آئے ان سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائی راہبوں کی رفتار و گفتار اور پندار نے اس عہد کے صوفیوں پر کافی اثر ڈالا اور یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی تصوف عیسائیت سے ماخوذ ہے۔ یہاں تک کہ انجیل کے اقوال تصوف اسلامی کے اولین عابدوں اور زاہدوں کی گفتار میں بہت زیادہ مشاہدہ میں آتے ہیں۔
مشہور انگریز مستشرق مرگیولتھ کہتا ہے کہ جنید بغدادیؒ کے معاصر اور تصوف کے اولین مصنف ’حارث محاسبی‘ کی تحریروں میں انجیل کے کلمات اور اشارات کو دیکھا جا سکتا ہے(۱۸)۔
اسلامی کتابوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو حکایتیں اور داستانیں بیان ہوئی ہیں وہ گویا کہ ایک مسلمان صوفی اور ایک مسلمان عارف کی حکایات و اقوال ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عابدوں اور زاہدوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے جو عبادت میں سوختہ اور ان کے اجسام لاغر و نحیف تھے۔ ان سے لاغری اور چہرے کی زردی کا سبب پوچھا۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہمیں آتش دوزخ کا خوف ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اللہ کے ذمہ ہے کہ تم کو اس آگ سے محفوظ رکھے۔ ان سے گزر کر دوسری جماعت کے پاس پہنچے جو بہت ہی لاغر و کمزور تھے۔ ان سے بھی دریافت کیا کہ یہ لاغری کیوں ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم بہشت کے مشتاق ہیں۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا کہ تمھاری آرزو کو بر لانا خدا پر موقوف ہے۔ اس کے بعد تیسری جماعت کے پاس پہنچے جو پہلوں کی طرح عبادت میں مشغول تھے۔ ان کی لاغری اور چہرے کی بے رونقی کا سبب دریافت فرمایا۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہم خدا کے عاشق ہیں۔ جہنم کی آگ کے خوف یا بہت کے لالچ سے خدا کی عبادت نہیں کرتے بلکہ خدا سے عشق اور اس کے مستحق عبادت ہونے کی بنا پر اس کی عبادت کرتے ہیں۔ مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ تم واقعی خدا کے دوست ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ تمھارے ساتھ رہوں(۱۹)۔ المختصر یہ کہ اس نظریے کے حامی اس کے معتقد ہیں کہ عیسائیت نے اپنے سیاح راہبوں اور دشوار ریاضت کرنے والوں کے ذریعہ اسلامی صوفیہ کو عرفان و تصوف کا سبق پڑھایا ہے۔ یہاں تک کہ صومعہ نشینی خانقاہ کی تاسیس بھی مسیحی راہبوں کی تقلید میں تصوف اسلامی میں رائج ہوئی ہے۔ اپنے نظریے کی تائید میں دوسری تحقیق یہ پیش کرتے ہیں کہ تصوف اسلامی کے اولین شیوخ و مرشدین نے مسیحی خانوادوں میں پرورش پائی ہے۔ مثلاً حضرت جنید بغدادیؒ جو اصلاً ایرانی اور نہاوندی تھے اور صوفیہ انھیں’’سیدالطائفہ‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے والدین عیسائی تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے۔ ان کی ابتدائی تربیت مسیحیت کے ماحول میں ہوئی۔ اسی طرح ذوالنون مصریؒ اور ابو ہاشم صوفیؒ اور ابراہیم ادہمؒ نے مصر، شام اور عراق میں زندگی گزاری جہاں مسیحیت اور رہبانیت کے اہم مراکز تھے۔
مورخین نے لکھا ہے کہ صوفیہ کے لیے اولین خانقاہ ایک عیسائی امیر کے ذریعہ بنائی گئی۔ مشہور بزرگ صوفی مولانا عبدالرحمن جامی اپنی تصنیف نفحات الانس میں دوسری صدی ہجری کے نصف آخر کے مشہور صاحب دل بزرگ ابو ہاشم صوفی کے حالات زندگی کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں کہ جس شخص کو سب سے پہلے ’صوفی‘ کہا گیا یہی تھے۔ ان کے قبل کوئی اس لقب سے یاد نہیں کیا گیا اور صوفیہ کے لیے سب سے پہلی خانقاہ رملہ شام میں تعمیر کی گئی۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ ایک مجوسی حاکم شکار کرنے گیا تھا۔ اس نے راستے میں اس جماعت (صوفیہ) کے دو آدمیوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے کے قریب پہنچے، معانقہ کیا اور وہیں بیٹھ گئے اور ان کے پاس جو کچھ کھانے کی چیز تھی، سامنے رکھا اور تناول فرمایا۔ پھر دونوں نے اپنی اپنی راہ لی۔ مجوسی حاکم کو ان کی باہمی الفت اور خوش معاملگی پسند آئی۔ ان میں سے ایک کو بلایا اور پوچھا کہ وہ کون تھا؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ اس نے پھر پوچھا تمھارے پاس کیا تھا؟ اس نے کہا کہ کچھ نہیں۔ اس نے پھر پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا۔ پھر اس حاکم نے پوچھا کہ پھر تم لوگوں کے درمیان یہ کس طرح کی الفت و محبت تھی؟ فقیر نے کہا کہ یہی ہمارا طریق ہے۔ امیر نے دریافت کیا کہ کیا آپ لوگوں کے یکجا ہونے کی جگہ ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ امیر نے اس سے کہا کہ میں آپ لوگوں کے لیے ایک عمارت بنا دیتا ہوں تاکہ آپ لوگ وہاں یکجا ہو سکیں۔ اس کے بعد اس نے فلسطین کے علاقہ رملہ میں ان کے لیے ایک خانقاہ تعمیر کرا دی(۲۰)۔
وان کریمر اوائل کی گوشہ نشینی، ریاضت اور پرہیزگاری کے ساتھ زاہدانہ صوفیت کو تصوف کی ایک ایسی قسم سمجھتا ہے جو عربوں میں ابتدائے اسلام میں پیدا ہوئی۔ اس میں خارجی اثرات نے راہ نہیں پایا تھا اور اگر کوئی اثر تھا بھی تو وہ خانقاہ نشیں راہبوں کا تھا، نہ کہ یونان، ایران اور ہندوستان کے افکار کا(۲۱)۔
تصوف اسلامی اور قرآن و سنت:
