آبگلہ، گیا ،بہار
کتب خانوں ( لائبریری )کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب انسان نے لکھنا پڑھنا شروع کیا تو لکھنے پڑھنے کی چیزوں کو بھی اس نے حفاظت سے رکھنے کی کوشش کی۔ انسان کی اسی کوشش نے کتب خانوں کو جنم دیا۔اب تو کتب خانوں کے بغیردرس و مطالعہ کا تصور ہی ادھورا معلوم ہوتا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کتب خانے علم کے فروغ میں ریڑھ کی ہڈی کی ماند ہوتی ہے۔علم ، ترقی کا ذریعہ ، کامیابی کی کنجی اور دنیا کی حکومت و قیادت کا پہلا زینہ ہے۔ اگر ہمارے پاس علم ہے تو سب کچھ ہے اور اگر علم نہیں تو سمجھو کچھ بھی نہیں۔کتابوں سے دوستی ، علم سے محبت اور لائبریری قائم کر کے اسے آباد رکھنے کی فکری و عملی کوشش ، زندہ قوموں کی علامت ہے۔ آج پوری دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں ان کا تعلق کہیں نہ کہیںکتب خانوںسے ہوتا ہے۔ ہندوستان میں لائبریری یا کتب خانوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا وجود آج سے نہیں بلکہ سیکڑوں برس سے ملتا ہے چاہے اس کی وہ ترقی یافتہ شکل اس وقت نہ ہو جو آج ہے۔
لائبریری کے لیے کتاب گھر،کتب خانہ،گنتھ گار وغیرہ لفظوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔قدیم عربی زبان میں کتب خانہ کو خزائن کتب کہا جاتا تھا۔جدید عربی وفارسی میں اسے دارالکتب یا کتب خانہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
مغربی ممالک میں کتب خانوں کے لیے کئی الفاظ مستعمل ہیں۔لاطینی زبان میں “Libraria”لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو رومن میں لفظ “Liber”سے ماخوذ ہے۔جرمن میں “Bibliothik”(ببلیو یعنی کتاب+ تھک یعنی الماری یا صندوق)،اسپینش میں”Bibliotheck” اور فرنچ میں”Bibliotheque” لفظ اس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مشہور فلسفی ایمرسن (Emerson)کا کہنا ہے کہ:’’اچھی کتاب مثالی دوست اور سچا ساتھی ہے ،جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے۔ایک عالم کے مطابق کتابوں کا پیار ہی انسانوں کو اپنے خالق کے پاس پہنچانے والا جہاز ہے‘‘۔
پِگھلنا علم کی خاطر مثالِ شمعِ زیبا ہے !!
بغیر اس کے نہیں ہم جان سکتے کہ خدا کیا ہے!!
مشہور فلسفی سقراط(Socrates) کہتا ہے:’’جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں ہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔وہ تو زندہ مْردوں کا قبرستان ہے‘‘۔
لائبریری ایک ایسا ادارہ ہے جہاں انسانی خیالات، تجربیات اور مشارات کتابی شکل میں محفوظ کئے جاتے ہیں جہاں ایک شخص کے خیالات سے سینکڑوںاشخاص استفادہ کرتے ہیں اس طرح وہاں ایک شمع سے سینکڑوںشمعیں روشن کی جاتی ہیں۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھئے کہ لائبریری اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کتابوں، رسالوں، اخباروں اور معلوماتی مواد کو جمع کیا جاتا ہے۔لائبریری دراصل ایک ایسا عظیم مقام ہے جہاں الہامی کتب، بعض انسانی استعداد اور شعوری وسعت کے مفاہیم کے لفظی مجموعے، محدّثین و مفسّرین کی تفاسیر و شروحات کا مجموعہ،محققین و مفکرین کی تحقیقات و افکارکا علمی خزانہ، مصنفین و مترجمین کی کتب و تراجم ،انسانی تحریرات کا سرمایہ، علوم و فنون کی دولت،شاعروں، نثرنگاروں، ادیبوں اور خطیبوں کی قلمی فتوحات کا ذخیرہ یکجا ایک چھت کے نیچے میسر ہوتا ہے۔