ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی، پٹنہ
رابطہ نمبر: 9199726661
دنیا کے تمام ادیان و ملل کے ماننے والے کسی نہ کسی شکل میں تہوار مناتے ہیں۔ مسلمانان عالم بھی سال میں دو مواقع سے مناتے ہیں، جن میں ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر دو رکعات نمازوں کی ادائیگی کے بعد جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے۔ہمارے پیارے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ عید الاضحی کے ایام میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل اللہ کے نزدیک پسند یدہ نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کو حکم دیا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ اے محمد ﷺ اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور نحر یعنی قربانی کرو۔ اس امرِ خداوندی کو بجالاتے ہوئے خود ہمارے پیارے رسول ﷺ ہر سال قربانی کرتے تھے۔ساتھ ہی صحابہ کرام کو بار ہا اس کی تاکید کرتے تھے۔ قربانی جیسے پاکیزہ عمل کو انجام دیتے وقت صحیح نیت پر کافی زور دیا گیا ہے۔قرآن کریم میں ہے کہ اللہ کو ہرگز تمہارے جانور کا گوشت اورخون نہیں پہنچےگا، بلکہ اس تک تو تمہارے دلوں کاتقوی پہنچے گا (الحج 37 )۔
یہ قربانی دین کےشعائر میں سے ایک اہم شعار اور عظیم عبادت اور حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی یادگار بھی ہے، ایسی یادگار جس کی نظیر پیش کرنے سے پوری دنیائے انسانیت قاصر ہے۔ جگ ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم کے یہاں طویل مدت تک کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آپ کی عمر تقریباً چھیاسی برس کی ہوگئی تو آپ نے اللہ سے اولاد کے لئے دعا فرمائی کہ اے میرے رب مجھے صالحین میں سے ایک صالح بیٹا عطاء فرما، چنانچہ اللہ نے آپ کو ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔
جب اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی تو آپ کے گھر حضرت ہاجرہ کے بطن سے ایک حسین و جمیل بچہ تولد ہوا جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔اسکے بعد اللہ نے آپ کو بعض مصلحتوں کی وجہ سے حکم دیا کہ آپ اپنی بیوی اور بیٹے دونوں کو مکہ کے بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آئیں۔ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی۔جب حضرت اسماعیل اپنی ماں حضرت ہاجرہ کے ساتھ مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور بڑھتے بڑھتے اس قابل ہوگئے کہ کچھ کام کر سکیں تو ابراہیم علیہ السلام کو ملک شام میں ایک خواب نظر آیا۔
وہ یہ کہ خواب میں کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ ابراہیم اپنی نذر کو پورا کرو، دیکھو اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کو ذبح کرو اور یہ خواب ذی الحجہ کی آٹھ تاریخ کو دیکھا۔ جب صبح ہوئی تو سوچنے لگے کہ یہ کیا خواب ہے؟ یہ اللہ کی جانب سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟اسی لئے آٹھ ذی الحجہ کو یوم الترویہ یعنی تفکر و تذبذب کا دن کہا جاتا ہے۔پھر جب نوی ذی الحجہ کی رات ہوئی تو پھر وہی خواب نظر آیا، پھر جب صبح ہوئی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ خواب اللہ ہی جانب سے ہے۔ اسی لئے نوی ذی الحجہ کو یوم العرفہ یعنی پہچاننے والا دن کہا جاتا ہے۔پھر دس ذی الحجہ کی رات میں بھی یہی خواب دیکھا۔ اس کے بعد انہوں نے ارادہ کر لیا کہ اپنے لختِ جگر کو اللہ کے راستے میں قربان کرہی دوں گا۔ اسی لئے دس ذی الحجہ کو یوم النحر یعنی کہ قربانی کا دن کہا جاتا ہے،مگر اس سے قبل کہ وہ اس حکم کی تعمیل کرتے، انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مشورہ کیا اور اس سلسلے میں انکی راے دریافت کی۔اس پر حضرت اسماعیل نے جو جواب دیا وہ واقعی شان نبوی کا مظہر اور ایک بین روشن علامت ہے۔ ان کے جواب کو اللہ نے قرآن کریم میں یوں بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ ابو جان آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے کر گذرئیے، ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورہ صافات 102)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس سلسلے میں مشورہ لینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، جبکہ آپ جانتے تھے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک حکم ہے ۔
اور کیا اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام رائے کے خلاف حکم دیتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اس حکم کی تعمیل نہ کرتے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کا اپنے صاحبزادے سے مشورہ اس لئے نہیں تھا کہ نعوذ باللہ حضرت اسماعیل کے مشورے پر عمل کیا جائے، خواہ وہ مشورہ موافقت میں ہو، یا مخالفت میں،بلکہ یہ مشورہ بطور امتحان تھا کہ آپ حضرت اسماعیل کے ایمانی جذبہ اور تعلق مع اللہ کا امتحان لینا چاہتے تھے اور یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس سلسلے میں کیا رائے ظاہر کرتے ہیں۔
