نام:محمد علی صدیقی
قلمی نام:فراغ روہوی
والد:انعام الحق صدیقی(مرحوم)
والدہ:زینب خاتون (مرحومہ)
تاریخ ولادت:16 اکتوبر 1956ء
تاریخ وفات:13 جولائی 2020ء
جائے ولادت :موضع روہ، ضلع:نوادہ، بہار
آبائی وطن:موضع:روہ، ضلع: نوادہ،بہار
تعلیم:بی کام پارٹI-
شغل:تجارت
آغاز ِشاعری:1985ء
شرف تلمذ:حضرت قیصر شمیم
تصانیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)چھیاں چھیاں۔(ماہیے)
۔ 1999ء
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (2) ذرا انتظار کر- (غزلیں)
۔ 2002ء
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (3)مرا آئینہ مدینہ
۔ (نعتیہ کلام)-2003ء
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (4) جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے
۔ (شاعری برائے اطفال)
۔ 2004ء
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (5)ہم بچے ہیں پڑھنے والے
۔ (شاعری برائے اطفال)
۔ 2012ء
۔ ناشر: مغربی بنگال اُردو اکا ڈمی
۔ کلکتہ
۔ (6)جنوں خواب-(رباعیات)
۔ 2013ء
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (7)درِ خواب پہ دستک
۔ (غزلیں)-2015ء
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (8) دوہا درپن-(دوہے)
۔ 2015
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (9)تو کہاں‘ میں کہاں
۔ (حمدیہ کلام)-2016ء
۔ ناشر: مغربی بنگال اُردو اکا ڈمی
۔ کلکتہ
۔ (10)ہماری نظم
۔ (شاعری برائے اطفال)
۔ 2016ء
۔ ناشر: قومی کونسل برائے
۔ فروغِ اردوزبان‘ نئی دہلی
۔ (11)کتاب میلہ
۔ (شاعری برائے اطفال)
۔ 2016ء
۔ ناشر: قومی کونسل برائے
۔ فروغِ اردوزبان،نئی دہلی
۔ (12)بوجھ سکھی ری بوجھ
۔ (کہہ مکرنی)-2017ء
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (13)ہاتھ نہ جل جائے
۔ (ہائیکو)-2017ء
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
۔ (14)ہم رنگ غزل چہرہ
۔ (ماہیے)-2017ء
۔ ناشر: مغربی بنگال اُردو اکا ڈمی
۔ کلکتہ
۔ (15)دیوان-(غزلیں)
۔ 2019ء-(ان شاء اللہ)
۔ (16)حمد کا عالمی انتخاب
۔ (مرتب کردہ کتاب)
۔ 2019ء(ان شاء اللہ)
۔ ناشر: گلستاں پبلی کیشنز
۔ 67؍مولانا شوکت علی اسٹریٹ
۔ (کولوٹولہ اسٹریٹ)
۔ کلکتہ-700073ء
انعامات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)’’چھیاں چھیاں‘‘ پر
۔ اُتر پردیش اور مغربی بنگال
۔ اُردو اکاڈمیوں کے انعامات
۔ برائے-1999ء
۔ (2)’’ذرا انتظار کر‘‘ پر
۔ مغربی بنگال اُردو اکا ڈمی کا
۔ انعام برائے 2002ء
۔ (3)’’جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے‘‘ پر
۔ اُتر پردیش اور بہار اُردو اکاڈمیوں
۔ کے انعامات برائے
۔ 2004ء
۔ (4)’’ہم بچے ہیں پڑھنے والے‘‘ پر
۔ بہار اُردو اکاڈمی کا انعام
۔ برائے-2012ء
۔ (5)’’جنوں خواب‘‘ پر
۔ اُتر پردیش اردو اکاڈمی کا