کتابوں کی اہمیت پوری دنیا کے لیے یکساں ہے اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ لائبریری نہ صرف کاغذ کے خشک اوراق کا مجموعہ ہے بلکہ زندگی کے گوناگوں تجربوں،عمل اور عقل کا چلتا پھرتا خزانہ ہے۔ یہاں پہنچ کر ہر شخص اپنی زندگی کی کمی و خامی کو دور کر سکتا ہے۔ کتابوں کی مدد سے ذہن و دماغ ہماری رہبری اور ہمت افزائی کرتے ہیں۔
دنیا کی پہلی لائبریری کب وجود میں آئی شاید اس کا جواب کبھی نہ مل سکے۔ ہر روز ہونے والی نئی تحقیق سے کچھ نیا ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ان معلومات سے یہ تو اندازہ ہوتا ہے کہ اپنی ارتقاء کے ایک خاص مرحلے پر، جب انسان نے درختوں ، غاروں، پہاڑ،دیواروں اور پتھر وں پر اپنی سوچ، سمجھ کے نقش مرتب کرنے شروع کیے، تو انہیں بھی اندازہ ہوگاکہ ہزاروں سال بعد یہ تحریریں منظر عام پر آجائیں گی۔جنوری 2015ء کے نیشنل جغرافیہ کے شمارے میں ایسے شواہد سامنے آئے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں نے تقریباً چالیس سے پچاس ہزار سال پہلے لکڑی کے انسان اور جانور بنائے اور اس سے بھی پہلے غاروں میں مقیم رہتے ہوئے، غاروں کی دیواروں پر جانوروں کی تصویریں بنائیں۔ ان نامعلوم فن کاروں کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ ہزاروں سال کے بعد ان کی بنائی ہوئی تصویروں، تحریروں اور آرٹ کے نمونوں سے دورِ حاضر کا انسان آگاہ ہوگا۔قدیم ہندوستان میں ٹیکسلا، موہن جودڑو، نالندہ میں تعلیمی اداروں اور لائبریریوں کے شواہد ملے ہیں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں رکھی جاتی تھیں۔ ہندوستان کے قدیم تعلیمی اداروں کے علاوہ کتابوں کو مندروں میں بھی محفوظ کیا جاتا تھا، راجہ مہاراجہ اور بادشاہوں کے محلوں میں لائبریریاں قائم کی جاتی تھیں۔ عوام کے لیے لائبریریوں کا تصور صرف ٹیکسلا یا نالندہ جیسے اداروں میں تھا، نالندہ کی لائبریری کا شمار عظیم لائبریریوں میں ہوتا تھا۔ جہاں اس وقت کی معلوم دنیا سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے۔ یہ لائبریری چودھویں صدی تک برقرار رہی۔
چودھویں صدی میں ترک فوجی بختیار خلجی نے اس لائبریری کو اگ لگا کر تباہ و برباد کر دیااور بے شمار بدھ طلبہ کو قتل کردیا یا زندہ جلوا دیا۔اس بڑی تباہی کے بعد کئی سو برس تک یہ لائبریری بحال نہ ہو سکی۔ مغل بادشاہوں اور دوسرے راجہ، مہاراجہ اور نوابوں نے اپنی ذاتی لائبریریاں ضرور قائم کی تھیں، لیکن علم کے دروازے محدود لوگوں کے لیے کھلے رکھے گئے تھے۔ مغل بادشاہ بابر کی اپنی ذاتی لائبریری تھی، اسی طرح قدیم راجہ اور مہاراجہ کی بھی ذاتی لائبریریاں تھیں۔ ہندوستان میں جدید لائبریریوں کی بنیاد انگریزوں کے زمانے میں رکھی گئی اور پہلی جدید لائبریری کیرالہ میں بنائی گئی۔
لائبریری میں موجود ،مصادر و مراجع اور کتب کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
عمومی دائرۃ المعارف ( (General Encyclopedia،مخصوص دائرۃ المعارف ( (Specialized Encyclopedia