علم تصوف کے محققین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ تصوف اسلامی ایک آزاد اور مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کسی دوسرے مذاہب و تصوف کا زلہ ربا نہیں ہے۔ وہ قرآن حکیم اور سنت رسول سے ماخوذ ہے۔ کسی خارجی فکر و خیال کا اس پر کوئی اثر نہیں ہے۔ اگر اسلامی تصوف اور دوسرے اقوام و علل کے صوفیانہ اور عارفانہ خیالات کے درمیان کچھ مشابہت پائی جاتی ہے تو یہ کوئی قطعی اور حتمی دلیل نہیں ہے کہ تصوف اسلامی دیگر اقوام کے عارفانہ و زاہدانہ افکار و تعلیمات کا زائیدہ ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مذہب اسلام صوفیانہ رنگ کا حامل ہے اور اس میں تصوف کا عنصر موجود ہے۔
اسلام میں تصوف کی پیدائش سے متعلق اس جدید نظریہ کو بیسویں صدی کے نصف اول میںنکلسن اور لوئی کاسیٹیون نے پیش کیا ہے۔ ان دو اسلام شناس مستشرقین کی تصنیفات سابق ماہرین اسلام کی کتابوں سے زیادہ وسیع اور دقیق حوالوں اور کتابوں پر مبنی ہیں۔ یہ محققین اسلامی تصوف کو باہر سے آوردہ اسلام سے جوڑنے اور اس سے پیوند لگانے کی بات کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس اس کو اسلام کا ہی زائیدہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس کو اسلامی ہی کہنا چاہیے۔
نکلسن کا نظریہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں مسلمانوں میں جو زاہدانہ طبعی رجحان تھا، اسی کے بتدریج نشو و نما اور تکمیل کے نتیجے میں اسلامی عرفان و تصوف وجود میں آیا۔ اس کے باوجود وہ اس امر کے منکر نہیں ہیں کہ مسیحی زہد بھی اسلامی عرفان و تصوف میں اثر انداز نہیں تھا۔ا س کے ساتھ یہ بھی خیال رکھتے ہیں کہ صوفیہ کے زہد اور اسی طرح اس سے جو عرفان وجود میں آیا وہ اسلام، عقلی فلسفہ اور تصوف کے استنتاج کا پیدا کردہ اور نو افلاطونی فلسفے کے اثر و نفوذ کا نتیجہ ہے اور عیسائیت کے زیر اثر تغیر پذیر ہوا ہے۔ اور اسلام کے انتہا پسند صوفی نظریہ ’وحدت وجود‘ کے افکار ہندوستانی صوفیانہ افکار و نظریات کا نتیجہ ہیں اور تکمیل تک پہنچے ہیں۔
لوئی ماسنییون نے بھی جس نے اسلامی تصوف کی پیدائش کو اپنی تالیفات میں شرح و بسط سے تحریر کیا ہے، ان لوگوں کے نظریہ کو جنھوں نے اسلامی تصوف کی پیدائش کو اسلام سے بے گانہ قرار دیا ہے، معقول اور اچھے طریقے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ عقبی و آخرت کا اعتقاد کہ مسلمانوں کی آرام گاہ اور کافروں کے لیے دارالمحن ہے۔ قرآن میں بیان ہوا ہے، اس بات کا اعتقاد کہ آخرت کی ابدی سعادت اور مسرتیں اس شخص کے لیے ہیں جو اس ناپائیدار اور فانی دنیا کو ذلیل و خوار سمجھے اور اس سے دل نہ لگائے۔ انھی باتوں کی طرح اور بہت سی چیزیں بھی تصوف کے افکار کی نشو و نما کے لیے مددگار ہوئیں جو آغاز اسلام سے قرآن کے مطالعہ سے بتدریج ارتقا پذیر رہا اور تقویت حاصل کرتا رہا۔ قرآن میں بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو زہد، ترک دنیا، طلب آخرت اور موت سے خوف کی دعوت دیتی ہیں۔ وہ ایک طرف مسلمانوں کو اس آگ سے بچنے کی تلقین کرتی ہیں جس کے ایندھن گناہگار اور سخت پتھر ہیں۔ اور فرماتا ہے فاتقوالنار التی وقودہا الناس والحجارۃ اُعدت للکافرین۔ (اس لیے اس آگ سے جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے بچو) اور دوسری طرف یہ کہتا ہے کہ بشرالذین آمنوا و عملوا الصالحات ان لہم جنات تجری من تحتہا الانہار۔ کلما رزقوا منہا عن ثمرۃ رزقاً قالوا ہذا الذی رزقنا من قبل واتوبہ متشہابہاً ولہم ازواج مطہرۃ و ہم فیہا خالدون۔ (سورہ بقرہ، آیت ۲۵) (ترجمہ جو لوگ ایمان لائے اور اچھا عمل کیا انھیں بشارت دے دیں کہ ان کا مقام ان باغوں میں ہوگا جن میں نہریں جاری ہیں اور جب انھیں پھل اور میوے دیے جائیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو انھیں میووں کی طرح ہیں جو انھیں دنیا میں ملے تھے۔ اور ایک دوسرے کے مانند نعمتوں سے لذت حاصل کریں گے۔ اور ان کے لیے وہاں خوبصورت اور پاکیزہ عورتیں ہوں گی ور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گی)
قرآن اس جہان فانی و مادی کو ذلت و خواری سے اور آخرت و عقبیٰ کو بلندی و عظمت سے ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے اعلموا انما الحیوۃ الدنیا لعب و لہو و زینۃ و تفاخر بینکم و تکاثر فی الاموال والاولاد کمثل غیث اعجب الکفار نباتہٗ ثم یہیج فتراہ مصفرا ثم یکون حطاماً و فی الآخرۃ عذاب شدید و مغفرۃ من اللّٰہ و رضوان و ماالحیٰوۃ الدنیا الامتاع الغرور۔ (سورہ حدید، آیت: ۲۰) (ترجمہ:ـ تم کو جاننا چاہیے کہ دنیا کی زندگی درحقیقت بچکانہ کھیل ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخرکرنا، زیب و زینت، مال و اولاد کی زیادتی کی حرص ایک ایسی بارش کے مانند ہے کہ جب برستی ہے تو اس کے بعد زمین سے ہریالیاں اُگتی ہیں اور کافر کسانوں کو خوش کرتی ہیں۔ اس کے بعد دیکھو گے کہ پودے زرد اور خشک ہو جاتے ہیں اور ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں اور عالم آخرت میں طالبان دنیا کے لیے شدید عذاب اور مومنوں کے لیے خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور بخشش ہے۔ پھر جان لو کہ دنیا غرور اور دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے)۔(۲۲)