۔ انعام برائے-2013ء
۔ (6)’’درِ خواب پہ دستک‘‘ پر
۔ مغربی بنگال اُردو اکا ڈمی کا
۔ انعام برائے-2015ء
۔ (7)’’دوہا درپن‘‘ پر
۔ بہار اُردو اکا ڈمی کا انعام
۔ برائے-2015ء
۔ (8)’’بوجھ سکھی ری بوجھ‘‘پر
۔ اُتر پردیش اُردو اکا ڈمی کا
۔ انعام برائے-2017ء
قدر شناسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)’’ہوڑہ رائٹرزایسوسی ایشن ایوارڈ‘‘
۔ برائے 2008ء
۔ (2)دلیپ کمار فینس کلب‘کلکتہ کا
۔ ’’دلیپ کمار ایوارڈ‘‘
۔ برائے 2012ء
۔ (3)فنکار اکاڈمی‘کلکتہ کا
۔ ’’ساحر لدھیانوی ایوارڈ‘‘
۔ برائے 2013ء
۔ (4)ادارہ ’’محفل خوش رنگ‘‘ ہوڑہ
۔ کا ’’داغ دہلوی ایوارڈ‘‘
۔ برائے 2016ء
انتخاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی نظمیں نصابی کتب میں شامل ہیں
ادارت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1) مدیر‘ سہ ماہی ’’ترکش‘‘کلکتہ
۔ (2)مرتب‘ دوماہی ’’دستخط‘‘ بارک پور
۔ (3)مدیر‘ ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کلکتہ
۔ (4)مدیر معاون
۔ اہنامہ ’’کلیدخزانہ‘‘ کلکتہ
۔ (5)مدیر اعزازی
۔ ماہنامہ ’’صورت انٹر نیشنل‘‘ کلکتہ
۔ (6)سرپرست
۔ ماہنامہ ’’محفل خوش رنگ‘‘ ہوڑہ
وابستگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)ممبر‘ دی فلم رائٹرزایسوسی ایشن‘ممبئی
۔ (2)لائف ممبر‘دی انڈین
۔ پرفارمنگ رائٹ سوسائٹی لمیٹیڈ
۔ ممبئی
۔ (3)سکریٹری’’ ہم نوا‘‘ کلکتہ
۔ (4)سکریٹری ’’دیارِ ادب‘ ‘کلکتہ
۔ (5)سکریٹری
۔ ’’آوارگانِ ادب‘ ‘کلکتہ
۔ (6)سرپرست
۔ ’’الحمدایجوکیشنل آرگنائزیشن‘کلکتہ
۔ (7)سرپرست’’انجمن ترقی اردو ہند‘‘
۔ شاخ زکریا اسٹریٹ‘‘کلکتہ
۔ (8)سرپرست’’بزم حافظ‘‘ہوڑہ
فراغ روہوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی غزل کا استعارہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر عادل حیات
شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس جملے میں تہذیب کا لفظ کئی فکری و فنی جہات کو روشن کرتا ہے۔ جن میں غزل کی خاص ہیئت اور اس کا ایمائی انداز نیز موضوع و مضامین کی داخلی صورت گری شامل ہوکر کثرت میں وحدت کو جنم دیتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اکثر اوقات غزل کی تہذیب سے عدم آگہی بہت سے شعرا و قارئین کو منصبِ خاص تک پہنچنے میں حائل ہوتی ہے۔ قارئین غزل کی تفہیم سے محروم اور شعرا اپنے خیال کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت معنوی اکہرے پن کا شکار ہوجاتے ہیں‘ چنانچہ ان کے مجموعے میں اشعار کے درمیان غزل یا غزل کا شعر دکھائی نہیں دیتا۔ بسا اوقات شعرا کی جلدبازی بھی ان کے اشعار کو غزل کے فکری و فنی مزاج سے الگ کر دیتی ہے۔ جس کی مثال کلاسیکی شعرا کے دواوین سے بھی دی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں زمانۂ حال کا شعری منظر نامہ بھی خوش کن نہیں ہے۔غزل کے جتنے مجموعے اشاعتی مراحل سے گزر کر ہمارے ہاتھوں تک پہنچتے ہیں‘ ان میں سے زیادہ ترمجموعوں میں غزل کی تہذیب عنقا ہوتی ہے۔ چند ایک مجموعے ہی ایسے ہوتے ہیں‘ جن میں غزل کی تہذیب کے تمام جہات روشن دکھائی دیتے ہیں۔