اسکی ایک حکمت امام شافعی علیہ الرحمہ نے بیان کی ہے وہ یہ کہ حضرت ابراہیم نے اپنے صاحبزادے سے مشورہ اس لئے لیا تھا تاکہ اللہ کے حکم کی تعمیل کا ذکر انکی زبان سے بھی ظاہر کروا دیں۔ دوسری بات یہ قابل غور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہ نہیں بتلایا کہ مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں ذبح کروں، بلکہ صرف خواب کے حوالے سے بتایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اس میں بظاہر یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کی طرف سے منسوب کرکے پیش فرمانے کی صورت میں خدانخواستہ اگر حضرت اسماعیل اس میں کچھ پس و پیش کرتے تو حکم خداوندی میں صریح اعراض و رو گردانے لازم آتی، لہذا انہوں نے اس کو حکم خداوندی میں پیش نہیں کیا، بلکہ اپنے ایک خواب کی حیثیت سے پیش کیا۔حضرت اسماعیل نے بھی بصیرت و فراست کامظاہرہ کیا اور حضرت ابراہیم کے خواب کو سن کر فرمایا کہ آپ کو جس کا حکم ہوا ہے وہ کر گذرئیے۔
حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم ہونے کا کوئی ذکر ہی نہیں فرمایا تھا۔اسکی وجہ یہ تھی کہ چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خاندان نبوت میں تربیت پائی تھی، اس لئے آپ نے سمجھ لیا کہ نبی کا خواب بھی وحی الٰہی ہوتا ہے، اسی لئے خواب کو حکم سے تعبیر فرمایا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی پر جس طرح بیداری میں وحی نازل ہوتی ہے اسی طرح حالت نوم میں بھی نازل ہوتی ہے۔کیونکہ نبی کا قلب سوتے وقت بھی بیدار اور متوجہ الی اللہ ہوتا ہے نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح کتاب کی شکل میں وحی آتی ہے اسی طرح کتاب سے ہٹ کر بھی وحی آتی ہے جسکو حدیث و سنت کہتے ہیں۔حضرت اسماعیل علیہ السلام نے والد کی بات سن کر یہ فرمایاکہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کیجیے ، تو اسکے بعد یہ بھی فرمایا کہ مجھے آپ ان شاءاللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔یہ اس لیے کہا تھا تاکہ والد محترم کو یقین ہوجائے کہ میں آپ کا بھر پور تعاون کروں گا اور کوئی مزاحمت نہیں کروں گا۔پھر اس میں “ان شاءاللہ” پڑھا کر اپنے نفس پر اعتماد نہ کرکے، مشیت الٰہی پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہر دینی و دنیوی معاملہ میں صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس جواب میں ایک اور بڑی بات قابل غور ہے کہ انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ مجھے ” صبر کرنے والا ” پائیں گے، بلکہ یوں فرمایا کہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔اس میں اس جانب اشارہ ہے کہ میں اکیلا ہی صبر کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ صبر کرنے والے تو بہت ہیں، ان ہی میں سے میں بھی ایک ہوں، یہ در اصل آپ کی غایت درجہ تواضع کی بات ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جس وقت یہ جواب دیا تھا اس وقت ان کی عمر صرف تیرہ برس کی تھی۔ اس چھوٹی سی عمر میں ان کا ایسا جواب دینا یقیناً ان کی سلامتی طبع کی بین دلیل ہے۔جانور کی قربانی تو ہم بھی کرتے ہیں، مگر جب تک ہمارے اندر بھی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی طرح جذبہ کار فرما نہ ہو گا قربانی کی روحانیت ہمیں حاصل نہیں ہوگی اور ناہی ہم قربانی کے تقاضوں کو پورا کرسکیں گے۔
قربانی کے بہت سارے تقاضے ہیں جن میں سب سے پہلا یہ ہے کہ ہماری نیتوں میں خلوص ہونا چاہیے۔ قربانی محض اللہ کی رضاجوئی اور اس کی خوشنودی کے لیے کرنی چاہیے۔ ریا ونمود کا شائبہ بھی ہمارے اندر نہیں آنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہم دیکھتے ہیں کہ اس اسلامی شعار میں بھی ریا و نمود کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ مہنگے جانوروں کی خریداری کے لیے مقابلہ آرائی کرتے ہیں۔ سلمان، شاہ رخ کے نام پر بھاری قیمتوں کے لیے بول لگاتے ہیں، خریداری کے بعد قیمتوں کی دہائی دی جاتی ہے ۔جانوروں کو پھول مالا پہنا کر گلیوں اور محلوں میں گھمایا جاتا ہے جو سرا سر خلاف شرع ہے۔اسلام میں تصحیح نیت کی بڑی اہمیت ہے، بلکہ اُسی پر تمام اعمال کا دار و مدار رکھا گیا ہے۔ قربانی کے پیغام کا مطلوب و مقصود یہ ہے کہ زندگی کے تمام اعمال محض اور محض اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا اور اس کے تقرب کے حصول کے لیے کئے جائیں، جیسے حضرت ابراہیم نے اللہ کی محبت اور اس کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنا گھر بار، ملک و وطن، عزیز و اقارب، بیوی بچے سب کچھ قربان کردیئےحتی کہ ضعیفی کا سہارا و آسرا کے گلے پر چھری چلانے سے بھی تامل نہیں کیا اور پوری دنیا کے انسانوں کے لئے ایک مثال قائم کردی اور یہ بتلادیا کہ قربانی محض جانور کے گلے پر چھری چلانے اور اس کا خون بہانے کا نام نہیں، بلکہ قربانی اپنی خواہشات اور جذبات کو قربان کرنے اور اپنی محبوب ترین چیزوں کو اللہ کے راستہ میں لٹانے اور اپنی قوت و توانائی کو اس کے دین کی خدمت میں صرف کرنے اور نفس کو طاعات کی طرف پھیرنے کا نام ہے۔اسی طرح اخوت و بھائی چارہ، آپسی اتحاد و اتفاق، خیر سگالی کو فروغ دینے اور امن و امان قائم کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بھی عید قرباں کا تقاضا ہے۔ جب تک اس طرح کی کیفیت ہمارے اندر پیدا نہیں ہو تب تک قربانی کے تقاضوں پر ہم کھرے نہیں اتر سکیں گے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں قربانی کرنے اور اس کے تقاضوں پر کھرا اترنے کی توفیق عطا کرے، آمین!