پھر فوراً اس آیت شریفہ کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، سابقوا الی مغفرۃ من ربکم و جنۃ عرضہا کعرض السماء والارض اعدت للذین آمنوا باللّٰہ و رسلہ ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء واللّٰہ ذوالفضل العظیم۔ (ترجمہ: اے بندو! اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف دوڑو اور بہشت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین کی کشادگی کے مانند ہے۔ وہ بہشت خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ خدا کا فضل ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے اسے دیتا ہے۔ اور خدا کا فضل و کرم بہت بڑا ہے۔(۲۳)
ان آیات کے علاوہ محققین نے کلی پس منظر میں جس طرف اشارہ کیا ہے، دوسری آیات کی طرف بھی اشارہ کر سکتے ہیں۔
مثلاً قرآن حکیم میں روز قیامت اور روز حشر کے وصف اور نیک لوگوں اور بدکاروں کی تعیین کے متعلق آیات ہیں، جن کو پڑھ کر انسان لرزہ براندام ہو جاتا ہے۔ سورہ قارعہ میں اس طرح بیان کرتا ہے۔
قارعہ
قارعہ کیا ہے؟
اور کیا تم کو معلوم ہے کہ قارعہ کیا ہے؟
جس دن لوگ ٹڈی کی طرح ہر طرف پراگندہ ہوں گے
اور پہاڑ اس کے خوف سے دھنی ہوئی روئی کی طرح پھیل جائیں گے۔
اس دن جس شخص کا عمل انصاف کے ترازو میں وزنی ہوگا۔
اس کی بہشت میں آرام و راحت کی زندگی ہوگی۔
اور جس کا عمل ہلکا اور بے وزن ہوگا۔
اس کا ٹھکانا ہاویہ جہنم کی گہرائی میں ہوگا۔
اور تم کس طرح ہاویہ کی سختی کا تصور کر سکتے ہو۔
ہاویہ وہی جلانے والی اور پگھلانے والی آگ ہے۔(۲۴)
اور سورہ زلزال میں یوں فرماتا ہے:
جس دن زمین اپنے زلزلے سے لرز اٹھے گی
اور اپنے (تمام اندرونی سخت اسرار کے) بوجھ کو اپنے اندر سے باہر کر دے گی
اس روز انسان کہے گا (یا للعجب) زمین کو کیا ہوا؟
اس وقت زمین لوگوں کو اپنے بڑے حادثے اور واقعے سے باخبر کرے گی
کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی طرح الہام کیا ہے
اس دن لوگ اپنی قبروں سے پراگندہ اٹھیں گے
تاکہ اپنے اعمال کو دیکھیں
پس اس دن جو انسان ایک ذرہ کے برابر بھی نیک کام کیے ہوگا اس کی جزا کو دیکھے گا
اور جو شخص ایک ذرہ برابر بھی بدکاری کیے ہوگا اس کی سزا پائے گا(۲۵)۔
اس طرح کی آیات کی قرآن میں بہتات و فراوانی ہے جو نیک لوگوں سے سعادت و خوش بختی کے ساتھ ابدی زندگی اور جنت کا وعدہ کرتی ہیں اور بدکاروں کو دوزخ کے عذاب، آگ اور تکلیف کی خبر دیتی ہیں۔ ناپائیدار اور فانی دنیا کو بدی کے نام سے اور آخرت اور ابدی دنیا کو نیکی کے نام سے یاد کیا ہے۔ دنیا کی مذمت اور آخرت کی مدح میں بہت سی آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں جو اسلام کی اکثر مذہبی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور صحابۂ کرام کی زندگیاں سادہ بے تکلف اور زاہدانہ تھیں۔ دوسرے مسلمانوں کے لیے نمونہ اور مثالی شمار ہوتی ہیں اور مسلمانوں میں زاہدانہ افکار اور طرز رہائش کی پیش رفت میں ایک موثر عامل محسوب ہوتی ہیں۔
دوسری طرف بہت سے اسلامی موضوعات اور عرفانی مسائل و عناوین کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن سے اقتباس کیے گئے ہیں۔ چنانچہ عرفان و تصوف کا اہم ترین بنیادی اصول جس کی صوفیہ اور عارفین کی سبھی جماعتوں نے بالاتفاق تائید کی ہے ’وحدت وجود‘ ہے، جو قرآن حکیم کی درج ذیل آیات سے مستفاد ہوتا ہے—
۱۔ وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَـاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہ۔
ترجمہ: مشرق و مغرب دونوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ پس تم جس طرف رخ کرو گے اسی جانب خدا ہے۔ (سورۂ بقرہ، آیت ۱۱۵)
۲۔ اللّٰہُ نُورُ السَّمٰوٰت وَالْاَرْضِ۔ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ، اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنّہَا کَوْکَبٌ دُرٍّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُبَارَکَۃٍ زَیْتُونَۃٍ لاَّ شَرْقِیَّۃٍ وَّلَاغَرْبِیّۃٍ یُکَادُزَیْتُہَا یُضِیْٓئُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ یَہْدِیْ اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُo
ترجمہ: خدا تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے۔ نور خدا ایک مشکوٰۃ کے مانند ہے کہ جس میں چراغ روشن ہے۔ وہ چراغ ایک شیشہ میں ہے جس کی چمک ستارے کے مانند ہے۔ زیتون کے مبارک درخت سے روشن اور درخشاں ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ دنیا کا مشرق و مغرب اس سے فروزاں ہے۔ بغیر اس کے کہ زیت کی آگ اس کو روشن کرے خود بخود دنیا کو روشنی بخشتا ہے۔ نور پر نور برقرار ہے اور خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ (سورۂ نور، آیت: ۳۵)
۳۔ ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطن وَہُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیْم۔
ترجمہ: اول و آخر ظاہر و باطن سب وہی ہے اور وہ دنیا کی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
۴۔ وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ۔
ترجمہ: تم جہاں رہو، وہ (خدا) تمھارے ساتھ ہے۔
۵۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ۔ مَا یَکُوْنُ مِنْ نَجْوٰی ثَلٰـثَۃٍ اِلّا ہُوَ رَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا اَدْنٰی مِنْ ذالِکَ ولا اَکْثَرَ اِلاَّ ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَمَا کَانُوْا۔
ترجمہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، ان کو جانتا ہے۔ کوئی راز تین افراد کا ایسا نہیں ہوتا جس میں چوتھا وہ (اللہ) نہ ہو اور نہ پانچ کی ایسی سرگوشی ہوتی ہے جس میں چھٹا وہ (اللہ) نہ ہو، اور نہ اس عدد سے کم میں ہوتی ہے اور نہ اس سے زیادہ میں، مگر وہ ہر حالت میں ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ لوگ کہیں بھی ہوں۔ (سورۂ مجادلہ، آیت: ۷)
۶۔ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدo
ترجمہ: اور ہم اس (انسان) کی گردن کی رگ سے زیادہ اس سے قریب ہیں۔ (سورہ ق، آیت: ۱۵)
۷۔ وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّی قَرِیْبٌ۔
ترجمہ: اور جب بندے میری نزدیکی اور دوری کے بارے میں تجھ سے پوچھتے ہیں تو جان لیں کہ میں ان سے نزدیک ہوں۔ (سورہ بقرہ، آیت: ۱۸۶)
تصوف و عرفان کے موضوعات میں سے دوسرے موضوع محبت کے بارے میں قرآن حکیم کہتا ہے: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمنُوا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ و یُحِبُّوْنَہٗ۔ اے مومنو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا خدا تعالیٰ فوراً ایسی قوم کو پیدا کرے گا کہ وہ ان کو دوست رکھے گا اور وہ بھی خدا کو محبوب رکھیں گے۔ (سورہ مائدہ، آیت ۵۴)
نیز یہ بھی فرمایا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ (اے رسول) آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ خدا تعالیٰ تم کو دوست رکھے گا۔ (سورہ آل عمران، آیت: ۳۱)
’’ذکر‘ کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّ عَلٰی جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکُّرُوْنَ فِی خَلْقِ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ۔ جو لوگ اللہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے اور اپنے پہلو پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں۔
(سورہ اٰل عمران، آیت ۱۹۱)
اور نیز یہ بھی آیا ہے: وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِی نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وّ خِیْفَۃً وَ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَولِ بالْغُدُوّ الْآصَالِ وَلَا تَکُنْ مِنَ الْغَافِلِیْن۔ اپنے خدا کو تضرع اور پوشیدہ طور پر بغیر آواز اپنے دل میں صبح و شام یاد کرو۔ اور غفلت کرنے والوں میں مت رہو۔
(سورہ اعراف، آیت: ۲۰۵)
آفاق و انفس میں سیر اور تفکر کے باب میں یہ فرمایا ہے: سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَا فی الآفَاقِ و فِی اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیّن الْحَقُّ۔ ہم اپنی آیات اور نشانیوں کو دنیا کے آفاق اور تم آدمیوں کے نفوس میں تمھارے لیے روشن اور ظاہر کر دیتے ہیں تاکہ تمھارے لیے ظاہر ہو جائے کہ وہ (خدا) حق ہے۔ (سورہ فضیلت، آیت: ۵۳)
نیز یہ بھی فرمایا ہے: وَفِی الْاَرْضِ آیَاتٌ لِّلْمُوْقِنینَ وَ فِی اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرون۔ زمین میں اہل یقین کے لیے قدرت الٰہی کے روشن دلائل ہیں اور خود تم انسانوں کے نفوس میں بھی۔ تم چشم بصیرت سے کیوں نہیں دیکھتے؟ (سورہ ذاریات، آیت: ۲۱، ۲۰)
صوفیہ کے اقوال میں توکل کی طرف بھی بہت توجہ دی گئی ہے۔ اس کے متعلق بھی قرآن فرماتا ہے: مَنْ یَّتَوَکَلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِنّ اللّٰہَ قَدْ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْراًo جو شخص خدا پر توکل کرتا ہے وہ اس کی کفایت کرے گا کیونکہ اس کا حکم رواں اور نافذ ہے اور ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر ہے۔ (سورہ طلاق، آیت: ۳)
اور یہ بھی آیت ہے: وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُوْمِنُونَo اہل ایمان کو صرف خدا پر توکل کرنا چاہیے۔ (سورہ مائدہ، آیت: ۱۱)
مختلف ادیان و مذاہب کی رعایت کرنے، اعمال کی ظاہری صورت کو اہمیت نہیں دینے، ان کے باطن، حقیقت اور روح کی طرف توجہ دینے کو صوفیہ نے بہت اہتمام سے بیان کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔ اس کے متعلق قرآن کریم کی درج ذیل آیات کا مطالعہ مفید ہے۔
۱۔ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوْ مُحْسِنٌ فَلَہٗ اَجْرَہٗ عِنْدَ رَبّہٖ۔
ہاں! جس نے خدا کے حکم کو تسلیم کر لیا اور نیکو کار ہوا، تو اس کا اجر خدا تعالیٰ کے پاس ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت: ۱۱۲)
۲۔ وَلِکُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقوالخَیْرَات۔
ہر شخص کے لیے خدا کی طرف راستہ ہے، جس کو وہ پاتا ہے، پس نیکی اور بھلائی کی طرف جلدی بڑھو۔
۳۔ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشرِقِ وَالْمَغْرِبِ و لٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ والْمَلٰئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالْنَّبِیّٖنَ وَاٰتیَ الْمَالَ عَلٰی حُبّہٖ ذَوِی الْقَرُبٰی والمَسَاکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ والسَّائِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ و اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَآتی الزّکوٰۃِ وَالْمُوفُونَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عَاہَدٌوْا وَالصَّابِرِیْنَ فی الْبَـآسَائِ وَالضَّرَّآئِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰئِکَ الَّْذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتّقُوْنo
مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرنا نیکی نہیں ہے بلکہ نیکو کار وہ شخص ہے جو خدا، روز حشر، ملائکہ، کتاب الٰہی اور انبیا پر ایمان لائے اور اپنے مال کو خدا کی محبت میں اپنے رشتہ داروں، یتیموں، فقیروں، مسافروں اور سائلوں کو دے اور غلاموں کو آزاد کرنے پر صرف کرے، نماز قائم کرے اور مال کی زکوٰۃ مستحقین کو پہنچائے اور جس کے ساتھ عہد کرے، اسے پورا کرے اور رنج و تکلیف اور سختی میں صبر کرے، جو لوگ ان اوصاف سے آراستہ ہیں وہی حقیقت میں سچے اور پرہیزگار ہیں۔ (سورہ بقرہ، آیت: ۱۷۷)
۴۔ اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِئُوْنَ وَالنَّصَاریٰ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ و عَمِلَ صَالِحاً فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزُنونَo
جو مسلمانوں میں ایمان لائے، اور جو یہود، ستارہ پرست اور نصاریٰ ہیں خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے ہیں اور عمل صالح کیا ہے انھیں کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ (سورۂ مائدہ، آیت: ۶۹)
۵۔ وَلَو لَا دَفْعُ اللّٰہُ الناسَ بَعْضُہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیْعٌ و صَلَواتُ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً و لَیَنْصُرَنّ اللّٰہَ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہ لَقَوِیّ عَزِیزo
اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض لوگوں سے رفع نہ کرتا تو البتہ سارے صومعے، کلیسے، کنشت اور مسجدیں جن میں نماز اور خدا کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے، ویران اور خراب ہو جاتے۔ البتہ جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ ہی صاحب اقتدار اور توانا ہے۔ (سورہ حج، آیت: ۴۰)
یہی وہ اہم ترین نظریے تھے جو مشرق و مغرب کے محققین کی جانب سے تصوف اسلامی کی پیدائش کے سلسلے میں ظاہر کیے گئے ہیں۔ لیکن اسلامی صوفیہ پانچویں نظریے کے سوا دوسرے چار نظریوں کو مردود اور نامقبول قرار دیتے ہیں اور کسی صورت میں اس قسم کے مفروضات اور نظریات کو سننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اپنے معتقدات کی اساس کو یونان، ہندوستان، ایران اور مسیحیت کے عقاید و افکار پر مبنی سمجھیں اور ثنویت سے آلودہ ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی تصوف صرف اور صرف قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اقتباس ہوا ہے۔ اور صوفیہ کے سارے آداب، اعمال، عقاید اور آرا قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں۔ یہاں تک کہ سماع کے بارے میں بھی جس کی تفصیل بعد میں آئے گی اس کے لیے بھی شہادت قرآن سے لائے ہیں۔ اور اس آیت سے دلیل دی ہے— فَبَشِّرْ عِبَادِالَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْن القَولَ فیتبعون اَحْسَنَہ۔ آپ بشارت دے دیجیے ان بندوں کو جب وہ بات سنتے ہیں تو وہ سب سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں۔ (سورہ زمر، آیت: ۱۸)
راقم کے خیال میں مذکورہ تمام نظریات میں ان لوگوں کا نظریہ زیادہ قابل قبول اور مبنی بر حقیقت ہے جو اسلامی تصوف کو مستقل اور اس کی اصل و اساس کو قرآن، حدیث اور آثار صحابہ کو جانتے ہیں اور تصوف اسلامی کو مسلمان صوفیہ کا ساختہ و پرداختہ باور کرتے ہیں۔ گرچہ اپنے اپنے تکمیل کے مرحلے میں دوسری قوموں کے عارفانہ افکار سے کچھ اثر لیا ہوگا اور اس سے بھی باریک تر نکتہ یہ ہے کہ عرفان کو عام معنی میں دین سے الگ نہیں فرض کر سکتے ہیں۔ جس طرح دین انسان کی فطرت سے نکلا ہے عرفان کو بھی انسان کی فطرت میں شمار کرنا چاہیے۔ عرفان کے کلی مسائل ان مسائل سے خارج نہیں ہیں کہ انسان کہاں سے آیا ہے اور کیوں آیا ہے، اور کہاں جائے گا؟ اس کا لانے والا اور پیدا کرنے والا کون ہے؟ یہ مسائل ہر زمانے اور ہر سوسائٹی میں انسان کی توجہ، مطالعہ اور غور و فکر کے موضوعات رہے ہیں۔ یہ فطری امر مختلف رنگوں اور شکلوں میں مختلف قوموں اور سماجوں میں موجود رہا ہے۔ ایک دوسرے سے مشابہت رکھنے کے باوجود ہر ایک کو مستقل بالذات کہہ سکتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے ارتباط نہیں رکھتے ہیں۔ اگر مذاہب کی آسمانی کتابوں کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ سارے مذاہب عالم کے اصول خدا، رسول اور روز قیامت کے بارے میں بہت کم ظاہری اور صوری اختلاف کے بعد ایک جیسے ہیں۔ اور فروعی احکام میں بھی بہت حد تک ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اس بارے میں قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی ایک دوسرے سے ماخوذ ہے۔ بلکہ یہ احتمال قرین قیاس ہے کہ جب دین کا منبع، منشا اور پس منظر سارے ادیان میں عالم مادہ کے حدود سے باہر تصور کیا گیا ہے تو ہر ایک دین نے خاص انداز میں اس منبع و منشا کی توصیف اور توجیہہ کی ہے۔
تورات، انجیل اور قرآن تینوں نے دنیا کے آغاز و انجام کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے اور انسان کو دنیا کی لذتوں اور شہوتوں کے ترک اور دوسری دنیا کی زندگی سے محبت کا شوق پیدا کیا ہے۔ ہندوستان، چین اور ایران کی مذہبی کتابیں بھی جو مذہب کی قدیم ترین کتابیں شمار ہوتی ہیں، ظاہری اور صوری اختلاف کے ساتھ انھیں باتوں کو بیان کرتی ہیں جن کا دوسری دینی کتابوں میں ذکر پایا جاتا ہے۔ سبھوں نے دنیا کے مبدا اور خالق جہاں کو خدا کہا ہے۔ گوناگوں عبارتوں اور متفاوت لفظوں میں سبھی مذاہب دنیا کو فنا پذیر اور بے اعتبار سمجھتے ہیں اور انسان کی روحانی زندگی کو ابدی باور کرتے ہیں۔ مختلف راستوں کی نشاندہی کے باوجود انسانیت اور اخلاق کا احترام سبھوں نے کیا ہے۔ مختلف وسیلوں کے اظہار کے باوجود انسان نے اس فانی دنیا میں اچھے اور برے اعمال کیے ہیں۔ ان کی جزا و سزا پانے کا سبھی نے اقرار کیا ہے۔