فراغ روہوی نے شاعری کی مختلف اصناف میں اپنے خیال کو آئینہ کیا ہے لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوکر دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کی غزل کا پہلا مجموعہ ’’ ذرا انتظار کر‘‘ قارئین کے ذہن پر اپنا نقش چھوڑنے میں کامیاب ہوا تو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوگئیں۔ان کی غزل کا دوسرا مجموعہ ’’درخواب پہ دستک‘‘ در اصل انہیں امیدوں کی تعبیر ہے۔ اس مجموعے کی بیشتر غزلوں کو غزل کی تہذیب کے فنی و فکری جہات کی مثال کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ان غزل کی ہیئت کے اہم رموز‘ ایمائی انداز اور مضمون کی داخلی صورت گری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے معنی کا جہاں آباد کرتے ہوئے اپنی غزلوں میں ادق الفاظ‘ بے معنی تشبیہات و استعارات اور دور ازکار علامتوں سے گریز کیا ہے۔ ان کی جگہ ایسے الفاظ‘ تشبیہات و استعارات اور علامات کا استعمال کیا ہے‘ جو قارئین کی فہم کے مطابق بھی ہیں اور معنی کی کثیرالعناصری کی بھی غماز ہیں۔
غزل کے کلاسیکی دور سے اب تک اکثر شعرا شعوری اور غیر شعوری طور پر میر ؔسے متاثر رہے ہیں۔جس کا اظہار انہوں نے وقفے وقفے کے ساتھ اشعار میں بھی کیا ہے۔ میرؔکی غزلوں کے بہت سے شیڈس بھی ہیں۔ کمال یہ ہے کہ شعرا ان میں سے کتنے ہی شیڈس کو اپنی غزلوں میں آئینہ کرتے ہیں۔ فراغ روہوی نے بھی اپنے متعدد اشعار میں میرؔ سے متاثر ہونے کی بات کہی ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:
بسا ہوا جو غزل کا اسیر ہے مجھ میں
وہ کوئی اور نہیں‘ صرف میرؔ ہے مجھ میں
فراغ روہوی کی شعری کائنات میں معنوی سطح پر میرؔ کی جو بازگشت سنائی دیتی ہے‘ اس میں حسن و عشق حاوی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا محبوب تصوراتی نہیں بلکہ گوشت پوست سے بنا ہوا اسی دنیائے فانی کا رہنے والا ہے۔ انہوں نے محبوب کے حسن اور اس کے جزیات و صفات کو لفظی پیکر عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی غزلوں کا مطالعہ قارئین کے حواسِ خمسہ کو متحرک کرکے معانی کے نئے دریچوں کو وا کر دیتا ہے۔ ان کی شعری کائنات دراصل بصری پیکروں کی رقص گاہ ہے‘ جہاں مفاہیم کی مختلف پرچھائیاں آنکھوں میں متحرک ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھئے:
میں آئینے سے کہیں بدگماں نہ ہوجاؤں
نہ بار بار دکھا میرے خال و خد مجھ کو
تادیر ہم تو جنبشِ لب دیکھتے رہے
شاید کہ وہ سنائے ہمیں اَن کہی سی کچھ