عمومی معاجم ((General Dictionaries،مخصوص معاجم ( (Specialized Dictionaries،
سالانہ کارکردگی پر مبنی کتب( (Yearly bookسوانح عمریاں (Biographies)،حوالہ جاتی کتب (Bibliographies)،تحقیقی مجلات(Periodicals)،رسائل و اخبارات(NewsPapers & Magazines)،نایاب کتابیں (Reserved Books)،فہارس(Indexes)،کتابیں (Books)،مخطوطات(Manuscripts)،تحقیقی مقالات (Theses Dissertations)۔
دنیا کی چند بڑی اور چند دلچسپ لائبریریوں کینام پیشِ خدمت ہیں۔
(۱)امریکی کانگریس کی لائبریری(۲)برٹش لائبریری لندن انگلینڈ(۳)نیویارک پبلک لائبریری نیویارک(۴)رشین ا سٹیٹ لائبریری(۵)نیشنل لائبریری آف رشیا(۶)نیشنل ڈائٹ لائبریری جاپان (۷)نیشنل لائبریری آف چائنا (۸)نیشنل لائبریری آف فرانس(۹)بودلیئن لائبریری،آکسفورڈ برطانیہ(۱۰)بوسٹن پبلک لائبریری ۔
گھر میں ایک خوبصورت، دلکش اور پرسکون لائبریری کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے جس میں دینی و دنیوی ایسی کتب موجود ہوںجو معتبر مواد پر مشتمل ہوں اور غیر اخلاقی مواد سے پاک ہوں ۔ گھر میں لائبریر ی کے چند فوائد پیشِ خدمت ہیں۔
(۱)گھر میں موجود لائبریری بچوں کی اخلاقی تربیت کرنے میں بہترین معاون ثابت ہوتی ہے۔(۲)گھر میں لائبریری کے وجود سے بچوں میں علم دوستی اور سیکھنے کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔(۳)گھر میں موجود لائبریری بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافہ کر کے ان کی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے۔(۴)کم عمری میں کتب سے آشنائی ہوجائے تو طویل مدتی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔(۵)گھر میں لائبریری کا اثر ایسا ہے جیسے بچوں نے کئی سال کی اضافی تعلیم حاصل کر رکھی ہو۔(۶)جو بچے ہوم لائبریریوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں ان کا علم اپنے ہم عمر بچوں سے زیادہ ہوتا ہے۔(۷)گھر میں موجود لائبریری ہماری ذہنی و فکری نشوونما کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بری صحبت سے بھی دور رکھتی ہے۔
ایک تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کتابیں نوعمری میں ایک لڑکے یا لڑکی کی پڑھنے کی صلاحیت،اور انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی جیسے ہنر کو کس طرح بڑھاتی ہیں۔ اس کے لیے 2011ء سے 2015ء کے درمیان 31ملکوں کے ایک لاکھ 60ہزار نو عمر افراد کا مشاہدہ کیا تھا۔ تحقیق میں نوجوانوں سے سوال کیا گیاکہ جب آپ 16سال کے تھے، اس وقت آپ کے گھر میں اندازاً کتنی کتابیں موجود تھیں؟(ان کتابوں میں نصابی کتب شامل نہیں اور ایک میٹر کے شیلف میں تقریباً40کتابیں رکھی جاسکتی ہیں)تحقیق کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس گھر میں 80یا اس سے زائد کتابیں موجود ہوں، وہاں بچے اورنوجوان پڑھنے کی صلاحیت،ہندسوں کے علم اور انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ہنر میں اْن بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہوتے ہیں جن کے گھر میں کتابیں نہیں ہوتیں۔ وہ والدین جو چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو گھر کی لائبریری کے خاطر خواہ فوائد پہنچیں، وہ گھر میں زیادہ سے زیادہ کتابیں رکھیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ تعلیمی زندگی میں علم و مطالعہ اور لائبریری کی جتنی زیادہ اہمیت ہے ، آج اتنی ہی ان چیزوں سے متعلق ہمارے اندر غفلت پائی جا رہی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام جمود و تعطیل کا شکار ہے۔ ہمارا علمی ذوق دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ مطالعہ کے بجائے لہو و لعب اور فضول کاموں میں وقت ضائع کرنے کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے قیمتی اوقات موبائل اور انٹرنیٹ کی نذر ہو رہے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے کام دھندہ اور مزدوری پر لگا رہے ہیں اور وقت سے پہلے اپنی اولاد کو دولت کمانے کے راستے پر ڈال رہے ہیں اور اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ علم حاصل کرنے کے بعد دولت خود بخود انسان کے پیچھے بھاگتی ہے۔ تعلیمی زوال نے ہم سے ہمارا ذوقِ مطالعہ اور لائبریری کی اہمیت کا احساس چھین لیا ہے۔
آج جب کہ درس و مطالعہ سے دن بدن ہماری رغبت کم ہوتی جا رہی ہے ، ایسے میں لائبریری کی طرف بھلا کون توجہ دیتا ہے۔ آج نہ ہم نئی لائبریریاں قائم کر رہے ہیں اور نہ پرانی لائبریریوں کی حفاظت کا کوئی انتظام کر رہے ہیں۔ نتیجہ نگاہوں کے سامنے ہیں کہ بہت ساری اہم اور قدیم لائبریریاں تباہ و برباد ہوتی جارہی ہیں اور ہمارا بیش قیمت علمی سرمایہ کیڑوں مکوڑوں اور دیمکوں کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیمی ترقی حاصل کرنے کے لیے لائبریریوں کا قیام و استحکام نہایت ضروری ہے۔کیوں کہ تحقیق و ریسرچ اور مختلف علوم و فنون سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے کا بنیادی ذریعہ یہی لائبریریاں ہیں۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ :’’اگر تمہارے اندر شک اور وھم کی بیماری پیدا ہوجائے تو یقین کی دولت حاصل کرنے کے لیے لائبریری کا رخ کرو‘‘
نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ ہمیں کوئی ایسی فلاحی تنظیم نظر نہیں آتی جو خصوصیت کے ساتھ مسلم معاشرے میں تعلیمی فروغ کے لیے لائبریریاں قائم کرتی ہو یا قدیم لائبریریوں کو از سرِ نو زندہ کرتی ہو۔کسی بھی ملک کے عروج اور زوال کے اسباب اس ملک کے نوجوان ہوتے ہیں، نوجوانوں کا تعلیم یافتہ اور با شعور ہونا، اس ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے،تاہم آج کا نوجوان لائبریری کے نام سے ہی دور بھاگتا ہے،لائبریری جو صرف مطالعے کیلے مخصوص ہوتی ہے، وہ ہمارے نوجوان طبقے کیلے ایک تفریح گاہ بن چکی ہے، لائبریری جس میں تحقیق اور ریسیرچ ہوتی ہے، وہ اکثر نوجوانوں کیلے بورنگ جگہ ہے۔ ایک خاموش، پرسکون اور مخفوظ ’’پریم گلی ‘‘ہے، لائبریری جو مطالعے کے ساتھ ساتھ طلباہ میں راہنمائی کی صلاحیتیں پیدا کرتی ہے جس میں تحقیق کیلے مختلف اقسام کے ریفرنسز ملتے ہیں، آج ویران ہے۔ ہمیں بحیثت قوم علمی روایات کو تیکنیکی دور کے مقابلے میں کبھی بھی پیچھے نہیں چھوڑنا چاہئیے، ورنہ داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