عرفان و تصوف بھی دین کے مانند ہے۔ یہ فطری امر ہے کہ جس شخص کے پاس دین ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ عارف نہ ہو، اور جو شخص عارف ہے، وہ دین کا حامل بھی ہے۔
عرفان آسمانی دین کی تفسیر اور روحانی توجیہہ ہے اور دین عرفان کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ اس طرح تمام مذاہب اصول و مبانی کے لحاظ سے متحد اور مشترک ہیں۔ عرفان بھی ہر معاشرے اور ہر زمانے میں یک رنگی رکھتا ہے۔ اور وہ بے رنگی کا رنگ ہے۔ برائون نکلسن سے نقل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر دو عقیدوں یا طریقوں میں وحدت نظر ہے تو یہ اتفاق اور مطابقت اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ ان دو عقیدوں میں سے کوئی ایک دوسرے سے پیدا ہوا ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ دونوں عقیدے علت مشابہ معلول مشابہ ہوں اور یہ بھی کہتا ہے کہ جس شخص نے سحر آسا کتاب ’وان‘ میں عرفا کے ساتھ گزارے ہوئے اوقات کے بارے میں مطالعہ کیا ہوگا وہ آسانی سے اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک اور مذاہب کے عرفا کے مختلف زمانوں میں مختلف اقوال ہیں جو بہت سے پہلوئوں سے صورت و معنی کے لحاظ سے متشابہ اور ایک جیسے ہیں۔ اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی رابطہ دوسرے سے نہیں تھا۔ اور یہ بات بھی جرأت سے کہہ سکتے ہیں کہ جس وقت اکہرت، تادلر یا شانتا ترزا کے بیانات فارسی زبان میں ترجمہ ہوں، ان اقوال کو آسانی سے صوفیہ کے مشایخ کے اقوال میں شمار کر سکتے ہیں۔
بنا بریں ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ تصوف براہ راست اسلام سے پیدا ہوا ہے اور اسی سے نشو و نما پائی ہے اور قرآن و سنت اور سیرۃ صحابہ و تابعین اس صحیح تصوف کے موید ہیں۔
حواشی:
(۱) سیر حکمت در اروپا، جلد۱، صفحہ ۵۵-۵۶
(۲) تاریخ تصوف، صفحہ ۱۱۰
(۳) ہندوستان کے مذاہب یعنی ہندو ازم جس کی بنیاد زمانۂ قدیم سے متعدد دیوتائوں کی پرستش سے شروع ہوئی ہے۔ اس قدر پیچیدہ، گوناگوں اور وسیع ہے کہ سالہا سال مطالعہ کرنے والوں کو بھی اس کی مکمل تحقیق کرنا اور اس پر عبور حاصل کرنا مشکل ہے۔ یہاں جو کچھ اشارہ کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ تمام ہندی ادیان و مذاہب کی بنیاد اور اصل یہ چار وید مقدس ہیں—
۱۔ رِگ وید : دیوتائوں کے لیے حمد و ثنا پر مشتمل ہے۔
۲۔ سام وید : مذہبی گیتوں پر مشتمل ہے۔
۳۔ یجر وید : قربانی کے رسوم و آداب کے قوانین و احکام پر مشتمل۔
۴۔ اتھر وید : دعائوں، وظیفوں اور جادو کے منتروں پر مشتمل۔
ان ویدوں میں عبادات، مختلف رسوم و آداب کے معانی و مطالب، مقدس گیتوں اور دعائوں کے علاوہ دوسرے طرح طرح کی باتیں بھی موجود ہیں جو فلسفہ و عرفان کے زاویۂ نگاہ سے بہت دقیق اور عمیق ہیں۔ ہندوستان کے دینی علما و حکماء اور عرفاء نے ان چار ویدوں کی شرحیں بھی لکھی ہیں جن کے مجموعے کو ’براہمن‘ کہتے ہیں۔ یہ مجموعہ دراصل برہمنوں کے مختلف مسلکوں اور لوگوں کے مختلف طبقوں (ورنوں) کی تشکیل کرتا ہے۔ اس میں ہندو ازم کے مذہبی احکام و عبادات کا عکس ملتا ہے۔ اور اس کی بہت سی عبارتوں سے وحدت وجود کی طرف اشارہ پا سکتے ہیں۔ ہندوستان کے بہت سے روشن ضمیر رشیوں، منیوں نے ویدوں کی اعلا اور بیش بہا تفسیریں لکھی ہیں۔ وہ اپنیشد کے نام سے مشہور ہیں اور سنسکرت زبان میں ہیں۔ اس کے سارے مطالب، مکالمے اور مذاکرے کی صورت میں ہیں۔ سب سے قدیم اپنشد ۵۰۰ سے ۸۰۰ قبل مسیح تحریر میں آیا۔ ان سارے اپنشدوں میں ایک موضوع خاص طور پر نمایاں اور روشن ہے، اس کا میلان وحدت وجود کے عقیدے کی طرف ہے۔ اپنشدوں کے مجموعے عرفانی ہیں اور ان کے مضامین ویدوں پر مبنی ہیں۔ لیکن یہ ہندوستان کے تمام فکری دھاروں کے منبع بھی شمار ہوتے ہیں۔
اپنشدوں میں بیان ہوا ہے کہ تمام چیزیں خواہ مادی ہوں یا روحانی، عام اس سے کہ بشری ہوں یا حیوانی، نباتی ہوں یا اجرام علوی یا ارواح مجرد ہوں، سبھی حق اور حقیقت کے دریا میں غرق ہیں۔ اور مادی دنیا کی انتہا میں ایک لامحدود اور قائم بالذات وجود ہے۔ وہی حق ہے۔ اور بس۔ وہ فنا پذیر نہیں ہے۔ ازلی و ابدی ہے۔ دانا، قوی اور کائنات کا نگہبان ہے۔ اس ذات عالی، نفس ملی اور حق کو ’برہمن‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ زندگی کی ساری قوتیں ایک اصل میں منتہی ہوتی ہیں جس کو آتما کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اور ہر چیز کی پیدائش کو اسی سے منسوب کرتے ہیں۔ آتما تمام چیزوں کی خمیر میں پانی میں نمک کی طرح داخل ہے۔ آب شور کا کوئی قطرہ نمک سے خالی نہیں ہے۔ لیکن پانی اپنا کوئی مستقل وجود نہیں رکھتا ہے۔ تمام چیزیں آتما سے وجود میں آتی ہیں۔ مثلاً چنگاری آگ سے نکلتی ہے۔ آتما سے موجودات کی نسبت، مکڑے سے تار عنکبوت کی نسبت ہے اور آواز کی نسبت ڈھول سے اور پہیے کے پنکھیوں کی نسبت پہیے کے محور سے ہے۔ روح کلی اور روح جزئی کے درمیان ایک مشترک حقیقت موجود ہوتی ہے اور تمام نفوس اپنے سارے مظاہر میں خواہ نفس حیوانی یا نباتی حقیقت میں وہی برھما یا آتما ہیں، غیر نہیں۔ اس لحاظ سے تمام نفوس جزئی دنیا کے نفس کلی سے متحد اور ایک ہیں جنھیں پرماتما کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں روح کلی ہی روح جزئی ہے۔ اور برھما کو ظاہری کلی صورت اور آتما کو باطنی روح انفرادی کہہ سکتے ہیں۔ اور دونوں ہی نفس کلی، حقیقت ازلی، وجود مطلق اور سرمدی ہیں جو ظاہر و باطن کے مقام پر ایک ہیں۔ اور یہ دونوں حقیقتاً دو بڑے قطب اور عالم صغیر و کبیر میں حقیقت مطلق ہیں۔ لیکن عین اس حالت میں آتما کے علاوہ ایک شئی موجودات و مخلوقات میں وجود رکھتی ہے جس کو ہندی مفکرین نے ’ہیولائے مبہم‘ اور امکان خاص تصور کیا ہے۔ لیکن اس کی واضح تشریح نہیں کی گئی ہے۔ (جس کی وجہ سے یہ قابل فہم ہے)
الغرض جن مفکروں اور دانشوروں نے اپنشدوں کی تدوین کی ہے اور ویدوں کی تشریح و تفسیر میں مشغول رہے اور ہندی مذاہب کی بنیاد کی توضیح و تشریح کی ہے، انھوں نے ہندوستان کے مختلف مذہبی مکاتب کو جو متعدد خدائوں کی پرستش سے پیدا ہوا تھا، اسے بتدریج ایک وحدت کی طرف لائے اور اسے عرفان کے دائرے میں صوفی ازم سے تعبیر کیا۔ اور بالآخر اس کے معتقد ہوئے کہ روح کے ارتقا و تکمیل کے لیے فنا کے مرحلے ’نروان‘ میں داخل ہونا چاہیے۔ یعنی جس وقت روح انسانی دنیا کی روح کلی کے ساتھ اپنی یگانگت اور اتحاد سے واقف ہو گئی اور آتما برھما میں منتقل ہو گئی۔ یہ واقفیت اس میں ایسا جذبہ اور شوق پیدا کرتی ہے کہ یہ (روح انسانی) اشتعال کے درجہ میں پہنچ جاتی ہے اور عین الیقین کی منزل کو پا لیتی ہے۔ جب اس مرحلے میں پہنچتی ہے تو روح کو ایسی سعادت اور لذت پہنچتی ہے کہ تعریف نہیں کی جا سکتی۔ اور کوئی عبارت اس کی تشریح نہیں کر سکتی جو کچھ وہم و خیال میںبھی نہیں آتا وہ ہوتا ہے۔
زیادہ واقفیت کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں:
۱– ملل و نحل، شہرستانی، ج: ۲، صفحہ: ۱۰۷-۱۱۰
۲– ملل و نحل، رشید یاسمی، صفحہ: ۳۶-۳۸
۳– تاریخ جامع ادیان، جان فاس (ترجمہ علی اصغر حکمت)، صفحہ: ۹۰، ۱۹۰
۴– ادیان و مکتبہای ہند داریوش شایگان
۵– آئین ہای ہندو تالیف ک۔ م۔ بن ترجمہ ع پاشائی
۶– فروغ خاور ہرمان ہرگ، ترجمہ بدرالدین کتابی، صفحہ: ۱۷-۳۴
(۴) اسلام در ایران، صفحہ ۳۳۲-۳۳۳
(۵) سابق ماخذ، صفحہ ۳۳۳
(۶) مہاتما گوتم بدھ اور ان کی سرگذشت کے بارے میں مختلف قسم کے قصے اور داستانیں موجود ہیں۔ لیکن محققین نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں شمالی ہندوستان کے ایک شریف خاندان ساکیہ میں ایک بچے نے جنم لیا جسے بچپن میں سدھارتھ کہا جاتا تھا۔ جب انھوں نے سلوک کا راستہ اختیار کیا اور حق پرستی کو شعار بنایا تو انھیں گوتم کہا گیا۔ اور جب انھیں باطنی کمال اور روحانی ارتقا حاصل ہوا تو بدھ کے نام سے شہرت پائی۔ جس کے معنی بیدار شدہ اور الہام یافتہ ہے۔
ان کے الہام و بیداری کی کیفیت و حالت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایک رات وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک وہ جس حقیقت کی جستجو میں تھے، اسے پا لیا۔ اسی وجہ سے بدھ مت کے ماننے والے اس درخت کو ’درخت حکمت‘ کہتے ہیں۔ اور اس بات کے معتقد ہیں کہ مہاتما بدھ اس رات کو اس درخت کے نیچے تمام چیزوں سے آگاہ ہوئے اور معلوم کیا کہ آدمی کیسے ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی انھیں کشف ہوا کہ اہل دنیا کے رنج و الم کا مقصد کیا ہے؟ اور کس طرح اس کا مداوا کر سکتے ہیں؟ اس رات کو مہاتما بدھ کی بعثت کی رات کہتے ہیں۔
مہاتما بدھ سات دنوں تک اس درخت کے نیچے غور و فکر کی حالت میں رہنے کے بعد وہاں سے پیادہ روانہ ہوئے اور ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور لوگوں کو اپنے مذہب کی دعوت دی۔ بہت سے لوگ ان کے گرویدہ ہو گئے۔ بالآخر اسّی سال کی عمر میں ۴۸۰ قبل مسیح دنیا کو خیر باد کہا۔ مہاتما بدھ کے اصول و مذہب میں وجود مطلق اور خدا ایک متحقق اور ثابت شدہ امر ہے اور اسی تناظر میں خالق و مخلوق کی بحث پیش ہوئی ہے۔ لیکن یہ مذہب بھی برہمنوں کے دوسرے مذاہب اور عقائد کی طرح عرفانی پہلو رکھتا ہے۔ کیونکہ مہاتما بدھ کی تعلیم انا و خودی کے فنا اور انفرادیت کی تخریب پر مبنی ہے جو تصوف کے اصول و آئین سے پوری مشابہت رکھتی ہے۔ مہاتما بدھ کے آئین و فلسفہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ زندگی سراسر رنج و الم ہے۔ ان تکالیف و آلام سے رہائی کی واحد راہ ہوا و ہوس سے چھٹکارے میں ہے۔ مہاتما بدھ کے مذہب میں چار اصول بہت اہم ہیں۔ وہ یہ ہیں—
۱– دنیا سراسر رنج و الم ہے۔
۲– تمام تکلیفوں کی اصل و بنیاد حرص و ہوس ہے۔
۳– زندگی کا صحیح راستہ حرص و ہوس سے رہائی ہے۔
۴– رنج و تکلیف دور کرنے کے آٹھ طریقے ہیں، اور وہ یہ ہیں:
۱۔ پاک ایمان، ۲۔ پاک ارادہ، ۳۔ پاک گفتار، ۴۔ پاک کردار، ۵۔ پاک علم، ۶۔ پاک خیال، ۷۔ پاک زندگی، ۸۔ پاک حال۔
زیادہ واقفیت کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں کی طرف رجوع کیجیے:
۱— فہرست ابن ندیم، صفحہ ۴۱۱-۴۱۴
۲— سرچشمہ تصوف در ایران (سعید نفیسی)، صفحہ ۶-۶۰
۳— ملل و نحل (رشید یاسمی)، صفحہ ۴۸-۶۰
۴— تاریخ جامع ادیان (جان ناس)، صفحہ: ۱۳۹-۱۷۰
۵— فروغ خاور، ترجمہ بدرالدین کتابی
۶— ملل و نحل شہرستانی، ج: ۳، صفحہ: ۹۷-۹۸