فراغ روہوی نے بصری پیکروں کے دوش بدوش محبوب کے سراپے کو لمسی پیکروں میں بھی ڈھالا ہے۔ جہاں محبوب کی بے خبری کو بھی باخبری سمجھتے ہوئے اس کے بدن کو چھونے سے جھجھکنا‘ سلگتے جسم کے لیے بدن کے سائبان کی تمنا کرنا‘ محبوب کے گرم ہونٹوں کی حرارت کو اپنے رگ و پے میں اترتے ہوئے محسوس کرنا اورمحبوب کے جسم کی کتاب کا مطالعہ کرنے کی تمنا رکھنا لمسی پیکروں کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لمسی پیکروں کو خلق کرتے ہوئے شعرا رکاکت و ابتذال کے شکار ہوجاتے ہیں لیکن فراغ روہوی کے ان اشعار میں اس کا شائبہ تک نہیں ہوتا:
وہ بے خبر ہی رہے اور باخبر سا لگے
تو اُس کے جسم کو چھوتے ہوئے بھی ڈر سالگے
سلگ رہا ہے مرا جسم دھیان کب دوگے
بدن کا اپنے مجھے سائبان کب دوگے
کسی کے گرم ہونٹوں کی حرارت
رگ و پے میں اُترنا چاہتی ہے
تجھے تو دیکھتے ہیں سب‘ مری یہ خواہش ہے
مطالعہ میں ترے جسم کی کتاب آئے
فراغ روہوی جس دنیا میں زندگی کررہے ہیں‘ وہاں گلوبل ولیج اور صارفی کلچر کے دوش بدوش سائبر کلچر کا جادو بھی چھایا ہوا ہے‘ ایک انگلی کے معمولی لمس سے پوری دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو فراق و وصل کا تصور ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ اس کلچر میں ہر لمحہ ایک نئی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مواد و موضوعات بھی تیزی کے ساتھ متغیر ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ایک حساس شاعر محض حسن و عشق کی طلسمی دنیا کی سیر نہیں کرتا بلکہ اس کی نگاہیں اپنے اطراف میں موضوع و مواد تلاش کرتی رہتیں ہیں۔ فراغ روہوی بھی حساس شاعر ہیں اور زمانے کی تغیر پذیری کا انہیں احساس بھی ہے۔ وہ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:
پچھلی بیاض طاق پہ رکھ کر فراغؔ بھی
اکیسویں صدی میں نئی شاعری کرے
نئے زمانے کی نئی نئی صورتیں اور حالتیں ان کے ذہن پر بھی کچوکے لگاتی رہتی ہیں۔ ان کے دل میں بھی ہوک اٹھتی ہے ۔ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر زمانے کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے مشاہدے کو تخلیقی تجربات کی بھٹی میں تپاکر غزل کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کی غزلوں کے خارجی موضوع و مواد بھی داخلیت سے مملو نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں تند و تیز اور نرم و نازک الفاظ کی دل نشینی‘ اچھوتے تشبیہات‘ استعارے اور نئی نئی علامتوں کا جال سا بنا ہوا ہے۔ در اصل اسے فراغ روہوی کی غزل کا ایک نیا موڑ سمجھنا چاہئے۔ جس میں پختگی کے عناصرکے ساتھ شعری بنت میں بھی انفرادیت جھلکتی ہے۔ چند اشعار پیش ہیں:
مرے اندر سمندر موجزن ہے
میں ساحل سے اُبلنا چاہتا ہوں
کہرے کے سوا کچھ نہ دکھائی تجھے دے گا
مت دیکھنا اُس پار خبردار! خبردار!