۷— تاریخ تصوف ڈاکٹر غنی، ج: ۲، صفحہ ۱۵۵-۱۶۹
(۷) کمال الدین و تمام النعمۃ فی اثبات الغیبۃ و کشف الحیرۃ، صفحہ ۳۱۷-۳۶۰، و بحارالانوار، ج: ۱۳، صفحہ ۳۰۱-۳۳۳
(۸) عین الحیاۃ، صفحہ: ۱۲۵
(۹) نفحات الانس، صفحہ ۵۷
(۱۰) اسلام و تصوف، صفحہ: ۲۰
(۱۱) تذکرۃ الاولیا، ج: ۲، صفحہ: ۱۱۶
(۱۲) مانی فائک کا لڑکا ہے۔ اس کا باپ صاحب علم و فضل تھا۔ مانی اردشیر کے بیٹے شاپور کے زمانے میں ۲۱۵ یا ۲۱۶ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ہمدان کا رہنے والا تھا۔ وہ یہاں سے ہجرت کر کے بابل چلا گیا۔ اور ’مردینو‘ گائوں میں آباد ہو گیا۔ مانی اسی گائوں میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں کا خاندانی سلسلہ اشکانی بادشاہوں سے ملتا ہے اور غالباً اس کا باپ بھی اسی خاندان سے تھا۔
مانی نے بچپن میں ’تعمیدیوں‘ کے مذہب ’مغتسلہ‘ کو اختیار کیا۔ لیکن جب سن بلوغ کو پہنچا اور اپنے زمانے کے زرتشتی، نصرانیت اور ابن دیصان کے مذاہب سے واقف ہوا تو اپنے مذہب کو چھوڑ دیا۔ شہرستانی کے قول کے مطابق وہ عیسیٰ علیہ السلام کا پیرو ہو گیا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا منکر تھا۔
مانی کے مذہب کو درجہ بندی کے لحاظ سے ’کنوسی‘ مذہب اور اس کی فکری روش کے زمرہ میں شمار ہونا چاہیے۔ کنوسی کے معتقدین ایک فلسفیانہ نظام کے حامی تھے جو مسیحیت کی ابتدا میں ظاہر ہوا اور ان کا فلسفہ یونانی، ایرانی اور ہندی افکار سے مرکب ہے اور مانی کا مذہب عیسائیت اور زرتشتیت سے لیا گیا ہے۔ (ملل و نحل، ج: ۲، صفحہ: ۴۴۹)
فلسفے کا یہ مکتب جس نے دین کا رنگ اختیار کیا، روح و مادہ کی ثنویت کی بنیاد پر قائم ہے۔ مادہ کو ’شر محض‘ کا مخرج سمجھتے ہیں اور روح کو منبع خیر اور کبھی روح کو تعبیر نور سے اور مادہ کی ظلمت سے کرتے ہیں۔ کیونکہ زرتشت اور مانی کے دین میں یہ اساس موجود ہے۔ مادہ شر مطلق اور روح خیر مطلق ہے۔
مانی اس بات کا معتقد تھا کہ دنیا کی بنیاد دو پرانے اور قدیم اصل سے مرکب ہے۔ ایک نور، دوسرے ظلمت۔ یہ دونوں ازلی و ابدی ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ دنیا روح و مادہ سے مرکب ہے۔ جیسے انسان کہ جان اور جسم سے عبارت ہے۔ (الفہرست، صفحہ ۳۹۲)۔ روح نور ہے اور روح کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ او رجسم ظلمت ہے اور عالم تاریکی سے متعلق ہے۔ (الفہرست، صفحہ ۳۹۳-۳۹۲)۔ مانی کا دین زرتشت اور حضرت عیسیٰ کے دین سے مرکب ہے اور مندرجہ ذیل سات اصول رکھتا ہے۔
۱–خدا سے عشق و محبت، ۲– آفتاب و ماہتاب کی پرستش، ۳– انسان اول کی پرستش، ۴– پیغمبروں کی رسالت کے اصل پر ایمان، ۵– گفتار نیک، ۶– پندار نیک، ۷– کردار نیک۔
مانی اپنی کتاب ’شاپورگاں‘ کے دیباچے میں اپنی پیغمبری و رسالت کے دعوے کے بیان میں کہتا ہے کہ ہر زمانے میں پیغمبروں نے لوگوں کو حکمت و حقیقت کی پہچان کرائی ہے۔ کبھی ہندوستان میں مہاتما بدھ کی رسالت کے ذریعہ کبھی ایران میں زرتشت کے ذریعہ اور کبھی مغرب میں حضرت عیسیٰ کے وسیلے سے یہ حکم و حقائق آشکار ہوئے ہیں، اور آخر میں، میں مانی۔ میں بھی خدا کا پیغمبر ہوں۔ سرزمین بابل میں حقیقت کی اشاعت کے لیے مامور ہوا ہوں۔ وہ خود کو آخری پیغمبر کہتا تھا۔
مانی کہتا ہے، انسان روح و جسم سے مرکب ہے۔ روح عالم بالا کی ہے اور جسم کہ عالم پستی کا ہے۔ ان دونوں کے درمیان نفس ہے۔ ہرچند کہ اس کا مقصود عالم بالا ہے لیکن جسم سے مجاورت کی وجہ سے مادہ میں داخل ہو گیا ہے۔ عالم کبیر میں بھی عالم صغیر کی طرح اختلاط، اسارت موجود ہے۔ نور الٰہی مادہ کی ظلمت و تاریکی میں مقید ہے۔ اس لیے آزادی اور رہائی چاہتا ہے۔ جو کچھ خیر دنیا میں موجود ہے وہ نور کا پیدا کردہ ہے اور جتنا شر موجود ہے وہ ظلمت کا آفریدہ ہے۔
مانی ایرانی بادشاہ بہرام بن ہر مزبن شاپور کے ہاتھوں ۲۷۶ء میں مقتول ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ اس کا چمڑا کھینچ کر خورستان کے جندی شاپور کے دروازے پر آویزاں کر دیا گیا۔ وہ دروازہ ’باب مانی‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
زیادہ معلومات کے لیے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
(الف) فہرست ابن ندیم، صفحہ: ۳۹۱-۴۰۲
(ب) ملل و نحل شہرستانی، ج: ۲، صفحہ: ۴۹-۵۴
(پ) مانی و تعلیمات او (خطابۂ تقی زادہ)
(ت) ملل و نحل نوشتہ رشید یاسمی، صفحہ: ۸۴-۸۷
(ث) ایران در زمان ساسانیاں، ترجمہ رشید یاسمی
(ج) رابطہ مانویت و اسلام و کتر منوچہر، صفحہ: ۱۱۷-۱۳۵
(چ) خطابۂ تقی زادہ (مانی و دین او)، صفحہ: ۵-۶۳
(ح) سرچشمہ تصوف در ایران، سعید نفیسی، صفحہ: ۹۱-۹۹
(خ) تاریخ ادبی ایران، برائون، ج: ۱، صفحہ: ۲۲۵-۲۴۵
(۱۳) ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
(۱۴) تاریخ تصوف، ج: ۲، صفحہ: ۳-۴
(۱۵) اسلام و تصوف، صفحہ: ۱۲، و اسلام در ایران، صفحہ ۳۳۲
(۱۶) تاریخ تصوف، صفحہ: ۶۵-۶۶، اسلام و تصوف، صفحہ: ۲۶
(۱۷) صوفہ نام کا ایک شخص تھا جو خانہ کعبہ میں معتکف رہتا تھا اور عبادت و ریاضت میں مشغول رہتا تھا۔ اس کا اصل نام غوث بن مر تھا۔ اسی وجہ سے صوفیہ کو اس کے نام سے نسبت دی جاتی ہے۔
(۱۸) تاریخ تصوف، صفحہ: ۶۸
(۱۹) تاریخ تصوف، صفحہ: ۷۱-۷۲، اسلام و تصوف، صفحہ: ۱۴
(۲۰) نفحات الانس
(۲۱) تاریخ ادبی ایران، ایڈورڈ برائون، ج: ۱، صفحہ: ۶۲۴
(۲۲) سورہ حدید، آیت: ۲۰
(۲۳) سورہ حدید، آیت: ۲۱
(۲۴) سورۂ القارعہ
(۲۵) سورۂ زلزال