کس زمیں کے گوشے پر آپ حق جماتے ہیں
ہر جگہ ہمارا ہی مقبرہ نکلتا ہے
تمام رات میں اپنے محاصرے میں رہا
اک انتشار سا سانسوں کے قافلے میں رہا
فضا پہ رات چھاگئی‘ جہاں کو نیند آگئی
مگر میں جاگتا رہا کہ کوئی جاگتا رہے
ان اشعار میں اپنے اندر کے سمندر کو موجوں کی طرح ساحل سے ابلنے کی تمنا کرنا‘ خبردارکرتے ہوئے کہنا کہ اُس پار مت دیکھو وہاں کہرے کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دے گا‘ خطۂ زمین پر اپنی وراثت کی باتیں کرنا اور سانس کے انتشار کے باوجود محاصرے کا گمان کرنا نیز دنیائے فانی کے خوابِ غفلت میں محو ہونے کے بعد بھی اس خیال سے رتجگے کرنا کہ زندگی کی رمق کو باقی رکھا جائے‘ ایسے مضامین ہیں جو نئی غزل کے امکانی پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں۔ ان کے مجموعے میں بہت سے ایسے اشعار ہیں جو ہمارے ذہن پر دستکیں دیتے ہیں اور ایک نئی معنوی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ جن میں لفظوں کا دروبست شاعر کی فنی پختگی پر دال ہے۔ فراغ روہوی کی غزلیںفنی و فکری ہر دو سطح پر نئی غزل کا حوالہ ہیں۔ دیر یا سویر انہیں بھی نکتہ داں تلاش کر لیں گے اوران کے اس مجموعے ’’ درِ خواب پہ دستک‘‘ کو بھی شہرت و مقبولیت حاصل ہوگی۔ میں اپنی بات ان کے ہی ایک شعر پر ختم کرنا چاہتا ہوں:
نئی غزل کا اگر میں بھی اک حوالہ ہوں
تو اے فراغؔ کوئی نکتہ داں تلاش کرے
متفرق اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک دن وہ میرے عیب گنانے لگا فراغؔ
جب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑا
خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے
تھوڑا جھوٹا میں بھی ٹھہرا تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے
دماغ اہل محبت کا ساتھ دیتا نہیں
اسے کہو کہ وہ دل کے کہے میں آ جائے
کھلی نہ مجھ پہ بھی دیوانگی مری برسوں
مرے جنون کی شہرت ترے بیاں سے ہوئی
نہ جانے کیسا سمندر ہے عشق کا جس میں
کسی کو دیکھا نہیں ڈوب کے ابھرتے ہوئے
سنا ہے امن پرستوں کا وہ علاقہ ہے
وہیں شکار کبوتر ہوا تو کیسے ہوا
کون آتا ہے عیادت کے لیے دیکھیں فراغؔ
اپنے جی کو ذرا ناساز کیے دیتے ہیں
مجھ میں ہے یہی عیب کہ اوروں کی طرح میں
چہرے پہ کبھی دوسرا چہرا نہیں رکھتا
یارو حدود غم سے گزرنے لگا ہوں میں
مجھ کو سمیٹ لو کہ بکھرنے لگا ہوں میں
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں
مری میلی ہتھیلی پر تو بچپن سے
غریبی کا کھرا سونا چمکتا ہے
تمہارا چہرہ تمہیں ہو بہ ہو دکھاؤں گا
میں آئنہ ہوں، مرا اعتبار تم بھی کرو
ذرا سی بات پہ کیا کیا نہ کھو دیا میں نے
جو تم نے کھویا ہے اس کا شمار تم بھی کرو
کسی نے راہ کا پتھر ہمیں کو ٹھہرایا
یہ اور بات کہ پھر آئینہ ہمیں ٹھہرے
ہمارے تن پہ کوئی قیمتی قبا نہ سہی
غزل کو اپنی مگر خوش لباس رکھتے ہیں
اسی طرف ہے زمانہ بھی آج محو سفر
فراغؔ میں نے جدھر سے گزرنا چاہا تھا
نہ چاند نے کیا روشن مجھے نہ سورج نے
تو میں جہاں میں منور ہوا تو کیسے ہوا
شریکِ غم کسی کو کیا بنائیں اے صنم اپنا
ہمیں خود ہی اٹھانا ہے یہاں بارِ الم اپنا
یہ اور بات کہ منزل مجھے ملی لیکن
جو کھو چکا ہوں وہ ظاہر سفر کے بعد ہوا
اسی خیال نے رونے نہیں دیا مجھ کو
کہ اپنے غم کوزمانے میں عام کیاکرنا
یہ آسمان کو چھونے کی ضد بجا ہے مگر
زمیں پہ گر کے بکھرنے کاحوصلہ رکھنا
اس سے بہتر ہے کہ خود ہی طے کریں ہر راستہ
کس طرف لے جائیں گے یہ رہنما معلوم ہے